اعتراض: حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیت الخلاء میں فوت ہوئے اس لئے وہ سچے نبی نہیں ہو سکتے
ایک اعتراض یہ اٹھایا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیت الخلاء میں فوت ہوئے اس لئے وہ سچے نبی نہیں ہو سکتے۔
کس کی گواہی پر بیت الخلاء میں وفات پانے کا الزام لگایا جاتا ہے ؟؟
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :۔
یٰحَسْرَۃً عَلَی الْعِبَادِ مَا یَاْتِیْھِم مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَھْزِءُوْنَ۔
ترجمہ :۔وائے حسرت بندوں پر !ان کے پاس کوئی رسول نہیں آتا مگر و ہ اس سے ٹھٹھا کرنے لگتے ہیں۔
اس اعتراض کی کوئی بنیاد نہیں۔ یہ محض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات پر تمسخر اڑانے کی بیہودہ کوشش ہے جو کبھی کامیاب نہیں ہوئی اور نہ ہی اس میں کوئی صداقت ہے۔
کس کی گواہی پر یہ اعتراض کیا جا رہا ہے ؟
حیرت ہوتی ہے کہ یہ اعتراض کرنے والے سوچتے کیوں نہیں کہ یہ اعتراض انکی حماقت اور جہالت کا ثبوت دیتا ہے ۔کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آخری ایام کے بارے میں جو سوانح ان لوگوں نے قلمبند کی ہیں جو ان ایام میں آپ کے ساتھ تھے ، انہی کی بات سچی سمجھی جائے گی۔ کیا یہ اعتراض کرنے والا کوئی مخالف یا معاند یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ وہ ان ایام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس موجود تھا ؟اگر نہیں تھا تو پھر کس کی شہادت کی بناء پر ایسا بیہودہ اعتراض کیا جاتا ہے ؟
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آخری ایام کے بارہ میں جماعت احمدیہ میں جو لٹریچر موجود ہے اس میں کہیں یہ ذکر نہیں کہ آپؑ نعوذباللہ بیت الخلاء میں فوت ہوئے بلکہ یہی ذکر ملتا ہے کہ آپؑ اپنے بستر پر فوت ہوئے اور آپؑ کے آخری الفاظ “اللہ میرے پیارے اللہ”تھے۔
پھر یہ بات بھی اہم ہے کہ حضور علیہ السلام کی وفات کے وقت بھی آپؑ کے معاندین نے یہ اعتراض نہیں کیا بلکہ آپؑ کی وفات کے بہت بعد میں یہ اعتراض بنایا گیا ہے ۔اگر فی الحقیقت ایسا ہوا تھا تو اس وقت کے معاندین احمدیت کے پاس یہ اچھا موقع تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف اعتراض کرنے کا۔اس سے یہی پتہ لگتا ہے کہ یہ اعتراض گھڑا گیا ہے اور اسکی کوئی حقیقت نہیں۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا حضرت مسیح موعود ؑ کے آخری لمحات کے بارہ میں بیان
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرزند حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اپنی تصنیف “سلسلہ احمدیہ “میں حضورؑ کے آخری لمحات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :۔
“ کوئی گیارہ بجے رات کا وقت ہو گا آپ کو پاخانہ جانے کی حاجت محسوس ہوئی اور آپ اٹھ کر رفع حاجت کےلئے تشریف لے گئے ۔ آپ کو اکثر اسہال کی تکلیف ہو جایا کرتی تھی ۔ اب بھی ایک دست آیا اور آپ نے کمزوری محسوس کی اور واپسی پر حضرت والدہ صاحب کو جگایا اور فرمایا کہ مجھے ایک دست آیا ہے جس سے بہت کمزوری ہو گئی ہے ۔ وہ فورًا اٹھ کر آپ کے پاس بیٹھ گئیں اور چونکہ آپؑ کو پاؤں دبانے سے آرام محسوس ہوا کرتا تھا اس لئے چارپائی پر بیٹھ کر پاؤں دبانے لگ گئیں۔ اتنے میں آپ کو پھر حاجت محسوس ہوئی اور آپ رفع حاجت کےلئے گئےاور جب اس دفعہ واپس آئے تو اس قدر ضعف تھا کہ آپ چارپائی پر لیٹتے ہوئے اپنے جسم کو سہار نہیں سکےاور قریبًا بے سہارا ہو کر چارپائی پر گر گئے۔ اس پر حضرت والدہ صاحب نے گھبرا کر کہا”اللہ یہ کیا ہونے لگا ہے ؟”آپؑ نے فرمایا “یہ وہی ہے جو میں کہا کرتا تھا۔”یعنی اب مقدر وقت آن پہنچا ہے اور اس کے ساتھ ہی فرمایا مولوی صاحب (یعنی حضرت مولوی نور الدین صاحب جو آپ کے خاص مقرب ہونے کے علاوہ ایک نہایت ماہر طبیب تھے)کو بلوا لو۔ اور یہ بھی فرمایا کہ محمود (یعنی ہمارے بڑے بھائی مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب)اور میر صاحب(یعنی حضرت میر ناصر نواب صاحب جو حضرت مسیح موعود ؑ کے خسر تھے) کو جگا دو۔ چنانچہ یہ سب لوگ جمع ہو گئےاور بعد میں ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کو بھی بلوا لیا گیا اور علا ج میں جہاں تک انسانی کوشش ہو سکتی تھی وہ کی گئی ۔ مگر خدائی تقدیر کو بدلنے کی کسی شخص میں طاقت نہیں۔ کمزوری لحظہ بلحظہ بڑھتی گئی اور اس کے بعد ایک اور دست آیا جس کی وجہ سے ضعف اتنا بڑھ گیا کہ نبض محسوس ہونے سے رک گئی ۔ دستوں کی وجہ سے زبان اور گلے میں خشکی بھی پیدا ہو گئی جس کی وجہ سے بولنے میں تکلیف محسوس ہوتی تھی مگر جو کلمہ بھی اس وقت آپؑ کے منہ سے سنائی دیتا تھا وہ ان تینوں لفظو ں میں محدود تھا ۔”اللہ میرے پیارے اللہ۔”اس کے سوا کچھ نہیں فرمایا ۔
صبح کی نماز کا وقت ہوا تو خاکسار مؤلف بھی پاس کھڑا تھا نحیف آواز میں دریافت فرمایا “کیا نماز کا وقت ہو گیا ہے ؟”ایک خادم نے عرض کیا۔ ہاں حضور ہو گیا ہے ۔ اس پر آپ نے بسترے کے ساتھ دونوں ہاتھ تیمم کے رنگ میں چھو کر لیٹے لیتے ہی نماز کی نیت باندھی ۔ مگر اسی دوران میں بیہوشی کی حالت ہو گئی ۔ جب ذرا ہوش آیا تو پھر پوچھا کیا”نماز کا وقت ہو گیا ہے ؟”عرض کیا گیا ہاں حضور ہو گیا ہے ۔ پھر دوبارہ نیت باندھی اور لیٹے لیٹے نماز ادا کی۔ اس کے بعد نیم بیہوشی کی کیفیت طاری رہی مگر جب کبھی ہوش آتا وہی الفاظ “اللہ ۔ میرے پیارے اللہ”سنائی دیتےتھے اور ضعف لحظہ بلحظہ بڑھتا جا تا تھا ۔
آخر صبح دس بجےکے قریب نزع کی حالت پیدا ہو گئی اور یقین کر لیا گیا کہ اب بظاہر حالت بچنے کی کوئی صورت نہیں۔ اس وقت تک حضرت والدہ صاحب نہایت صبراور برداشت کے ساتھ دعا میں مصروف تھیں اور سوائے ان الفاظ کے اور کوئی لفظ آپ کی زبان پر نہیں آتا تھا کہ “خدایا!ان کی زندگی دین کی خدمت میں خرچ ہوتی ہے تو میری زندگی بھی انکو عطا کر دے۔”لیکن اب جبکہ نزع کی حالت پیدا ہو گئی تو انہوں نے نہایت درد بھرے الفاظ سے روتے ہوئے کہا “خدایا !اب یہ تو ہمیں چھوڑرہے ہیں لیکن تو ہمیں نہ چھوڑیو۔”آخر ساڑھے دس بجے کے قریب حضرت مسیح موعود ؑ نے ایک دو لمبے لمبے سانس لئے اور آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر کے اپنے ابدی آقااور محبوب کی خدمت میں پہنچ گئی ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ وَ یَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُوالْجَلَالِ وَ الْاِکْرَامِ۔”
(سلسلہ احمدیہ ۔ جلد اول صفحہ 176تا178)
یہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرزند ارجمند اور آپؑ کے آخری لمحات میں آپؑ کے پاس موجود تھے ۔ آپؑ کے بیان میں کہیں یہ ذکر نہیں کہ نعوذباللہ حضور ؑ بیت الخلاء میں فوت ہوئے۔نیز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اہلیہ محترمہ بھی وہاں موجود تھیں۔ ان میں سے کسی سے ایسا کوئی بیان منسوب نہیں جو اعتراض کیا جا رہا ہے ۔
اور اگر کوئی معاند و مخالف حضور ؑ کی دستوں کی بیماری پر تمسخر کرتا ہے تو یہ اسکی اپنی گندہ دہنی اور ذہنی پستی کا ثبوت ہے ۔ اس سے حقیقت کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا کہ حضور ؑ نے اپنے بستر پر وفات پائی ۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کا بیان فرمودہ جواب
حضرت حکیم مولانا نور الدین صاحب نے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پہلے خلیفہ تھے ، خلیفہ بننے کے بعد جو پہلا خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا اس میں آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے حالات بیان فرمائے۔ اس میں آپ نے معاندین کے اس اعتراض کا جواب ارشاد فرمایا جو وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دستوں کی بیماری سے وفات پانے پر اٹھاتے ہیں۔ذیل میں وہ مکمل خطبہ قارئین کے فائدہ کے لئے پیش کیا جارہا ہے :۔
5جون ، 1908ء
خطبہ جمعہ
تشہد و تعوذ کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الاول ایدہ اللہ تعالیٰ نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی :۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ ۔ وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِنْ لَا تَشْعُرُونَ ۔ وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ ۔ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ۔ أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ ۔
(البقرة 154-158)
اور پھر فرمایا :۔
اللہ تعالیٰ کے یہ کلمات جو میں نے تم کو اس وقت سنائے ہیں معمولی وعظ نہیں ہے اور نہ ہی انکے متعلق کچھ بیان کرنا آج میرا مقصد تھا۔ یہ ایک علم ہے اور الٰہی علم ہے جو تمہارے سامنے پیش کرتا ہوں۔ کلام خدا کا ہے ، انسان کا کلام نہیں ۔ خدا کی پاک اور مجید کتاب کی سچی تعلیم ہے ، وہی کتاب جس کے واسطے اب اور پہلے بھی تم سب نے امام صاحب کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اور وہ کامل کتاب ہے ۔ چنانچہ خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے أَوَلَمْ يَكْفِهِمْ أَنَّا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ يُتْلَى عَلَيْهِمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَرَحْمَةً وَذِكْرَى لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ (العنکبوت:52)
آنحضرت ﷺ نے اپنی وفات کے وقت قلم دوات منگائی اور چاہا کہ میں تم کو ایسی بات لکھ دوں کہ لَنْ تَضِلُّوْا (بخاری کتاب المرضی)کہ تم میرے بعد کبھی گمراہ نہ ہو۔ جن لوگوں کی عقل باریک اور سمجھ مضبوط اور علم کامل تھا وہ سمجھ گئے کہ انہوں نے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے پاک کلام کی طرف متوجہ کیا ۔اور جس کی زبان پر حق چلتا تھا اس نے اس بات کا یقین کر لیا کہ آپ جو بات بھی لکھنا چاہتے تھے وہ یہی پاک کتاب تھی ۔ چنانچہ اس نے صاف کہا کہ حَسْبُنَا کِتَابُ اللّٰہِ ۔ یہ ایک نکتہ معرفت ہے جو ایک زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کھولا تھا۔ آنحضرت ؐ کی زبان سے یہ الفاظ نکلے ہیں کہ میں ایسی بات لکھ دوں کہ لَنْ تَضِلُّوْا ۔ پس تطابق سے صاف یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ قرآن ایک کافی کتاب ہے ۔
آج یہ جو دو آیات میں نے تمہارے سامنے پڑھی ہیں یہ میرے کسی خاص ارادے، غور وفکر کا نتیجہ نہیں اور نہ میں نے کوئی تیاری قبل از وقت اس مضمون اور ان آیات کے متعلق آج خطبہ جمعہ میں سنانے کی کی تھی ۔ وعظ کا بیشک میں عادی ہوں مگر یہ آیتیں محض اللہ تعالیٰ کی ہی طرف سے دل میں ڈالی گئیں۔
اس کا مطلب سمجھنے کے واسطے میں پہلے تمہیں تاکید کرتا ہوں۔ توجہ سے سنو اور یاد رکھو۔ جب تمہیں کوئی وسوسہ پیدا ہو تو پہلے دائیں طرف تھوک دو، پھر لاحول پڑھو اور ان باتوں کو کثرت سے استعمال کرو۔ دعا کرو۔ پھر تاکید سے کہتا ہوں کہ اب تمہارا کام یہ ہے کہ ہتھیار بند ہو جاؤ۔ کمریں کس لو اور مضبوط ہو جاؤ۔ وہ ہتھیار کیا ہیں؟ یہی کہ دعائیں کرو۔ استغفار ، لاحول ، درود اور الحمد شریف کا ورد کثرت سے کرو۔ ان ہتھیاروں کو اپنے قبضہ میں لو اور ان کو کثرت سے استعمال کرو۔ میں ایک تجربہ کار انسان کی حیثیت سے اور پھر اس حیثیت سے کہ تم نے مجھ سے معاہدہ کیا ہے اور میرے ہاتھ پر بیعت کی ہے تم کو بڑے زور سے اور تاکیدی حکم سے کہتا ہوں کہ سر سے پاؤں تک ہتھیاروں میں محفوظ ہو جاؤ اور ایسے بن جاؤ کہ کوئی موقع دشمن کے وار کے واسطے باقی نہ رہنے دو۔ بائیں طرف تھوکنا، احوال کا پڑھنا، استغفار، درود اور الحمد شریف کا کثرت سے وظیفہ کرنا ان ہتھیاروں سے مسلح ہو کر ان آیات کا مضمون سن لو۔
تم نے سنا ہو گااور مخالفوں نے بھی محض اللہ کے فضل سے اس بات کی گواہی دی ہے اور تم میں سے بعض نے اپنی آنکھوں سے بھی دیکھا ہو گا کہ حدیث شریف میں آیا ہے ۔ اَلْمَبْطُوْنُ شَھِیْدٌ (بخاری کتاب الجھاد)وہ جو دستوں کی مرض سے وفات پا وے وہ شہید ہوتا ہے ۔ مبطون کہتے ہیں جس کا پیٹ چلتا ہو یعنی دست جاری ہو جاویں۔ اب جائے غور ہے کہ آپ کی وفات اسی مرض دستوں سے ہی واقع ہوئی ہے ۔ اب خواہ اسی پرانے مرض کی وجہ سے جو مدت سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور ایک نشان کے آپ کے شامل حال تھا یا بقول دشمن وہ دست ہیضہ کے تھے ، بہرحال جو کچھ بھی ہو یہ امر قطعی اور یقینی ہے کہ آپ کی وفات بصورت مبطون ہونے کے واقع ہو ئی ہے ۔ پس آپ بموجب حدیث صحیح کہ مبطون جو مرض دست سے ، خواہ کسی بھی رنگ میں کہو، وفات پانے والا شہید ہوتا ہے ۔ پس اس طرح سے خود دشمنوں کے منہ سے بھی آپ کی شہادت کا اقرار خدا نے کرا دیا ۔
یُقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ سے مراد لڑائی اور جنگ ہوتی ہے ۔لڑائی اور جنگ ہی میں صلح ہوتی ہے ۔ خدا نے آپ کو پیغام صلح دینے کے بعد اٹھایا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اب جنگ کا خاتمہ ہونے کو ہے کیونکہ اب صلح کا پیغام ڈالا گیا ہے ۔ مگر خدا کی حکمت اس میں یہی تھی کہ آ پ کو حالت جنگ ہی میں بلا لے تا آپ کا اجر جہاد فی سبیل اللہ کا جاری اور آپ کو رتبہ شہادت عطا کیا جاوے۔ یہی وجہ ہے کہ عملی طور پر اس صلح کی کارروائی کے انجام پذیر ہونے سے پہلے جبکہ ابھی زمانہ ، زمانہ جنگ ہی کہلا تا تھا اٹھا لیا۔
عجیب بات یہ ہے کہ آپ نے اس سے کئی سال پہلے ایک دفعہ کل شہر کو بلا کہ شیخ میراں بخش کی کوٹھی میں جو عین شہر کے وسط میں واقع ہے ایک فیصلہ سنایا اور اس کا نام آپ نے فیصلہ آسمانی رکھا ۔ عزیز عبد الکریم مرحوم کو کچھ تو اس خیال سے کہ انکی آواز اونچی اور دلربا بھی تھی ، شاید ان کو خود ان کی اپنی آواز پر بھی کچھ خیال ہو گا اور کچھ اس جوش سے جو عموماً ایسے موقعوں پر ہوا کرتا تھا اس امر کی درخواست کی کہ میں یہ مضمون سناؤں۔ مگر آپ نے بڑے جوش اور غضب سے کہا کہ اس مضمون کا سنانا بھی میرا ہی فرض ہے ۔ غرض ہزاروں ہزار مخلوق کے مجمع میں ایک مضمون آپ نے بیان کیا اور آپ نے دعاوی کو لوگوں کے سامنے پیش کیا۔ پھر اس کے بعد دوسرے موقع پر جلسہ اعظم مذاہب میں آپ کے بے نظیر اور پر حقایق لیکچر کے سنائے جانے سے دنیا پر حجت قائم ہو گئی ۔ پھر آپ نے میلہ رام کے مکان پر ایک پرزور لیکچر تحریری اورتقریری دیا۔
اور پھر اس کے بعد آپ نے ہم لوگوں کو حکم دیا کہ آریہ قوم پر بھی حجت قائم کر دی جاوے اور اس غرض کے پورا کرنے کے واسطے آپ نے ایک مضمون دیا جو کہ شہادت کے طور پر سنایا گیا اور جس میں آپ کا حقیقی مذہب اور سچا اعتقاد ، دلی آرزو، سچی تڑپ اور خواہش تھی ۔ وہ دے کر ہمیں بھیجا اور ہمارے آنے جانے کے کثیر اخراجات کو برداشت کیا۔ غرض اس طرح سے بھی آپ نے لاہور جیسے دار الحکومت میں لوگوں پر اپنی حجت ملزمہ قائم کر دی۔ پھر اس کے بعد آخری سفر میں بھی تمام امراء کو دعوت دیکر ان کو اپنے دعاوی ، دلائل ، اعتقاد اور مذہب پہنچا دیا۔
آپ نے اپنے پیغام رسالت کو جس شان اور دھوم سے دار السلطنت میں بار بار پہنچایا، میں نہیں سمجھ سکتا کہ اب بھی کوئی یہ کہہ دے کہ آپ جس کام کے واسطے آئے تھے وہ ابھی پورا نہیں ہوا یا نا تمام رہ گیا۔ اب آخر کار اس گرمی کے موسم میں حالت سفر میں اور جنگ میں آپ نے پیغام صلح دیا۔ مگر قبل اس کے کہ وہ صلح اپنا عملی رنگ پکڑے خدا نے آپ کو اٹھا لیا تا آپ حالت جنگ میں وفات پانے کے غیر منقطع اجر پاویں۔
اب اللہ تعالیٰ کہتا ہے يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ ۔وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِنْ لَا تَشْعُرُونَ ہم سناتے ہیں۔ ذرا غور سے ، توجہ سے اور خبردار ہو کر سن لو۔ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو ! کیا کہتے ہیں؟ یہی کہ تم ان لوگوں کے حق میں یہ کبھی بھی مت کہیو۔ جو خدا کی راہ میں جان خرچ کر گئے ہیں اور خدا کی راہ میں شہید ہوئے ہیں کیا مت کہیو؟ یہ مت کہیو کہ وہ مر گئے ہیں۔ وہ مرے نہیں بلکہ وہ زندہ ہیں۔ آپ نے خدا کی رہ میں تبلیغ احکام الٰہیہ میں ، خدا کی راہ میں حالت سفر میں وفات پائی ہے ۔ پس یہ خدا کا حکم ہے اور کوئی بھی اس بات کا مجاز نہیں کہ آپ کو مردہ کہے۔ آپ مردہ نہیں ، آپ ہلاک شد ہ نہیں ، بَلْ أَحْيَاءٌ بلکہ زندہ ہیں۔ یاد رکھو کہ یہ نہی الٰہی ہے ۔ ہم وجوہات نہیں جانتے کہ ایسا کیوں حکم دیا گیا بلکہ اس جگہ ایک اور نکتہ بھی قابل یاد ہے اور وہ یہ ہے کہ اور جگہ جہاں شہداکا ذکر کیا ہے وہاں اَحْیَآ ءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ کا لفظ بھی بولا ہے مگر اس مقام پر عِنْدَ رَبِّھِمْ کا لفظ بھی چھوڑدیا ہے ۔ دیکھو انسان جب مرتا ہے تو اس کے اجزا متفرق ہو جاتے ہیں۔ مگر یہ خدا کا خاص فضل ہے کہ اس نے حضرت مرزا صاحب کی جماعت کو جو بمنزلہ آپ کے اعضاء کے اور اجزا کے تھی اس تفرقہ سے بچا لیا اور اتفاق او ر اتحاد اور وحدت کے اعلیٰ مقام پر کھڑا کر کے آپ کی زندگی اور حیات ابدی کا پہلا زندہ ثبوت دنیا میں ظاہر کر دیا۔ صرف تخم ریزی ہی نہیں کی بلکہ دشمن کے منہ پر خاک ڈال کر وحدت کو قائم کر دیا ۔
دیکھو! یہ رسول کریم ﷺ کا قول ہے اَلْمَبْطُوْنُ شَھِیْدٌ ۔ اور دوسری طرف قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں جھنجوڑ کر کہا ہے کہ مردہ مت کہو بلکہ یہ کہو کہ اَحْیَآءٌ ۔ یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی۔ ہم نے خود دم نکلتے دیکھا۔ غسل دیا ، کفن دیا اور اپنے ہاتھوں سے گاڑ دیا اور خدا کے سپرد کیا۔ پھر یہ کیسے ہو گیا کہ مرے نہیں بلکہ زندہ ہیں۔مگر دیکھو اللہ فرماتا ہے کہ تمہارا شعور غلطی کرتا ہے ۔ میں یہ مسئلہ اپنے بھائیوں کے سامنے پیش کرتا ہوں کہ وہ اپنے اندر غیرت پیدا کریں اور سچے جوش جو حق اور راستی کے قبول کرنے سے ان میں موجود ہو گئے ہیں ان کا اظہار کریں اور ہمیں دکھا دیں کہ واقعی ان میں ایک غیرت اور حمیت ہے اور ان مخالفوں سے پوچھیں کہ دشمن جو کہتا ہے کہ ہیضہ سے مرے ہیں۔ اچھا مان لیا کہ دشمن سچ کہتا ہے ۔ پھر ہیضہ سے مرنا شہادت نہیں ہے؟ پیغام صلح جنگ کو ثابت کرتا ہے اور دشمن بھی اس بات کو تسلیم کرے گا کہ واقعی آپ کی وفات عین جہاد فی سبیل اللہ میں واقع ہوئی ہے ۔ دشمن نے خود بھی ہر طرح سے مورچہ بندی کی ہوئی تھی اور اپنے پورے ہتھیاروں سے اپنی حفاظت کے سامان کرنے کی فکر میں لگ رہا تھا ۔ اراکین اور امراء کو دعوت دیکر آ پ نے اپنے تمام دعاوی پیش کئے تھے یا کہ نہیں؟ پس ان سب لوازم کے ہوتے ہوئے بھی اگر دشمن آپ کے احیاء کے قائل نہیں تو جانور ہیں۔
مانا کہ یہ رنگ ہمارے واسطے ایک ابتلائی رنگ ہے ۔ صاحبزادہ میاں مبارک احمد کی وفات اور پھر خود حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کا کوچ کرنا واقعی اپنے اندر ضرور ابتلاء کا رنگ رکھتے ہیں مگر اس سے خدا ہم کو انعام دینا چاہتا ہے ۔ انعام الٰہی پانے کے واسطے ضروری ہوتا ہے کہ کچھ خوف بھی ہو۔ خوف کس کا ؟ خوف اللہ کا ، خوف دشمن کا ، خوف بعض نادان ضعیف الایمان لوگوں کے ارتداد کا، مگر وہ بہت تھوڑا ہو گا۔ یہ ایک پیشگوئی ہے اور اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ۔خدا فرماتا ہے کہ میری راہ میں کچھ خوف آوے گا، کچھ جوع ہو گی ۔ جوع یا تو روزہ رکھنے سے ہوتی ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ کچھ روزے رکھو اور یا اس رنگ میں جوع اپنے اوپر اختیار کرو کہ صدقہ خیرات اس قدر نکالو کہ بعض اوقات خود تم کو فاقہ تک نوبت پہنچ جاوے۔ اپنے مالوں کو خدا کی راہ میں اتنا خرچ کرو کہ وہ کم ہو جاویں۔ اور جانوں کو بھی اسی کی راہ میں خرچ کرو۔ علیٰ ھذا پھلوں کو بھی خدا کی راہ میں خرچ کرو وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اور ایسے لوگوں کو جو مصائب اور شدائد کے وقت ثابت قدم رہتے ہیں اور نیکی پر ثبات رکھتے ہیں خدا کو نہیں چھوڑتے اور کہتے ہیں کہ ہم سب الٰہی رضا کے واسطے ہی پیدا ہوئے ہیں۔ جس طرح وہ راضی ہو اس راہ سے ہم اس کے حضور اسکو خوش کرنے کے واسطے حاضر و تیار اور کمر بستہ ہیں۔ ہم نے اس کے حضور حاضر ہونا ہے۔ پس جس کے حضور انسان نے ایک نہ ایک دن حاضر ہونا ہے وہ اگر اس سے خوش نہیں تو پھر اس ملاقات کے دن سرخروئی کیسے ہو گی؟ پس تم خود ہی پیشتر اس کے کہ خدا کی طرف سے تم پر خوف، جوع اور نقص اموال اور ثمرات کا ابتلا آوے خود اپنے اوپر ان باتوں کو اپنی طرف سے خدا کی خوشنودی کے حصول کے واسطے وارد کر لو تاکہ دوہرا اجر پاؤ اور یہ قدم خدا کے لئے اٹھاؤکہ اس کا بہتر بدلہ خدا سے پاؤ اور یہ مصائب دینی نہیں بلکہ صرف معمولی اور دنیوی ہوں گے ۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہو گا کہ دشمن برا بھلا کہہ لے گا ۔ کوئی گندہ گالیوں کا بھرا اشتہار دیدیگا۔ یا خفگی اور ناراضگی کے لہجہ میں کوئی بودا سا اعتراض کر دے گا۔ مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لَنْ یَّضُرُّوْکُمْ اِلَّا اَذًی(آل عمران:112)یہ تکلیف ایک معمولی سی ہو گی ، کوئی بڑی بھاری تکلیف نہ ہو گی۔ دیکھو خدا نے ہم کو بڑی مصیبت سے بچا لیا کہ تفرقہ سےبچا لیا۔ اگر تم میں تفرقہ ہو جاتا اور موجودہ رنگ میں تم وحدت کی رسی میں پروئے نہ جاتے اور تم تتر بتر ہو جاتے تو واقعی بڑی بھاری مصیبت تھی اور خطرناک ابتلاء۔ مگر یہ خدا کا خاص فضل ہے ۔ اگر کچھ تھوڑی سی تکلیف ہم کو ہو گی بھی تو یہی ہو گی۔ اس کا ما بعد الموت سے کوئی واسطہ یا تعلق نہیں بلکہ ما بعد الموت کو باعث اجر اور رحمت الٰہی ہو گی۔ اور اس تھوڑی سی مشکل پر صبر کرنے اور مستقل رہنے اور سچے دل سے إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ کہنے کا بہتر سے بہتر بدلہ دینے کی قدرت اور طاقت رکھنے والا تمہارا خدا موجود ہے ۔ وہ خاص رحمتیں جو کہ ورثہ انبیاء اور شہداء ہوتی ہیں وہ بھی تمہیں عطا کرے گا اور عام رحمتیں تمہارے شامل حال کرے گا اور آئندہ ہدایت کی راہیں اور ہر مشکل سے نجات پانے کی ، ہر دکھ سے نکلنے ، ہر سکھ اور کامیابی کے حصول کی راہیں تم پر کھول دے گا۔ دیکھو میں یہ اپنی طرف سے نہیں کہتا۔ بلکہ بلوح خدا ہمیں است۔ خدا کے اپنے وعدے سے ہیں اور خدا اپنے وعدے کا سچا ہے ۔
آج کا مضمون اور اس کی تحریک محض خدا تعالیٰ ہی کی طرف سے دل میں ڈالی گئی ہے ورنہ میں نے نہ اس کا ارادہ کیا تھا اور نہ اس کے واسطے کوئی تیاری کی تھی۔ پس یہ خدا کی بات ہے میں تم کو پہنچاتا ہوں اور تاکید کرتا ہوں کہ ایسے اوقات میں تم کثرت دعا، استغفار ، درود ، لاحول ، الحمد شریف کا ورد کیا کرو۔ میں بھی دعا کرتا ہوں۔ اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مَّا اَلَّفْتَ بَیْنَ قُلُوْبِھِمْ(الانفال:64)۔ دیکھو دو کو ایک کرنا سخت مشکل کام ہے ۔ تو پھر ہزاروں کا ایک راہ پرجمع کرنا اور ان میں وحدت اور الفت کا پیدا کر دینا خدا کے فضل کے سوا کہاں ممکن ہے ؟دیکھو تم خدا کے فضل سے بھائی بھائی ہو گئے ہو۔ اس نعمت کی قدر کرو اور اس کی حقیقت کو پہچانو اور اخلاص اور ثبات کو اپنا شیوہ بناو۔
(خطبات نور ۔ صفحہ 347تا352)
حضرت مرزا صاحب کے سامنے نامحرم عورتیں چلتی پھرتی رہتی تھیں،وغیرہ وغیرہ۔
جواب:۔ اس اعتراض کی بنیاد حضرت مسیح موعود ؑ یا حضور ؑ کے خلفاء کی کسی تحریر پر نہیں بلکہ ز…