اعتراض: مرزا صاحب نے ’’وہ مسیح ہرطرح عاجزہی عاجز تھا۔۔۔‘‘ والی تحریر میں حضرت عیسیٰؑ کی توہین کی ہے
حضرت مسیح موعودؑ کی مندرجہ ذیل عبارت پرحضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین کرنے کا اعتراض اٹھایا جاتا ہے : ’’وہ مسیح ہرطرح عاجزہی عاجز تھا۔ مخرج معلوم کی راہ سے جو پلیدی اور ناپاکی کا مبرز ہے، تولدپاکر مدت تک بھوک، پیاس، درد اور بیماری کا دکھ اُٹھاتارہا۔‘‘ (براہین احمدیہ۔رخ۔ ج 1 ص 441,442)
فرضی خدا کی حقیقت بتائی ہے
حضرت مسیح موعودؑ نے عیسائیوں کو ان کے فرضی خدا کا چہرہ ان کی اناجیل سے دکھایا اور اس کے مقابل پر حقیقی اور قادر خدا جو اسلام کا خدا ہے اس کی قدرتوں کا ذکر کیا۔آپ فرماتے ہیں:۔
’’خداوند قادر مطلق اور ازلی اور ابدی پر یہ بہتان باندھا جاوے کہ وہ ہمیشہ اپنی ذات میں کامل اور غنی اور قادر مطلق رہ کر آخرکار ایسے ناقص بیٹے کا محتاج ہوگیا اور اپنے سارے جلال اور بزرگی کو بہ یکبارگی کھو دیا۔ میں ہرگز باور نہیں کرتا کہ کوئی دانا اس ذات کامل کی نسبت کہ جو مستجمع جمیع صفات کاملہ ہے ایسی ایسی ذلتیں جائز رکھے اور ظاہر ہے کہ اگر ابن مریم کے واقعات کو فضول اور بیہودہ تعریفوں سے الگ کرلیا جائے تو انجیلوں سے اس کے واقعی حالات کا یہی خلاصہ نکلتا ہے کہ وہ ایک عاجز اور ضعیف اور ناقص بندہ یعنی جیسے کہ بندے ہوا کرتے ہیں اور حضرت موسیٰ کے ماتحت نبیوں میں سے ایک نبی تھا۔ اور اس بزرگ اور عظیم الشان رسول کا ایک تابع اور پس رو تھا اور خود اس بزرگی کو ہرگز نہیں پہنچا تھا یعنی اس کی تعلیم ایک اعلیٰ تعلیم کی فرع تھی مستقل تعلیم نہ تھی اور وہ خود انجیلوں میں اقرار کرتا ہے کہ میں نہ نیک ہوں اور نہ عالم الغیب ہوں۔ نہ قادر ہوں۔ بلکہ ایک بندہ عاجز ہوں۔ اور انجیل کے بیان سے ظاہر ہے کہ اس نے گرفتار ہونے سے پہلے کئی دفعہ رات کے وقت اپنے بچاؤ کے لئے دعا کی اور چاہتا تھا کہ دعا اس کی قبول ہوجائے مگر اس کی وہ دعا قبول نہ ہوئی اور نیز جیسے عاجز بندے آزمائے جاتے ہیں وہ شیطان سے آزمایا گیا پس اس سے ظاہر ہے کہ وہ ہر طرح عاجز ہی عاجز تھا۔ مخرج معلوم کی راہ سے جو پلیدی اور ناپاکی کا مبرز ہے تولد پاکرمدت تک بھوک اور پیاس اور درد اور بیماری کا دکھ اٹھاتا رہا۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ وہ بھوک کے دکھ سے ایک انجیر کے نیچے گیا مگر چونکہ انجیر پھلوں سے خالی پڑی ہوئی تھی اس لئے محروم رہا اور یہ بھی نہ ہوسکا کہ دو چار انجیریں اپنے کھانے کے لئے پیدا کرلیتا۔ غرض ایک مدت تک ایسی ایسی آلودگیوں میں رہ کر اور ایسے ایسے دکھ اٹھا کر باقرار عیسائیوں کے مرگیا اور اس جہان سے اٹھایا گیا۔ اب ہم پوچھتے ہیں کہ کیا خداوند قادر مطلق کی ذات میں ایسی ہی صفات ناقصہ ہونی چاہئے۔ کیا وہ اسی سے قدوس اور ذوالجلال کہلاتا ہے کہ وہ ایسے عیبوں اور نقصانوں سے بھرا ہوا ہے اور کیا ممکن ہے کہ ایک ہی ماں یعنی مریم کے پیٹ میں سے پانچ بچے پیدا ہوکر ایک بچہ خدا کا بیٹا بلکہ خدا بن گیا اور چار باقی جو رہے ان بیچاروں کو خدائی سے کچھ بھی حصہ نہ ملا بلکہ قیاس یہ چاہتا تھا کہ جبکہ کسی مخلوق کے پیٹ سے خدا بھی پیدا ہوسکتا ہے یہ نہیں کہ ہمیشہ آدمی سے آدمی اور گدھی سے گدھا پیدا ہو۔ تو جہاں کہیں کسی عورت کے پیٹ سے خدا پیدا ہو تو پھر اس پیٹ سے کوئی مخلوق پیدا نہ ہو بلکہ جس قدر بچے پیدا ہوتے جائیں وہ سب خدا ہی ہوں تا وہ پاک رحم مخلوق کی شرکت سے منزہ رہے اور فقط خداؤں ہی کے پیدا ہونے کی ایک کان ہو۔ پس قیاس متذکرہ بالا کے رو سے لازم تھا کہ حضرت مسیح کے دوسرے بھائی اور بہن بھی کچھ نہ کچھ خدائی میں سے بخرہ پاتے ہیں اور ان پانچوں حضرات کی والدہ تو رب الارباب ہی کہلاتی۔ کیونکہ یہ پانچوں حضرات روحانی اور جسمانی قوتوں میں اسی سے فیض یاب ہیں۔ عیسائیوں نے ابن مریم کی بے جا تعریفوں میں بہت سا افترا بھی کیا۔ مگر پھر بھی اس کے نقصانوں کو چھپا نہ سکے اور اس کی آلودگیوں کا آپ اقرار کرکے پھر خواہ نخواہ اس کو خدائے تعالیٰ کا بیٹا قرار دیا۔ یوں تو عیسائی اور یہودی اپنی عجیب کتابوں کے رو سے سب خدا کے بیٹے ہی ہیں بلکہ ایک آیت کے رو سے آپ ہی خدا ہیں۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ بدھ مت والے اپنے افترا اور اختراع میں ان سے اچھے رہے کیونکہ انہوں نے بدھ کو خدا ٹھہرا کر پھر ہرگز اس کے لئے یہ تجویز نہیں کیا کہ اس نے پلیدی اور ناپاکی کی راہ سے تولد پایا تھا یا کسی قسم کی نجاست کھائی تھی۔ بلکہ ان کا بدھ کی نسبت یہ اعتقاد ہے کہ وہ مونہہ کے راستہ سے پیدا ہوا تھا پر افسوس عیسائیوں نے بہت سی جعلسازیاں تو کیں مگر یہ جعلسازی نہ سوجھی کہ مسیح کو بھی مونہہ کے راستہ سے ہی پیدا کرتے اور اپنے خدا کو پیشاب اور پلیدی سے بچاتے۔ اور نہ یہ سوجھی کہ موت جو حقیقت الوہیت سے بکلی منافی ہے اس پر وارد نہ کرتے۔ اور نہ یہ خیال آیا کہ جہاں مریم کے بیٹے نے انجیلوں میں اقرار کیا ہے کہ میں نہ نیک ہوں اور نہ دانا مطلق ہوں نہ خودبخود آیا ہوں نہ عالم الغیب ہوں نہ قادر ہوں نہ دعا کی قبولیت میرے ہاتھ میں ہے۔ میں صرف ایک عاجز بندہ اور مسکین آدم زاد ہوں کہ جو ایک مالک رب العالمین کا بھیجا ہوا آیا ہوں۔ ان سب مقاموں کو انجیل سے نکال ڈالنا چاہئے۔ ‘‘
(براہینِ احمدیہ ۔روحانی خزائن جلد 1صفحہ -441443)
اناجیل سے حوالہ جات:
(1) اس وقت روحِ پاک سیدنا عیسیٰ کو جنگل میں لے گیا تاکہ ابلیس سے آزمائیں جائیں۔ (2)اور چالیس دن اور چالیس رات فاقہ کر کے آخر کو آپ کو بھوک لگی۔
(متی باب 4)
سیدنا عیسیٰ نے فرمایا : اے پروردگار کو معاف فرما دیجئے کیونکہ یہ نہیں جانتے کہ کیا کرتے ہیں۔ اور انہوں نے آپ کے کپڑوں کے حصے کئے اور ان پر قرعہ ڈالا۔ (35) اور لو گ کھڑے دیکھ رہے تھے اور سردار بھی ٹھٹھے مار مار کر کہتے تھے کہ اس نے اوروں کو بچایا۔ اگر یہ پروردگار کا مسیح موعود اور اس کا محبوب ہے تو اپنے آپ کو بچائے۔ (36) سپاہیوں نے بھی پاس آ کر اور سرکہ پیش کر کے آپ پر ٹھٹھا مار ا اور کہا کہ (37) اگر تم یہودیوں کے بادشاہ ہو تو اپنے آپ کو بچاؤ۔ (38)اور ایک نوشتہ بھی آپ کی صلیب پر لگایا دیا کہ یہ یہودیوں کا بادشاہ ہے۔ (39) پھر جو بدکار صلیب پر لٹکائے گئے تھے ان میں سے ایک آپ کو یوں طعنہ دینے لگا کہ کیا تم مسیح نہیں ؟ تو اپنے آپ کو اور ہمیں بچاؤ۔ (40)
( لوقاباب23)
حضرت بانی جماعت احمدیہ کی دعوت مقابلہ تفسیر نویسی اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کی اصل واقعاتی حقیقت
قارئین کرام!آجکل سوشل میڈیا پر احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیزمنفی مہم میں الزام تراشیوں کا ا…