اعتراض: جماعت احمدیہ نے اسلامی جہاد کو منسوخ کیا ہے

ایک اعتراض مخالفین جماعت کی طرف سے یہ کیا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسلامی جہاد کو منسوخ کیا۔

منسوخ نہیں ملتوی فرمایا ہے

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہرگز جہاد کو منسوخ نہیں کیابلکہ آپ نے  محض جہاد بالسیف کو اس کی شرائط پوری نہ ہونے کے باعث ملتوی کیا۔ چنانچہ اس سلسلہ میں آپؑ فرماتے ہیں:۔

’’اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس زمانہ میں اور اس ملک میں جہاد کی شرائط مفقود ہیں ۔۔۔۔۔۔ امن اور عافیت کے دور میں جہاد نہیں ہوسکتا‘‘

                                                                                    (تحفہ گولڑویہ۔ روحانی خزائن جلد17۔ صفحہ 82)

پھر ایک اور جگہ فرمایا :۔

            ’’اس قدر ہم ضرور کہیں گے کہ یہ دن دین کی حمایت کے لئے لڑائیؔ کے دن نہیں ہیں۔ کیونکہ ہمارے مخالفوں نے بھی کوئی حملہ اپنے دین کی اشاعت میں تلوار اور بندوق سے نہیں کیا بلکہ تقریر اور قلم اور کاغذ سے کیا ہے اِس لئے ضروری ہے کہ ہمارے حملے بھی تحریر اور تقریر تک ہی محدود ہوں جیسا کہ اسلام نے اپنے ابتدائی زمانہ میں ہی کسی قوم پر تلوار سے حملہ نہیں کیا جب تک پہلے اس قوم نے تلوار نہ اٹھائی۔ سو اِس وقت دین کی حمایت میں تلوار اٹھانا نہ صرف بے انصافی ہے بلکہ اس بات کو ظاہر کرنا ہے کہ ہم تقریر اور تحریر کے ساتھ اور دلائل شافیہ کے ساتھ دشمن کو ملزم کرنے میں کمزور ہیں۔ کیونکہ یہ جھوٹوں اور کمزوروںکا کام ہے کہ جب جواب دینے سے عاجز آ جائیں تو لڑنا شروع کر دیں۔ پس اس وقت ایسی لڑائی سے خدا تعالیٰ کے سچے اور روشن دین کو بدنام کرنا ہے۔ دیکھو کس طرح ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم مکّہ میں تیرہ برس تک کفّار کے ہاتھ سے دُکھ اُٹھاتے رہے اور دلائل شافیہ سے اُن کو لاجواب کرتے رہے اور ہرگز تلوار نہ اٹھائی جب تک دشمنوں نے تلوار اٹھا کر بہت سے پاک لوگوں کوشہید نہ کیا۔ سو جنگ لِسَانی کے مقابل پر جنگ سِنَانی شروع کر دینا اسلام کا کام نہیں ہے کمزوروں اورکم حوصلہ لوگوںکاکام ہے۔‘‘

(ایام الصلح روحانی خزائن جلد14صفحہ283)

پس حضرت بانی جماعت احمدیہ نے جہاد بالسیف کو منسوخ قرار نہیں دیا بلکہ آنحضرتؐ کی پیشگوئی کے مطابق اس کی شرائط موجود نہ ہونے کی وجہ سے اس کے عارضی التوا کا اعلان فرمایا۔ اور یہ بھی بیان فرمایاکہ اگر جہاد بالسیف کی شرائط موجود ہوں تو پھر یہ جہاد بھی ضروری ہے۔ آپ نے واضح فرمایا

’’ہمیں یہ بھی حکم ہے کہ دشمن جس طرح ہمارے خلاف تیاری کرتا ہے ہم بھی اس کے خلاف اسی طرح تیاری کریں‘‘

(حقیقۃ المہدی۔ روحانی خزائن جلد14۔ صفحہ454)

نیز یہ قرآنی اصول بیان فرمایا کہ

’’اگر دشمن باز نہ آئیں تو تمام مومنوں پر واجب ہے کہ ان سے جنگ کریں‘‘

 (نور الحق حصہ اول۔ روحانی خزائن جلد8۔ صفحہ62)

حضرت بانی جماعت احمدیہ نے جہاد بالسیف کو کیوں ملتوی کیا؟

حضرت بانی جماعت احمدیہ نے جہاد کے التوا کا اعلان اپنی طرف سے ہر گز نہیں فرمایا بلکہ آنحضرت ؐ نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ مسیح موعود اور امام مہدی کے زمانہ میں مذہبی جنگوں کا التوا ہو جائے گا۔ چنانچہ فرمایا:۔
‘یَضَعُ الْحَرْبَ” (وہ جنگ کو موقوف کر دے گا)

                                                                                        (بخاری کتاب الانبیاء باب نزول عیسیٰ بن مریم)

اسی طرح فرمایا
اس کے زمانہ میں جنگ اپنے ہتھیار رکھ دے گی۔

                                          (الدر المنثور فی التفسیر بالماثور از امام جلال الدین سیوطی۔ دارالمعرفۃ بیروت لبنان)

ان پیشگوئیوں میں یہ اشارہ تھا کہ مسیح موعود کے زمانہ میں اس جہاد کی شرائط موجود نہیں ہوں گی۔ چنانچہ حضرت بانی جماعت احمدیہ نے جو مسیح اور مہدی ہونے کے مدعی تھے آنحضرت ؐ کی پیشگوئی کے عین مطابق قتال کی شرائط موجود نہ ہونے کی وجہ سے اس کے عارضی التوا کا اعلان فرمایا۔ آپ نے لکھا:۔

اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال

دیں کےلئے حرام ہے اب جنگ اور قتال

کیوں بھولتے ہو تم یضع الحرب کی خبر

کیا یہ نہیں بخاری میں دیکھو تو کھول کر

فرما چکا ہے سید کونین مصطفیٰ

عیسیٰ مسیح جنگوں کا کر دے گا التوا

یہ حکم سن کے بھی جو لڑائی کو جائے گا

وہ کافروں سے سخت ہزیمت اٹھائے گا

اک معجزہ کے طور سے یہ پیشگوئی ہے

کافی ہے سوچنے کو اگر اہل کوئی ہے

 

(تحفہ گولڑویہ۔ رخ جلد 17ص77-78)

جہاد کی حقیقت

جب ہم لفظ’’ جہاد‘‘ کے معنی جاننے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ یہ لفظ لغت اور قرآن و حدیث کے اعتبار سے نہایت وسیع مطالب پر مشتمل ہے ۔

جہاد کے لغوی معنی:۔

جہاد۔ جہد سے مشتق ہے اور جہد کے معانی ہیں مشقت برداشت کرنا اور جہاد کے معنی ہیں کسی کام کے کرنے میں پوری طرح کوشش کرنا اور کسی قسم کی کمی نہ کرنا۔

(تاج العروس)

مولاناسید سلیمان ندوی صاحب لکھتے ہیں:۔
”جہاد کے معنی عموماً قتال اور لڑائی کے سمجھے جاتے ہیں۔ مگر مفہوم کی یہ تنگی قطعاً غلط ہے لغت میں اس کے معنی محنت اور کوشش کے ہیں”

(سیرۃ النبی جلد5صفحہ 210 طبع اول۔ دارالاشاعت کراچی نمبر1)

جہاد کی اقسام

قرآن اور حدیث سے جہاد کی چار بڑی اقسام ثابت ہوتی ہیں۔
1۔  نفس اور شیطان کے خلاف جہاد  2 ۔ جہاد بالقرآن یعنی دعوت و تبلیغ   3۔جہاد بالمال 4 ۔ جہاد بالسیف (دفاعی جنگ)

نفس اور شیطان کے خلاف جہاد

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ۔

وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا

 (العنکبوت:70)

ترجمہ:۔ اور وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں ہم ان کو ضرور اپنے رستوں کی طرف آنے کی توفیق بخشتے ہیں۔
آنحضرت ؐ نے ایک غزوہ سے واپسی کے موقع پر فرمایا۔
”تم جہاد اصغر یعنی چھوٹے جہاد سے لوٹ کر جہاد اکبر یعنی بڑے جہاد کی طرف آئے ہو (اور جہاد اکبر) بندہ کا اپنی خواہشات کے خلاف جہاد ہے”۔

         (کنز العمال۔ کتاب الجہاد فی الجہاد الاکبر من الاعمال جلد4حدیث11260۔ مطبوعہ مکتبہ التراث الاسلامي حلب)

 

نفس کے خلاف جہاد اور جماعت احمدیہ

جماعت احمدیہ کے افراد اس جہادمیں بھر پور حصہ لے رہے ہیں اور دوسرے لوگوں سے آگے ہیں۔ جس کا اعتراف غیر بھی کرتے ہیں۔
١۔شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال لکھتے ہیں:۔
”پنجاب میں (دینی) سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ اس جماعت کی شکل میں ظاہر ہوا”

(زندہ رود۔ صفحہ٥٧٦از ڈاکٹر جاوید اقبال)

٢۔ مقبول الرحیم مفتی روزنامہ مشرق میں لکھتے ہیں:۔
”جماعت احمدیہ کے اندر اہل، باصلاحیت اور محنتی افراد ہونے کا ایک سبب بلکہ اہم ترین سبب یہ ہے کہ انہوں نے پچھلی ایک صدی کے دوران ہر سطح پر ہر قسم کے جھگڑوں اور اختلافات سے کنارہ کشی کا راستہ اختیار کر کے اپنی جماعت اور جماعت کے افراد کی اصلاح و فلاح کے لئے منصوبہ بندی کے ساتھ کوشش و محنت کی ہے”۔

(روزنامہ مشرق۔ احمدی مسلم کشمکش کا حل مخاصمت یا مکالمہ از مقبول الرحیم مفتی 24 فروری1994ء)

٣۔ شیخ محمد اکرم صاحب ایم اے لکھتے ہیں:۔
”ان (مسلمانوں۔۔۔۔۔۔ ناقل) کے مقابلے میں احمدیہ جماعت میں غیرمعمولی مستعدی، جوش، خود اعتمادی اور باقاعدگی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ تمام دنیا کے روحانی امراض کاعلاج ان کے پاس ہے”۔

(موج کوثر۔ صفحہ192)

جہاد بالقرآن

اس جہاد سے مراد یہ ہے کہ اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ دوسروں کی بھی فکر کی جائے نیز توحید کے قیام کے لئے بھر پور کوشش کی جائے اور قرآنی تعلیم کی نشر و اشاعت کی جائے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

فَلاَ تُطِعِ الْکَافِرِیْنَ وَ جَاھِدْھُمْ بِہٖ جِہَادًا کَبِیْرًا (الفرقان:53)

ترجمہ:۔ پس تو کافروں کی بات نہ مان اور اس (یعنی قرآن کریم) کے ذریعہ سے ان سے جہاد کر۔

جہاد بالقرآن اور جماعت احمدیہ

جماعت احمدیہ اس جہاد میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔
1۔        مولانا ظفر علی خان ایڈیٹر اخبار زمیندار لاہور نے لکھا:۔
”گھر بیٹھ کر احمدیوں کو برا بھلا کہہ لینا نہایت آسان ہے لیکن اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ یہی ایک جماعت ہے جس نے اپنے مبلغین انگلستان میں اور دیگر یورپین ممالک میں بھیج رکھے ہیں”

(اخبار زمیندار لاہور دسمبر 1926ء)

2۔         حکیم عبد الرحیم صاحب اشرف مدیر رسالہ المنیر لائلپور لکھتے ہیں:۔
”قادیانیت میں نفع رسانی کے جو جوہر موجود ہیں ان میں اولین اہمیت اس جدو جہد کو حاصل ہے جو اسلام کے نام پر وہ غیر مسلم ممالک میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ قرآن مجید کو غیر ملکی زبانوں میں پیش کرتے ہیں تثلیث کو باطل ثابت کرتے ہیں۔ سید المرسلین کی سیرت طیبہ کو پیش کرتے ہیں ان ممالک میں مسجدیں بنواتے ہیں اور جہاں کہیں ممکن ہواسلام کو امن و سلامتی کے مذہب کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں”

(ہفت روزہ المنیر لائل پور۔ صفحہ10۔ 2 مارچ1956ء)

3۔         قاضی محمد اسلم صاحب سیف فیروز پوری بعنوان ”دینی جماعتوں کے لئے لمحہ فکریہ” لکھتے ہیں:
”قادیانیوں کا بجٹ کروڑوں روپوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ تبلیغ کے نام پر دنیا بھر میں وہ اپنے جال پھیلا چکے ہیں ان کے مبلغین دور دراز ملکوں کی خاک چھان رہے ہیں۔ بیوی ، بچوں اور گھر بار سے دور قوت لایموت پر قانع ہو کر افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤوں میں یورپ کے ٹھنڈے سبزہ زاروں میں، آسٹریلیا، کینیڈا اور امریکہ میں قادیانیت کی تبلیغ کے لئے مارے مارے پھرتے ہیں”

            (ہفت روزہ اہلحدیث لاہور 11 ستمبر1992ء۔ صفحہ 11۔12)

4۔         جناب عبد الحق صاحب بھریا روڈ سندھ اپنے مضمون ”علمائے اسلام سے گذارش” میں لکھتے ہیں:۔
”قادیانی ٹیلیویژن پاکستان کے گھر گھر میں داخل ہو چکا ہے قرآن مجید کی تلاوت و تفسیر، درس احادیث، حمد و نعت اور تمام قوموں کے قادیانیوں خصوصا عربوں کو بار بار پیش کر کے قادیانی ہماری نوجوان نسل کے ذہن پر بری طرح چھا رہے ہیں”۔

(ہفت روزہ الاعتصام 24جنوری1997ء۔ جلد49۔ شمارہ نمبر4۔ صفحہ17)

5۔         مولوی منظور احمد صاحب چنیوٹی نے ایک انٹرویو میں کہا:۔
”روسی زبان میں قادیانی جماعت نے قرآن کریم کا ترجمہ کروا کر پورے روس میں تقسیم کیا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کم از کم سو زبانوں میں قادیانیوں نے تراجم شائع کروائے ہیں جو پوری دنیا میں تقسیم کئے جاتے ہیں۔”

(ہفت روزہ وجود کراچی۔ جلد نمبر 2۔ شمارہ 47۔22 تا28 نومبر2000ء ۔ صفحہ 31)

جہاد بالمال

اللہ تعالیٰ کی راہ میں دین کی اشاعت کے لئے مال خرچ کرنے کو بھی جہاد سے تعبیر کیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں اس جہاد کا حکم ان الفاظ میں آیا ہے

وَ جَاھِدُوْا بِاَمْوَالِکُمْ وَ اَنْفُسِکُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ (التوبہ:41)

ترجمہ:۔ اور اپنے اموال اور جانوں کے ذریعہ اللہ کے راستہ میں جہاد کرو۔

جہاد بالمال اور جماعت احمدیہ

اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ اس جہاد میں بھی ایک بے مثال اور ممتاز مقام رکھتی ہے۔
1۔   عبد الرحیم اشرف صاحب مدیر المنیر فیصل آباد نے لکھا:۔
”ان (جماعت احمدیہ) کے بعض دوسرے ممالک کی جماعتوں اور افراد نے کروڑوں روپوں کی جائیدادیں صدر انجمن احمدیہ ربوہ اور صدر انجمن احمدیہ قادیان کے نام وقف کر رکھی ہیں”

(ہفت روزہ المنیر2مارچ1956ء۔ صفحہ10)

2۔   مولوی منظور احمد چنیوٹی صاحب نے ایک انٹرویو میں کہا:۔
”ہر قادیانی اپنی آمدنی کا دسواں حصہ اپنے مذہب کی ترویج و اشاعت کے لئے قادیانی جماعت کو دیتا ہے، ہزاروں افراد اپنی جائیداد کے دسویں حصہ کے لئے وصیت کر چکے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 5لاکھ روپے فی گھنٹہ کے حساب سے قادیانی جماعت نے T.V لیا ہوا ہے۔ 24گھنٹے T.V چینل چلتا ہے ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں”۔

( ہفت روزہ وجود کراچی۔ جلد2۔ 22 تا28 نومبر2000ء۔ شمارہ47۔ صفحہ31)

3۔   مسلک اہل حدیث کا ترجمان ہفت روزہ الاعتصام لکھتا ہے:۔
”ایک تجزےے کے مطابق دنیا میں موجود ہر قادیانی اپنی ماہوار آمدنی کا دس فیصد رضاکارانہ طور پر اپنے مذہب کی تبلیغ پر صرف کرتا ہے۔ کسی ہنگامی ضرورت پر خرچ کرنا اس کے علاوہ ہے انہی ماہانہ فنڈز کی بدولت اس وقت ایک مستقل T.V اور ریڈیو اسٹیشن قائم کیا جاچکا ہے جس سے چوبیس گھنٹے قادیانیت کا تبلیغی مشن جاری رہتا ہے”۔

(اداریہ از حافظ عبد الوحید۔ الاعتصام 11 فروری 2000ء۔ جلد52۔ شمارہ 5۔ صفحہ4)

جہاد بالسیف یا دفاعی جنگ

جہاد کی چوتھی قسم دفاعی جنگ یا جہاد بالسیف ہے یعنی جب دشمن دینی اقدار کو ختم کرنے اور دین کو تباہ و برباد کرنے کے لئے دین پر حملہ آور ہو تو اس وقت دفاعی جنگ کرنے کو جہاد بالسیف کہتے ہیں۔ جیسا کہ ذکر ہوچکا ہے کہ نبی کریم ؐ نے اسے جہاد اصغر قرار دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:۔

اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰـتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا وَ اِنَّ اللہَ عَلٰی نَصْرِھِمْ لَقَدِیْرُ ـ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ اِلاَّ ۤاَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللہُ

(الحج:40۔41)

 یعنی وہ لوگ جن سے (بلاوجہ) جنگ کی جارہی ہے ان کو بھی (جنگ کرنے کی) اجازت دی جاتی ہے۔ کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا ہے اور اللہ ان کی مدد پر قادر ہے (یہ وہ لوگ ہیں) جن کو ان کے گھروں سے صرف ان کے اتنا کہنے پر کہ اللہ ہمارا رب ہے بغیر کسی جائز وجہ کے نکالا گیا۔
علماء نے دفاعی جنگ کی بعض شرائط بیان کی ہیں جن کی موجودگی کے بغیر یہ جہاد جائز نہیں۔

چنانچہ سید نذیر حسین صاحب دہلوی لکھتے ہیں:۔
”جہاد کی کئی شرطیں ہیں جب تک وہ نہ پائی جائیں جہاد نہ ہوگا”

(فتاویٰ نذیریہ جلد3کتاب الامارۃ والجہاد صفحہ282۔ناشر اہل حدیث اکادمی کشمیری بازار لاہور)

مولانا ظفر علی خان صاحب ایڈیٹر اخبار زمیندار لاہور نے درج ذیل شرائط کا ذکر کیا ہے:۔
”1۔ امارت   2۔ اسلامی نظام حکومت   3۔ دشمنوں کی پیش قدمی و ابتدا”

(اخبار زمیندار 14جون 1934ء)

خواجہ حسن نظامی نے جہاد کے لئے (1)۔ کفار کی مذہب میں مداخلت (2)۔امام عادل
(3)۔ حرب و ضرب کے سامان کے ہونے کا ذکر کیا ہے۔ (رسالہ شیخ سنوسی)

مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے لکھا کہ :۔
(1)۔مسلمانوں میں امام و خلیفہ وقت موجود ہو (2)۔ مسلمانوں میں ایسی جمیعت حاصل جماعت موجود ہو جس میں ان کو کسر شوکت اسلام کا خوف نہ ہو۔

(الاقتصاد فی مسائل الجہاد از مولوی محمد حسین بٹالوی صفحہ51۔52۔مطبع وکٹوریہ پریس)

خلاصہ یہ کہ علماء کے نزدیک جہاد بالسیف کے لئے پانچ شرائط کا پورا ہونا لازمی ہے اور ان میں سے کسی ایک کے بھی نہ ہونے سے دینی قتال نہیں ہوسکتا اوروہ شرائط یہ ہیں کہ

(1)۔امام وقت کا ہونا (2)۔اسلامی نظام حکومت (3)۔ ہتھیار و نفری جو مقابلہ کے لئے ضروری ہو (4)۔ کوئی ملک یا قطعہ ہو(5)۔دشمن کی پیش قدمی اور ابتداء۔

ہندوستان میں جہاد بالسیف اور علماء زمانہ

1۔         اہل حدیث کے مشہور عالم و راہنما سید نذیر حسین صاحب دہلوی لکھتے ہیں
”جبکہ شرط جہاد کی اس دیار میں معدوم ہوئی تو جہاد کرنا یہاں سبب ہلاکت و معصیت ہوگا”

(فتاویٰ نذیریہ جلد3کتاب الامارۃ والجہاد صفحہ285۔ناشر اہل حدیث اکادمی کشمیری بازار لاہور)

2۔         مولوی محمد حسین بٹالوی لکھتے ہیں
”اس زمانہ میں بھی شرعی جہاد کی کوئی صورت نہیں ہے کیونکہ اس وقت نہ کوئی مسلمانوں کا امام موصوف بصفات و شرایط امامت موجود ہے اور نہ ان کو ایسی شوکت و جمیعت حاصل ہے جس سے وہ اپنے مخالفوں پر فتح یاب ہونے کی امید کرسکیں”

(الاقتصاد فی مسائل الجہاد از مولوی محمد حسین بٹالوی صفحہ72۔مطبع وکٹوریہ پریس)

3۔         حضرت سید محمد اسماعیل صاحب شہیدسے ایک شخص نے انگریزوں سے جہاد کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا:۔
”ایسی بے رو ریا اور غیر متعصب سرکار پر کسی طرح بھی جہاد کرنا درست نہیں ہے اس وقت پنجاب کے سکھوں کا ظلم اس حد کو پہنچ گیا ہے کہ ان پر جہاد کیا جائے”

(سوانح احمدی۔ صفحہ57۔ مرتبہ محمد جعفر تھانیسری صوفی پرنٹنگ اینڈ پبلشنگ کمپنی لمیٹڈ اسلامیہ سٹیم پریس لاہور)

4۔         خواجہ حسن نظامی صاحب لکھتے ہیں:۔
”انگریز نہ ہمارے مذہبی امور میں دخل دیتے ہیں نہ اور کسی کام میں ایسی زیادتی کرتے ہیں جس کو ظلم سے تعبیر کر سکیں۔ نہ ہمارے پاس سامانِ حرب ہے ایسی صورت میں ہم لوگ ہر گز ہر گز کسی کا کہنا نہ مانیں گے اور اپنی جانوں کو ہلاکت میں نہ ڈالیں گے،،

(رسالہ شیخ سنوسی۔ صفحہ17)

5۔         مفتیان مکہ کے فتاویٰ کے بارہ میں شورش کاشمیری مدیر چٹان لکھتے ہیں
”جمال دین ابن عبد اللہ، شیخ عمر، حنفی مفتی مکہ معظمہ، احمد بن ذنبی شافعی مفتی مکہ معظمہ اور حسین بن ابراہیم مالکی مفتی مکہ معظمہ سے اس مطلب کے فتوے حاصل کئے گئے کہ ہندوستان دارالسلام ہے”

(کتاب سید عطاء اللہ شاہ بخاری مؤلفہ شورش کاشمیری۔ صفحہ141۔ مطبع چٹان پرنٹنگ پریس۔ 1973ء)

6۔         سرسید احمد خان صاحب لکھتے ہیں:۔
”مسلمان ہمارے گورنمنٹ کے مست امن تھے کسی طرح گورنمنٹ کی عملداری میں جہاد نہیں کر سکتے تھے”

(اسباب بغاوت ہند مؤلفہ سرسید احمد خان صفحہ31۔ سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور)

جہاد بالسیف اور جماعت احمدیہ

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاں جہاد بالسیف کے التوا کا اعلان فرمایا وہاں یہ بھی فرمایا کہ جب اس جہاد کی شرائط موجود ہوں گی تو یہ جہاد بھی ہوگا۔ چنانچہ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد جب حالات تبدیل ہوئے تو جماعت احمدیہ کے دوسرے امام حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدنے فرمایا:۔
١۔”ایک زمانہ ایسا تھا کہ غیر قوم ہم پر حاکم تھی۔ اور وہ غیر قوم امن پسند تھی۔ مذہبی معاملات میں وہ کسی قسم کا دخل نہیں دیتی تھی اس کے متعلق شریعت کا حکم یہی تھا کہ اس کے ساتھ جہاد جائز نہیں”
٢۔”اب حالات بالکل مختلف ہیں اب اگر پاکستان سے کسی ملک کی لڑائی ہو گئی تو حکومت کے ساتھ (تائید میں) ہوکر ہمیں لڑنا پڑے گا اور حکومت کی تائید میں ہمیں جنگ کرنی پڑے گی”
٣۔”جیسے نماز پڑھنافرض ہے اسی طرح دین کی خاطر ضرورت پیش آنے پر لڑائی کرنا بھی فرض ہے”
٤۔”جن امور کو(دین حق)نے ایمان کا اہم ترین حصہ قرار دیا ہے ان میں سے ایک جہاد بھی ہے بلکہ یہاں تک فرمایا کہ جو شخص جہاد کے موقع پر پیٹھ دکھاتا ہے وہ جہنمی ہوجاتا ہے”
٥ ”جب کبھی جہاد کا موقع آئے تو ۔۔۔۔۔۔ اس میدان میں بھی ہم سب سے بہتر نمونہ دکھانے والے ہوں”

                                                                              (رپورٹ مجلس مشاورت 1950ء۔ صفحہ9۔12۔14)

پاکستان کے ہر مشکل وقت میں احمدی مجاہدین نے شاندار کارہائے نمایاں سرانجام دئیے ۔ نمونۃً ملاحظہ ہوں

1۔         جماعت احمدیہ کے دوسرے امام اور صدر کشمیر کمیٹی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے مولانا سید حبیب صاحب مدیر ”سیاست” لاہور نے لکھا :۔
”میں ببانگ دہل کہتا ہوں کہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب صدر کشمیر کمیٹی نے تندہی محنت، ہمت ،جانفشانی اور بڑے جوش سے کام کیا ہے اور اپنا روپیہ بھی خرچ کیا اور اس کی وجہ سے میں انکی عزت کرتا ہوں”

 (تحریک قادیان۔ صفحہ42۔ مطبع مقبول عام پریس لاہور)

2۔        قیام پاکستان کے معاً بعد کشمیر میں ہونے والی لڑائی میں احمدی مجاہدین نے ”فرقان بٹالین” کی صورت میں بھر پور حصہ لیا۔
چنانچہ گلزار احمد صاحب فدا ؔایڈیٹر اخبار جہاد سیالکوٹ نے١٦جون ١٩٥٠ء میں لکھا :۔
”فرقان بٹالین نے مجاہدین کشمیر کے شانہ بشانہ ڈوگرہ فوجوں سے جنگ کی اور اسلامیان کشمیر کے اختیار کردہ مؤقف کو مضبوط بنایا”

(اخبار جہاد سیالکوٹ۔ 16جون 1950ء)

3۔        میجر جنرل اختر حسین ملک صاحب:۔ ان کے متعلق 1965ء کی جنگ میں شاندار خدمات پر ہفت روزہ الفتح کراچی اپنے کالم مااحوال واقعی میں لکھتا ہے:۔
”1965ء کی جنگ میں انہوں نے انتہائی دانشمندی، اعلیٰ ماہرانہ صلاحیتوں اور بہادری سے کام لیتے ہوئے دشمن کے چھکے چھوڑا دئے ۔۔۔۔۔۔ فوجی ماہرین کا کہنا ہے اگر کمان اختر ملک کے پاس رہتی تو کشمیر فتح ہوگیا تھا”

( ہفت روزہ الفتح کراچی۔ 13تا 20 فروری 1976ء۔ صفحہ8)

4۔        میجر جنرل افتخار جنجوعہ شہید:۔ آپ نے1965ء میں رن کچھ میں اور 1971ء کی جنگ میں چھمب کے محاذ پر زبردست کارہائے نمایاں سرانجام دئیے۔ چھمب افتخار آباد کے نام سے موسوم ہوکر آج بھی آپ کی یاد تازہ کر رہا ہے۔
5۔        برگیڈئیرعبد العلی ملک ہلال جرأت: 1965؁ء کی جنگ میں چونڈہ کے محاذ پر ٹینکوں کی عظیم جنگ میں پاکستانی فوج کی کمان کی اور ایسے کارنامے سرانجام دئیے کہ تاریخ حرب کے ماہرین حیران و ششدر رہ گئے۔

 (امروز لاہور۔ 23 اگست 1969ء)

پس جماعت احمدیہ کسی بھی جہاد کے میدان میں نہ صرف پیچھے نہیں بلکہ اتنی آگے ہے کہ کوئی دوسرا اس کی دھول کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔ خواہ وہ اصلاح نفس کا جہاد ہو یا دعوت قرآن کا۔ وہ مالی جہاد ہو یا جہاد بالسیف۔ ہر میدان میں اس جماعت نے کامیابیوں کے وہ جھنڈے نصب کئے ہیں کہ دشمن بھی اس کے معترف ہیں۔

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

حضرت بانی جماعت احمدیہ کی دعوت مقابلہ تفسیر نویسی اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کی اصل واقعاتی حقیقت

قارئین کرام!آجکل سوشل میڈیا پر احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیزمنفی مہم میں الزام تراشیوں کا ا…