"مسیح موعود ؑ خود محمد ؐرسول اللہ ہے” ۔ اس تحریر پر اعتراض اور اصل حقیقت
حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کی تحریر ’’پس مسیح موعود ؑ خود محمد ؐرسول اللہ ہے جو اشاعت اسلام کے لئے دوبارہ دنیا میں تشریف لائے ‘‘پر اعتراض کیا جاتا ہے۔
سورۃ الجمعہ کی آیت کی تفسیر
اس اعتراض کا جواب جاننے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے سورۃ الجمعہ کی آیت وَاٰخَرِیْنَ مِنْھٗمْ لمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ (الجمعہ:4)کی تفسیر سمجھی جائے ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام آیت وَاٰخَرِیْنَ مِنْھٗمْ لمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ (الجمعہ:4)کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ترجمہ :۔اور آخر زمانے کا آدم درحقیقت ہمارے نبی کریم ہیں ﷺ اور میری نسبت اسکی جناب کے ساتھ استاد اور شاگردکی نسبت ہے اور خدا تعالیٰ کا یہ قول کہ وَاٰخَرِیْنَ مِنْھٗمْ لمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ اسی بات کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔پس اٰخَرِیْنَ کے لفظ میں فکر کرو۔اور خدا نے مجھ پر اس رسول کریم کا فیض نازل فرمایا اور اسکو کامل بنایا اور اُس نبی کریم کے لطف اور جُود کو میری طر ف کھینچایہاں تک کہ میرا وجود اس کا وجود ہو گیا ۔وہ جو میری جماعت میں داخل ہوا درحقیقت میرے سردار خیر المرسلین کےصحابہ میں داخل ہوا اور یہی معنے وَاٰخَرِیْنَ مِنْھٗمْ کے لفظ کے بھی ہیں جیسا کہ سوچنے والوں پر پوشیدہ نہیں اور جو شخص مجھ میں اور مصطفیٰ میں تفریق کرتا ہے اس نے مجھے نہیں دیکھا اور نہیں پہچاناہے۔‘‘
(خطبہ الہامیہ ۔ روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 257تا259)
ایک اور موقع پر فرمایا :
’’اِس آیت کاماحصل یہ ہے کہ خدا وہ خدا ہے جس نے ایسے وقت میں رسول بھیجا کہ لوگ علم اور حکمت سے بے بہرہ ہو چکے تھے اور علومِ حکمیہ دینیہ جن سے تکمیل نفسؔ ہو اور نفوس انسانیہ علمی اور عملی کمال کو پہنچیں بالکل گم ہو گئی تھی اور لوگ گمراہی میں مبتلا تھے۔ یعنی خدا اور اس کی صراطِ مستقیم سے بہت دُور جا پڑے تھے۔ تب ایسے وقت میں خدا تعالیٰ نے اپنا رسول اُمّی بھیجا اور اُس رسول نے اُن کے نفسوں کو پاک کیا اور علم الکتاب اور حکمت سے اُن کو مملو کیا یعنی نشانوں اور معجزات سے مرتبہ یقینِ کامل تک پہنچایا اور خدا شناسی کے نُور سے اُن کے دلوں کو روشن کیا اورپھر فرمایا کہ ایک گروہ اَور ہے جو آخری زمانہ میں ظاہر ہو گا وہ بھی اوّل تاریکی اور گمراہی میں ہوں گے اور علم اور حکمت اور یقین سے دُور ہوں گے تب خدا اُن کو بھی صحابہ کے رنگ میں لائے گا یعنی جو کچھ صحابہ نے دیکھا وہ اُن کو بھی دکھایا جائے گا یہاں تک کہ اُن کا صدق اور یقین بھی صحابہ کے صدق اور یقین کی مانند ہو جائے گا اور حدیث صحیح میں ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اِس آیت کی تفسیر کے وقت سلمان فارسی کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا ۔ لَوْکَانَ الْاِیْمَانُ مُعَلَّقًا بِالْثُّرَیَّا لَنَالَہٗ رَجَلٌ مِّنْ فَارِسَ یعنی اگر ایمان ثریّا پر یعنی آسمان پر بھی اُٹھ گیا ہو گا تب بھی ایک آدمی فارسی الاصل اُس کو واپس لائے گا۔یہ اس بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ ایک شخص آخری زمانہ میں فارسی الاصل پیدا ہو گا اس زمانہ میں جس کی نسبت لکھا گیا ہے کہ قرآن آسمان پر اُٹھایا جائے گا یہی وہ زمانہ ہے جو مسیح موعود کا زمانہ ہے۔ اور یہ فارسی الاصل وہی ہے جس کا نام مسیح موعود ہے کیونکہ صلیبی حملہ جس کے توڑنے کے لئے مسیح موعود کو آنا چاہئیے وہ حملہ ایمان پر ہی ہے اور یہ تمام آثار صلیبی حملہ کے زمانہ کے لئے بیان کئے گئے ہیں اور لکھا ہے کہ اِس حملہ کا لوگوں کے ایمان پر بہت بُرا اثر ہو گا۔ وہی حملہ ہے جس کو دوسرے لفظوں میں دجّالی حملہ کہتے ہیں۔ آثار میں ہے کہ اُس دجّال کے حملہ کے وقت بہت سے نادان خدائے واحدلاشریک کو چھوڑ دیں گے اور بہت سے لوگوں کی ایمانی محبت ٹھنڈی ہو جائے گی اور مسیح موعود کا بڑا بھاری کام تجدید ایمانؔ ہو گا کیونکہ حملہ ایمان پر ہے اور حدیث لَوْکَانَ الْاِیْمَانُ سے جو شخص فارسی الاصل کی نسبت ہے یہ ثابت ہے کہ وہ فارسی الاصل ایمان کو دوبارہ قائم کرنے کے لئے آئے گا۔ پس جس حالت میں مسیح موعود اور فارسی الاصل کا زمانہ بھی ایک ہی ہے اور کام بھی ایک ہی ہے یعنی ایمان کو دوبارہ قائم کرنا اس لئے یقینی طور پر ثابت ہوا کہ مسیح موعود ہی فارسی الاصل ہے اور اُسی کی جماعت کے حق میں یہ آیت ہے وَاٰخَرِیْنَ مِنْھٗمْ لمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ کمال ضلالت کے بعد ہدایت اور حکمت پانے والے اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے معجزات اور برکات کو مشاہدہ کرنے والے صرف دو ہی گرو ہ ہیں اوّل صحابۂ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ظہور سے پہلے سخت تاریکی میں مبتلا تھے اور پھر بعد اس کے خدا تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے زمانہ نبوی پایا اور معجزات اپنی آنکھوں سے دیکھے اور پیشگوئیوں کا مشاہدہ کیا اور یقین نے اُن میں ایک ایسی تبدیلی پیدا کی کہ گویا صرف ایک رُوح رہ گئے۔ دوسرا گروہ جو بموجب آیت موصوفہ بالا صحابہ کی مانند ہیں مسیح موعود کا گروہ ہے۔ کیونکہ یہ گروہ بھی صحابہ کی مانند آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے معجزات کو دیکھنے والا ہے اور تاریکی اور ضلالت کے بعد ہدایت پانے والا۔ اور آیت اٰخَرِیْنَ مِنْھٗمْ میں جو اس گروہ کو مِنْھٗمْ کی دولت سے یعنی صحابہ سے مشابہ ہونے کی نعمت سے حصّہ دیا گیا ہے ۔ یہ اسی بات کی طرف اشارہ ہے یعنی جیسا کہ صحابہ رضی اﷲ عنہم نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے معجزات دیکھے اور پیشگوئیاں مشاہدہ کیں ایسا ہی وہ بھی مشاہدہ کریں گے اور درمیانی زمانہ کو اس نعمت سے کامل طور پر حصّہ نہیں ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی وجہ سے اﷲ جلّ شانہٗ نے اس آخری گروہ کو مِنْھُمْ کے لفظ سے پکارا تا یہ اشارہ کرے کہ معائنہ معجزات میں وہ بھی صحابہ کے رنگ میں ہی ہیں۔ سوچ کر دیکھو کہ تیرہ سو برس میں ایسا زمانہ منہاج نبوت کا اور کس نے پایا۔ اِس زمانہ میں جس میں ہماری جماعت پیدا کی گئی ہے کئی وجوہ سے اِس جماعت کو صحابہ رضی اﷲ عنہم سے مشابہت ہے۔ وہ معجزات اور نشانوں کو دیکھتے ہیں جیسا کہ صحابہ نے دیکھا۔ وہ خدا تعالیٰ کے نشانوں اور تازہ بتازہ تائیدات سے نُور اور یقین پاتے ہیں جیسا کہ صحابہ نے پایا۔ وہ خدا کی راہ میں لوگوں کے ٹھٹھے اور ہنسی اور لعن طعن اور طرح طرح کی دلآزاری اور بدزبانی اور قطع رحم وغیرہ کا صدمہ اُٹھا رہے ہیں جیسا کہ صحابہ نے اٹھایا۔ وہ خدا کے کھلے کھلے نشانوں اور آسمانی مددوں اور حکمت کی تعلیم سے پاک زندگی حاصل کرتے جاتے ہیں جیسا کہ صحابہ نے حاصل کی۔۔۔۔۔۔۔۔اور ؔ آیت اٰ خَرِیْنَ مِنْھٗمْ میں یہ بھی اشارہ ہے کہ جیسا کہ یہ جماعت مسیح موعود کی صحابہ رضی اﷲ عنہم کی جماعت سے مشابہ ہے ایسا ہی جو شخص اس جماعت کا امام ہے وہ بھی ظلّی طو رپر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے مشابہت رکھتا ہے جیسا کہ خود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مہدی موعود کی صفت فرمائی کہ وہ آپ سے مشابہ ہو گا اور دو مشابہت اُس کے وجود میں ہوں گی۔ ایک مشابہت حضرت مسیح علیہ السلام سے جس کی وجہ سے وہ مسیح کہلائے گا اور دوسری مشابہت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے جس کی وجہ سے وہ مہدی کہلائے گا۔ اِسی راز کی طرف اشارہ کرنے کے لئے لکھا ہے کہ ایک حصہ اس کے بدن کا اسرائیلی وضع اور رنگ پر ہو گا اور دوسرا حصہ عربی وضع اور رنگ پر۔‘‘
(ایام الصلح ۔ روحانی خزائن جلد 14صفحہ304تا307)
معترضہ عبارت کا مکمل حوالہ
اب ہم اس معترضہ تحریر کا مکمل حوالہ ہم درج کردیتے ہیں جس سے بات واضح ہو جاتی ہے ۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
’’پانچواں اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اگر نبی کریم ؐ کے بعد مرزا صاحب بھی ایسے نبی ہیں کہ ان کا ماننا ضروری ہے تو پھر مرزا صاحب کا کلمہ کیوں نہیں پڑھتے۔
تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب انسان کسی حق کا انکار کرتا ہے تو اسکی عقل ماری جاتی ہے اوروہ ایسی بہکی بہکی باتیں کرتا ہے کہ ایک بچہ بھی انہیں سن کر ہنسے۔ اب یہ کیسی بیوقوفی کی بات ہے کہ مرزا صاحب کا ماننا اگر ضرور ی ہے تو ان کا کلمہ کیوں نہیں پڑھتے۔ غالباً معترض کا یہ خیال ہے کہ کلمہ میں آنحضرت ﷺ کا اسم مبارک اس غرض سے رکھا گیا ہے کہ وہ آخری نبی ہیں تبھی تو یہ اعتراض کرتا ہے کہ اگر محمد ؐ رسول اللہ کے بعد کوئی اور نبی ہے تو اس کا کلمہ بناؤ۔ نادان اتنا نہیں سوچتا کہ محمد ؐ رسول اللہ کا نام کلمہ میں تو اس لئے رکھا گیا ہے کہ آپ نبیوں کے سرتاج اور خاتم النبیین ہیں اور آپ کا نام لینے سے باقی سب نبی خود اندر آجاتےہیں ہر ایک کا علیحدہ نام لینے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ہاں حضرت مسیح موعود ؑ کے آنے سے ایک فرق ضرور پیدا ہو گیا ہے اور وہ یہ کہ مسیح موعود ؑ کی بعثت سے پہلے تو محمد رسول اللہ ؐ کے مفہوم میں صرف آپ سے پہلے گذشتہ انبیاء شامل تھے مگر مسیح موعود ؑ کی بعثت کے بعد محمد رسول اللہ ؐ کے مفہوم میں ایک اور رسول کی زیادتی ہو گئی لہٰذا مسیح موعود ؑ کے آنے سے نعوذباللہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا کلمہ باطل نہیں ہوتا بلکہ اور بھی زیادہ شان سے چمکنے لگ جاتا ہے ۔ غرض اب بھی اسلام میں داخل ہونے کے لئے یہی کلمہ ہے صرف فرق اتنا ہے کہ مسیح موعود ؑ کی آمد نے محمد ؐ رسول اللہ کے مفہوم میں ایک رسول کی زیادتی کر دی ہے اور بس۔ علاوہ اس کے اگر ہم بفرض محال یہ بات مان بھی لیں کہ کلمہ شریف میں نبی کریم ؐ کا اسم مبارک اس لئے رکھا گیا ہے کہ آپ آخری نبی ہیں تو تب بھی کوئی حرج واقع نہیں ہوتا اور ہم کو نئے کلمہ کی ضرور ت پیش نہیں آتی کیونکہمسیح موعود ؑ نبی کریم ؐ سے کوئی الگ چیز نہیں ہے جیسا کہ وہ خود فرماتا ہےصَارَ وُجُوْدَہُ وُجُوْدِیْ نیز مَنْ فَرَّقَ بَیْنِیْ وَ بَیْنَ الْمُصْطَفٰی فَمَا عَرَفَنِیْ وَ مَا اَرٰی(ترجمہ : جس نے مجھ میں اور مصطفیٰﷺ میں فرق کیا ، اس نے مجھے نہیں پہچانا ۔ناقل)اور یہ اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ وہ ایک دفعہ اور خاتم النبیین کو دنیا میں مبعوث کرے گا جیسا کہ آیت آخَرِیْنَ مِنْھُمْ سے ظاہر ہے ۔پس مسیح موعود ؑ خود محمد ؐرسول اللہ ہے جو اشاعت اسلام کے لئے دوبارہ دنیا میں تشریف لائے ۔ اس لئے ہم کو کسی نئے کلمہ کی ضرورت نہیں ہاں اگر محمد ؐ رسول اللہ کی جگہ کوئی اور آتا تو ضرور پیش آتی ۔‘‘
(کلمۃ الفصل۔ صفحہ 157تا158)
ختم نبوت کے بارہ میں احادیث نبویہ ﷺسے پیش کردہ غیراز جماعت کے دلائل اور ان کا رد
ختم نبوت کے بارہ میں احادیث نبویہ ﷺسے پیش کردہ غیراز جماعت کے دلائل اور ان کا رد لَا نَبِی…