اعتراض: مرزا صاحب نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی توہین کی ہے
حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر الزام لگایا جاتا ہے کہ آپ ؑ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی توہین کی۔
مقام کے فرق کا اظہار ہے ۔ اس میں کوئی توہین نہیں
معترضہ عبارت:۔
’’میں وہی مہدی ہوں جس کی نسبت ابن سیرین سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ حضرت ابو بکر ؓ کے درجہ پر ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ ابو بکر ؓ کیا،وہ تو بعض انبیاء سے بہتر ہے۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلد 3ص278)
جواب:۔ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں :۔
اَبُوْبَکْرٍ خَیْرُالنَّاسِ اِلَّا اَنْ یَّکُوْنَ نَبِیٌّ
(کنزالعمال جلد نمبر11۔حدیث32548۔مطبوعہ مکتبۃ الترا ث اسلامی۔حلب)
ترجمہ:۔ حضرت ابوبکرؓ سب انسانوں سے بہتر ہیں سوائے اس کے کہ آئیندہ کوئی نبی پیدا ہو ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ نبوت کا ہے ۔پھر چاہے وہ بروزی ہی ہو، نبوت کا مقام صدیقیت کے مقام سے بہر حال افضل ہے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ آئندہ آنے والے امام مہدی کوآنحضرت ﷺ نے احادیث میں نبی اللہ کے نام سے یاد کیا ہے ۔ (مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال وصفتہ ) بہرحال ایک نبی غیر نبی سے افضل ہوتا ہے ۔
جہاں تک مندرجہ بالا حوالہ کا تعلق ہے توایک عقل سلیم رکھنے والا شخص آسانی سے یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ یہاں حضرت مسیح موعود ؑ خود نہیں بلکہ ابن سیرین کے حوالے سے یہ بات پیش کر رہے ہیں ۔
چنانچہ ابن سیرینؒ کا حوالہ پیش خدمت ہے۔
’’وَ عَنْ مُحَمَّدِبْنِ سِیْرِیْنَ قِیْلَ لَہُ الْمَھْدِی خَیْرٌ اَوْ اَبُوْبَکْرٍ وَ عُمَرُ؟ قَالَ: ھُوَ خَیْرٌ مِّنْھُمَا وَ یَعْدِلْ بِنَبِیٍّ۔
وَ فِیْ رِوَایَۃٍ عَنْہُ اَنَّہُ ذَکَرَ فِتْنًا تَکُوْنُ۔ فَقَالَ اِذَا کَانَ ذٰلِکَ فَاَجْلِسُوْا فِیْ بُیُوْتِکُمْ۔ حَتَّی تَسْمَعُوْا عَلَی النَّاسِ بَخَیْرٍ مِنْ اَبِیْ بَکْرٍ وَعُمَرَ۔ قِیْلَ یَا اَبَا بَکْرٍ۔ خَیْرٌ مِنْ اَبِیْ بَکْرٍ وَعُمَرَ قَالَ: قَدْ کَانَ یَفْضُلُ عَلٰی بَعْضِ الْاَنْبِیَاءِ علیھم السلام۔ اخرجھما الحافظ ابو عبد اللہ نعیم بن حماد فی کتاب الفتن۔ ‘‘
(عقد الدررفی اخبار المنتظر صفحہ222از علامہ یوسف بن یحيٰ بن علی بن عبدالعزیز)
ترجمہ :۔حضرت محمد بن سیرین ؒ سے روایت ہے کہ ان سے پوچھا گیا کہ مہدی کا مقام زیادہ ہو گیا یا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما کا؟ انہوں نے کہا مہدی ان دونوں سے افضل ہونگے اور نبی کے درجہ پر ہونگے ۔ ایک دوسری روایت میں مذکور ہے کہ انہوں نے ذکر کیا کہ ایک فتنہ اٹھے گا ۔ اس وقت تم اپنے گھروں میں ہی رہنا یہاں تک کہ تم ابو بکر و عمر رضی اللہ عنھما سے افضل انسان پا لو۔ ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ابو بکر و عمر رضی اللہ عنھما سے بھی افضل ہو گا؟ انہوں نے جواب دیا کہ وہ تو بعض انبیاء سے درجہ میں افضل ہو گا۔
اب ہم قارئین کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات میں سے چند مثالیں پیش کرتے ہیں جن ان مقدسوں کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عشق اور محبت کھل کر سامنے آجائیں گے۔
’’رسول کریم ﷺ اور شیخین رضی اللہ عنھما کا مقام ‘‘
’’ایک دفعہ ایک دوست نے جو محبت ِ مسیح موعود ؑ میں فنا شدہ تھے ۔ آپ کی خدمت میں عرض کی کہ کیوں نہ ہم آپؑ کو مدارج میں شیخین ؓ سے افضل سمجھا کریں اور رسول کریم ﷺ کے قریب قریب مانیں ؟ اللہ اللہ ! اس بات کو سُنکر حضرت اقدس ؑ کا رنگ اڑ گیا اور آپ کے سراپا پر عجیب اضطراب اور بیتابی مستولی ہو گئی۔ مَیں خدائے غیور و قدوس کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس گھڑی نے میرا ایمان حضور اقدس ؑ کی نسبت اور بھی زیادہ کر دیا۔ آپؑ نے برابر چھ گھنٹے کامل تقریر فرمائی۔ بولتے وقت مَیں نے گھڑی دیکھ لی تھی اور جب آپؑ نے تقریر ختم کی۔ جب بھی دیکھی ۔ پورے چھ ہوئے ۔ ایک منٹ کا فرق بھی نہ تھا۔
اتنی مدت تک ایک مضمون کو بیان کرنا اور مسلسل بیان کرنا ایک خرق ِ عادت تھا۔ اس سارے مضمون میں آپؑ نے رسول ِ کریم علیہ افضل الصّلوۃ والتسلیمات کے محامد و فضائل اور اپنی غلامی اور کفش برداری کی نسبت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اور جناب شیخین علیھم السلام کے فضائل بیان فرمائے اور فرمایا:
’’میرے لئے یہ کافی فخر ہے کہ مَیں ان لوگوں کامدّاح ہوں اور خاکِ پا ہوں ۔ جو جُزئی فضیلت خدا تعالیٰ نے انہیں بخشی ہے ، وہ قیامت تک کوئی اور شخص نہیں پا سکتا۔ کب دوبارہ محمد رسو ل اللہ ﷺ دنیا میں پیدا ہوں اور پھر کسی کو ایسی خدمت کا موقع ملے جو جناب شیخین علیھما السلام کو ملا۔ ‘‘
(ملفوظات جلد اول۔ صفحہ 217)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے بے نظیر صدق کے بارے میں فرماتے ہیں:۔
’’آنحضرت ﷺ نے جو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو صدیق کا خطاب دیا ہے، تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ آپ ؓ میں کیا کیا کمالات تھے۔ آنحضرت ﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضیلت اس چیز کی وجہ سے ہے جو اس کے دل کے اندر ہے اور اگر غور سے دیکھا جائے تو حقیقت میں حضرت ابو بکر ؓ نے جو صدق دکھایا، اس کی نظیر ملنی مشکل ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ ہر زمانہ میں جو شخص صدیق کے کمالات حاصل کرنے کی خواہش کرے اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ ابو بکری خصلت اور فطرت کو اپنے اندر پیداکرنے کے لیے جہانتک ممکن ہو مجاہدہ کرے اور پھر حتی المقدوردعا سے کام لے۔ جبتک ابو بکری فطرت کا سایہ اپنے اوپرڈال نہیں لیتا اور اسی رنگ میں رنگین نہیں ہو جاتا۔ صدیقی کمالات حاصل نہیں ہو سکتے۔‘‘
(ملفوظات جلد اول صفحہ247)
مزید فرمایا:۔
’’ابو بکری فطرت کیا ہے؟ اس پر مفصل بحث اور کلام کا یہ موقعہ نہیں، کیونکہ اس کے تفصیلی بیان کے لیے بہت وقت درکار ہے۔ میں مختصرا ایک واقعہ بیان کردیتا ہوں اور وہ یہ کیہ جب آنحضرت ﷺ نے نبوت کا اظہار فرمایا۔ اس وقت حضرت ابو بکر ؓ شام کی طرف سوداگری کرنے کے لیے گئے ہوئے تھے۔ جب واپس آئے، تو ابھی راستہ ہی میں تھے کہ ایک شخص آپ ؓ سے ملا۔ آپ ؓ نے اس سے مکہ کے حالات دریافت فرمائے اور پوچھا کہ کوئی تازہ خبر سناؤ۔ جیسا کہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب انسان سفر سے واپس آتا ہے، تو راستہ میں اگر کوئی اہل وطن مل جائے، تو اس سے اپنے وطن کے حالات دریافت کرتا ہے۔ اس شخص نے جواب دیاکہ نئی بات یہ ہے کہ تیرے دوست محمد ؐ نے پیغمبری کا دعویٰ کیاہے۔ آپ ؓ نے یہ سنتے ہی فرمایا کہ اگر اس نے یہ دعویٰ کیاہے، تو بلا شبہ وہ سچا ہے۔ اسی ایک واقعہ سے معلوم ہو سکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ پر آپ ؓ کو کس قدر حسن ظن تھا۔ معجزے کی بھی ضرورت نہیں سمجھی اور حقیقت بھی یہی ہے کہ معجزہ وہ شخص مانگتا ہے جو مدعی کے حالات سے ناواقف ہو اور جہاں غیریت ہو اور مزید تسلی کی ضرورت ہو، لیکن جس شخص کو حالات سے پوری واقفیت ہو تو اسے معجزہ کی ضرورت ہی کیا ہے۔ الغرض حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ راستہ میں ہی آنحضرت ؐ کا دعویٰ نبوت سن کر ایمان لے آئے۔ پھر جب مکہ میں پہنچے تو آں حضرت ؐ کی خدمت مبارک میں حاضر ہو کر دریافت کیا کہ کیا آپ ؐ نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ہاں یہ درست ہے۔ اس پر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ ؐ گواہ رہیں کہ میں آپ ؐ کا پہلا مصدق ہوں۔ آپ ؓ کا ایسا کہنا محض قول ہی قول نہ تھا، بلکہ آپ ؓ نے اپنے افعال سے اسے ثابت کر دکھایا اور مرتے دم تک اسے نبھایا اور بعد مرنے کے بھی ساتھ نہ چھوڑا۔‘‘
(ملفوظات جلد اول صفحہ247-248)
حضرت بانی جماعت احمدیہ کی دعوت مقابلہ تفسیر نویسی اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کی اصل واقعاتی حقیقت
قارئین کرام!آجکل سوشل میڈیا پر احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیزمنفی مہم میں الزام تراشیوں کا ا…