مسئلہ کفر و اسلام (حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:۔
”اس وقت تک مسئلہ کفر و اسلام پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے ۔ میں نے خود اس مضمون پر ایک مختصر سا رسالہ ”کلمۃ الفصل گذشتہ سال لکھا تھا جو چھپ چکا ہے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تک اس مسئلہ پر کچھ اور لکھنے کی گنجائش ہے کیونکہ گاہے گاہے مختلف مقامات سے اس مسئلہ کے متعلق یہاں سوالات پہنچتے رہتے ہیں اور گو عام طور پر اب اس کو حل شدہ سمجھا جاتا ہے لیکن بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب تک کسی مسئلہ کو نہایت سہل طریق سے بوضاحت نہ بیان کیا جائےوہ نہیں سمجھ سکتے ۔ اس لئے میرا ارادہ ہے کہ نہایت مختصر اور عام فہم پیرایہ میں اس پر کچھ لکھا جاوے تا اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو ہمارے گم کردہ راہ احباب کے لئے یہ ہدایت کا سامان ہو۔
چونکہ باریکیوں میں پڑنے اور تفصیلات میں جانے سے عوام کےلئے مضمون اور بھی مشتبہ ہوجاتا ہے ، اس لئے میں انشاء اللہ تعالیٰ ایسی تمام پیچیدہ باتوں سے پرہیز رکھوں گا۔ وما توفیقی الا باللہ ۔
میں نےاپنے فہم کے مطابق مسئلہ کفر و اسلام کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے ۔ ایک تو یہ کہ غیر احمدیوں کا اسلام کیسا ہے اور کن معنوں میں وہ مسلمان ہیں اور کن میں مسلمان نہیں ۔ دوسرے یہ کہ غیر احمدیوں کو کافر کہنے سے ہماری کیا مراد ہوتی ہے ۔
غیر احمدیوں کا اسلام
مضمون اول کے لئے سب سے پہلے اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیئے کہ نبی کریم ﷺ کی بعثت سے پہلے کے واسطے لفظ ”اسلام”اپنے اندر صرف ایک مفہوم رکھتا ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں پر ایمان لانا یا بالفاظ دیگر یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلام کا لفظ صرف اپنی حقیقت کے لحاظ سے مستعمل تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی قوم آنحضرتﷺ سے پہلے مسلم کے نام سے موسوم نہیں ہوئی اور نہ ہی مذہب نے آنحضرتﷺ سےپہلے اسلام کانام پایا۔گو حقیقت کے لحاظ سے پہلے مذاہب بھی اسلام ہی تھے اور گذشتہ انبیاء کے پیرو بھی مسلمان تھے لیکن جیسا کہ تاریخ اس امر پر شاہد ہے ، وہ کبھی اس نام سے موسوم نہیں ہوئے ۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ گذشتہ تمام مذاہب بوجہ قیود زمانی اور مکانی کے کامل نہ تھے ۔ اس لئے ان پر اسم ذات یا علم کے طور پر اسلام کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا ۔
لیکن نبی کریم ﷺ وہ مذہب لائے جو ان قیود سے آزاد ہے اور آپؐ کی لائی ہوئی شریعت ہر طرح سے کامل شریعت ہے ۔ اس لئے آپؐ کی بعثت سے یہ تبدیلی واقع ہوئی کہ آپ کا لایا ہوا مذہب نہ صرف حسب دستور سابق اپنی حقیقت کے لحاظ سے اسلام ہوا بلکہ علمیت کے طور پر اس کا نام بھی اسلام رکھا گیا۔ اسی طرح آپ کے منسوب ہونے والے لوگوں کا نام مسلمان ہوا۔ گویا کہ آپؐ کی بعثت کی وجہ سے اسلام کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہونے لگا۔ ایک وہی پرانے حقیقی مفہوم کے لحاظ سے اور دوسرے بطور علم یعنی اسم ذات کے ۔ گویا بجائے ایک کے دو دائرے قائم ہو گئے۔ ایک حقیقت کا اور دوسرا علمیت کا۔ اَ ب یہ بالکل ظاہر ہے کہ علمیت کے دائرہ پر زمانہ کا کوئی اثر نہیں۔ وہ اسی طرح قائم رہے گا، جیساکہ ایک دفعہ ہو چکا ۔ یعنی آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب ہونے والی قوم ہمیشہ سے ہی مسلمان کہلائے گی ۔ اور جو کوئی بھی کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھے گا اس دائرہ کے اندر آجائے گا لیکن حقیقت کا دائرہ جو علمیت کے دائرہ کے اندر ہے اس کا یہ حال نہیں بلکہ حقیقت کے متعلق سنت اللہ یہی ہے کہ وہ آہستہ آہستہ مدہم ہوتی جاتی ہے ۔ چنانچہ اسی غرض کے لئے اللہ تعالیٰ نے اسلام میں مجددین کے سلسلہ کو جاری فرمایا ہے ۔ تا حقیقت پر جو میل آجاوے وہ اسے دھوتے رہیں اور حقیقت کو روشن کرتے ہیں لیکن اسلام پر ایک وقت ایسا بھی مقدر تھا جب اس کی حقیقت بالکل محو ہو جانی تھی اور ایمان دنیا سے کامل طور پر اٹھ جانا تھا ۔ (جیسا کہ لو کان الایمان معلقا بالثریا (صحیح بخاری ۔ کتاب التفسیر سورۃ الجمعہ )اور بعض دیگر احادیث نبوی و آیات قرآنیہ سے ظاہر ہے )ایسے وقت کے لئے نبی کریم ؐ کی دوسری بعثت صفت احمدیت کے ما تحت اپنے ایک نائب کے ذریعہ مقدر تھی ۔ اس نائب کا دوسرا نام مہدی اور مسیح ہے ۔ وہ محمد رسول اللہ کا نائب ، مسیح اور مہدی دنیا میں آیا اور اس نے مطابق سنت مرسلین پھر حقیقت اسلام کا دائرہ قائم کیا۔ اس لئے اب جو شخص اس کو قبول نہیں کرتا اور اس کی تکذیب کرتا ہے وہ حقیقت اسلام کے دائرہ سے خارج ہے لیکن اگر وہ کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھتا ہے تو وہ علمیت کے دائرہ سے خارج نہیں اور کوئی شخص حق نہیں رکھتا کہ اسے مطلقاً دائرہ اسلام سے خارج قرار دے یا غیر مسلم کے نام سے پکارے ۔ وہ مسلم ہے اور حق رکھتا ہے کہ اس نام سے پکارا جائے مگر ہاں نائب ختم الرسل کے انکار نے اُسے بیشک حقیقت کے دائرہ سے خارج کر دیا ہے ۔
خوب یاد رکھو کہ اب آسمان کے پردے کے نیچے محمد ؐ رسول اللہ کے سوائے کسی شخص کی ایسی شان نہیں ہے کہ اس کا انکار انسا ن کو ہر قسم کے اسلام سے خارج کر دے ۔ مسیح موعود ؑ خواہ اپنی موجودہ شان سے بھی بڑھ کر شان میں نزول فرماوے مگر اس کا انکار اس کے منکرین کو صرف حقیقت اسلام کے دائرہ سے خار ج کرسکتا ہے ۔ اس سے زیادہ ہر گز نہیں ۔ میں اپنے ذوق اور تحقیقات کی بناء پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آنحضرت ﷺ سے اتر کر باقی تمام انبیاء سے افضل یقین کرتا ہوں اور اس کے ثبوت کے لئے بفضل تعالیٰ اپنے پاس نہایت قوی دلائل رکھتا ہوں۔ جن کے بیان کا یہ موقع نہیں مگر پھر بھی میرا یہی ایمان ہے کہ مسیح موعود ؑ کا انکار مطلقاً اسلام کے دائرہ سے خارج نہیں کر سکتا ۔ اور اگر کوئی یہ کہے کہ اصل چیز تو حقیقت ہے علمیت کا دائرہ کوئی چیز نہیں تو میں اس سے متفق نہیں ہوں گا۔ کیا خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا قائل ہونا ۔ محمد ؐرسو ل اللہ کو خاتم النبیین یقین کرنا۔ قرآن کریم کو خدا کا کلام اور کامل شریعت جاننا اور اسلام جیسے پیارے نام کی طرف منسوب ہونا کچھ بھی نہیں؟ یقینا ً ہے اور بہت کچھ ہے ۔ خدا تعالیٰ تو نکتہ نواز ہے ۔ وہ رحم کرنے پر آئے تو اس نام کی طرف نسبت رکھنا ہی بہت کچھ ہے ۔ بھلابتاؤ تو سہی کہ اگر علمیت کا دائرہ کچھ نہیں تو کس چیز نے غیر احمدیوں کو ہندوؤں ، یہودیوں اور عیسائیوں کی نسبت ہمارے بہت زیاد ہ قریب کر رکھا ہے ۔ غرض یہ بات کبھی نہیں بھولنی چاہیئے کہ مسیح موعودؑ کا انکار صرف حقیقت اسلام سے خارج کرتا ہے مطلقاً اسلام سے خارج نہیں کرتا۔
یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاں اپنے منکروں کو اسلام کے دائرہ سے خارج بیان فرمایا ہے وہاں بعض جگہ بڑے بڑے صاف الفاظ میں انکو مسلمان بھی لکھا ہے ۔ بعض نادان اس نکتہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے حضرت مسیح موعود ؑ پر اعتراض کر دیتے ہیں کہ کہیں آپ کچھ لکھتے ہیں اور کہیں کچھ ۔ وہ اتنا نہین سوچتے کہ جب خاتم النبیین کی بعثت نے اسلام کو دو دائروں میں تقسیم کیا ہے تو پھر یہ بالکل ممکن ہے کہ ایک شخص باوجود ایک دائرہ سے خارج ہو جانے کے دوسرے دائرہ کے اندر داخل رہے ۔ غرض حضرت مسیح کے کلام میں کوئی تناقض نہیں ہاں ہمارے بعض احباب کی عقلوں پر پردہ ہے کہ وہ ایسی موٹی بات نہیں سمجھ سکتے ۔ میں چیلنج کرتا ہوں تمام غیر مبایعین احباب کو کہ وہ مجھے یہ دکھا دیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کہیں حقیقت اسلام کا ذکر فرماتے ہوئے اپنے منکروں کو مسلمان کہا یا لکھا ہو ۔اسی طرح میرا یہ بھی دعویٰ ہے کہ کوئی صاحب ایسا حوالہ بھی پیش نہیں کر سکتے کہ جس میں حضرت مسیح موعو د ؑ نے عام طور پر قومی رنگ میں ذکر فرماتے ہوئے اپنے منکروں کو مسلمان کے سوا کسی اور نام سے یاد کیا ہو۔ حالانکہ میں بفضلِ خدا ایک نہیں بیسیوں حوالے پیش کر سکتا ہوں جن میں حضرت مسیح موعود ؑ نے غیر احمدیوں کو مسلمان کہا اور لکھا ہے ۔ اور نیز بیسیوں ایسے حوالے جن میں آپ نے بڑی وضاحت کے ساتھ غیر احمدیوں کے اسلام سے انکار کیا ہے ۔ فتدبّروا۔
میں نے اپنے رسالہ “کلمۃ الفصل”میں کافی ذخیرہ ایسے حوالوں کا جمع کر دیا ہے جس کو موقع ملے وہ اس رسالہ کو دیکھے ۔ یہاں صرف نمونہ کے طور پر دیکھئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام عبد الحکیم خان مرتد کو لکھتے ہیں :۔
“خدا تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا۔ وہ مسلما ن نہیں ہے ۔ اور خدا کے نزدیک قابل مواخذہ ہے ۔”
(حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22صفحہ 167)
)تذکرہ صفحہ519(
اس تحریر میں حضرت مسیح موعود نے کس وضاحت کے ساتھ اپنے منکرین کو اسلام سے خارج قرار دیا ہے ۔ مخالف ہزار سر پیٹے اس تحریر کی صفائی کو مکدر نہیں کر سکتا۔
پھر آپنے اپنی 26دسمبر1906ء والی تقریر میں غیر احمدیوں کی نسبت فرمایا کہ :۔
“اللہ تعالیٰ اب ان لوگوں کو مسلمان نہیں جانتا جب تک وہ غلط عقائد کو چھوڑ کر راہ راست پر نہ آجاویں۔ اور اس مطلب کے لئے خدا تعالیٰ نے مجھے مامور کیا ہے ۔”
(احمدی اور غیر احمدی میں کیا فرق ہے ؟۔روحانی خزائن جلد20صفحہ 492)
دیکھئے حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک غیر احمدی مسلمان نہیں ہیں۔ جب تک وہ مسیح موعود پر ایمان لا کر اپنے عقائد کو درست نہ کریں۔
پھر آپ اپنی کتاب اربعین نمبر 4 صفحہ 11(روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 441حاشیہ)پر تحریر فرماتے ہیں کہ :
“جب میں دہلی گیا تھا ۔ اور میاں نذیر حسین غیر مقلد کو دعوت دین اسلام کی گئی تھی ۔ تب ان کی ہر ایک پہلو سے گریز دیکھ کر اور ان کی بد زبانی اور دشنام دہی کو مشاہدہ کر کے آخری فیصلہ یہی ٹھہرا یا گیا تھا کہ وہ اپنے اعتقاد کے حق ہونے کی قسم کھا لے۔ پھر اگر قسم کے بعد ایک سال تک میری زندگی میں فوت نہ ہوا تو میں تمام کتابیں اپنی جلا دوں گا اور اس کو نعوذباللہ حق پر سمجھ لوں گا لیکن وہ بھاگ گیا۔”
دیکھئے اس تحریر میں حضرت مسیح موعود ؑ نے کس دھڑلے کے ساتھ مولوی نذیر حسین کے مقابلہ میں صرف اپنے عقائد کو ہی اسلام قرار دیا ہے اور مولوی مذکور کو جو غیر احمدیوں میں دین اسلام کا ایک رکن سمجھا جاتا تھا اسلام سے خارج بتایا ہے ۔ ایسے اور بھی بہت سے حوالے ہیں مگر اس مختصر سے مضمون میں ان کی گنجائش نہیں ۔ اس قسم کے حوالوں کے مقابلہ میں دوسری قسم کے بھی بیسیوں حوالے ہیں۔ جن کو عند الضرورت پیش کیا جا سکتا ہے ۔ خلاصہ کلا م یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حقیقت کی رو سے ہمیشہ اپنے منکروں کو اسلام سے باہر قدم رکھنے والے سمجھا ہے مگر ہاں اسمیؔ اور رسمیؔ طور پر ان کو مسلمان بھی کہا اور لکھا ہے ۔ اس حقیقت کو حضرت مسیح موعود ؑ کا ایک الہام بھی خوب واضح کر رہا ہے ۔ جو یہ ہے ۔
“چُو دَور ِ خسروی آغاز کردند
مسلماں را مسلماں باز کر دند”
(ترجمہ :۔ جب مسیح السلطان کا دور شروع کیا گیا تو مسلمانوں کو جو صرف رسمی مسلمان تھے نئے سرے سے مسلمان بنانے لگے ۔ )
(حقیقۃ الوحی ۔روحانی خزائن جلد22صفحہ 110)
(تذکرہ صفحہ 514-562طبع2004)
اس میں جناب باری تعالیٰ نے غیر احمدیوں کو صاف طور پر مسلمان بھی کہا ہے ۔ اور پھر صاف طور پر ان کے اسلام کا انکار بھی کیا ہے ۔ پس اب ہم مجبور ہیں کہ غیر احمدیوں کو عام طور پر ذکر کرتے ہوئے مسلمان کے نام سے یاد کریں۔ کیونکہ کلام الٰہی صاف طور پر حضرت مسیح موعود ؑ کے منکروں کو مسلمان کے نام سے پکار رہا ہے ۔ اسی طرح اب خواہ کوئی کتنا ہی بڑا انسان غیر احمدیوں کو مسلمان سمجھے۔ ہم مجبور ہیں کہ اس کی ایک نہ سنیں کیونکہ وہی کلام الٰہی واضح اور غیر تاویل طلب الفاظ میں ان کے اسلام کا انکا ر کر رہا ہے ۔ فتدبّروا۔
غیر احمدیوں کا کفر
ا ب میں مضمون کی دوسری شق کو لیتا ہوں اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود ؑ کے منکروں پر کس قسم کا کفر عاید ہوتا ہے ۔ سو اس کے متعلق جہاں تک قرآن شریف کی آیتوں اور حضرت مسیح موعود ؑ کی تحریروں اور احادیث نبوی سے پتہ چلتا ہے وہ یہی ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کا منکر اسی طرح الٰہی مؤاخذہ کے نیچے ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کے دیگر رسولوں کے منکرین ہیں کیونکہ باری تعالیٰ کی طرف سے جتنے بھی مامورین آتے ہیں ان کا مقصد اعلیٰ یہی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی پر لوگوں کی طرف سے صرف زبانی اقرار نہ ہو بلکہ ایمان و یقین کے درجہ تک پہنچ کر مخلوق کے رگ و ریشہ میں رچ جائے اور انسان کا عرفان ذات حق تعالیٰ کے متعلق اس قدر مستحکم ہو جائے کہ خداتعالیٰ کا صفاتی وجود ہر جگہ محسوس و مشہود ہو کیونکہ اس کے بغیر گناہ سے چھٹکارہ نہیں اور گناہ سے پاک ہونے کے بغیر نجات نہیں۔یہ غلط ہے کہ سب رسولوں کا نئی شریعت لانا ضروری ہے ۔ بنی اسرائیل میں موسیٰ علیہ السلام کے بعد سینکڑوں ایسے نبی ہوئے جن کو کوئی شریعت نہیں دی گئی بلکہ وہ توریت کے خادم تھے ۔ خود حضرت مسیح موعود ؑ نے براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 138پر لکھا ہے کہ نبی کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ صاحب شریعت نبی کا متبع نہ ہو۔ غرض اس بات کو خوب یاد رکھنا چاہئے کہ ہر ایک رسول کی اصل حیثیت ایک منجی کی ہوتی ہے اور وہ تمام ایک کشتی تیار کرتے ہیں جس کے اندر بیٹھنے والے تمام خطرات سے نجات پا جاتے ہیں۔وہ کشتی یہی ایمان کی کشتی ہوتی ہے مگر لبوں تک محدود رہنے والا ایمان نہیں بلکہ وہ ایمان جو مومن کے رگ و ریشہ کے اندر سرایت کرجاتا اور اسے یقین کی مستحکم چٹان پر قائم کر دیتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتی ہے یہ حدیث نبوی کہ لَوْ کَانَ الْاِیْمَان ُ مُعَلَّقًا بِالثُّرَیَّا لَنَا لَہٗ رَجُلٌ مِّنْ فَارِسَ۔اگر زبانی اقرار کا نام ایمان رکھا جاوے تو پھر اس حدیث کے کوئی معنی ہی نہیں بنتے کیونکہ زبانی اقرار والا ایمان تو تمام مسلمان کہلانے والے لوگوں میں ہمیشہ پایا جاتا رہا ہے ۔ سو ماننا پڑتا ہے کہ اس جگہ وہ ایمان مراد ہے جو خدا کی ہستی کو محسوس و مشہود کروا دیتا ہے اور گناہوں کو آگ کی طرح جلا کر خاک کر دیتا اور انسان کو ایک نئی زندگی بخشتا ہے ۔ سو اس لحاظ سے تو تمام مامورین کا انکار منکرین کے غیر مومن ہونے پر مہر لگا نے والا ہوتا ہے مگر پھر بھی کفر کی اقسام ہیں جو ہم ذیل میں لکھتے ہیں۔ سو جاننا چاہئے کہ کفر دو قسم کا ہوتا ہے ۔ ایک ظاہری کفر اور ایک باطنی کفر۔ ظاہر کفری سے یہ مراد ہے کہ انسان کھلے طور پر کسی رسول کا انکار کردے اور اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور نہ مانے ۔ جس طرح یہود نے مسیح ناصری کا کفر کیا یا جس طرح نصاریٰ نے نبی کریم ﷺ کو خدا کی طرف سے رسول نہ مانا اور باطنی کفر یہ ہے کہ ظاہر ًا طور پر تو انسان کسی نبی یا رسول کی نبوت و رسالت پر ایمان لانے کا اقرار کرے اور اس کی امت میں اپنے آپ کو شمار کرتا ہو لیکن درحقیقت (اللہ تعالیٰ کی نظر میں)وہ اس نبی کی تعلیم سے بہت دور جا پڑا ہو اور اس کی پیشگوئیوں پر پورا پورا ایمان نہ لائے اور جس شخص پر ایمان لانے کا خدا نے حکم دیا ہو ۔ اس کی تکذیب کرے اور اس نبی کے احکام پر کار بند نہ ہو یا اگر ہو تو صرف قِشر پر گرا رہے اور حقیقت سے دور ہو۔ غرض صرف رسمی طور پر اس کی طرف منسوب کیا جائے۔ جیسا کہ مسیح ناصری کا زمانہ پانے والے یہود کا حال تھا ۔ گو وہ ظاہرًا طور پر تورات کے حامل تھے اور موسیٰ کی اُمت میں اپنے آپ کو شمار کرتے تھے لیکن درحقیقت وہ موسیٰ کی طرف صِرف رسمی طور پر منسوب تھے ۔ چنانچہ اس حقیقت کو مسیح ناصری کی بعثت نے بالکل مبرہن کر دیا اور یہ بات بالکل ظاہر ہو گئی کہ حقیقت میں یہود موسیٰ کی تعلیم سے بہت دور جا پڑے تھے اور انہوں نے تورات کو پس پشت ڈال رکھا تھا اور ان کا موسیٰ کی اُمت میں ہونےکا دعویٰ صرف ایک زبانی دعویٰ تھا جو آزمانے پر غلط نکلا۔ حضر ت مسیح کی بعثت سے پہلے تمام بنی اسرائیل موسیٰ کی تعلیم پر کار بند ہونے کے مدعی تھے مگر اللہ تعالیٰ نے مسیح کو نازل فرما کر سچوں اور جھوٹوں میں تمیز پیدا کر دی اور اس بات پر الٰہی مہر لگ گئی کہ اکثر بنی اسرائیل اپنے دعوے میں جھوٹے تھے۔ پس یہود نے مسیح کے انکار سے اپنے اوپر دو کفر لئے ۔ ایک مسیح کا ظاہری کفر اور دوسرے موسیٰ یا یوں کہیے کہ مسیح سے پہلے گذرے ہوئے تمام انبیاء کا باطنی کفر۔ یہی حال نبی کریم ﷺ کا زمانہ پانے والے نصاریٰ کا ہے ۔ جنہوں نے آپ کا انکار کر کے اس بات پر بھی مہر لگا دی کہ وہ مسیح ناصری پر ایمان لانے کے دعوے میں جھوٹے تھے اور اس کی تعلیم کو دلوں سے بھلا چکے تھے ۔ پس انہوں نے بھی دو قسم کا کفر کیا ۔ ایک ہمارے آنحضرت ﷺ کا ظاہری کفر اور دوسرے مسیح ناصری اور اس سےپہلے کے تمام انبیاء کا باطنی کفر۔ اب یہ مسئلہ بالکل صاف ہے کہ ایک رسول کے انکار سے باقی تمام رسولوں کا انکار لازم آتا ہے ۔ ہاں ہم یہ نہیں کہتے کہ ایک رسول کا ظاہری کفر باقی رسولوں کا بھی ظاہری کفر ہے کیونکہ جیسا کہ میں بتا آیا ہوں ظاہری کفر زبانی انکار سے تعلق رکھتا ہے ۔ اس لئے بغیر کسی کی طرف سے زبانی انکار کے اس پرظاہری کفر کا فتویٰ عائد کرنا کسی طرح بھی جائز نہیں ۔ ایک شخص اگر کہتا ہے کہ میں نبی کریم ﷺ کی رسالت پر ایمان لاتا ہوں اور وہ کلمہ گو ہے ۔ تو پھر ہمارا کوئی حق نہیں کہ ہم اس کو ظاہری کفر کے لحاظ سے نبی کریم ﷺ کا کافر کہیں ۔ ہاں اگر وہ کسی اور مامور من اللہ کا ظاہری کفر اپنے اوپر لیتا ہے تو پھر بے شک جیساکہ میں ابھی ثابت کر آیا ہوں اس نے نبی کریم ؤ کا بھی باطنی کفر کیا ۔ کیونکہ ایک رسول کے ظاہری کفر سے باقی رسولوں کا باطنی کفر لازم آتا ہے ۔ ہر ایک رسول کی بعثت بذات خود زبان حال سے پکار رہی ہوتی ہے کہ اس سے پہلے کے انبیاء بلکہ میں تو یہ بھی کہوں گا کہ خود ذات باری تعالیٰ کا باطنی کفر دنیا میں شروع ہو چکا ہے ۔ مسیح ناصری کا دنیا میں آنا اس بات پر گواہ تھا کہ موسیٰ کی قوم نے موسیٰ کا باطنی کفر شروع کر رکھا تھا ۔ پھر آخر مسیح کی بعثت نے ثابت کر دیا کہ امت موسویہ میں واقعی اکثر دھاگے کچے تھے جو ذرا سے جھٹکے سے ٹوٹ گئے ۔ اسی طرح مسیح محمدی کی بعثت دلیل ہے اس بات پر کہ امت محمدیہ میں خود محمد (ﷺ)کا کفر شروع ہے مگر وہی باطنی کفر کیونکہ ظاہری کفر ان پر عائد نہیں ہو سکتا جب تک وہ اسلام سے ظاہرًا طور پر ارتداد کی راہ نہ اختیار کریں۔ پس اب ہماری پوزیشن بالکل صاف ہے ۔ ہم غیر احمدیوں کو حضرت مسیح موعود کا کافر سمجھتے ہیں۔ آپ کے سوا کسی اور رسول کے وہ ظاہری کافر نہیں اور نہ ہم ان کو کہتے ہیں مگر ہاں مسیح موعود کا کفر ہم کو اتنا ضرور بتا رہا ہے کہ آپ کے منکرین میں محمد رسول اللہ ﷺ کا بھی باطنی کفرشروع ہے۔
فریق مخالف نے مسئلہ کفر و اسلام بے ہودہ جھگڑوں سے پیچیدہ کر دیا ہے ورنہ بات بالکل صاف ہے ۔ کون کہتا ہے کہ غیر احمدی نبی کریم ﷺ کے ظاہری کافر ہیں ۔ ہمارا سر پھرا ہے کہ ہم کہیں غیر احمدی محمد رسول اللہ کے ظاہری طور پر کفر کرنے والے ہیں۔ اس کے تو یہ معنی ہوں گے کہ غیر احمدی آنحضرت ﷺ پر ایمان لانے کے مدعی بھی نہیں اور یہ بالبداہت غلط ہے ۔ خدا را ہماری طرف وہ بات منسوب نہ کرو جو ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں ہے ۔ ہم تو غیر احمدیوں کو صرف مسیح موعود ؑ کا کافر سمجھتے ہیں اور بس ۔ چونکہ اور کسی رسول کا انہوں نے ظاہرًا طور پر انکار نہیں کیا۔ بلکہ ایمان لانے کے مدعی ہیں اس لئے وہ مسیح موعود ؑ کے سوا کسی اور رسول کے مطلقاً کافر نہیں کہلا سکتے ۔ ہاں انہوں نے مسیح موعود کے انکار سے محمد رسول اللہ ﷺ اور باقی گذشتہ انبیاء کا باطنی کفر اپنے اوپر ضرور لے لیا ہے بلکہ خود خدا تعالیٰ کا کفر سہیڑ لیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ حقیقۃ الوھی میں فرماتے ہیں:۔
“جو مجھے نہیں مانتا وہ خدا اور رسول کو بھی نہیں مانتا۔”
(حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22صفحہ 168)
جس کا یہی مطلب ہے کہ میرا ظاہری کفر خدا اور رسول کا باطنی کفر ہے ۔ فتدبر۔
تعجب ہے کہ ہمارے غیر مبایعین احباب حضرت مسیح موعود ؑ کے کفر کو بالکل معمولی بات سمجھتے ہیں حالانکہ محمد رسول اللہ سے اتر کر باقی تمام رسولوں کے کفر سے مسیح موعود ؑ کا کفر زیادہ سخت اور اللہ تعالیٰ کے غضب کو زیادہ بھڑکانے والا ہے ۔ جیسا کہ حضرت اقدس ؑ فرماتے ہیں:۔
“فی الحقیقت دو شخص بڑے ہی بد بخت ہیں اور انس و جن میں اُن سا کوئی بھی بد طالع نہیں۔ ایک وہ جس نے خاتم الانبیاء کو نہ مانا۔ دوسرا وہ جو خاتم الخلفاء پر ایمان نہ لایا۔”
(الھُدٰی۔روحانی خزائن جلد 18صفحہ 250)
خلاصہ تمام مضمون کا یہ ہوا کہ ہم مسیح موعود پر ایمان نہ لانے کی وجہ تمام غیر احمدیوں کو حقیقت اسلام کے دائرہ سے خارج سمجھتے ہیں مگر چونکہ وہ قشر پر قائم ہیں۔ اِس لئے علمیت کے دائرہ سے انکو خارج قرار دینا صحیح نہیں۔ جیسا کہ خود حضرت مسیح موعود ؑ غیر احمدیوں کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں:۔
“جس اسلام پر تم فخر کرتے ہو یہ رسم اسلام ہے نہ حقیقت اسلام۔”
(نزول المسیح۔ روحانی خزائن جلد18صفحہ 476)
اسی طرح غیر احمدیوں کو ہم مسیح موعود ؑ کے انکار کی وجہ سے کافر سمجھتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مسیح موعود ؑ کے ظاہرًا طور پر کافر ہیں اور محمد رسول اللہ اور باقی رسولوں کے باطنی کافر، اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے مسیح موعود کی اس تحریر میں کہ :۔
“کفر دو قسم پر ہے ۔(اول)ایک یہ کفر کہ ایک شخص اسلام سے ہی انکار کرتا ہے ۔اور آنحضرت ﷺ کو خدا کا رسول نہیں مانتا۔(دوم)دوسرے یہ کفر کہ مثلاً وہ مسیح موعودؑ کو نہیں مانتا۔”
اور پھر آگے چل کر لکھتے ہیں کہ :۔
“اگر غور سے دیکھا جاوے تو یہ دونوں قسم کے کفرایک ہی قسم میں داخل ہیں۔”
پھر اسی کتاب کے صفحہ 163پر لکھا ہے کہ :۔
“جو مجھے نہیں مانتا وہ خدا اور رسول کو بھی نہیں مانتا ۔”
(حقیقۃ الوحی ۔ روحانی خزائن جلد22صفحہ 185)
ان سب حوالوں پر یک جائی طور پر نظر ڈالنے سے صاف پتہ لگتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ظاہری کفر کو باطنی طور پر محمد رسول اللہ ﷺ بلکہ خود ذات باری تعالیٰ کا کفر قرار دے رہے ہیں۔ وھو المراد۔”
(مطبوعہ الفضل 5،6ستمبر1916ء بحوالہ مضامین بشیر جلد اول صفحہ 7تا15)
حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ کاعشق رسول ﷺ – آپؑ کی تحریرات اور آپؑ کے واقعات کی روشنی میں
ذیل میں حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کی تحریرات سے کچھ اقتباس پیش ہیں ۔یہ تحریرات ا…