قرآن کریم میں آگ کی سواری کا ذکر؟
حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں : ’’قرآن شریف اور احادیث اور پہلی کتابوں میں لکھا تھا کہ اس کے زمانے میں ایک نئی سواری پیدا ہوگی جو کہ آگ سے چلے گی‘‘(تذکرۃ الشہادتین۔ رخ جلد 20ص25)۔اس پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ قرآن کریم میں ایسا کہیں نہیں لکھا۔
سورۃ التکویر میں یہ پیشگوئی موجود ہے
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :۔
’’ اور منجملہ ان دلائل کے جو میرے مسیح موعود ہونے پر دلالت کرتے ہیں خدا تعالیٰ کے وہ دو نشان ہیں جو دنیا کو کبھی نہیں بھولیں گے یعنی ایک وہ نشان جو آسمان میں ظاہر ہوا اور دوسرا وہ نشان جو زمین نے ظاہر کیا۔ ۔۔۔ اور زمین کا نشان وہ ہے جس کی طرف یہ آیت کریمہ قرآن شریف کی یعنی وَ اِذَ ا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ(التکویر5۔ترجمہ :۔اور جب دس ماہ کی گابھن اونٹنیاں بغیر کسی نگرانی کے چھوڑ دی جائیں گی۔ناقل)اشارہ کرتی ہے جس کی تصدیق میں مسلم میں یہ حدیث موجود ہے وَ یُتْرَکُ الْقِلَاصُ فَلَا یُسْعٰی عَلَیْھَا۔(ترجمہ:۔اورجوان اونٹنیاں چھوڑ دی جائیں گی اور ان پر سوارہو کر دوڑایا نہیں جائے گا۔ ناقل) خسوف کسوف کا نشان تو کئی سال ہوئے جو دو مرتبہ ظہور میں آگیا۔ اور اونٹوں کے چھوڑے جانے اور نئی سواری کا استعمال اگرچہ بلاداسلامیہ میں قریباً سو برس سے عمل میں آرہا ہے لیکن یہ پیشگوئی اب خاص طور پر مکّہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی ریل طیار ہونے سے پوری ہو جائے گی کیونکہ وہ ریل جو دمشق سے شروع ہو کر مدینہ میں آئے گی وہی مکّہ معظمہ میں آئے گی اور اُمید ہے کہ بہت جلد اور صرف چند سال تک یہ کام تمام ہو جائے گا۔ تبوہ اونٹ جو تیرہ سو برس سے حاجیوں کو لے کر مکہ سے مدینہ کی طرف جاتے تھے یکدفعہ بے کار ہو جائیں گے اور ایک انقلاب عظیم عرب اور بلا د شام کے سفروں میں آجائے گا۔ چنانچہ یہ کام بڑی سرعت سے ہو رہا ہے اور تعجب نہیں کہ تین سال کے اندر اندر یہ ٹکڑا مکّہ اور مدینہ کی راہ کا طیار ہو جائے اور حاجی لوگ بجائے بدوؤں کے پتھر کھانے کے طرح طرح کے میوے کھاتے ہوئے مدینہ منورہ میں پہنچا کریں۔ بلکہ غالباً معلوم ہوتا ہے کہ کچھ تھوڑی ہی مدّت میں اونٹ کی سواری تمام دنیا میں سے اُٹھ جائے گی۔ اور یہ پیشگوئی ایک چمکتی ہوئی بجلی کی طرح تمام دنیا کو اپنا نظّارہ دکھائے گی اور تمام دنیا اس کو بچشم خود دیکھے گی۔ اور سچ تو یہ ہے کہ مکّہ اور مدینہ کی ریل کا طیار ہو جانا گویا تمام اسلامی دنیا میں ریل کا پھر جاناہے۔ کیونکہ اسلام کا مرکز مکّہ معظمہ اور مدینہ منورہ ہے۔اگر سوچ کر دیکھا جائے تو اپنی کیفیت کی رُو سے خسوف کسوف کی پیشگوئی اور اونٹوں کے متروک ہونے کی پیشگوئی ایک ہی درجہ پر معلوم ہوتی ہیں۔کیونکہ جیسا کہ خسوف کسوف کا نظارہ کروڑہا انسانوں کو اپنا گواہ بنا گیا ہے ایسا ہی اونٹوں کے متروک ہونے کا نظّارہ بھی ہے بلکہ یہ نظارہ کسوف خسوف سے بڑھ کر ہے کیونکہ خسوف کسوف صرف دو مرتبہ ہو کر اور صرف چند گھنٹہؔ تک رہ کر دُنیا سے گذر گیا۔مگر اس نئی سواری کا نظارہ جس کا نام ریل ہے ہمیشہ یاد دلاتا رہے گا کہ پہلے اونٹ ہوا کرتے تھے۔ذرا س وقت کو سوچو کہ جب مکّہ معظمہ سے کئی لاکھ آدمی ریل کی سواری میں ایک ہیئت مجموعی میں مدینہ کی طرف جائے گا یا مدینہ سے مکّہ کی طرف آئے گا تو اس نئی طرز کے قافلہ میں عین اس حالت میں جس وقت کوئی اہل عرب یہ آیت پڑھے گا کہ وَ اِذَ ا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ یعنی یاد کروہ زمانہ جب کہ اونٹنیاں بیکار کی جائیں گی اور ایک حمل دار اونٹنی کا بھی قدر نہ رہے گا جو اہل عرب کے نزدیک بڑی قیمتی تھیاور یا جب کوئی حاجی ریل پر سوار ہو کر مدینہ کی طرف جاتا ہوا یہ حدیث پڑھے گا کہ وَ یُتْرَکُ الْقِلَاصُ فَلَا یُسْعٰی عَلَیْھَا یعنی مسیح موعود کے زمانہ میں اونٹنیاں بے کار ہو جائیں گی اور اُن پر کوئی سوار نہیں ہوگا تو سُننے والے اس پیشگوئی کو سُن کر کِس قدر وجد میں آئیں گے اور کس قدر ان کا ایمان قوی ہوگا۔ جس شخص کو عرب کی پُرانی تاریخ سے کچھ واقفیت ہے وہ خوب جانتا ہے کہ اونٹ اہل عرب کا بہت پُرانا رفیق ہے اور عربی زبان میں ہزار کے قریب اونٹ کا نام ہے اور اونٹ سے اس قدر قدیم تعلقات اہل عرب کے پائے جاتے ہیں کہ میرے خیال میں بیس ہزار کے قریب عربی زبان میں ایسا شعر ہوگا جس میں اونٹ کا ذکر ہے اورخدا تعالیٰ خوب جانتا تھا کہ کسی پیشگوئی میں اونٹوں کے ایسے انقلابِ عظیم کا ذکر کرنا اس سے بڑھ کر اہل عرب کے دلوں پر اثر ڈالنے کے لئے اور پیشگوئی کی عظمت اُن کی طبیعتوں میں بٹھانے کے لئے اور کوئی راہ نہیں۔اِسی وجہ سے یہ عظیم الشان پیشگوئی قرآن شریف میں ذکر کی گئی ہے جس سے ہر ایک مومن کو خوشی سے اُچھلنا چاہئے کہ خدا نے قرآن شریف میں آخری زمانہ کی نسبت جو مسیح موعود اور یا جوج ماجوج اور دجّال کا زمانہ ہے یہ خبر دی ہے کہ اُس زمانہ میں یہ رفیق قدیم عرب کا یعنی اونٹ جس پر وہ مکّہ سے مدینہ کی طرف جاتے تھے اور بلادِ شام کی طرف تجارت کرتے تھے ہمیشہ کے لئے اُن سے الگ ہو جائے گا۔ سبحان اللہ! کس قدر روشن پیشگوئی ہے یہاں تک کہ دل چاہتا ہے کہ خوشی سے نعرے ماریں کیونکہہماری پیاری کتاب اللہ قرآن شریف کی سچائی اور منجانب اللہ ہونے کے لئے یہ ایک ایسا نشان دنیا میں ظاہر ہو گیا ہےکہ نہ توریت میں ایسی بزرگ اور کھلی کھلی پیشگوئی پائی جاتی ہے اور نہ انجیل میں اور نہ دنیا کی کسی اور کتاب میں۔۔۔۔ یہ پیشگوئی جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں حدیث مسلم میں بھیؔ موجود ہے جو مسیح موعود کے زمانہ کی علامت بیان کی گئی ہے۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے اس پیشگوئی کو قرآن شریف کی اِس آیت سے ہی استنباط کیا یعنی وَ اِذَ ا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ سے۔ ‘‘ (تحفہ گولڑویہ۔ رخ جلد17ص194تا197)
پھر فرماتے ہیں :۔
’’ اس بات کے ثبوت کیلئے کہ درحقیقت یہ آخری زمانہ ہے جس میں مسیح ظاہر ہوجانا چاہئے دو طور کے دلائل موجود ہیں (۱) اول وہ آیاتِ قرآنیہ اور آثار نبویہ جو قیامت کے قرب پر دلالت کرتے ہیں اورؔ پورے ہو گئے ہیں جیسا ۔۔۔۔ اونٹوں کی سواری کا موقوف ہو جانا جس کی تشریح آیت وَ اِذَ ا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ(التکویر۔5۔ترجمہ :۔اور جب دس ماہ کی گابھن اونٹنیاں بغیر کسی نگرانی کے چھوڑ دی جائیں گی۔ناقل)سے ظاہر ہے ۔ ‘‘ (تحفہ گولڑویہ ۔ رخ جلد17ص244)
اپنی معرکۃ الآراء تصنیف ’’چشمہ معرفت‘‘میں اس پیشگوئی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :۔
’’ قرآن شریف میں آخری زمانہ کے بعض جدید حالات کی نسبت ایسی خبریں دی گئی ہیں جو ہمارے اس زمانہ میں بہت صفائی سے پوری ہوگئی ہیں جیسا کہ اس میں ایک یہ پیشگوئی ہے کہ آخری زمانہ میں اونٹ بے کار ہو جائیں گے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اُن دنوں میں ایک نئی سواری پیدا ہوجائے گی۔ چنانچہ قرآن شریف کی پیشگوئی کے الفاظ یہ ہیں وَ اِذَ ا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ یعنی وہ آخری زمانہ جب اونٹنیاں بے کار ہو جائیں گی اور بے کار ہونا تبھی ہوتا ہے کہ جب اُن پر سوار ہونے کی حاجت نہ ہو اور اس سے صریح طور پر نکلتاہے کہ اونٹنیوں کی جگہ کوئی اور سواری پیدا ہوجائے گی۔اس آیت کی تشریح کتاب صحیح مسلم میں موجود ہے اس میں یہ حدیث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لکھی ہے وَیُتْرَکُ الْقِلاَصُ فَلا یُسْعٰی علیھا یعنی مسیح موعود کے زمانہ میں اونٹنیاں ترک کی جائیں گی اور کسی منزل تک جلدی پہنچنے کے لئے اور دوڑ کر جانے کے لئے وہ کام نہیں آئیں گی یعنی کوئی ایسی سواری پیدا ہو جائے گی کہ بہ نسبت اونٹنیوں کے بہت جلد منزل مقصود تک پہنچائے گی۔ غرضیُسْعٰی کا لفظ جو حدیث میں ہے اس بات پر دلالت کر رہا ہے کہ دوڑنے کے کام میں اونٹ سے بہتر کوئی اور سواری نکل آوے گی۔ یہ عجیب بات ہے کہ صحیح مسلم میں جس جگہ مسیح موعود کے زمانہ کا ذکر ہے اُس جگہ یہ حدیث اونٹنیوں کے ترک کرنے کے بارہ میں ہے اور یہ پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے تیرہ 1300سو برس بعد پوری ہوئی چنانچہ ان دنوں میں یہ کوشش بھی ہو رہی ہے کہ ایک سال تک مکہ اورمدینہ میں ریل جاری کردی جائے پس اُس وقت جب ریل جاری ہو جائے گی یہ نظارہ ہر ایک مومن کے لئے ایمان کو زیادؔ ہ کرنے والا ہوگا۔ اور جس وقت ہزارہا اونٹ بیکار ہوکر بجائے اُن کے ریل گاڑیاں مکّہ سے مدینہ تک جائیں گی اور دمشق اور دوسری اطراف شام وغیرہ کے حج کرنے والے کئی لاکھ انسان ریل گاڑیوں میں سوار ہوکر مکّہ معظمہ میں پہنچیں گے تب کوئی لعنتی آدمی ہوگا کہ اس نظارہ کو دیکھ کر اپنے سچے دل سے اس بات کی تصدیق نہیں کرے گا کہ وہ پیشگوئی جو قرآن شریف اور حدیث صحیح مسلم میں موجود ہے آج پوری ہو گئی۔
یاد رہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کے لئے یہ ایک عظیم الشان نشان ہے کہ آپ نے تیرہ 1300سو برس پہلے ایک نئی سواری کی خبر دی ہے اور اس خبر کو قرآن شریف اور حدیث صحیح دونوں مل کر پیش کرتے ہیں اگر قرآن شریف خدا کا کلام نہ ہوتا تو انسانی طاقت میں یہ بات ہرگز داخل نہ تھی کہ ایسی پیشگوئی کی جاتی کہ جس چیز کا وجود ہی ابھی دنیا میں نہ تھا اُس کے ظہور کا حال بتایا جاتا جب کہ خدا کو منظور تھا کہ اس پیشگوئی کو ظہور میں لاوے تب اُس نے ایک انسان کے دل میں یہ خیال ڈال دیا کہ وہ ایسی سواری ایجاد کرے جو آگ کے ذریعہ سے ہزاروں کوسوں تک پہنچا دے۔ ‘‘ (چشمہ معرفت۔ رخ جلد23ص320تا322)
حضرت بانی جماعت احمدیہ کی دعوت مقابلہ تفسیر نویسی اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کی اصل واقعاتی حقیقت
قارئین کرام!آجکل سوشل میڈیا پر احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیزمنفی مہم میں الزام تراشیوں کا ا…