خلافت احمدیہ دائمی خلافت ہے
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یوم خلافت 27 مئی 2005ءکو خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہوئے خلافت احمدیہ کے متعلق پھیلائی جانے والی بعض غلط فہمیوں کا ذکر فرمایا تھا اور اس جھوٹے پراپیگنڈے کو بے بنیاد ثابت کرتے ہوئے یہ پُرشوکت اعلان فرمایا تھا کہ قرآن و حدیث اور سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کی رو سے خلافت احمدیہ دائمی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے قیامت تک قائم رہے گی۔ اس سلسلے میں حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے “الوصیت ‘‘اور ’’شہادۃ القرآن‘‘ سے ایک ایک اقتباس پیش فرمایا۔ منکرین خلافت نے جومختلف حیلوں بہانوں سے خلافت اور خلفاء احمدیت پر اعتراضات کرکے خود کو جھوٹی تسلّیاں دینے کی کوشش کرتے رہتے ہیں حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے مذکورہ بالا خطبہ پر بھی اعتراضات کا ایک طومار کھڑا کردیا اور اپنی ویب سائٹ پر ایک طویل مضمون لکھ کر حضور انور کے مؤقف کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی۔ ان کے نامکمل حوالوں اور سیاق و سباق سے ہٹا کر پیش کی گئی باتوں اور بے بنیاد اعتراضات کا ذرا گہرائی میں جاکر مطالعہ کیا جائے تو فوراً ان کی قلعی کھل جاتی ہے۔ ان کا اصل اعتراض ان کے بقول یہ تھا کہ خلافت کے دائمی ہونے کے بارے میں مرزا مسرور احمد صاحب نے ’’شہادۃ القرآن‘‘ کا جو حوالہ پیش کیا ہے وہ ان کی خلافت کے دائمی ہونے کے متعلق نہیں بلکہ آنحضرت ﷺ کی اس خلافت کے دائمی ہونے کے بارے میں ہے جو مجدّدین اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صورت میں ظاہر ہوئی۔ یہ دھوکہ محض خلافت کی دشمنی میں ہے۔ اگر قرآن وحدیث، تاریخ مذاہب اور سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خلافت کے متعلق تحریرات کو یکجائی نظر سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ اصل دوام اللہ تعالیٰ کے وعدہ خلافت کو ہے قطع نظر اس کے کہ کون کس کا خلیفہ ہے۔ یہ دائمی وعدہ خلافت ، جیسا کہ سورۂ نور میں مذکور ہے جس کی تفصیل آگے چل کر ان شا ء اللہ بیان کی جائے گی، ایمان اور اعمالِ صالحہ کے ساتھ مشروط ہے ۔ تاریخ مذاہب سے بھی یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ انعام قوموں کو کسی انجمن یا ادارے کے ذریعے نہیں بلکہ اس قوم کے منتخب افراد کے ذریعے عطا کیا جاتا ہے اگرچہ پوری قوم کو مخاطب کرتے ہوئے اُن سب کو انعام خلافت کا مَورد ٹھہرایا جاتا ہے ۔یہ قرآنی محاورہ صرف خلافت کے لئے ہی نہیں بلکہ نبوّت کے لئے بھی استعمال کیا گیا ہے۔لیکن یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ بارِ نبوّت ایک منتخب فرد پر ہی ڈالا جاتا ہے نہ کہ چند افراد پر مشتمل کسی انجمن یا ادارہ کو مجموعی طور پر نبی بنادیا جاتا ہے۔
ذیل میں مسئلہ خلافت کی وضاحت اور منکرین خلافت کے اعتراضات اور خلافت کے متعلق پھیلائی گئی اُن کی غلط فہمیوں کوقرآن و حدیث، تاریخ مذاہب اور سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کی روشنی میں چند ذیلی عنوان بنا کرردّ کیا گیا ہے۔ مثلًا
کیا خلافت کی مختلف اقسام ہیں؟
سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خلافت کے متعلق نظریہ کیا ہے؟
خلیفہ ایک شخص ہوتا ہے یا کوئی انجمن اور ادارہ؟
کیا خلافت کی مختلف اقسام ہیں؟
خلیفہ کےلغوی معنی جانشین یا نائب کے ہیں ۔ اس سے مراد ایسا شخص ہوتا ہے جو کسی دوسرے شخص کی عدم موجودگی میں یا اس کی وفات کے بعد اس کے کام کو اسی طرح سے اور اسی نہج پرآگے بڑھائے جس طرح وہ شخص اگر خود موجود ہوتا یا زندہ ہوتا تو آگے بڑھاتا۔ قرآن کریم، احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات میں یہ لفظ انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ کبھی یہ خلافت اللہ تعالیٰ کے لئے بیان کی گئی ہے، کبھی انسانوں کے لئےاور انسانوں میں سے کبھی انبیاءکے لئے اور کبھی غیر انبیاء کے لئے بیان کی جاتی ہے۔ حدیث میں سفر کی ایک دُعا سکھائی گئی ہے جس میں ہم گھر سے نکلتے وقت اللہ تعالیٰ کو اپنے اہل و عیا ل پر اپنا خلیفہ مقرر کرتے ہیں۔انسانوں میں اوّلین طور پر انبیاء علیہم السلام کو اس زمین پر اللہ تعالیٰ کے خلیفے بنایا گیا۔اس کے بعد بعض انبیاء بھی دوسرے انبیاءکے خلیفہ بنے جس طرح حضرت ہارون علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلیفہ تھے اور ان کے بعد بے شمار انبیائےبنی اسرائیل خلافت کے مقام پر فائز کئے گئے۔ بعض غیر نبی بھی انبیاء کے خلفاءرہے ہیں جس طرح خلفائے راشدین آنحضرت ﷺ کے خلیفہ تھے۔ آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق خلافت راشدہ کے بعد جس میں ظاہری و روحانی دونوں خلافتیں جمع تھیں، آنحضرت ﷺ کی روحانی خلافت شروع ہوئی اور مجدّدین آنحضرت ﷺ کے روحانی خلیفہ بنے۔ آخری زمانہ کیلئے مسیح موعود اور امام مہدی کو آنحضرت ﷺ نے اپنا خلیفہ قرار دیا جو نبی اکرم ﷺ کے خلیفہ ہونے کے ساتھ ساتھ خلیفۃ اللہ بھی ہیں اور اس اُمّت کے لئے خاتم الخلفاء بھی ہیں۔ یعنی اب کوئی خلیفہ نہیں مگر وہی جو آپؑ میں سے ہے اور آپؑ کے عہد پرقائم ہے۔ آپؑ نے اپنے بعد ایک دائمی قدرت ثانیہ یعنی خلافت احمدیہ کے قیام کی بشارت دی۔ چنانچہ یہ ایک ہی طرح کی خلافت ہے جو مسلسل اور دائمی ہے اورآدم علیہ السلام سے لے کر اب تک چلی آرہی ہے ۔سورۂ نور کی آیت استخلاف میں اللہ تعالیٰ نے کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ (جیسا کہ اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا) فرما کر پہلے اور بعد میں آنے والوں کی خلافت کو ایک جیسا قرار دیا ہے۔ اس الٰہی اعلان کے بعد خلافت میں فرق کرنے والے ہم کون ہوتے ہیں؟ اس ابتدائی تعارف کے بعدان مندرجہ بالانکات کی تفصیل میں پیش کی جاتی ہے۔
اللہ ہمارا خلیفہ
مسلم، ترمذی، ابوداؤد اور نسائی میں درج ایک حدیث میں نبی اکرم ﷺ کی ایک دُعا بیان کی گئی ہے جو نبی اکرم ﷺ سفر پر جاتے ہوئے پڑھا کرتے تھے اور اُمّت کو بھی سکھائی۔ اس دُعا میں سفر پر جاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کو سفر میں اپنا ساتھی اور اپنے گھر والوں پر خلیفہ ہونے کی دُعا مانگی جاتی ہے۔ اس دُعا کے الفاظ یہ ہیں اَللّٰھُمَّ اَنْتَ الصَّاحِبُ فِی السَّفْرِ وَالْخَلِیْفَۃُ فِی اَھْلِی۔ اے اللہ! سفر میں ہمارا ساتھی ہو اور ہمارے گھر والوں کا نگران رہنا۔
انبیاء خلیفۃ اللہ
جیسا کہ قرآن کریم میں ذکر ہے اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیھم السلام کو زمین پر اپنا خلیفہ مقرر فرمایا۔ اس سلسلے میں صراحت کے ساتھ حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت داؤد علیہ السلام کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا اِنِّی جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً یعنی میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں۔ (البقرہ:31) اسی طرح حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق فرمایا یٰدَاؤدُ اِنَّا جَعَلْنٰکَ خَلِیْفَۃً فِی الْاَرْضِ (ص:27) اے داؤد! یقینًا ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے۔ اسی طرح ایک حدیث میں امام مہدیؑ کو بھی خلیفۃ اللہ کہہ کر پکارا گیا ہے جس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ امام مہدیؑ کوئی معمولی فرد اور محض ایک اُمّتی نہیں بلکہ زمرہ ٔ انبیاء میں شامل ہے۔آنحضرت ﷺ نے فرمایا فَاِذَا رَاَیْتُمُوْہُ فَبَایِعُوْہُ وَلَوْ حَبْوًا عَلَی الثَّلْجِ فَاِنَّہٗ خَلِیْفَۃُ اللّٰہِ الْمَھْدِیُّ ۔جب تم اُسے دیکھو تو اُس کی بیعت کرنا ۔چاہے تمہیں برف پر گھٹنوں کے بل بھی گھسٹ کر جانا پڑے کیونکہ وہ خلیفۃ اللہ مہدی ہے۔
(ابن ماجہ ،ظہور مہدی کا بیان جلد2ص527)
ایک نبی دوسرے نبی کا خلیفہ
اللہ تعالیٰ کی طرف سے انبیاء کو خلیفہ مقرر کرنے کے علاوہ انبیاء بھی ایک دوسرے کو اپنا خلیفہ مقرر کرتے رہے ہیں۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کوہِ سیناء پر جاتے ہوئے اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو اپنا خلیفہ مقرر کیا
وَ قَالَ مُوْسٰی لِاَخِیْہِ ھٰرُوْنَ اخْلُفْنِیْ فِیْ قَوْمِیْ
(الاعراف:143)
اور موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا کہ میری قوم میں میری قائم مقامی کر۔بنی اسرائیل میں یہ سلسلہ مسلسل جاری رہا کہ ایک نبی دوسرے نبی کا خلیفہ ہوا کرتا تھا۔ بالفاظ دیگر حضرت ہارون علیہ السلام کے ذریعے شروع ہونے والی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی یہ خلافت بنی اسرائیل میں اس طرح جاری رہی کہ تمام خلفاء انبیاء ہوا کرتے تھے۔ جیسا کہ اس حدیث سے بھی ثابت ہے۔ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کَانَتْ بَنُو اِسْرَائیِلَ تَسُوسُھُمُ الْاَنْبِیَاءُ کُلَّمَا ھَلَکَ نَبِیٌّ خَلَفَہٗ نَبِیٌّ بنی اسرائیل کے انبیاء اُن کی سیاست بھی کیا کرتے تھے ۔ جب بھی اُن کا کوئی نبی فوت ہوتا تو اس کا خلیفہ بھی ایک نبی ہوتا
(بخاری کتاب الانبیاء باب ما ذکر عن بنی اسرائیل جلد2)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلافت
جیسا کہ اُوپر بیان کیا گیا، خلیفہ کےلغوی معنی جانشین یا نائب کے ہیں اور اس لفظ کا استعمال مختلف سیاق و سباق میں کیا گیا ہے۔ سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تحریرات میں اس لفظ کو ان تمام سیاق و سباق میں استعمال فرمایا ہے۔حضور نے واضح طور پر بیان فرمایا کہ خلافت کا وعدہ اُمّت مُسلمہ کے لئے دائمی طور پر کیا گیا ہے اور یہ خیال رکھنا غلط ہے کہ اس اُمّت میں خلافت صرف تیس برس تک یعنی صرف خلافت راشدہ کے دَور تک رہی ہے۔ آپؑ نے خود کوایک نبی کی طرح بطور خلیفۃ اللہ بھی پیش فرمایا اورسابقہ مجدّدین کی طرح خود کو آنحضرت ﷺ کے ایسے روحانی خلیفہ کے طور پر بھی پیش کیاجو اس اُمّت کے لئے خاتم الخلفاء اور آخر الخلفاء ہے جس کے بعد کوئی خلیفہ نہیں مگر وہی جو اُن کے عہد پر ہے اور اُن میں سے ہے۔ آنحضرت ﷺ کی اس روحانی خلافت کے تسلسل میں اور خلافت راشدہ کی مثال بیان فرماتے ہوئے حضور علیہ السلام نے اپنی جماعت میں قدرت ثانیہ کے ظہوریعنی دائمی نظام خلافت کے قیام کی بشارت بھی دی جو آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق خلافت علیٰ منہاج النبوّت ہوگی۔حضور ؑ کے یہ تمام دعاوی اور پیشگوئیاں حضورؑ کی تحریرات کے حوالوں کے ساتھ ذیل میں پیش کی جارہی ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام خلیفۃ اللہ
میرے لئے زمین نے بھی گواہی دی اور آسمان نے بھی۔ اس طرح میرے لئے آسمان بھی بولا اور زمین بھی کہ مَیں خلیفۃ اللہ ہوں۔
(ایک غلطی کا ازالہ،روحانی خزائن جلد18 ص210)
اسلامی خلافت صرف تیس برس تک نہیں تھی
خدا تعالیٰ اس اُمّت کے لئے خلافت دائمی کا صاف وعدہ فرماتا ہے۔ اگر خلافت دائمی نہیں تھی تو شریعت موسوی کے خلیفوں سے تشبیہہ دینا کیا معنی رکھتا تھا اور اگر خلافت راشدہ صرف تیس برس تک رہ کر پھر ہمیشہ کے لئے اس کا دَور ختم ہوگیا تھا تو اس سے لازم آتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا ہرگز یہ ارادہ نہ تھا کہ اس اُمّت پر ہمیشہ کے لئے ابوابِ سعادت مفتوح رکھے کیونکہ روحانی سلسلہ کی موت سے دین کی موت لازم آتی ہے اور ایسا مذہب ہرگز زندہ نہیں کہلاسکتا جس کے قبول کرنے والے خود اپنی زبان سے ہی یہ اقرار کریں کہ تیرہ سو برس سے یہ مذہب مرا ہوا ہے اور خدا تعالیٰ نے اس مذہب کے لئے ہرگز یہ ارادہ نہیں کیا کہ حقیقی زندگی کا وہ نور جو نبی کریم کے سینہ میں تھا وہ توارث کےطور پر دوسروں میں چلا آوے۔ افسوس کہ ایسے خیال پر جمنے والے خلیفہ کے لفظ کو بھی جو استخلاف سے مفہوم ہوتا ہے تدبّر سے نہیں سوچتے کیونکہ خلیفہ جانشین کو کہتے ہیں اور رسول کا جانشین حقیقی معنوں کے لحاظ سے وہی ہوسکتا ہے جو ظلّی طور رسول کے کمالات اپنے اندر رکھتا ہو اس واسطے رسول کریم نے نہ چاہا کہ ظالم بادشاہوں پر خلیفہ کا اطلاق ہو کیونکہ خلیفہ درحقیقت رسول کا ظلّ ہوتا ہے اور چونکہ کسی انسان کے لئے دائمی طور پر بقا نہیں لہذا خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ رسولوں کے وجود کو جو تمام دُنیا کے وجودوں سے اشرف و اَولیٰ ہیں ظلّی طور پر ہمیشہ کے لئے تاقیامت قائم رکھے۔ سو اسی غرض سے خدا تعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا تا دُنیا کبھی اور کسی زمانہ میں برکاتِ رسالت سے محروم نہ رہے۔ پس جو شخص خلافت کو صرف تیس برس تک مانتا ہے وہ اپنی نادانی سے خلافت کی عِلّت غائی کو نظر انداز کرتا ہے اور نہیں جانتا کہ خدا تعالیٰ کا یہ ارادہ تو ہرگز نہیں تھا کہ رسول کریم کی وفات کے بعد صرف تیس برس تک رسالت کی برکتوں کو خلیفوں کے لباس میں قائم رکھنا ضروری ہے۔پھر بعد اس کے دُنیا تباہ ہوجائے تو ہوجائے کچھ پروانہیں بلکہ پہلے دنوں میں تو خلیفوں کا ہونا بجُز شوکت اسلام پھیلانے کے کچھ اور زیادہ ضرورت نہیں رکھتا تھا کیونکہ انوارِ رسالت اور کمالاتِ نبوّت تازہ بتازہ پھیل رہے تھے اور ہزارہا معجزات بارش کی طرح ابھی نازل ہوچکے تھے اور اگر خدا تعالیٰ چاہتا تو اس کی سنت اور قانون سے یہ بھی بعید نہ تھا کہ بجائے ان چار خلیفوں کے اس 30 برس کے عرصہ تک آنحضرت ﷺ کی عمر کو ہی بڑھا دیتا۔ اس حساب سے30 برس کے ختم ہونے تک آنحضرتﷺ کُل 93 برس کی عمر تک پہنچتے اور یہ اندازہ اس زمانہ کی مقرر عمروں سے نہ کچھ زیادہ اور نہ اس قانون قدرت سے کچھ بڑھ کر ہے جو انسانی عمروں کے بارے میں ہماری نظر کے سامنے ہے۔ پس یہ حقیر خیال خدا تعالیٰ کی نسبت تجویز کرنا کہ اس کو صرف اس اُمّت کے30 برس کا ہی فکر تھا اور پھر اس کو ہمیشہ کے لئے ضلالت میں چھوڑ دیا اور وہ نور جو قدیم سے انبیاء سابقین کی اُمّت میں خلافت کے آئینہ میں وہ دکھلاتا رہا اس اُمّت کے لئے دکھلانا اس کو منظور نہ ہوا۔ کیا عقل سلیم خدائے رحیم وکریم کی نسبت ان باتوں کو تجویز کرے گی ہرگز نہیں اور پھر یہ آیت خلافتِ ائمہ پر گواہ ناطق ہے۔
وَ لَقَدۡ کَتَبۡنَا فِی الزَّبُوۡرِ مِنۡۢ بَعۡدِ الذِّکۡرِ اَنَّ الۡاَرۡضَ یَرِثُہَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوۡنَ
(الانبیاء:106)
کیونکہ یہ آیت صاف صاف پُکار رہی ہے کہ اسلامی خلافت دائمی ہے اس لئے کہ یَرِثُھَا کا لفظ دوام کو چاہتا ہے۔ وجہ یہ کہ اگر آخری نوبت فاسقوں کی ہو تو زمین کے وارث وہی قرار پائیں گے نہ کہ صالح اور سب کا وارث وہی ہوتا ہے جو سب کے بعد ہو۔
(شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد 6ص353)
قدرت ثانیہ ،خلافت راشدہ کے وقت کی طرح کا معجزہ
غرض دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے۔ (1) اوّل خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے۔ (2) دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہوجاتا ہےاور دُشمن زور میں آجاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیااور یقین کرلیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہوجائے گی اور خود جماعت کے لوگ بھی تردّد میں پڑجاتے ہیں اور اُن کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور کئی بدقسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کرلیتے ہیں تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبردست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے۔ پس وہ جو اخیر تک صبر کرتا ہے خدا تعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتا ہے جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے وقت میں ہوا جبکہ آنحضرت ﷺ کی موت ایک بے وقت موت سمجھی گئی اور بہت سے بادیہ نشین نادان مرتد ہوگئے اور صحابہؓ بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہوگئے۔ تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو کھڑا کرکے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا اور اسلام کو نابود ہوتے ہوتے تھام لیا اور اس وعدہ کو پورا کیا جو فرمایا تھا وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَھُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّھُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا۔ یعنی خوف کے بعد پھر ہم ان کے پَیر جمادیں گے۔ ایسا ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں ہوا جبکہ حضرت موسیٰ ؑ مصر اور کنعان کی راہ میں پہلے اس سے جو بنی اسرائیل کو وعدہ کے موافق منزل مقصود تک پہنچاویں فوت ہوگئے اور بنی اسرائیل میں ان کے مرنے سے ایک بڑا ماتم برپا ہوا۔ جیسا کہ توریت میں لکھا ہے کہ بنی اسرائیل اس بے وقت موت کے صدمہ سے اور حضرت موسیٰ ؑ کی ناگہانی جُدائی سے چالیس دن تک روتے رہے۔ ایسا ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ معاملہ ہوا اور صلیب کے واقعہ کے وقت تمام حواری تِتر بِتّر ہوگئے اور ایک ان میں سے مرتد بھی ہوگیا۔
خلافت احمدیہ دائمی ہے
اب یاد رہے کہ اگرچہ قرآن کریم میں اس قسم کی بہت سی آیتیں ایسی ہیں جو اس اُمّت میں خلافت دائمی کی بشارت دیتی ہیں اور احادیث بھی اس بارہ میں بہت سی بھری پڑی ہیں لیکن بالفعل اس قدر لکھنا ان لوگوں کے لئے کافی ہے جو حقائق ثابت شدہ کو دولت عظمیٰ سمجھ کر قبول کرلیتے ہیں اور اسلام کی نسبت اس سے بڑھ کر اور کوئی بداندیشی نہیں کہ اس کو مردہ مذہب خیال کیا جائے اور اس کی برکات کو صرف قرن اوّل تک محدود رکھا جائے۔
(شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد 6ص353)
تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا اور وہ دوسری قدرت نہیں آ سکتی جب تک میں نہ جاؤں۔ لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اُس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی۔جیسا کہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ میں اس جماعت کو جو تیرے پَیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا۔ سو ضرور ہے کہ تم پر میری جُدائی کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے جو دائمی وعدہ کا دن ہے۔
(رسالہ الوصیت،روحانی خزائن جلد20 ص305)
مسیح موعود ؑ کے خلفاء
بعض احادیث میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ مسیح موعود اور دجّال معہود بعض مشرقی ملکوں یعنی ہندوستان میں ظاہر ہونگے۔ پھر مسیح موعود یا اس کے خلفاء میں سے کوئی خلیفہ دمشق کی طرف سفر کریں گے۔ چنانچہ یہ معنی ہیں اس قول کے جو مسلم کی حدیث میں آیا ہے کہ عیسیٰ منارہ دمشق کے پاس نازل ہوں گے کیونکہ نزیل دوسرے ملک سے آنے والے مسافر کو کہتے ہیں۔
(حمامۃ البشریٰ ،روحانی خزائن جلد7 ص225)
حمامۃ البشریٰ کا یہ حوالہ واضح طور پر ثابت کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت میں اپنے خلفاء کے ظہور کی پیشگوئی فرمائی ہے اور ان میں سے ایک کے دمشق کی طرف سفر کی خبر بھی دی ہے۔اس سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ حضور ؑ نے اپنا جانشین کسی انجمن کو نہیں ٹھہرایابلکہ جماعت میں سے منتخب افراد کے متعلق یہ خبر دی ہے کہ وہ بطور خلیفہ حضور ؑ کے جانشین ہونگے اور ان میں سے ایک فرد بطور خلیفہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نمائندگی میں دمشق کا سفر کرے گا، گویا اس کا جانا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جانا سمجھا جائے گا۔ یہ پیشگوئی نہایت شان کے ساتھ پوری ہوئی اور نظام خلافت کے قیام کے بعد جماعت احمدیہ کے خلفاء میں سے ایک خلیفہ یعنی حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ خلافت کے مقام پر فائز ہونے کے بعد دمشق کے سفر پر تشریف لے گئے۔فَاعْتَبِرُوْا یَا اُوْلِی الْاَبْصَار۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام خاتم الاولیاء
وَ اِنِّیْ عَلٰی مَقَامِ الْخَتْمِ مِنَ الْوِلَایَۃِ۔ کَمَا کَانَ سَیِّدِی الْمُصْطَفٰی عَلٰی مَقَامِ الْخَتْمِ مِنَ النُّبُوَّۃِ۔ وَ اِنَّہٗ خَاتَمُ الْاَنْبِیَاءِ وَ اَنَا خَاتَمُ الْاَوْلِیَاءِ۔ لَا وَلِیَّ بَعْدِیْ۔ اِلَّا الَّذِیْ ھُوَ مِنِّیْ وَ عَلٰی عَھْدِیْ۔ اور میں ولایت کے سلسلہ کو ختم کرنے والا ہوں جیسا کہ ہمارے سیّد آنحضرت ﷺ نبوت کے سلسلہ کو ختم کرنے والے تھے اور وہ خاتم الانبیاء ہیں اور مَیں خاتم الاولیاء ہوں۔ میرے بعد کوئی ولی نہیں مگر وہ جو مجھ سے ہوگا اور میرے عہد پر ہوگا۔
(خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد 16ص69)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام خاتم الخلفاء
وَ اَنَّ الْقُرْاٰنَ یَشْھَدُ اَنَّ خَاتَمَ خُلَفَاءِھٰذِہِ الْاُمَّۃِ رَجُلٌ مِّنَ الْاُمَّۃِ اور واقعی قرآن نے گواہی دی ہے کہ اس اُمّت کا خاتم الخلفاء اس امت میں سے ہے۔
(خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد16 ص114)
“چونکہ آنحضرت ﷺ کی نبوت کا زمانہ قیامت تک ممتد ہے اور آپ خاتم الانبیاء ہیں اس لئے خدا نے یہ نہ چاہا کہ وحدت اقوامی آنحضرت ﷺ کی زندگی میں ہی کمال تک پہنچ جائے۔ کیونکہ یہ صورت آپؐ کے زمانہ کے خاتمہ پر دلالت کرتی تھی۔ یعنی شبہ گزرتا تھا کہ آپؐ کا زمانہ وہیں تک ختم ہوگیا کیونکہ جو آخری کام تھا وہ اس زمانہ میں انجام تک پہنچ گیا۔ اس لئے خدا نے تکمیل اس فعل کی جو تمام قومیں ایک قوم کی طرح بن جائیں اور ایک ہی مذہب پر ہوجائیں زمانہ محمدی کے آخری حصہ پر ڈال دی جو قرب قیامت کا زمانہ ہے اور اس کی تکمیل کے لئے اسی اُمّت میں سے ایک نائب مقرر کیا جو مسیح موعود کے نام سے موسوم ہے اور اس کا نام خاتم الخلفاء ہے۔”
(چشمہ معرفت ،روحانی خزائن جلد23ص90)
منکرین خلافت لفظ خاتم کا مطلب “آخری” لیتے ہیں۔ ان معنی کو اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس مندرجہ بالا اقتباس پر چسپاں کیا جائے تو اس کا مطلب یہ بنے گا کہ آنحضرت ﷺ آخری نبی ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام آخری ولی ہیں۔یعنی جس طرح منکرین خلافت کے نزدیک نبی اکرم ﷺ کے بعدکسی بھی طرح کا کوئی نبی نہیں آئیگا اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد کوئی ولی بھی نہیں آنا چاہئے۔ ظاہر ہے کہ منکرین خلافت اپنے بزرگوں کو ولایت کے قدم پر تو ضرور سمجھتے ہیں اور انہیں کسی نہ کسی حد تک ولی تو سمجھتے ہی ہیں۔ لیکن خاتم کے معنی ‘ آخری’ اختیار کرنے سے جہاں منکرین خلافت برکات نبوّت و خلافت سے محروم ہوئے وہاں برکات ولایت بھی ان کی دسترس سے باہر ہوجاتی ہیں۔ لیکن اگر خاتم کی وہ تشریح اختیار کی جائے جو جماعت احمدیہ سمجھتی ہے تو جہاں آنحضرت ﷺ کی اتباع میں ایک امّتی تابعی نبوت کے مقام تک پہنچ سکتا ہے وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے غلام حضور ؑ کی اتّباع کے طفیل مقام خلافت پر بھی فائز کئے جاسکتے ہیں اورنہ صرف بفضل اللہ تعالیٰ فائز کئے جاتے ہیں بلکہ قیامت تک فائز کئے جاتے رہیں گے ان شاء اللہ ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام آخر الخلفاء
وَلٰکِنَّا اُلْجِئْنَا بِنَصِّ الْقُرْاٰنِ اِلٰی اَنْ نُؤْمِنَ بِخَلِیْفَۃٍ مِّنَّا ھُوَ اٰخِرُ الْخُلَفَاءِ عَلٰی قَدَمِ عِیْسٰی۔ “مگر ہم قرآن کی نصّ کی رو سے اس بات پر مجبور ہوگئے کہ اس بات پر ایمان لائیں کہ آخری خلیفہ اسی اُمّت میں سے ہوگا اور وہ عیسیٰ کے قدم پر آئے گا۔
(خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد16 ص76)
’’اور مَیں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ مسیح ابن مریم آخری خلیفہ موسیٰ علیہ السلام کا ہے اور مَیں آخری خلیفہ اُس نبی کا ہوں جو خیر الرسل ہے۔‘‘
(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد22 ص 154)
مندرجہ بالا حوالوں میں حضورؑ نے خود کو آخر الخلفاء اور نبی اکرم ﷺ کا آخری خلیفہ قرار دیا ہے لیکن صرف اس اقتباس کو پکڑ کر بیٹھ جانا اور دوسری تحریرات پر غور نہ کرنا انسان کو گمراہی کی طرف دھکیل سکتا ہے۔ سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہاں آنحضرت ﷺ کی خلافت کے اختتام کا ذکر فرمارہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ دوسری تحریرات میں آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق خلافت علیٰ منہاج النبوّت قائم ہونے کی خوشخبری بھی دے رہے ہیں ۔ حدیث کے مطابق اپنے بعد مختلف اَدوار کا ذکر فرماتے ہوئے آنحضرت ﷺ نے جب خلافت علیٰ منہاج النبوّت کا ذکر فرمایا تو پھر آپؐ خاموش ہوگئے اور اس کے بعد کچھ نہیں کہا۔ اس سے محدثّین یہ استنباط کرتے ہیں کہ یہ زمانہ آخری زمانہ ہے اور مسیح موعود آنحضرت ﷺ کا آخری خلیفہ ہے۔ جماعت احمدیہ بھی یہی عقیدہ رکھتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس اُمّت کے لئے آخری امام اور خلیفہ ہیں اور اب نبی اکرم ﷺ کی خلافت ختم ہوکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خلافت شروع ہوچکی ہے۔خلفائے جماعت احمدیہ خود کورسول اللہ ﷺ کا نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خلیفہ قرار دیتے ہیں لیکن اس کے برعکس اور متضاد عقیدہ اپناتے ہوئے منکرین خلافت کے نزدیک آئندہ صدیوں میں دیگر مجدّدین کا ظہور بھی ہوگا۔ اس بناء پر ان سے یہ دلچسپ سوال بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا آئندہ آنے والا مجدّد ان کے گروہ سے ہوگا یا اس کا ظہور ان مسلمانوں میں سے بھی ہوسکتا ہے جو ان منکرین خلافت کو غیر مسلم سمجھتے ہیں اور اگر غیر احمدی مسلمانوں میں سے ظہور پذیر ہونے والے مجدّد نے بھی ان کو غیر مسلم قرار دے دیا تو کیا یہ اس مجدّد کو تسلیم کریں گے یا اس کا بھی انکار کردیں گے؟
شخصی خلافت یا انجمن
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رسالہ الوصیّت میں خود کو قدرت اُولیٰ اور خلافت کو قدرت ثانیہ قرار دیا۔ جس طرح قدرت اُولیٰ کے مظہر افراد ہوتے ہیں نہ کہ کوئی انجمن یا ادارہ، اسی طرح قدرت ثانیہ کے مظہر بھی لازمًا افراد ہی ہونے چاہئیں۔اس عقلی دلیل کی تائید میں تاریخی شہادتیں اورسابقہ انبیاء کی سنّت بھی ہماری رہنمائی کرتی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہِ طور پر جاتے ہوئے کسی انجمن کو نہیں بلکہ اپنے بھائی حضرت ہارون کو اپنا خلیفہ مقرر فرما کر گئے۔حضرت موسیٰ ؑ کی وفات پر یشوع جوآپؑ کےخلیفہ بنے اور پھر یکے بعد دیگرے انبیاء بطور خلیفہ بنی اسرائیل کی روحانی سربراہی کرتے رہے۔عہد نامہ جدید کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے شمعون پطرس کواپنا جانشین قرار دیا۔ آج بھی کیتھولک مسیحیوں کا روحانی سربراہ ’’پوپ‘‘ ایک فرد ہوتا ہے جو خود کو پطرس یعنی پیٹر کا جانشین قرار دیتا ہے۔اسی طرح آنحضرت ﷺ غزوات پر جاتے وقت کسی انجمن کو نہیں بلکہ کسی نہ کسی صحابیؓ کو اپنا قائم مقام مقرر فرماتے تھے۔ آپؐ کی وفات کے بعد بھی مسلمانوں نے کسی انجمن کو نہیں بلکہ متفقہ طور پر اپنے میں سے ایک معزّز ترین فرد حضرت ابوبکر صدیقؓ کو اپنا خلیفہ منتخب کیا اور یہ سلسلہ اسی صورت میں جاری رہا۔ یہاں تک کہ سِکھّوں میں بھی شخصی سربراہی قائم ہوئی اوریکے بعد دیگرے گرو صاحبان اپنے پَیروکاروں کی رہنمائی کرتے رہےتا آنکہ گرنتھ کو گرو کا درجہ دے دیا گیا ہے۔چنانچہ مذہب کی تاریخ میں ایک بھی ایسا واقعہ نہیں ملتا جب کسی مذہبی پیشوا کے انتقال کے بعد اس کا جانشین کسی فرد کی بجائے کسی انجمن یا ادارہ کو قرار دیا گیا ہو۔
قرآن، حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ان تحریرات کی روشنی میں بفضل اللہ تعالیٰ یہ بخوبی ثابت ہوا کہ خلافت اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیاء کی نیابت وجانشینی کا نام ہے جو قوموں کو ایمان اور اعمالِ صالحہ کے نتیجہ میں بذریعہ افراد بطور انعام عطا کی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے احکامات سے روگردانی کے نتیجہ میں اور فسق و فجور میں مبتلا ہونے کے باعث بطور سزا چھین بھی لی جاتی ہے۔ خلافت احمدیہ بھی اسی سلسلہ خلافت کی ایک کڑی ہے جس کا اللہ تعالیٰ کے وعدے اور آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی اورحضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خبر کے مطابق دائمی اور قیامت تک ہمارے ساتھ رہنے والی قدرت ثانیہ کے طور پرظہور ہواہے اورجس کے پانچویں مظہرسیدنا مرزا مسرور احمد حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں خلافت کی برکات سے زیادہ سے زیادہ مستفیض ہونے کی توفیق عطا فرمائے، ہم سب کو اس عظیم الشان نعمت کی کما حقُّہٗ قدر کرنے اور پورے اخلاص کے ساتھ اس سے وابستگی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
خلافت اور مجددیت – خلیفہ مجدد سے بڑا ہوتا ہے
خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جون 2011، حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ف…