فرشتوں کے بارہ میں حضرت مسیح موعودؑ کے ایک عقیدہ پر اعتراض کا جواب
حضرت مسیح موعودؑ کی مندرجہ ذیل تحریر پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ آپؑ نے فرشتوں کے وجود سے انکار کیا ہے ۔’’جو کچھ ہم نے روح القدس اور روح الامین وغیرہ کی تعبیر کی ہے یہ درحقیقت ان عقائد سے جو اہل اسلام ملائک کی نسبت رکھتے ہیں منافی نہیں ہے کیوں کہ محققین اہل اسلام ہر گز اس بات کے قائل نہیں کہ ملا ئک اپنے شخصی وجود کے ساتھ انسانوں کی طرح پیروں سے چل کر زمین پر اتر تے ہیں اور یہ خیال ببداہت باطل بھی ہے۔‘‘(توضیح مرام۔ روحانی خزائن جلد 3ص66)
فرشتوں کے بارہ میں عقیدہ کی تشریح حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے اپنے الفاظ میں
اس حوالہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے محض ملائکہ سے متعلق مسلمانوں کے غلط عقیدہ کا رد فرمایا ہے نہ کہ ملائکہ کے وجود سے ہی انکار کیا ہے ۔ آپؑ حکم و عدل ہونے کے ناطے اس بات پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور تھے کہ اسلام میں راہ پا جانے والے غلط عقائد کا خاتمہ کریں ۔
معترضہ حوالہ کی تشریح حضور علیہ السلام کے اپنے الفاظ میں
حضرت مسیح موعودؑ فرشتوں کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’ کیوں کہ اگر یہی ضرور ہوتا کہ ملائک اپنی اپنی خدمات کی بجاآوری کے لئے اپنے اصل وجود کے ساتھ زمین پر اُترا کرتے تو پھر ان سے کوئی کام انجام پذیر ہونا بغایت درجہ محال تھا۔ مثلاً فرشتہ ملک الموت جو ایک سیکنڈ میں ہزار ہا ایسے لوگوں کی جانیں نکالتاہے جو مختلف بلادو امصار میں ایک دوسرے سے ہزاروں کوسوں کے فاصلہ پر رہتے ہیں۔ اگر ہر یک کے لئے اس بات کا محتاج ہو کر اول پیروں سے چل کر اس کے ملک اور شہر اور گھر میں جاوے اور پھر اتنی مشقت کے بعد جان نکالنے کا اس کو موقع ملے تو ایک سیکنڈ کیا اتنی بڑی کارگزاری کے لئے تو کئی مہینے کی مہلت بھی کافی نہیں ہو سکتی کیا یہ ممکن ہے کہ ایک شخص انسانوں کی طرح حرکت کرکے ایک طُرفۃ العَین کے یا اس کے کم عرصہ میں تمام جہان گھوم کر چلا آوے ہرگز نہیں بلکہ فرشتے اپنے اصلی مقامات سے جو ان کے لئے خدائے تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہیں ایک ذرہ کے برابر بھی آگے پیچھے نہیں ہوتے جیسا کہ خدائے تعالیٰ ان کی طرف سے قرآن شریف میں فرماتا ہے وَمَا مِنَّاۤ اِلَّا لَهٗ مَقَامٌ مَّعْلُوْمٌۙ وَّاِنَّا لَـنَحْنُ الصَّآفُّوْنَۚ(سورۃ صافات :165) (ترجمہ :اور فرشتے کہیں گےکہ ہم میں سے ہر ایک کے لئے ایک معلوم مقام مقرر ہے ۔ ناقل)پس اصل بات یہ ہے کہ جس طرح آفتاب اپنے مقام پر ہے اور اُس کی گرمی و روشنی زمین پر پھیل کر اپنے خواص کے موافق زمین کی ہریک چیز کو فائدہ پہنچاتی ہے اسی طرح روحانیات سماویہ خواہ اُن کو یونانیوں کے خیال کے موافق نفوس فلکیہ کہیں یا دساتیر اور وید کی اصطلاحات کے موافق ارواحِ کواکب سے اُن کو نامزد کریں یا نہایت سیدھے اور موحّدانہ طریق سے ملائک اللہ کا انکو لقب دیں درحقیقت یہ عجیب مخلوقات اپنے اپنے مقام میں مستقر اور قرار گیر ہے اور بہ حکمت کاملہ خداوند تعالیٰ زمین کی ہریک مستعد چیز کو اس کے کمال مطلوب تک پہنچانے کے لئے یہ روحانیات خدمت میں لگی ہوئی ہیں ظاہری خدمات بھی بجا لاتے ہیں اور باطنی بھی۔ جیسے ہمارے اجسام اور ہماری تمام ظاہری قوتوں پر آفتاب اور ماہتاب اور دیگر سیاروں کا اثر ہے ایسا ہی ہمارے دل اور دماغ اور ہماری تمام روحانی قوتوں پر یہ سب ملائک ہماری مختلف استعدادوں کے موافق اپنا اپنا اثر ڈال رہے ہیں۔ جو چیز کسی عمدہ جوہر بننے کی اپنے اندر قابلیت رکھتی ہے وہ اگرچہ خاک کا ایک ٹکڑہ ہے یا پانی کا وہ قطرہ جو صدف میں داخل ہوتا ہے یا پانی کا وہ قطرہ جو رحم میں پڑتا ہے وہ ان ملائک اللہ کی روحانی تربیت سے لعل اور الماس اور یاقوت اور نیلم وغیرہ یا نہایت درجہ کا آبدار اور وزنی موتی یا اعلیٰ درجہ کے دل اور دماغ کا انسان بن جاتا ہے۔ ‘‘
(توضیح مرام۔ روحانی خزائن جلد 3ص67-68)
حضرت بانی جماعت احمدیہ کی دعوت مقابلہ تفسیر نویسی اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کی اصل واقعاتی حقیقت
قارئین کرام!آجکل سوشل میڈیا پر احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیزمنفی مہم میں الزام تراشیوں کا ا…