جماعت احمدیہ پر لگائے جانے والے تحریف قرآن کے الزام پر ایک طائرانہ نظر
پاکستان میں جماعت احمدیہ کے خلاف فتنہ انگیزی کو ہوا دینے کے لیے کئی طرح کے اعتراضات کو بنیاد بنایا جاتا ہے۔ آج کل جس اعتراض کا بہانہ بنا کر جماعت احمدیہ کے لٹریچر پر پابندیاں لگانے اور پکڑ دھکڑ کا سلسلہ جاری ہے وہ یہ ہے کہ نعوذ باللہ من ذالک جماعت احمدیہ تراجم قرآن کریم میں تحریف کی مرتکب ہوئی ہے۔ اس الزام کو سن کر ہماری توجہ اس طرف مبذول ہوئی کہ کوئی ایسا ترجمۂ قرآن تلاش کیا جائے جس کی صحت پر علماء کا طبقہ متفق ہو گیا ہو کیونکہ اگر یہ علماء جماعت احمدیہ کے پیش کردہ تراجم پر تحریف کا الزام لگا کر اس پر پابندی کا مطالبہ کرتے ہیں تو لامحالہ وہ اس کے مقابل پر کوئی ایسا ترجمہ تو ضرور پیش کرتے ہوں گے جو اس قسم کی خامیوں سے مُبرّا ہے۔
اس نقطہ ٔنظر سے جب جماعت احمدیہ کےشائع کردہ تراجم قرآن کے علاوہ دیگر تراجم پر نگاہ ڈالی تو بڑی افسوسناک صورت حال سامنے آئی۔ برصغیر میں سب سے ابتدائی تراجم قرآن جو محدثین دہلی رحمھم اللّٰہ (خانوادۂ شاہ ولی اللہؒ ) نے کیے تھے وہ بھی علماء کے سخت فتاویٰ کی زد میں رہے کیونکہ اس دَور کے علماء کے نزدیک قرآن کریم کا ترجمہ کرنا ہی جائز نہیں تھا۔ شیعہ حضرات کی طرف سےمحدثین دہلی کے تراجم قرآن کا ردّ کیا جانا تو سمجھ میں آتا ہےکیونکہ اختلاف عقائد کے علاوہ شیعہ فرقہ کے ردّ میں ان بزرگان کی بعض کتب اور تحریرات سند کا درجہ رکھتی ہیں۔ تاہم افسوسناک بات تو یہ تھی کہ سنی بریلوی فرقہ کے بعض علماء بھی ان بزرگانِ دین کی اور ان کے تراجم کی دبے لفظوں میں تنقیص کرتے نظر آتے ہیں۔ (رود کوثر (اسلامی ہند اور پاکستان کی مذہبی اور روحانی تاریخ) از ڈاکٹر شیخ محمد اکرم)، (مکمل تاریخ وہابیہ از مولانا ابو الحسان محمد رمضان علی قادری(شاہ ولی اللہؒ کو وہابی تحریک سے متاثر قرار دیا)
اس پر خیال آیا کہ بریلوی فرقہ کے کسی ترجمۂ قرآن کو دیکھا جائے کہ کیا وہ قبول عام کی سند حاصل کر سکا یا نہیں۔ اس سلسلہ میں بانیٔ فرقہ بریلویہ احمد رضاخان صاحب کے ترجمہ کا جائزہ لیا جو ’’کنز الایمان‘‘ کے نام سے شائع کیا جاتا ہے۔ یہ وہ ترجمہ ٔقرآن ہے جو ہندوستان و پاکستان وغیرہ میں سب سے زیادہ معروف اور متداول ہے۔ اس کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے خیال آیا کہ اس ترجمہ کی صحت پر علماء کا طبقہ ضرور متفق ہو گا۔ تاہم دارالعلوم دیوبند ہندوستان کے دارالافتاء کا جاری کردہ فتویٰ ان کی آفیشل ویب سائٹ پر ہمارا منہ چڑا رہا تھا کہ ’’عامۃالمسلمین کا اس ترجمہ کو پڑھنا اعتقادی اور عملی گمراہی و غلطی کا موجب بن سکتا ہے۔‘‘
کچھ مزید تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ اسّی کی دہائی میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے سلفی مفتیوں نے ترجمہ ’’کنز الایمان ‘‘کو گمراہ کن، محرَّف اور شرک کی تعلیم دینے والا قرار دے کر اس پر پابندی کے اعلانات شائع کروائے تھے۔ اور یہ فتاویٰ رابطہ عالم اسلامی کے مجلات میں شائع کر کے تمام دنیا میں پھیلائے گئے۔ اس کے علاوہ بیسیوں دیوبندی اور اہل حدیث علماء کی تحقیقاتی کتب بھی ہمارے سامنےآئیں جو احمد رضا خان صاحب کے ترجمہ ٔقرآن پر کئی سنگین اعتراضات قائم کر کے اس کی ضبطی کا مطالبہ بھی کر رہےتھے۔ ان اعتراضات کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ ان علماء نے اس ترجمہ کو غلط، نامناسب، محرف، ضعیف، عقلاً مخدوش، وحی الٰہی کے خلاف، فہم رسولﷺ کے خلاف، فہم صحابہ کے خلاف، حضورﷺ کی توہین پر مشتمل اورازواج مطہرات کی توہین پر مشتمل قرار دیا ہے۔ (تنقید متین بر تفسیر نعیم الدین از مولوی محمد سرفراز خان صفدر)(مطالعہ بریلویت از ڈاکٹر علامہ خالد محمود)،(کنز الایمان کا تحقیقی جائزہ از مولوی محمد الیاس گھمن)(تلبیسات کنز الایمان مطبوعہ جمعیت اہل سنت والجماعت راولپنڈی)،(رضا خانی ترجمہ اور تفسیر پر ایک نظر از مفتی جمیل احمد نذیری مبارکپوری)، (حضرت شیخ الہند اور فاضل بریلوی کے ترجمۂ قرآن کا تقابلی جائزہ ازمولوی قاری عبد الرشید)،(نرالا مجدد (یعنی احمد رضا خان بریلوی تحریف قرآن کے آئینے میں ) از مولوی محمد اسرائیل قاسمی)
یہ بڑی تکلیف دہ صورت حال تھی کیونکہ یہ ترجمہ تو سب سے زیادہ متداول ترجمۂ قرآن سمجھا جاتا تھا۔ اگرچہ اس مثال سے باقی تراجم کے متعلق قیاس کرنا کچھ مشکل نہیں تھا۔
قیاس کن زگلستان من بہار مرا
پھر بھی سوچا کہ شاید بریلوی علماء نے وسیع الظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے مخالف فرقہ کے کسی ترجمۂ قرآن پر اتفاق کر لیا ہواور یوں ان تمام فرقوں کا ایک نمائندہ ترجمۂ قرآن ہماری رہ نمائی کے لیے سامنے آجائے۔ لیکن یہ بھی ہماری خوش فہمی تھی۔ احمد رضا خان بریلوی صاحب کے کئی ایک فتاویٰ اس موضوع پر موجود ہیں کہ شیعہ، دیوبندی اوروہابی یعنی اہل حدیث حضرات دنیا کے بد ترین کافر ہیں اور ان کی کتب کا مطالعہ حرام ہے۔ بلکہ وہ تو اپنے ان فتاویٰ میں اس قدر متشدد ہیں کہ انہوں نے دیوبندی اور اہل حدیث علماء کی بعض کتب کو ’’بول و براز اور پیشاب سے بھی زیادہ نجس ‘‘ قرار دیا اور ان کے مطالعہ کے بارے میں لکھا کہ ان کا پڑھنا ’’زنا اور شراب خوری سے بدتر حرام ہے۔ ‘‘ (فتاویٰ رضویہ (مجموعہ فتاویٰ احمد رضا خان بریلوی)جلد نمبر15)
اگر عام کتب کے مطالعہ پر یہ فتویٰ ہے تو تراجم قرآن کے معاملے میں تو خاص احتیاط کی ضرورت ہوگی۔ اس لیے بریلوی علماء نے بھی بظاہر ’’کنز الایمان ‘‘کے دفاع میں جو کتب تحریر کی ہیں ان میں دیگر فرقوں کے تراجم قرآن کو اور خصوصاً اشرف علی تھانوی صاحب اور محمود حسن دیوبندی صاحب کے تراجم کو خاص تنقید کا نشانہ بنایا اور بلا کم و کاست وہی اعتراضات جو ’’کنزالایمان ‘‘پر اٹھائےگئے تھے اپنی تمام تر سنگینیوں کے ساتھ دیگر علماء کے تراجم کے سر تھوپ دیے۔
مثلاً ایک بریلوی عالم دین علامہ محمد مدنی میاں صاحب نے اپنے ایک مضمون میں احمد رضا بریلوی صاحب کے علاوہ باقی تمام مترجمین کو تائید ربانی سے محروم، بازاری محاورے استعمال کرنے والے، بصیرت ایمانی سے محروم، غیر مہذب، بارگاہ خداواندی کے آداب سے ناواقف، مسلمانوں کے ایمان کو غارت کرنے والے، تقدیس نبوت کو مجروح کرنے والےاورزبان و بیان کے لحاظ سے نادارقرار دیا ہے۔ (انوار رضا (مجموعہ مضامین ) مطبوعہ ضیاء القرآن پبلیکیشنز)، (کنز الایمان پر اعتراضات کا علمی محاسبہ از خواجہ حمید الدین سیالوی)، (خصائص کنز الایمان از مولوی عبد الحکیم خان اختر مجددی)، (کنز الایمان اور مخالفین از محمد ممتاز تیمور قادری)، (تنزیہ کنز الایمان از خرافات اہل الطغیان از مولوی حافظ محمد احسان الحق)، (محاسن کنز الایمان از ملک شیر محمد خان اعوان)، (مفہوم قرآن بدلنے کی واردات از علامہ ڈاکٹر اشرف آصف جلالی)
اب گویا کیفیت یہ تھی کہ۔۔۔
حیران ہوں دل کو پیٹوں کہ روؤں جگر کو میں
اس موضوع پر ابتدائی ایک آدھ کتاب دیکھ کر ہم سمجھے تھے کہ کسی نے کوئی ایک آدھ اختلافی تحریر لکھ دی ہو گی ورنہ عمومی طور پر علماء ایک دوسرے کی طرف سے شائع کردہ تراجم کا احترام کرتے ہوں گے لیکن یہاں تو حال یہ تھا کہ
مصحفی ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہوگا کوئی زخم
تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا
یہاں تو ہر فرقہ اپنے اپنے علماء کے تراجم کو درست اور دیگر فرقوں کے شائع کردہ تراجم پر اعتراضات کی بوچھاڑ کرتا نظر آیا کیونکہ ہر فرقہ کے علماء نے اپنے اپنے عقائد کو درست ثابت کرنے کے لیے انہی تراجم کا سہارا لیا ہے۔
اس صورت حال میں ہم یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ جماعت احمدیہ کے تراجم قرآن پر تحریف کے الزامات لگا کر پکڑ دھکڑ سے قبل ہمیں اُس ترجمہ ٔقرآن کے متعلق ضرور بتائیں جس کو تمام علماء نے متفقہ طور پرمقبولیت کی سند عطا کی ہو۔ اور اپنی دیانت داری کا ثبوت دیتے ہوئے اس پکڑ دھکڑکے کام کو اپنے گھر سے شروع کریں اور پاکستان میں شائع ہونے والے اکثر تراجم قرآن پر فوراًپابندی لگوائیں کیونکہ وہ تراجم تو ایسےسنگین اعتراضات کی زد میں ہیں جو جماعت احمدیہ کے تراجم پرکبھی نہیں اٹھائے گئے۔ پھر اس نیکی میں قدم آگے بڑھاتے ہوئے اس پابندی کی خلاف ورزی کرنے والوں پر، ان تراجم کے شائع کرنے والوں اور پڑھنے پڑھانے والوں پر مقدمات بنوائیں پھر اس کے بعد دوسروں پر الزام تراشی کا سلسلہ شروع کریں ورنہ کسی دانا کا یہ قول یاد رکھیں کہ شیشے کے گھروندے میں بیٹھ کر پھینکا ہوا پتھر اپنے گھروندے کو ہی گرا دیا کرتا ہے۔
قرآن کی تحریفِ معنوی کے الزام کی حقیقت
آجکل سوشل میڈیا پر احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیز مہم میں الزام تراشیوں کا ایک سلسلہ جاری ہے…