قاضی ظہور الدین اکملؔ صاحب کے ایک شعر پر اعتراض

قاضی ظہور الدین اکملؔ صاحب کے دو شعر پیش کر کے معاندین احمدیت یہ اعتراض کرتے ہیں کہ گویا جماعتِ احمدیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کا ارتکاب کرتی ہے۔

جواب

یہ وہ اشعار ہیں جو جماعت احمدیہ کے عقائد سے ہرگز تعلق نہیں رکھتے نہ ہی یہ شاعر جماعت کی طرف سے مجاز سمجھے جاسکتے ہیں کہ وہ جماعتی مسلک کو بیان کریں لیکن صرف یہی بات نہیں اگر اس طرح ہر کس و ناکس کے خیالات پر فرقوں اور قوموں کو پکڑا جائے تو پھر تو دنیا میں کسی قوم اور فرقے کا امن قائم نہیں رہ سکتا۔

 اگر اکمل صاحب یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ شخص جو قادیان میں بروز محمدؐ کے طور پر ظاہر ہوا وہ اس محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی شان میں بڑھ کر تھا جو مکہ میں پیدا ہوا تو ہرگز یہ عقیدہ نہ جماعت احمدیہ کا عقیدہ ہے نہ کوئی شریف النفس جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات سے وقف ہو اسے احمدیت کی طرف منسوب کرسکتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو زندگی بھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور عجز سے بچھے رہے۔حتیٰ کہ آپ نے اپنے آپ کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل کے کوچے کی خاک کے برابر قرار دیا ہے دیکھئے کس طرح والہانہ عشق کے ساتھ یوں گویا ہیں      ؎
جان و دلم فدائے جمالِ محمدؐ است                  خاکم نثار کوچۂ آلِ محمدؐ است
جہاں تک اکمل صاحب کے مندرجہ بالا شعر کا تعلق ہے تو یہ یاد رکھنا چاہیے  کہ  درحقیقت شاعر اپنی شعری دنیا میں بسا اوقات ایسی باتیں بیان کر جاتا ہے جو دراصل اس کے مافی الضمیر کو پوری طرح بیان نہیں کر پاتیں اور بارہا ایسا ہوا ہے کہ بعض اوقات شاعر کو خود اپنے شعروں کی وضاحت کرنی پڑتی ہے اور ان اشعار سے بھی جو غلط تاثر پیدا ہوتا ہے وہ غلط تاثر یقینا ہر احمدی کے لئے جس نے یہ پڑھا سخت تکلیف کا موجب بنا جب شاعر سے اس بارہ میں جواب طلبیاں ہوئیں اور مختلف احمدی قارئین نے ان اشعار کی طرز پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا تو ان صاحب نے ان اشعار کا جو مضمون خود پیش کیا وہ حسبِ ذیل تھا:۔
”مندرجہ بالا شعر دربار مصطفویؐ میں عقیدت کا شعر ہے۔ اور خدا جو علیم بذات الصدور ہے شاہد ہے کہ میرے واہمہ نے بھی کبھی اس جاہ و جلال کے نبی حضرت ختمیت مآبؐ کے مقابل پر کسی شخصیت کو تجویز نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ یہ بات میرے خیال تک میں نہ آئی کہ میں یہ شعر (آگے سے ہیں بڑھ کر اپنی شان میں) کہہ کر حضرت افضل الرسلؐ کے مقابل میں کسی کو لارہا ہوں۔بلکہ میں نے تو یہ کہا کہ محمدؐ کا نزول ہوا یعنی بعثت ثانیہ اور یہ تمام احمدیوں کا عقیدہ ہے کہ نہ تو تناسخ صحیح ہے نہ دوسرے جسم میں روح کا حلول بلکہ نزول سے مراد اس کی روحانیت کا ظہور ہے اور جو کہ خداتعالیٰ فرماتا ہےولَلْآخِرَۃُ خَیْرٌ لَّکَ مِنَ الاُوْلیٰ ہر آنے والے دن میں تیری شان پہلے سے زیادہ نمایاں اور افزوں ہوگی۔ بوجہ درود شریف اور اعمال حسنہ امت محمدیہؐ جن کا ثواب جیسا کہ عمل کرنے والے کے نام لکھا جاتا ہے۔ ویسا ہی محرک و معلم کے نام بھی۔ اس لئے کچھ شک نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ہر وقت بڑھ رہی ہے اور بڑھتی رہے گی اور خدا کے وسیع خزانوں میں کسی چیز کی کمی نہیں۔ پس میں نے صرف یہی کہا کہ سیدنا محمد مصطفیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی برکات و فیوض کا نزول پھر ہورہا ہے۔ اور آپؐ کے اترنے سے یہی مراد ہو سکتی ہے اور آپؐ کی شان پہلے سے بھی بڑھ کر ظاہر ہو رہی ہے۔ اس شعر میں کسی دوسرے وجود کا مطلق ذکر نہیں ہے بلکہ اسی نظم میں آخری شعر یہ ہے      ؎

غلامِ احمد مختار ہو کر                       یہ رتبہ تو نے پایا ہے جہاں میں
یعنی حضرت مرزا غلام احمد علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو رتبہ مسیح موعود ہونے کا پایا ہے وہ حضرت احمد مجتبیٰ محمد مصطفی ﷺکی غلامی کے طفیل اور ان کی اتباع کا نتیجہ ہے”۔

(الفضل 13 اگست 1944ء)

ظاہرہے کہ یہ مفہوم قابلِ اعتراض نہیں۔ اگر پھر بھی کوئی کہے کہ یہ مفہوم بعد میں شاعر نے بنا لیا ہے اور دراصل اس کا اصل مفہوم وہی تھا جو بظاہر دکھائی دیتا ہے اور جس پر معترضین اعتراض کرتے ہیں تو بے شک ایسا سمجھے مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتاکہ شاعر نے خود جو تشریح پیش کی ہو وہی دراصل اہلِ علم کے نزدیک قابل قبول ہوا کرتی ہے۔

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

ختم نبوت کے بارہ میں احادیث نبویہ ﷺسے پیش کردہ غیراز جماعت کے دلائل اور ان کا رد

ختم نبوت کے بارہ میں احادیث نبویہ ﷺسے پیش کردہ غیراز جماعت کے دلائل اور ان کا رد لَا نَبِی…