اعتراض: مرزا صاحب نے فوٹو کھنچوائی
مخالفین کی طرف سے اعتراض ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے فوٹو کھنچوائی ۔ حالا نکہ حدیث میں لکھا ہے ۔ ” کُلُّ مُصَوِّرٍ فِی النَّارِ”
حضرت مسیح موعود ؑ کا بیان فرمودہ جواب
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
’’مَیں اس بات کا سخت مخالف ہوں کہ کوئی میری تصویر کھینچے اور اس کو بُت پرستوں کی طرح اپنے پاس رکھے یا شائع کرے۔ مَیں نے ہر گز ایسا حکم نہیں دیا کہ کوئی ایسا کرے اور مجھ سے زیادہ بُت پرستی اور تصویر پرستی کا کوئی دشمن نہیں ہو گا۔ لیکن مَیں نے دیکھا ہے کہ آج کل یورپ کے لوگ جس شخص کی تالیف کو دیکھنا چاہیں اوّل خواہشمند ہوتے ہیں جواُس کی تصویر دیکھیں کیونکہ یورپ کے ملک میں فراست کے علم کو بہت ترقی ہے۔ اور اکثر اُن کی محض تصویر کو دیکھ کر شناخت کر سکتے ہیں کہ ایسا مدعی صادق ہے یا کاذب۔ اور وہ لوگ بباعث ہزار ہا کوس کے فاصلہ کے مجھ تک پہنچ نہیں سکتے اور نہ میرا چہرہ دیکھ سکتے ہیں لہٰذا اُس ملک کے اہلِ فراست بذریعہ تصویر میرے اندرونی حالات میں غور کرتے ہیں۔ کئی ایسے لوگ ہیں جو انہوں نے یورپ یا امریکہ سے میری طرف چٹھیاں لکھی ہیں اور اپنی چٹھیوں میں تحریر کیا ہے کہ ہم نے آپ کی تصویر کو غور سے دیکھا اور علمِ فراست کے ذریعہ سے ہمیں ماننا پڑا کہ جس کی یہ تصویر ہے وہ کاذب نہیں ہے۔ اور ایک امریکہ کی عورت نے میری تصویر کو دیکھ کر کہا کہ یہ یسوع یعنی عیسیٰ علیہ السلام کی تصویر ہے۔ پس اس غرض سے اور اس حد تک مَیں نے اس طریق کے جاری ہونے میں مصلحتاً خاموشی اختیار کی۔ وانّما الاعمال بالنّیات۔ اور میرا مذہب یہ نہیں ہے کہ تصویر کی حرمت قطعی ہے۔ قرآن شریف سے ثابت ہے کہ فرقہ جِنّ حضرت سلیمان کے لئے تصویریں بناتے تھے اور بنی اسرائیل کے پاس مدّت تک انبیاء کی تصویریں رہیں جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی تصویر تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہ کی تصویر ایک پارچہ ریشمی پر جبرائیل علیہ السلام نے دکھلائی تھی۔ اور پانی میں بعض پتھروں پر جانوروں کی تصویریں قدرتی طور پر چھپ جاتی ہیں۔ اور یہ آلہ جس کے ذریعہ سے اب تصویر لی جاتی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں ایجاد نہیں ہوا تھااور یہ نہایت ضروری آلہ ہے جس کے ذریعہ سے بعض امراض کی تشخیص ہو سکتی ہے ایک اور آلہ تصویر کا نکلا ہے جس کے ذریعہ سے انسان کی تمام ہڈیوں کی تصویر کھینچی جاتی ہے اور وَجعُ المَفَاصِل و نَقرس وغیرہ امراض کی تشخیص کے لئے اس آلہ کے ذریعہ سے تصویر کھینچتے ہیں اور مرض کی حقیقت معلوم ہوتی ہے۔ ایسا ہی فوٹو کے ذریعہ سے بہت سے علمی فوائد ظہور میں آئے ہیں۔ چنانچہ بعض انگریزوں نے فوٹو کے ذریعہ سے دنیا کے کل جانداروں یہاں تک کہ طرح طرح کی ٹڈیوں کی تصویریں اور ہر ایک قسم کے پرند اور چرند کی تصویریں اپنی کتابوں میں چھاپ دی ہیں۔
جس سے علمی ترقی ہوئی ہے۔ پس کیا گمان ہو سکتا ہے کہ وہ خدا جو علم کی ترغیب دیتا ہے وہ ایسے آلہ کا استعمال کرنا حرام قرار دے جس کے ذریعہ سے بڑے بڑے مشکل امراض کی تشخیص ہوتی ہے اور اہلِ فراست کے لئے ہدایت پانے کا ایک ذریعہ ہو جاتا ہے۔ یہ تمام جہالتیں ہیں جو پھیل گئی ہیں۔ ہمارے ملک کے مولوی چہرہ شاہی سکّہ کے روپیہ اور دونّیاں اور چونّیاں اور اٹھنّیاں اپنی جیبوں اور گھروں میں سے کیوں باہر نہیں پھینکتے۔ کیا اُن سکّوں پر تصویریں نہیں ،افسوس کہ یہ لوگ ناحق خلاف معقول باتیں کر کے مخالفوں کو اسلام پر ہنسی کا موقع دیتے ہیں۔ اسلام نے تمام لغو کام اور ایسے کام جو شرک کے موٴید ہیں حرام کئے ہیں نہ ایسے کام جو انسانی علم کو ترقی دیتے اور امراض کی شناخت کا ذریعہ ٹھہرتے اور اہلِ فراست کو ہدایت سے قریب کر دیتے ہیں۔ ‘‘
(روحانی خزائن جلد 21 براہین احمدیہ جلد پنجم ص 365تا367)
مزید جوابات
مزید جوابات:۔
1۔ پیش کردہ کلیہ میں تو خدا تعالی بھی مستثنی نہیں کیا گیا ۔ حالانکہ قرآن مجید میں ہے کہ وہ ” مصور “ہے ۔ جیسا کہ فرمایا :۔” ہُوَ اللَّہُ الْخَالِقُ الْبَارِءُ الْمُصَوِّرُ لَہُ الْأَسْمَاء الْحُسْنَی ( سورة الحشر:25)
2۔ قرآن مجید میں حضرت سلیما ن ؑ کے محل میں لکھا ہے :۔
“ یَعْمَلُونَ لَہُ مَا یَشَاء ُ مِن مَّحَارِیْبَ وَتَمَاثِیْلَ وَجِفَانٍ کَالْجَوَابِ وَقُدُورٍ رَّاسِیَاتٍ اعْمَلُوا آلَ دَاوُودَ شُکْراً وَقَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّکُور” ( سورة سبا:14)
ان آیا ت کا ترجمہ تفسیر حسینی الموسومہ بہ قادری میں مندرجہ ذیل ہے :۔
“کا م بناتے تھے جن سلیما ن ( علیہ السلام ) کے واسطے جو چاہتے تھے سلیما ن ؑ۔ اور دالان اچھے اور دیواریں خوب ۔۔۔۔۔اور بناتے تھے مورتیں ۔ اور فرشتوں اور انبیاء ؑ کی صورتیں اس وضع پر کہ جس پر نہ کہ عبادت کے وقت رہتے تھے ۔تا کہ لوگ ان تصویروں کو دیکھ کر اسی صورت میں عبادت کریں۔اور بناتے تھے حضرت سلیمان ؑ کے واسطے لکڑی وغیرہ سے کاسے۔ بڑے حوضوں کے مثل اور دیگیں اونچی اونچی۔۔۔۔۔کہا ہم نے کہ نیک کا م کرو ۔اے آل داؤد ۔ واسطےشکر ان نعمتوں کے ثابت ہیں ۔ “
(تفسیر قادری المعروف تفسیر حسینی اردو جلد2 ص 279)
اما م رازی ؒتفسیر کبیر مین لکھتے ہیں:۔
“ اِنَّ اللہَ تَعالیٰ اَنْزَلَ عَلیٰ اٰ دَمَ عَلیہِ السَّلَا مُ تَابُوتاً فِیہِ صُوَرُالاَنْبِیَا ءِ مِنْ اَوْلادِہٖ فَتَوَارَثَہ‘ اَولَادُ اٰدَمَ اِلیٰ اَنْ وَصَلَ الیٰ یَعْقُو بَ“
‘”یعنی اللہ تعالی نے حضرت آدم پر ایک” تابوت” نازل فرمایا جس میں حضرت آدم ؑکی اولاد میں ہونے والے سب نبیوں کی تصویریں تھیں ۔پس وہ صندوق اولاد آد م ؑمیں بطور ورثہ چلتا آیا ۔ یہاں تک کہ حضرت یعقوبؑ تک پہنچا ۔ “
( تفسیر کبیرامام رازی ؒ جلد 2ص436مصری)
اصل بات یہ ہے کہ ” تصویر “اور “فوٹو” میں باریک امتیاز ہے ۔ ممنوع ” تصویر ” ہے فوٹو نہیں تصویر سے مراد ابھری ہوئی “سورة”یعنی”بت “ہے ۔ فوٹو درحقیقت “تصویر ” نہین بلکہ ” عکس “ہوتا ہے اور فوٹو گرافی کو ” عکاسی “کہتے ہیں ۔ چناچہ صحیح بخاری میں حضرت ابو طلحہ کی مندرجہ ذیل تشریح درج ہے ۔
“اِنَّہ‘قَالَ لَا تَدْخُلُ الْملَا ئِکَتہ بَیْتاً فَیہِ کَلْبٌ وَلَا صُوْ رَتہ یُرِیْدُ التَّمَا ثِیْلَ الَّتِی فِیھَا الْاَرْوَاحُ“
( بخاری جلد جلد3 ص8 مطبہ عثما نیہ مصر)
یعنی آنحضرت ﷺ نے جو یہ فرمایا کہ فرشتے اس مکان مین داخل نہیں ہوتے جس میں کتا یا تصویر ہو ۔ تو آنحضرت ﷺ کی مراد لفظ ” تصویر” سے وہ بت ہیں جن کے بارے میں مشرکین کا عقیدہ تھا کہ ان میں روحیں ہیں ۔
حضرت مرزا صاحب کے سامنے نامحرم عورتیں چلتی پھرتی رہتی تھیں،وغیرہ وغیرہ۔
جواب:۔ اس اعتراض کی بنیاد حضرت مسیح موعود ؑ یا حضور ؑ کے خلفاء کی کسی تحریر پر نہیں بلکہ ز…