سیرت حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السّلام
احمد قادیانی علیہ السلام اور آپ کے خاندانی حالات
احمد جوسلسلہ احمدیہ کے بانی تھے۔ آپ کا پورانام غلام احمد تھا اور آپؑ قادیان کے باشندے تھے جو بٹالہ ریلوے اسٹیشن سے گیارہ 11میل، امرتسرسے چوبیس24میل اور لاہور سے قریباً ستاون 57میل جانب مشرق پرایک قصبہ ہے۔ آپ قریباً1836ء یا 1837ء میں اِسی گاؤں میں مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کے ہاں جمعہ کے دن پیدا ہوئے٭ اور آپ کی ولادت توام تھی یعنی آپ کے ساتھ ایک لڑکی بھی پیدا ہوئی تھی جو تھوڑی ہی مدت بعدفوت ہوگئی۔
پیشتر اس کے کہ میں آپؑ کے حالات بیان کروں ضروری معلوم ہوتاہے کہ مختصراً آپ کے خاندان کے بھی کچھ حالات بیان کر دیے جائیں۔
آپ کا خاندان اپنے علاقے میں ایک معزّز خاندان تھا اور اس کا سلسلہ نسب برلاس سے جو امیر تیمور کا چچا تھا ملتا ہے اور جبکہ امیرتیمورنے علاقہ کُش پربھی جس پر اس کا چچا حکمران تھا قبضہ کر لیا تو برلاس خاندان خراسان میں چلاآیا اور ایک مدت تک یہیں رہا لیکن دسویں صدی ہجری یا سولہویں صدی مسیحی کے آخر میں اس خاندان کا ایک ممبر مرزا ہادی بیگ بعض غیر معلوم وجوہات کے با عث اس ملک کو چھوڑ کر قریباً 200 دو سَو آدمیوں سمیت ہندوستان آگیا اور دریائے بیاس کے قریب کے علاقہ میں اُس نے اپنا ڈیرہ لگایا اور بیاس سے نو میل کے فاصلہ پرایک گاؤں بسایا اور اُس کا پورا نام اِسلام پور رکھا (یعنی اسلام کا شہر) چونکہ آپ ایک نہایت قابل آدمی تھے دہلی کی حکومت کی طرف سے اِس علاقہ کے قاضی مقرر کیے گئے اور اِس عُہدہ کی وجہ سے آپ کے گاؤں کا نام بجائے اسلام پور کے اِسلام پور قاضی ہوگیایعنی اِسلام پورجو قاضی کا مقام ہے اور بگڑتے بگڑتے اسلام پور کا نام تو بالکل مٹ گیا اور صرف قاضی رہ گیاجو پنجابی تلفظ میں قادی بن گیا اور آخر اس سے بگڑکر اس گاؤں کانام قادیان ہوگیا۔
غرض مرزا ہادی بیگ صاحب نے خراسان سے آکر بیاس کے پاس ایک گاؤں بساکراس میں بودو باش اختیارکی اور اسی جگہ پران کا خاندان ہمیشہ قیام پذیررہا اور باوجوددہلی پایہ تختِ حکومت سے دور رہنے کے اِس خاندان کے ممبرمغلیہ حکومت کے ماتحت معزز عہدوں پر مامور رہے اور جب مغلیہ خاندان کو ضعف پہنچا اور پنجاب میں طوائف الملوکی پھیل گئی تو یہ خاندان ایک آزاد حکمران کے طور پر قادیان کے اردگردکے علاقہ پر جو قریباً ساٹھ میل کا رقبہ تھا حکمران رہا لیکن سکّھوں کے زور کے وقت رام گڑھیا سِکّھوں نے بعض اور خاندانوں کے ساتھ مِل کر اِس خاندان کے خلاف جنگ شروع کی اور گو اُن کے پڑدادا نے تو اپنے زمانہ میں ایک حدتک دُشمن کے حملوں کو روکا لیکن آہستہ آہستہ (حضرت) مرزا صاحبؑ کے دادا کے وقت اِس ریاست کی حالت ایسی کمزور ہو گئی کہ صرف قادیان جو اُس وقت ایک قلعہ کی صورت میں تھا اور اس کے چاروں طرف فصیل تھی اُن کے قبضہ میں رہ گیا اور باقی سب علاقہ اُن کے ہاتھوں سے نکل گیا اور آخر بعض گاؤں کے باشندوں سے سازش کر کے سِکھ اِس گاؤں پر بھی قابض ہو گئے اور اِس خاندان کے سب مرد و زن قید ہو گئے لیکن کچھ دِنوں کے بعد سِکھوں نے اُن کو اس علاقے سے چلے جانے کی اجازت دے دی اور وہ ریاست کپورتھلہ میں چلے گئے اور وہاں قریباَ سولہ سال رہے۔ اس کے بعد مہاراجہ رنجیت سِنگھ کا زمانہ آگیا اور انہوں نے سب چھوٹے چھوٹے راجوں کو اپنے ماتحت کرلیا اور اس انتظام میں حضرت مرزاصاحبؑ کے والد کو بھی اُس کی جاگیر کا بہت کچھ حصہ واپس کردیا اور وہ اپنے بھائیوں سمیت مہاراجہ کی فوج میں ملازم ہو گئے اور جب انگریزی حکومت نے سِکھوں کی حکومت کو تباہ کیاتو اُن کی جاگیر ضبط کی گئی مگر قادیان کی زمین پر اُن کومالکیّت کے حقوق دیے گئے۔
آپ کا خاندانی تذکرہ تاریخوں میں
یہ مختصر حالات لکھنے کے بعد سر لیپل گریفن کی کتاب۔۔۔ “پنجاب چیفس” کا وہ حصّہ جو حضرت مرزا صاحبؑ کے خاندان کے متعلق ہے ہم لکھ دینا مناسب سمجھتے ہیں۔ :۔
’’شہنشاہ بابرکے عہدِ حکومت کے آخری سال یعنی 1530ء میں ایک مغل مسمی ہادی بیگ باشندئہ سمرقند اپنے وطن کو چھوڑکر پنجاب میں آیا اور ضلع گورداسپور میں بودو باش اختیار کی۔ یہ کسی قدر پڑھا لکھاآدمی تھا (۱) اور قادیان کے گرد و نواح کے ستّر مواضعات کا قاضی یا مجسٹریٹ مقرر کیا گیا۔ کہتے ہیں کہ قادیان اُس نے آباد کیا اور اُس کا نام اِسلام پور قاضی رکھا جو بدلتے بدلتے قادیان (۲)ہو گیا۔ کئی پشتوں تک یہ خاندان شاہی عہدِ حکومت میں معزز عہدوں پرممتاز رہا اور محض سکھوں کے عروج کے زمانہ میں یہ افلاس کی حالت میں ہو گیا تھا۔ (مرزا) گُل محمد اور اُس کا بیٹا عطا محمد رام گڑھیا اور کنھیا مِسلوں سے جن کے قبضہ میں قادیان کے گرد و نواح کا علاقہ تھا ہمیشہ لڑتے رہے۔ آخر کار اپنی تمام جاگیر کو کھو کر عطا محمد بیگووال میں سردار فتح سنگھ اہلووالیہ (۳)کی پناہ میں چلا گیا اور بارہ سال تک امن و امان سے زندگی بسر کی۔ اُس کی وفات پر رنجیت سنگھ نے جو رام گڑھیا مِسْل کے تمام جاگیر پر قابض ہو گیا تھا، غلام مرتضیٰ کو قادیان واپس بلا لیا اور اس کی جدی جاگیر کا ایک بہت بڑا حصہ اُسے واپس دے دیا۔ اِس پر غلام مرتضیٰ اپنے بھائیوں سمیت مہاراجہ کی فوج میں داخل ہوا اور کشمیر کی سرحد اور دوسرے مقامات پر قابل قدر خدمات انجام دیں۔ نونہال سنگھ، شیر سنگھ اور دربارِ لاہور کے دَور دَورے میں غلام مرتضیٰ ہمیشہ فوجی خدمت پر مامور رہا۔ 1841ء میں یہ جرنیل ونچورا کے ساتھ منڈی اور کلّو کی طرف بھیجا گیا اور 1843ء میں ایک پیادہ فوج کا کمیدان بنا کرپش اور روانہ کیا گیا۔ ہزارہ کے مفسدہ میں اُس نے کارہائے نمایاں کیے اور جب 1848ء کی بغاوت ہوئی تو یہ اپنی سرکار کا نمک حلال رہا اور اس کی طرف سے لڑا۔ اس موقعہ پر اس کے بھائی غلام محی الدین نے بھی اچھی خدمات کیں۔ جب بھائی مہاراج سنگھ اپنی فوج لیے دیوان مولراج کی امداد کے لیے ملتان کی طرف جا رہا تھا تو غلام محی الدین اور دوسرے جاگیرداران لنگر خان ساہیوال اور صاحب خان ٹوانہ نے مسلمانوں کو بھڑکایا اور مصر صاحب دیال کی فوج کے ساتھ باغیوں سے مقابلہ کیا اور اُن کو شکست فاش دی۔ اُن کو سوائے دریائے چناب کے کسی اور طرف بھاگنے کا راستہ نہ تھا جہاں چھ سَو سے زیادہ آدمی ڈوب کر مَر گئے۔
الحاق کے موقعہ پر اِس خاندان کی جاگیر ضبط کی گئی مگر 700روپیہ کی ایک پنشن غلام مرتضیٰ اور اس کے بھائیوں کو عطا کی گئی اور قادیان اور اُس کے گردو نواح کے مواضعات پر اُن کے حقوق مالکانہ رہے۔
اِس خاندان نے غدر 1857ء کے دوران میں بہت اچھی خدمات کیں۔ غلام مرتضیٰ نے بہت سے آدمی بھرتی کیے اور اُس کا بیٹا غلام قادر جرنیل نکلسن صاحب بہادر کی فوج میں اُس وقت تھا جب کہ افسر موصوف نے تریموگھاٹ پر 46 نیٹو انفنٹری کے باغیوں کو جو سیالکوٹ سے بھاگے تھے تہِ تیغ کیا۔ جنرل نکلسن صاحب بہادر نے غلام قادر کو ایک سَند دی جس میں یہ لکھا ہے کہ 1857ء میں خاندانِ قادیان ضلع گورداسپور کے تمام دوسرے خاندانوں سے زیادہ نمک حلال رہا۔
غلام مرتضیٰ جو ایک لائق حکیم تھا 1876ء میں فوت ہوا اور اس کا بیٹا غلام قادر اس کا جانشین ہوا۔ غلام قادر حکام مقامی کی امداد کے لیے ہمیشہ تیار رہتا تھا اور اُس کے پاس اُن افسران کے جن کا انتظامی امور سے تعلق تھا بہت سے سرٹیفکیٹ تھے۔ یہ کچھ عرصہ تک گورداسپور میں دفتر ضلع کا سپرنٹنڈنٹ رہا۔ اُس کا اکلوتا بیٹا کم سِنی میں فوت ہوگیا اور اُس نے اپنے بھتیجے سلطان احمد کو متبنّٰی کر لیا جو غلام قادر کی وفات یعنی 1883ء سے خاندان کا بزرگ خیال کیا جاتا ہے۔ مرزا سلطان احمد نے نائب تحصیلداری سے گورنمنٹ کی ملازمت شروع کی اب اکسٹرا اسسٹنٹ ہے۔ یہ قادیان کا نمبردار بھی ہے۔۔۔۔ نظام الدین کا بھائی امام الدین جو 1904ء میں فوت ہوا دہلی کے محاصرے کے وقت ہاڈسن ہورس (رسالہ) میں رسالدار تھا۔ اس کا باپ غلام محی الدین تحصیلدار تھا۔
یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ غلام احمد جو غلام مرتضیٰ کا چھوٹا بیٹا تھا مسلمانوں کے ایک مشہور مذہبی فرقہ احمدیہ کا بانی ہوا۔ یہ شخص 1837ء میں پیدا ہوا اور اس کو تعلیم نہایت اچھی ملی۔ 1891ء میں اُس نے بموجب مذہب اسلام مہدی یا مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا، چونکہ یہ ایک عالم اور منطقی تھا اِس لیے دیکھتے ہی دیکھتے بہت سے لوگ اس کے معتقد ہوگئے اور اب احمدیہ کی تعداد پنجاب اور ہندوستان کے دوسرے حصوں میں تین لاکھ کے قریب بیان کی جاتی ہے۔ مرزا، عربی فارسی اور اُردو کی بہت سی کتابوں کا مصنّف تھا جن میں اُس نے جہاد کے مسئلہ کی تردید کی اور یہ گمان کیا جاتا ہے کہ اُن کتابوں نے مسلمانوں پر اچھا اثر کیا ہے۔ مدت تک یہ بڑی مصیبت میں رہا کیونکہ مخالفین مذہب سے اس کے اکثر مباحثے اور مقدمے رہے لیکن اپنی وفات سے پہلے جو 1908ء میں ہوئی اس نے ایک رتبہ حاصل کر لیا کہ وہ لوگ بھی جو اُس کے خیالات کے مخالف تھے اس کی عزت کرنے لگے۔ اس فرقہ کا صدر مقام قادیان ہے جہاں انجمن احمدیہ نے ایک بہت بڑا سکول کھولا ہے اور چھاپہ خانہ بھی ہے جس کے ذریعہ سے اس فرقہ کے متعلق خبروں کا اعلان کیا جاتا ہے۔ مرزا غلام احمد کاخلیفہ ایک مشہور حکیم مولوی نورالدین ہے جو چند سال مہاراجہ کشمیر کی ملازمت میں رہا ہے۔
اِس خاندان کے سالم موضع قادیان پرجو ایک بڑا موضع ہے، حقوق مالکانہ ہیں اور نیز تین ملحقہ مواضعات پر بشرح پانچ فیصدی حقوق تعلق داری حاصل ہیں ‘‘۔ (دی پنجاب چیفس حصہ اوّل مطبوعہ 1919ء لاہور)
٭ صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔اے کی تحقیقات کی رو سے حضرت اقدس علیہ السلام کی پیدائش ۱۳ ؍ فروری ۱۸۳۵ء ہے۔ (منہ)
۱۔ دراصل وہ بہت ذی علم و فہم اور مومن مردِ خدا تھا۔ (ناقل)
۲۔ پنجابی لوگ ’ضؔ‘ کو ’د‘ بولتے ہیں اِس لئے اسلام پور قاضیاں کا نام صرف قاضیاں یعنی قادیان بن گیا اور اسلام پور بالکل حذف ہوگیا۔ (ناقل)
۳۔ یہ نام یعنی اہلوؔ والیہ مسل۔ رام گڑھاؔ مسل۔ کنھیا مسل سکھوں کے گروہوں کے نام ہیں۔
پیدائش حضرت اقدس علیہ السلام و زمانۂ طفولیّت و تذکرہ والد بزرگوار
حضرت مرزا صاحب کے خاندان کے مختصر حالات لکھنے کے بعد ہم آپ کے حالات بیان کرنے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ جیسا کہ شروع میں بیان کیا گیا ہے کہ آپ 1836ء یا 1837ء میں پیدا ہوئے تھے جو کہ آپ کے والد کے عروج کا زمانہ تھا کیونکہ اُس وقت اُن کو جاگیر کے بعض مواضع اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فوجی خدمت کی وجہ سے اچھی عظمت حاصل تھی لیکن منشاء الٰہی یہ تھا کہ ایک ایسے رنگ میں پرورش پائیں جس میں آپ کی توجہ خدا تعالیٰ کی طرف ہو۔ اِس لیے آپ کی پیدائش کے تین ہی سال بعد مہاراجہ رنجیت سنگھ کی وفات کے ساتھ ہی سکھ حکومت پر زوال آ گیا اور اِس زوال کے ساتھ آپ کے والد صاحب بھی مختلف تفکرات میں مبتلا ہوگئے اور آخر الحاق پنجاب کے موقعہ پر اُن کی جائیداد ضبط ہوگئی اور باوجود ہزاروں روپیہ خرچ کرنے کے وہ اپنی جاگیر واپس نہ لے سکے جس کا صدمہ اُن کے دل پر آخری دم تک رہا چنانچہ خود حضرت مرزا صاحب اپنی ایک کتاب میں تحریر فرماتے ہیں کہ:۔
’’میرے والد صاحب اپنی ناکامیوں کی وجہ سے اکثر مغموم اور مہموم رہتے تھے۔ انہوں نے پیرویٔ مقدمات میں ستر ہزار کے قریب روپیہ خرچ کیا تھا جس کا انجام آخر کار ناکامی تھی کیونکہ ہمارے بزرگوں کے دیہات مدت سے ہمارے قبضہ سے نکل چکے تھے اور اُن کا واپس آنا ایک خام خیال تھا۔ اسی نامرادی کی وجہ سے حضرت والد صاحب مرحوم ایک نہایت عمیق گردابِ غم اور حزن اور اضطراب میں زندگی بسر کرتے تھے اور مجھے اِن حالات کو دیکھ کر ایک پاک تبدیلی پیداکرنے کا موقعہ حاصل ہوتا تھا کیونکہ حضرت والد صاحب کی تلخ زندگی کا نقشہ مجھے اس بے لَوث زندگی کا سبق دیتا تھاجو دنیاوی کدورتوں سے پاک ہے۔ اگرچہ حضرت مرزا صاحب کے چند دیہات ملکیت باقی تھے اور سرکارِ انگریزی کی طرفسے کچھ انعام سالانہ مقرر تھا اور ایام ملازمت کی پنشن بھی تھی مگر جو کچھ وہ دیکھ چکے تھے اِس لحاظ سے وہ سب کچھ ہیچ تھا۔ اِس وجہ سے وہ ہمیشہ مغموم اور محزون رہتے تھے اور بار ہا کہتے تھے کہ جس قدر مَیں نے اِس پلید دنیا کے لیےسعی کی ہے اگر مَیں وہ سعی دین کے لیے کرتا تو آج شاید قطبِ وقت یا غوثِ وقت ہوتا اور اکثر یہ شعر پڑھا کرتے تھے۔ ع
عمر بگذشت نماند است جز ایّامے چند
بہ کہ در یاد کسے صبح کنم شامے چند
اور مَیں نے کئی دفعہ دیکھا کہ وہ اپنا بنایا ہوا شعر رقت کے ساتھ پڑھتے اور وہ یہ ہے ع
نیست اُمیدم کہ بروم ناامید
اور کبھی دردِ دل سے یہ شعر اپنا پڑھا کرتے تھے ع
مرادے است کہ درخون تپدبجائے کسے
حضرتِ عزت جلّشانہٗ کے سامنے خالی ہاتھ جانے کی حسرت روز بروز آخری عمر میں اُن پر غلبہ کرتی گئی تھی۔ بارہا افسوس سے کہا کرتے تھے کہ دنیا کے بے ہودہ خرخشوں کے لیے مَیں نے اپنی عمر ناحق ضائع کر دی‘‘۔
بچپن ہی میں عبادتِ الٰہی کا شوق
اِس تحریر سے جو حضرت مرزا صاحب نے اپنے والد کی اس حالت کے متعلق لکھی ہے جس میں آپ کے زمانۂ طفولیّت اور جوانی کے وقت سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ایسے رنگ میں آپ کی تربیت فرمائی تھی کہ جس کی وجہ سے دنیا کی محبت آپ کے دل میں پیدا ہی نہ ہونے پائی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کے والد اور بڑے بھائی کی دنیاوی حالت اُس وقت بھی ایسی تھی کہ وہ دنیاوی لحاظ سے معزز و ممتاز کہلاتے تھے اور حکّام اُن کا ادب و لحاظ کرتے تھے لیکن پھر بھی اُن کا دنیا کے پیچھے پڑنا اور اپنی ساری عمر اس کے حصول کے لیے خرچ کر دینا لیکن پھر بھی اس کا اِس حد تک ان کو حاصل نہ ہونا جس حد تک کہ وہ اُس پر خاندانی حق خیال کرتے تھے اس پاک دل کو جو اپنے اندر کسی قسم کی مَیل نہ رکھتا تھا یہ بتا دینے کے لیے کافی تھا کہ دنیا روزے چند اور آخرت باخداوند۔ چنانچہ اُس نے اپنے بچپن کی عمر سے اس سبق کو ایسا یاد کیا کہ اپنی وفات تک نہ بھلایا اور گو دنیا طرح طرح کے خوبصورت لباسوں میں اس کے سامنے آئی اور اُس کو اپنے راستہ سے ہٹا دینے کی کوشش کی لیکن اس نے کبھی اس کی طرف التفات نہ کی اور اس سے ایسی جدائی اختیار کی کہ پھر اس سے کبھی نہ ملا۔
غرض مرزا صاحب کو اپنی بچپن کی عمر سے ہی اپنے والد کی زندگی میں ایک ایساتلخ نمونہ دیکھنے کا موقع ملاکہ دنیا سے آپ کی طبیعت سرد ہوگئی اور جب آپ بہت ہی بچہ تھے تب بھی آپ کی تمام تر خواہشات رضائے الٰہی کے حصول میں ہی لگی ہوئی تھیں۔ چنانچہ آپ کے سوانح نویس شیخ یعقوب علی صاحب آپ کے سوانح میں ایک عجیب واقعہ جو آپ کی نہایت بچپن کی عمر کے متعلق ہے تحریر کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ جب آپ کی عمر نہایت چھوٹی تھی تو اُس وقت آپ ایک اپنی ہم سن لڑکی کو جس سے بعد میں آپ کی شادی بھی ہوگئی، کہا کرتے تھے کہ
“نامرادے دعا کر کہ خدا میرے نماز نصیب کرے”
اِس فقرہ سے جو نہایت بچپن کی عمر کا ہے پتہ چلتا ہے کہ نہایت پچپن کی عمر سے آپ کے دل میں کیسے جذبات موجزن تھے اور آپ کی خواہشات کا مرکز کس طرح خدا ہی خدا ہو رہا تھا اور ساتھ ہی اس ذہانت کا پتہ چلتا ہے جو بچپن کی عمر سے آپ کے اندر پیدا ہوگئی تھی کیونکہ اس فقرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت بھی آپ تمام خواہشات کو پورا کرنے والا خدا تعالیٰ کو ہی سمجھتے تھے اور عبادت کی توفیق کا دینا بھی اسی پر موقوف جانتے تھے۔ نماز پڑھنے کی خواہش کرنا اور اس خواہش کو پورا کرنے والا خدا تعالیٰ کو ہی جاننا اور پھر اس گھر میں پرورش پا کر جس کے چھوٹے بڑے دنیا کو ہی اپنا خدا سمجھ رہے تھے، ایک ایسی بات ہے جو سوائے کسی ایسے دل کے جو دنیا کی ملونی سے ہر طرح پاک ہو اور دنیا میں عظیم الشان تغیر پیدا کر دینے کے لیے خدا تعالیٰ سے تائید یافتہ ہو، نہیں نکل سکتی۔
حصولِ تعلیم کا زمانہ
جس زمانہ میں آپ پیدا ہوئے ہیں وہ نہایت جہالت کا زمانہ تھا اور لوگوں کی تعلیم کی طرف بہت ہی کم توجہ تھی اور سکھوں کے زمانہ کی بات تو یہاں تک مشہور ہے کہ اگر کسی کے نام کسی دوست کا کوئی خط آ جاتا تو اس کے پڑھوانے کے لیے اُسے بہت مشقت اور محنت برداشت کرنی پڑتی تھی اور بعض دفعہ مدت تک خط پڑا رہتا تھا اور بہت سے رؤساء بالکل اَن پڑھ تھے۔ لیکن خدا تعالیٰ نے چونکہ آپ سے بہت بڑا کام لینا تھا اِس لیے آپ کی تعلیم کا اس نے آپ کے والد کے دل میں شوق پیدا کر دیا اور باوجود اِن دنیاوی تفکرات کے جن میں وہ مبتلا تھے انہوں نے اِس جہالت کے زمانہ میں بھی اپنی اولاد کو اس زمانہ کے مناسبِ حال تعلیم دلانے میں کوتاہی نہ کی۔ چنانچہ جب آپ بچہ ہی تھے تو آپ کے والد نے ایک استاد آپ کی تعلیم کے لیے ملازم رکھا جن کا نام فضل الٰہی تھا۔ اُن سے حضرت مرزا صاحب نے قرآن مجید اور فارسی کی چند کتب پڑھیں۔ اِس کے بعد دس سال کی عمر میں فضل احمد نام ایک استاد ملازم رکھے گئے۔ یہ اُستاد نہایت نیک اور دیندار آدمی تھا اور جیسا کہ حضرت مرزا صاحب خود تحریر فرماتے ہیں، آپ کو نہایت محنت اور محبت سے تعلیم دیتا تھا۔ اس اُستاد سے حضرت صاحب نے صَرف و نحو کی بعض کتب پڑھیں۔ اِس کے بعد سترہ اٹھارہ سال کی عمر میں مولوی گل علی شاہ آپ کی تعلیم کے لیے ملازم رکھے گئے اِن سے نحو منطق اور حکمت کی چند کتب آپ نے پڑھیں اور فن طبابت کی چند کتب اپنے والد صاحب سے جو ایک نہایت تجربہ کار طبیب تھے، پڑھیں اور یہ تعلیم اُن دنوں کے لحاظ سے جن میں آپ تعلیم پا رہے تھے، بہت بڑی تعلیم تھی۔ لیکن درحقیقت اس کام کے مقابلہ میں جو آپ نے کرنا تھا کچھ بھی نہ تھی۔ چنانچہ ہم نے بعض وہ آدمی دیکھے ہیں جو آپ کے ساتھ اُن اُستادوں سے پڑھتے تھے جن کو آپ کے والد صاحب نے آپ کی تعلیم کے لیے ملازم رکھا تھا اور وہ نہایت معمولی لیاقت کے آدمی تھے اور ان کو ایک معمولی خواندہ آدمی سے زیادہ وقعت نہیں دی جا سکتی اور جو استاد آپ کی تعلیم کے لیے ملازم رکھے گئے تھے وہ بھی کوئی بڑے عالم نہ تھے کیونکہ اس وقت علم بالکل مفقود تھا اور فارسی اور عربی کی چند کتب کا پڑھ لینے والا بڑا عالم خیال کیا جاتا تھا۔ پس جن حالات کے ماتحت اور جن اُستادوں کی معرفت آپ کی تعلیم ہوئی وہ ایسے تھے کہ اُن کی وجہ سے آپ کو کوئی ایسی تعلیم نہیں مل سکتی تھی جو اس کام کے لیے آپ کو تیار کر دیتی جس کے کرنے پر آپ نے مبعوث ہونا تھا۔ ہاں اِس قدر اس تعلیم کا نتیجہ ضرور ہوا کہ آپ کو فارسی اور عربی پڑھنی آ گئی اور فارسی میں اچھی طرح سے اور عربی میں قدرے قلیل آپ بولنے بھی لگ گئے تھے۔ اس سے زیادہ آپ نے کوئی تعلیم نہیں حاصل کی اور دینی تعلیم تو باقاعدہ طور پر کسی استاد سے حاصل نہیں کی۔ ہاں آپ کو مطالعہ کا بہت شوق تھا اور آپ اپنے والد صاحب کے کتب خانہ کے مطالعہ میں اِس قدر مشغول رہتے تھے کہ بارہا آپ کے والد صاحب کو ایک تو اِس وجہ سے کہ آپ کی صحت کو نقصان نہ پہنچے اور ایک اِس وجہ سے کہ آپ اس طرف سے ہٹ کر اُن کے کام میں مددگار ہوں، آپ کو روکنا پڑتا تھا۔
ملازمت کے حالات اور مسیحیوں سے مباحثات
جب آپ تعلیم سے فارغ ہوئے اُس وقت گورنمنٹ برطانیہ کی حکومت پنجاب میں مستحکم ہوچکی تھی۔ غدر کا پُر آشوب زمانہ بھی گذر چکا تھا اور اہلِ ہند اِس بات کو اچھی طرح سمجھ چکے تھے کہ اب اس گورنمنٹ کی ملازمت ہی میں تمام عزت ہے اِس لیے مختلف شریف خاندانوں کے نوجوان اس کی ملازمت میں داخل ہو رہے تھے۔ ایسے حالات کے ماتحت اور اِس بات کو معلوم کر کے کہ حضرت مرزا صاحب کی طبیعت زمینداری کے کاموں میں بالکل نہیں لگتی، اپنے والد صاحب کے مشورہ سے آپ سیالکوٹ بحصول ملازمت تشریف لے گئے اور وہاں ڈپٹی کمشنر صاحب کے دفتر میں ملازم ہوگئے مگر اکثر وقت علمی مشاغل میں ہی گذرتا اور ملازمت سے فراغت کے اوقات میں یا تو آپ خود مطالعہ کرتے یا دوسرے لوگوں کو پڑھاتے تھے یا مذہبی مباحث میں حصہ لیتے تھے اور اُس وقت بھی آپ کی پرہیز گاری اور تقویٰ کا اتنا اثر تھا کہ باوجود اس کے کہ آپ بالکل نوجوان تھے اور صرف اٹھائیس سال کی عمر تھی مگر بوڑھے بوڑھے آدمی مسلمانوں میں سے بھی اور ہندوؤں میں سے بھی آپ کی عزت کرتے تھے لیکن آپ کی عادت اُس وقت بھی خلوت پسندی کی تھی۔ اپنے مکان سے باہر کم جاتے اور اکثر وقت وہیں گذارتے۔ مسیحی مشن اُن دنوں پنجاب میں نیا نیا آیا تھا اور مسلمان اُن کے حملوں سے ناواقف تھے اور اکثر مسیحیوں سے شکست کھاتے تھے لیکن حضرت مرزا صاحب سے جب کبھی بھی مسیحیوں کی گفتگو ہوئی اُن کو نیچا دیکھنا پڑا۔ چنانچہ پادریوں میں سے جو لوگ حق پسند تھے وہ باوجود اختلاف مذہبی کے آپ کی بہت عزت کرتے چنانچہ آپ کا سوانح نگار لکھتا ہے کہ ریورنڈبٹلر ایم۔ اے جو سیالکوٹ کے مشن میں کام کرتے تھے اور جن سے حضرت مرزا صاحب کے بہت سے مباحثات ہوتے رہتے تھے جب ولایت واپس جانے لگے تو خود کچہری میں آپ کے پاس ملنے کے لیے چلے آئے اور جب ڈپٹی کمشنر صاحب نے پوچھا کہ کس طرح تشریف لائے ہیں تو ریورنڈ مذکور نے کہا کہ صرف مرزا صاحب کی ملاقات کے لیے اور جہاں آپ بیٹھے تھے وہیں سیدھے چلے گئے اور کچھ دیر بیٹھ کر واپس چلے گئے۔ یہ اُن دنوں کا واقعہ ہے جب کہ گورنمنٹ برطانیہ کی نئی نئی فتح کو پادری لوگ اپنی فتح کی علامت قرار دیتے تھے اور اُن میں تکبر اِس قدر سرایت کر گیا تھا کہ ان دنوں میں جو کتب اسلام کے خلاف لکھی گئی ہیں اُن کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پادری صاحبان نے اُس وقت شاید یہ خیال کر رکھا تھا کہ چند ہی روز میں تمام مسلمانوں کو پکڑ کر بزور شمشیر گورنمنٹ مسیحی بنا لے گی اور وہ اسلام اور بانیٔ اسلام کے خلاف سخت سے سخت الفاظ استعمال کرنے سے بھی نہ رکتے تھے، حتیّٰ کہ بعض دانا یوروپین صاحبان کو ہی اُن تصانیف کو دیکھ کر لکھنا پڑا کہ اِن تحریروں کی وجہ سے اگر دوبارہ 1857ء کی طرح غدر ہو جائے تو کوئی تعجب نہیں اور یہ حالت اُس وقت تک قائم رہی جب تک کہ مسیحی پادریوں کو یہ یقین نہ ہوگیا کہ ہندوستان میں حکومت انگلستان کی ہے نہ کہ پادریوں کی۔ اور یہ کہ کوئین وکٹوریہ کی گورنمنٹ بزور شمشیر دین مسیحی پھیلانے کی ہرگز روادار نہیں اور وہ کبھی پسند نہیں کرتی کہ کسی مذہب کی ناجائز طور پر دل آزاری کی جائے۔ غرض اُس وقت مسیحیوں اور مسلمانوں کے تعلقات نہایت کشیدہ تھے اور پادریوں کے اخلاق اُن دنوں میں صرف انہی لوگوں تک محدود ہوتے تھے جو اُن کی باتوں کی تصدیق کریں اور جو آگے سے جواب دے بیٹھیں اُن کے خلاف اُن کا جوش بڑھ جاتا تھا لیکن باوجود اس کے کہ حضرت مرزا صاحب دین میں غیور تھے اور مذہبی مباحثات میں کسی سے نہ دبتے تھے۔ ریورنڈ بٹلر آپ کی نیک نیتی اور اخلاص اور تقویٰ کو دیکھ کر متاثر تھے اور باوجود اِس بات کو محسوس کرنے کے کہ یہ شخص میرا شکار نہیں، ہاں ممکن ہے کہ مَیں اس کا شکار ہو جاؤں اور باوجود اس طبعی نفرت کے جو ایک صَید کو صیاد سے ہوتی ہے وہ دوسرے مذہبی مناظرین کی نسبت مرزا صاحب سے مختلف سلوک کرنے پر مجبور ہوئے اور جاتے وقت کچہری میں ہی آپ سے ملنے کے لیے آگئے اور آپ سے ملے بغیر جانا پسند نہ کیا۔
علیحدگی ملازمت اور پیروی مقدمات
قریباً چار سال آپ سیالکوٹ میں ملازم رہے لیکن نہایت کراہت کے ساتھ۔ آخر والد صاحب کے لکھنے پر فوراً استعفیٰ دے کر واپس آگئے اور اپنے والد صاحب کے حکم کے ماتحت اُن کے زمینداری کے مقدمات کی پیروی میں لگ گئے لیکن آپ کا دل اس کام پر نہ لگتا تھا۔ چونکہ آپ اپنے والدین کے نہایت فرمانبردار تھے اِس لیے والد صاحب کا حکم تو نہ ٹالتے تھے لیکن اس کام میں آپ کا دل ہرگز نہ لگتا تھا۔ چنانچہ اُن دنوں کے آپ کو دیکھنے والے لوگ بیان کرتے ہیں کہ بعض اوقات کسی مقدمہ میں ہار کر آتے تو آپ کے چہرہ پر بشاشت کے آثار ہوتے تھے اور لوگ سمجھتے کہ شاید فتح ہوگئی ہے۔ پوچھنے پر معلوم ہوتا کہ ہار گئے ہیں۔ جب وجہ دریافت کی جاتی تو فرماتے کہ ہم نے جو کچھ کرنا تھا کر دیا، منشائے الٰہی یہی تھا اور اس مقدمہ کے ختم ہونے سے فراغت تو ہوگئی ہے۔ یادِ الٰہی میں مصروف رہنے کا موقعہ ملے گا۔ یہ زمانہ آپ کا عجیب کشمکش کا زمانہ تھا۔ والد صاحب چاہتے تھے کہ آپ یا تو اپنے زمینداری کے کام میں مصروف ہوں یا کوئی ملازمت اختیار کریں اور آپ اِن دونوں باتوں سے متنفر تھے اور اِس لیے اکثر طعن و تشنیع کا شکار رہتے تھے۔ جب تک آپ کی والدہ صاحبہ زندہ رہیں آپ پر ایک سِپر کے طور پر رہیں لیکن اُن کی وفات کے بعد آپ اپنے والد صاحب اور بھائی صاحب کی ملامت کا اکثر نشانہ ہو جاتے اور بعض دفعہ وہ لوگ سمجھتے تھے کہ آپ کا دنیاوی کاموں سے متنفر ہونا سُستی کی وجہ سے ہے۔ چنانچہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ بعض دفعہ آپ کے والد نہایت افسردہ ہو جاتے تھے اور کہتے تھے کہ میرے بعد اس لڑکے کا کس طرح گزارہ ہوگا اور اِس بات پر ان کو سخت رنج تھا کہ یہ اپنے بھائی کا دستِ نگر رہے گا اور کبھی کبھی وہ آپ کے مطالعہ پر چڑ کر آپ کو مُلّاں بھی کہہ دیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ یہ ہمارے گھر میں مُلّاں کہاں سے پیدا ہو گیا ہے۔ لیکن باوجود اس کے خود اُن کے دل میں بھی آپ کا رعب تھا اور جب کبھی وہ اپنی دنیاوی ناکامیابی کو یاد کرتے تھے تو دینی باتوں میں آپ کے استغراق کو دیکھ کر خوش ہوتے تھے اور اس وقت فرماتے تھے کہ اصل کام تو یہی ہے جس میں میرا بیٹا لگا ہوا ہے۔ لیکن چونکہ اُن کی ساری عمر دنیا کے کاموں میں گذری تھی اِس لیے افسوس کا پہلو غالب رہتا تھا۔ مگر حضرت مرزا صاحب اِس بات کی بالکل پرواہ نہ کرتے تھے بلکہ کسی کسی وقت قرآن حدیث اپنے والد صاحب کو بھی سنانے کے لیے بیٹھ جاتے تھے اور یہ ایک عجیب نظارہ تھا کہ باپ اور بیٹا دو مختلف کاموں میں لگے ہوئے تھے اور دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کوشکار کرنا چاہتا تھا۔ باپ چاہتا تھا کہ کسی طرح بیٹے کو اپنے خیالات کا شکار کرے اور دنیاوی عزت کے حصول میں لگا دے اور بیٹا چاہتا تھا کہ اپنے باپ کو دنیا کے خطرناک پھندہ سے آزاد کر کے اللہ تعالیٰ کی محبت کی لَو لگا دے۔ غرض یہ عجیب دن تھے جن کا نظارہ کھینچنا قلم کا کام نہیں ہر ایک شخص اپنی اپنی طاقت کے مطابق اپنے دل کے اندر ہی اِس کا نقشہ کھینچ سکتا ہے۔ ان دنوں آپ کے سامنے پھر ملازمت کا سوال پیش ہوا اور ریاست کپور تھلہ کے محکمہ تعلیم کا افسر بنانے کی تجویز ہوئی لیکن آپ نے نامنظور کر دیا اور اپنے والد صاحب کے ہموم و غموم کو دیکھ کر اِس بات کو ہی پسند فرمایا کہ جس تنگی سے بھی گذارہ ہو گھر پر ہی رہیں اور ان کے کاموں میں جہاں تک ہو سکے ہاتھ بٹائیں۔ گو جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے آپ کا دل اِس کام کی طرف بھی راغب نہ تھا لیکن آپ اپنے والد صاحب کے حکم کے ماتحت اُن کے آخری ایام کو جہاں تک ہو سکے باآرام کرنے کے لیے اس کام میں لگے ضرور رہتے تھے گو فتح و شکست سے آپ کو دلچسپی نہ تھی۔
ایک مقدمہ میں نشانِ الٰہی
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام گو اس زمانہ میں اپنے والد صاحب کی مدد کے لیے اُن کے دنیاوی کاموں میں لگے ہوئے تھے لیکن آپ کا دل کسی اور طرف تھا اور “دست درکار دل بایار” کی مثال بنے ہوئے تھے۔ مقدمات سے ذرا فارغ ہوتے تو خدا تعالیٰ کی یاد میں مشغول ہو جاتے اور اِن سفروں میں جو آپ کو اُن دنوں مقدمات میں کرنے پڑتے آپ ایک وقت کی نماز بھی بے وقت نہ ہونے دیتے بلکہ اپنے اوقات پر نماز ادا کرتے بلکہ مقدمات کے وقت بھی نماز کو ضائع نہ ہونے دیتے چنانچہ ایک دفعہ تو ایسا ہوا کہ آپ ایک ضروری مقدمہ کے لیے جس کا اثر بہت سے مقدمات پر پڑتا تھا اور جس کے آپ کے حق میں ہو جانے کی صورت میں آپ کے بہت سے حقوق محفوظ ہو جاتے تھے، عدالت میں تشریف لے گئے۔ اُس وقت کوئی ضروری مقدمہ پیش تھا اُس میں دیر ہوئی اور نماز کا وقت آ گیا۔ جب آپ نے دیکھا کہ مجسٹریٹ تو اس مقدمہ میں مصروف ہے اور نماز کا وقت تنگ ہو رہا ہے تو آپ نے اس مقدمہ کو خدا کے حوالے کیا اور خود ایک طرف جاکر وضو کیا اور درختوں کے سایہ تلے نماز پڑھنی شروع کر دی۔ جب نماز شروع کردی تو عدالت سے آپ کے نام پر آواز پڑی۔ آپ آرام سے نماز پڑھتے رہے اور بالکل اِس طرف توجہ نہ کی۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو یقین تھا کہ مقدمہ میں فریق مخالف کو یکطرفہ ڈگری مل گئی ہوگی کیونکہ عدالت ہائے کا قاعدہ ہے کہ جب ایک فریق حاضر عدالت نہ ہو تو فریق مخالف کو یکطرفہ ڈگری دی جاتی ہے۔ اِسی خیال میں عدالت میں پہنچے۔ چنانچہ جب عدالت میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ مقدمہ فیصل ہو چکا ہے۔ لیکن چونکہ فیصلہ عدالت معلوم کرنا ضروری تھا جا کر دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ مجسٹریٹ نے، جو ایک انگریز تھا کاغذات پر ہی فیصلہ کر دیا اور ڈگری آپ کے حق میں دی اور اِس طرح خدا تعالیٰ نے آپ کی طرف سے وکالت کی۔ غرض آپ ان دنیاوی کاموں میں اسی طرح مشغول تھے جس طرح ایک شخص سے کوئی ایسا کام کرایاجائے جس کے کرنے پر وہ راضی نہ ہو حالانکہ وہ کام خود آپ کے نفع کا تھا کیونکہ آپ کے والد صاحب کی جائیداد کا محفوظ ہونا درحقیقت آپ کی جائیداد کا محفوظ ہونا تھا کیونکہ آپ اُن کے وارث تھے۔ پس آپ کا باوجود عاقل و بالغ ہونے کے اِس کام سے بیزار رہنا اِس بات پر دلالت کرتا ہے کہ آپ دنیا سے بکّلی متنفر تھے اور خدا تعالیٰ ہی آپ کا مقصود تھا۔
محنت اور جفاکشی کی عادت
باوجود اِس کے کہ آپ دنیا سے ایسے متنفر تھے آپ سُست ہرگز نہ تھے بلکہ نہایت محنت کش تھے اور خلوت کے دلدادہ ہونے کے باوجود مشقت سے نہ گھبراتے تھے اور بارہا ایسا ہوتا تھا کہ آپ کو جب کسی سفر پر جانا پڑتا تو سواری کا گھوڑا نوکر کے ہاتھ آگے روانہ کر دیتے اور آپ پیادہ پا بیس پچیس کوس کا سفر طے کر کے منزلِ مقصود پر پہنچ جاتے۔ بلکہ اکثر اوقات آپ پیادہ ہی سفر کرتے تھے اور سواری پر کم چڑھتے تھے اور عادت پیادہ چلنے کی آپ کو آخر عمر تک تھی۔ ستر سال سے متجاوز عمر میں جب کہ بعض سخت بیماریاں آپ کو لاحق تھیں، اکثر روزانہ ہَوا خوری کے لیے جاتے تھے اور چار پانچ میل روزانہ پھر آتے اور بعض اوقات سات میل پیدل پھر لیتے تھے اور بڑھاپے سے پہلے کا حال آپ بیان فرمایا کرتے تھے کہ بعض اوقات صبح کی نماز سے پہلے اُٹھ کر (نماز کا وقت سورج نکلنے سے سوا گھنٹہ پہلے ہوتا ہے) سَیر کے لیے چل پڑتے تھے اور وڈالہ تک پہنچ کر (جو بٹالہ سڑک پر قادیان سے قریباً ساڑھے پانچ میل پر ایک گاؤں ہے) صبح کی نماز کا وقت ہوتا تھا۔
مکالمۂ الٰہیہ کا آغاز
آپ کی عمر قریباً چالیس سال کی تھی جب کہ 1876ء میں آپ کے والد صاحب یکدفعہ بیمار ہوئے اور گو اُن کی بیماری چنداں خوفناک نہ تھی لیکن حضرت مسیح موعود کو اللہ تعالیٰ نے بذریعہ الہام بتایا کہ وَالسَّمَآئِ وَالطَّارِقِ یعنی رات کے آنے والے کی قسم۔ تو کیا جانتا ہے کہ کیا ہے رات کو آنے والا۔ اور ساتھ ہی تفہیم ہوئی کہ اِس الہام میں آپ کے والد صاحب کی وفات کی خبر دی گئی ہے جو کہ بعد مغرب واقعہ ہوگی۔ گو حضرت صاحب کو اس سے پہلے ایک مدت سے رؤیائے صالحہ ہو رہے تھے جو اپنے وقت پر نہایت صفائی سے پورے ہوتے تھے اور جن کے گواہ ہندو اور سکھ بھی تھے اور اب تک بعض ان میں سے موجود ہیں۔ لیکن الہامات میں سے یہ پہلا الہام ہے جو آپ کو ہوا اور اِس الہام کے ذریعہ سے گویا خداتعالیٰ نے اپنی محبت کے ساتھ آپ کو بتایا کہ تیرا دُنیاوی باپ فوت ہوتا ہے لیکن آج سے مَیں تیرا آسمانی باپ ہوتا ہوں۔ غرض پہلا الہام جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہوا وہ یہی تھا جس میں آپ کو آپ کے والد صاحب کی وفات کی خبر دی گئی تھی۔ اس خبر پر بالطبع آپ کے دل میں رنج پیدا ہونا تھا چنانچہ آپ کو اس خبر سے صدمہ پیدا ہوا اور دل میں خیال گذرا کہ اب ہمارے گذارے کی کیا صورت ہوگی؟ جس پر دوسری دفعہ پھر الہام ہوا اور آپ کو اللہ تعالیٰ نے ہر طرح سے تسلی دی۔ اِس واقعہ کو مَیں اِس جگہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں لکھ دینا مناسب سمجھتا ہوں۔ آپ تحریر فرماتے ہیں :۔
آپ کے والد کی وفات اور الٰہی تصرفات
“جب مجھے یہ خبر دی گئی کہ میرے والد صاحب آفتاب غروب ہونے کے بعد فوت ہو جائیں گے تو بموجب بمقتضائے بشریت کے مجھے اِس خبر کے سننے سے درد پہنچا اور چونکہ ہماری معاش کے اکثر وجوہ انہی کی زندگی سے وابستہ تھے اور وہ سرکار انگریزی کی طرف سے پنشن پاتے تھے اور نیز ایک رقم کثیر انعام کی پاتے تھے جو اُن کی حیات سے مشروط تھی اس لیے یہ خیال گذرا کہ اُن کی وفات کے بعد کیا ہوگا اور دل میں خوف پیدا ہوا کہ شاید تنگی اور تکلیف کے دن ہم پر آئیں گے اور یہ سارا خیال بجلی کی چمک کی طرح ایک سیکنڈ سے بھی کم عرصہ میں گذر گیا تب اُسی وقت غنودگی ہو کر یہ دوسرا الہام ہوا اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ یعنی کیاخدا تعالیٰ اپنے بندہ کے لیے کافی نہیں ہے۔ اِس الہام کے ساتھ ایسا دل قوی ہوا کہ جیسے ایک سخت دردناک زخم کسی مرہم سے ایک دَم میں اچھا ہو جاتا ہے۔ جب مجھ کو الہام ہوا کہ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ تومَیں نے اُسی وقت سمجھ لیا کہ خدا مجھے ضائع نہیں کرے گا۔ تب مَیں نے ایک ہندو کھتری ملاوامَل نام کو جو ساکن قادیان ہے اور ابھی تک زندہ ہے وہ الہام لکھ کر دیا اور سارا قصہ سنایا اور اس کو امرتسر بھیجا کہ تا حکیم مولوی محمد شریف کلانوری کی معرفت اس کو نگینہ میں کھدوا کر اور مہر بنوا کر لے آوے اور مَیں نے اس ہندو کو اس کام کے لیے محض اِس غرض سے اختیار کیا کہ وہ اس عظیم الشان پیشگوئی کا گواہ ہو جاوے۔ چنانچہ مولوی صاحب موصوف کے ذریعہ سے وہ انگشتری بصرف مبلغ پانچ روپے تیار ہوکر میرے پاس پہنچ گئی جو اَب تک میرے پاس موجود ہے جس کا نشان یہ ہے:۔
(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلدنمبر22 صفحہ 219-220)
غرض جس دن حضرت صاحب کے والد صاحب نے وفات پائی تھی اُس دن مغرب سے چند گھنٹے پہلے ان کی وفات کی اطلاع آپ کو دے دی گئی اور بعد میں خداتعالیٰ نے تسلی فرما دی کہ گھبراؤ نہیں اللہ تعالیٰ خود ہی تمہارا انتظام فرماوے گا۔۔ جس دن یہ الہامات ہوئے اُسی دن شام کو بعد مغرب آپؑ کے والد صاحب فوت ہوگئے اور آپ کی زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔
بعض مشکلات اور آپؑ کا اِستقلال
آپ کے والد صاحب کی جائیداد کچھ مکانات اور دوکانات بٹالہ، امرتسر اور گورداسپور میں تھی اور کچھ مکانات اور دوکانیں اور زمین قادیان میں تھی۔ چونکہ آپ دو بھائی تھے اِس لیے شرعًا و قانونًا وہ جائیداد آپ دونوں کے حصہ میں آتی تھی۔ چونکہ آپ کا حصہ آپ کے گزارہ کے لیے کافی تھا لیکن آپ نے اپنے بڑے بھائی سے وہ جائیداد تقسیم نہیں کرائی اور جو کچھ وہ دیتے اُس پر گزارہ کر لیتے اور اِس طرح گویا والد کے قائم مقام آپ کے بڑے بھائی ہوگئے۔ لیکن چونکہ وہ ملازم تھے اور گورداسپور رہتے تھے اِس لیے اُن دنوں آپ کو بہت تکلیف ہوگئی حتیّٰ کہ ضروریاتِ زندگی کے حاصل کرنے میں بھی آپ کو تکلیف ہوتی تھی اور یہ تکلیف آپ کو آپ کے بھائی کی وفات تک برابر رہی اور یہ گویا آپ کے لیے آزمائش کے سال تھے اور آپ نے اُن آزمائش کے دنوں میں صبرواستقلال سے کام لیا وہ آپ کے درجہ کی بلندی کی بیّن علامت ہے کیونکہ باوجود اس کے کہ آپ کا اپنے والد صاحب کی متروکہ جائیداد پر برابر کا حصہ تھا پھر بھی آپ نے ان کی دنیا کی رغبت دیکھ کر اُن سے اپنا حصہ طلب نہ کیا اور محض کھانے اور کپڑے پر کفایت کی۔ گو آپ کے بھائی بھی اپنی طبیعت کے مطابق آپ کی ضروریات کے پورا کرنے کی کوشش کرتے تھے اور آپ سے ایک حد تک محبت بھی رکھتے تھے اور کسی قدر اَدب بھی کرتے تھے لیکن باوجود اس کے چونکہ وہ دنیاداری میں بالکل منہمک تھے اور حضرت صاحب دنیا سے بالکل متنفر تھے اِس لیے وہ آپ کو ضرورتِ زمانہ سے ناواقف اور سُست سمجھتے تھے اور بعض دفعہ اِس بات پر اظہارِ افسوس بھی کرتے تھے کہ آپ کسی کام کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ چنانچہ ایک دفعہ کسی اخبار کے منگوانے کے لیے آپ نے اُن سے ایک نہایت قلیل رقم منگوائی تو انہوں نے باوجود اس کے کہ آپ کی جائیداد پر قابض تھے، انکار کر دیا اور کہا کہ یہ اسراف ہے۔ کام تو کچھ کرتے نہیں اور یونہی بیٹھے کتب و اخبار کا مطالعہ کرتے رہتے ہیں۔ غرض آپ کے بھائی صاحب بوجہ دنیاداری میں کمال درجہ کے مشغول ہونے کے آپ کی ضروریات کو نہ خود سمجھ سکتے تھے اور نہ اُن کو پورا کرنے کی طرف متوجہ تھے جس کی وجہ سے آپ کو بہت کچھ تکلیف پہنچتی۔ مگر اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات یہ تھی کہ آپ کے بھائی بھی اکثر قادیان سے باہر رہتے تھے اور اُن کے پیچھے اُن کے منتظمین آپ کے تنگ کرنے میں خاص طور پر کوشاں رہتے۔
آپ کا مجاہدہ اور ایثار اور خدمت اسلام
انہی ایام میں آپ کو بتایا گیا کہ الٰہی انعامات کے حاصل کرنے کے لیے کچھ مجاہدہ کی بھی ضرورت ہے اور یہ کہ آپ کو روزے رکھنے چاہئیں۔ اِس حکم کے ماتحت آپ نے متواتر چھ ماہ کے روزے رکھے اور بارہا ایسا ہوتا تھا کہ آپ کا کھانا جب گھر سے آتا تو آپ بعض غرباء میں تقسیم کر دیتے اور جب روزہ کھول کر گھر سے کھانا منگواتے تو وہاں سے صاف جواب ملتا اور آپ صرف پانی پر یا اور کسی ایسی ہی چیز پر وقت گزار لیتے اور صبح پھر آٹھ پہرہ ہی روزہ رکھ لیتے۔ غرض یہ زمانہ آپ کے لیے ایک بڑے مجاہدات کا زمانہ تھا جسے آپ نے نہایت صبرواستقلال سے گذارا۔ سخت سے سخت تکالیف کے ایام میں بھی اشارۃً اور کنایۃً کبھی جائیداد میں سے اپنا حصہ لینے کی تحریک نہیں کی۔
نہ صرف روزوں کے دنوں میں بلکہ یوں بھی آپ کی ہمیشہ عادت تھی کہ ہمیشہ کھانا غرباء میں بانٹ دیتے تھے اور بعض دفعہ ایک چپاتی کا نصف جو ایک چھٹانک سے زیادہ نہیں ہو سکتا آپ کے لیے بچتا تھا اور آپ اُسی پر گزارہ کرتے تھے۔ بعض دفعہ صرف چَنے بھنوا کر کھا لیتے اور اپنا کھانا سب غرباء کو دے دیتے۔ چنانچہ کئی غریب آپ کے ساتھ رہتے تھے اور دونوں بھائیوں کی مجلسوں میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ ایک بھائی کی مجلس میں سب کھاتے پیتے آدمی جمع ہوتے تھے اور دوسرے بھائی کی مجلس میں غریبوں اور محتاجوں کا ہجوم رہتا تھا جن کو وہ اپنی قلیل خوراک میں شریک کرتا تھا اور اپنی جان پر اُن کو مقدم کر لیتاتھا۔
انہی ایام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدمت اسلام کے لیے کوشش شروع کی اور مسیحیوں اور آریوں کے مقابلہ میں اخبارات میں مضامین لکھنے شروع کیے جن کی وجہ سے آپ کا نام خود بخود گوشۂ تنہائی سے نکل کر میدانِ شہرت میں آ گیا لیکن آپ خود اُسی گوشۂ تنہائی میں ہی تھے اور باہر کم نکلتے تھے بلکہ مسجد کے ایک حجرہ میں جو صرف 5×6 فٹ کے قریب لمبا اور چوڑا تھا رہتے تھے اور اگر کوئی آدمی ملنے کے لیے آ جاتا تو مسجد سے باہر نکل کر بیٹھ جاتے یا گھر میں آ کر بیٹھے رہتے۔ غرض اس زمانہ میں آپ کا نام تو باہر نکلنا شروع ہوا لیکن آپ باہر نہ نکلے بلکہ اسی گوشۂ تنہائی میں زندگی بسر کرتے۔
اِن مجاہدات کے دنوں میں آپ کو کثرت سے الہامات ہونے شروع ہوگئے اور بعض امورِ غیبیہ پر بھی اطلاع ملتی رہی جو اپنے وقت پر پورے ہو جاتے اور آپ کے ایمان کی زیادتی کا موجب ہوتے اور آپ کے دوست جن میں بعض ہندو اور سکھ بھی شامل تھے اِن باتوں کو دیکھ دیکھ کر حیران ہوتے۔
اشتہار کتاب براہین احمدیہ
پہلے تو آپ نے صرف اخبارات میں مضامین دینے شروع کیے لیکن جب دیکھا کہ دشمنانِ اسلام اپنے حملوں میں بڑھتے جاتے ہیں اور مسلمان اُن حملوں کی تاب نہ لا کر پسپا ہو رہے ہیں تو آپ کے دل میں غیرتِ اسلام نے جوش مارا اور آپ نے اللہ تعالیٰ کے الہام اور وحی کے ماتحت مامور ہو کر ارادہ کیا کہ ایک ایسی کتاب تحریر فرمائیں جس میں اسلام کی صداقت کے وہ اصول بیان کیے جائیں جن کے مقابلہ سے مخالف عاجز ہوں اور آئندہ اُن کو اسلام کے مقابلہ کی جرأت نہ ہو اور اگر وہ مقابلہ کریں تو ہر ایک مسلمان اُن کے حملہ کو رَدّ کر سکے۔ چنانچہ اِس ارادہ کے ساتھ آپ نے وہ عظیم الشان کتاب لکھنی شروع کی جو براہین احمدیہ کے نام سے مشہور ہے اور جس کی نظیر کسی انسان کی تصانیف میں نہیں ملتی۔ جب ایک حصہ مضمون کا تیار ہو گیا تو اُس کی اشاعت کے لیے آپ نے مختلف جگہ پر تحریک کی اور بعض لوگوں کی امداد سے جو آپ کے مضامین کی وجہ سے پہلے ہی آپ کی لیاقت کے قائل تھے اس کا پہلا حصہ جو صرف اشتہار کے طور پر تھا شائع کیا گیا۔
اس حصہ کا شائع ہونا تھا کہ مُلک میں شور پڑ گیا اور گو پہلا حصہ صرف کتاب کا اشتہار تھا لیکن اُس میں بھی صداقت کے ثابت کرنے کے لیے ایسے اصول بتائے گئے تھے کہ ہر ایک شخص جس نے اُسے دیکھا اِس کتاب کی عظمت کا قائل ہو گیا۔ اِس اشتہار میں آپ نے یہ بھی شرط رکھی تھی کہ اگر وہ خوبیاں جو آپ اسلام کی پیش کریں گے وہی کسی اور مذہب کا پَیرو اپنے مذہب میں دکھا دے یا اُن سے نصف بلکہ چوتھا حصہ ہی اپنے مذہب میں ثابت کر دے تو آپ اپنی سب جائیداد جس کی قیمت دس ہزار روپے کے قریب ہوگی، اُسے بطور انعام کے دیں گے (یہ ایک ہی موقع ہے جس میں آپ نے اپنی جائیداد سے اُس وقت فائدہ اُٹھایا اور اسلام کی خوبیوں کے ثابت کرنے کے لیے بطور انعام مقرر کیا تا کہ مختلف مذاہب کے پَیرو کسی طرح میدانِ مقابلہ میں آجائیں اور اِس طرح اسلام کی فتح ثابت ہو)
یہ پہلا حصہ 1880ء میں شائع ہوا۔ پھر اِس کتاب کا دوسرا حصہ 1881ء میں اور تیسرا حصہ 1882ء اور چوتھا حصہ 1884ء میں شائع ہوا۔ گو جس رنگ میں آپ کا ارادہ کتاب لکھنے کا تھا وہ درمیان میں ہی رہ گیا کیونکہ اِس کتاب کی تحریر کے درمیان میں ہی آپ کو بذریعہ الہام بتایا گیا کہ آپ کے لیے اشاعت اسلام کی خدمت کسی اور رنگ میں مقدرہے لیکن جو کچھ اِس کتاب میں لکھا گیا وہی دنیا کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی تھا۔ اس کتاب کی اشاعت کے بعد آپ کے دوست دشمن سب کو آپ کی قابلیت کا اقرار کرنا پڑا اور مخالفین اسلام پر ایسا رعب پڑا کہ اُن میں سے کوئی اِس کتاب کا جواب نہ دے سکا۔ مسلمانوں کو اِس قدر خوشی حاصل ہوئی کہ وہ بِلا آپ کے دعوٰی کے آپ کو مجدد تسلیم کرنے لگے اور اُس وقت کے بڑے بڑے علماء آپ کی لیاقت کا لوہا مان گئے۔ چنانچہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو اُس وقت تمام اہل حدیث وہابی فرقہ کے سرگروہ تھے اور وہابی فرقہ میں اُن کو خاص عزت حاصل تھی اور اِسی وجہ سے گورنمنٹ کے ہاں بھی اُن کی عزت تھی انہوں نے اِس کتاب کی تعریف میں ایک لمبا آرٹیکل لکھا اور بڑے زور سے اِس کی تائید کی اور لکھا کہ تیرہ سَو سال میں اسلام کی تائید میں ایسی کتاب کوئی نہیں لکھی گئی۔
اخبارِ غیبیہ اور سلسلۂ الہامات کی کثرت
اِس کتاب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بعض الہامات بھی لکھے ہیں جن میں سے بعض کا بیان کر دینا یہاں مناسب ہوگا کیونکہ بعد کے واقعات سے اُن کے غلط یا درست ہونے کا پتہ لگتا ہے:۔
“دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُسے قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور اور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کردے گا”۔ (تذکرہ صفحہ104)
“یَاتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔ وَیَا تُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ“۔ (تذکرہ صفحہ 50)
“بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے”۔ (تذکرہ صفحہ10)
یہ وہ الہامات ہیں جو براہین احمدیہ 1884ء میں شائع کیے گئے تھے جبکہ آپ دنیا میں ایک کسمپرس آدمی کی حالت میں تھے لیکن اِس کتاب کا نکلنا تھا کہ آپ کی شہرت ہندوستان میں دور دور تک پھیل گئی اور بہت لوگوں کی نظریں مصنّف براہین احمدیہ کی طرف لگ گئیں کہ یہ اسلام کا کشتی بان ہوگا اور اِسے دشمنوں کے حملوں سے بچائے گا اور یہ خیال اُن کا درست تھا لیکن خدا تعالیٰ اِسے اور رنگ میں پورا کرنے والا تھا اور واقعات یہ ثابت کرنے والے تھے کہ جو لوگ اِن دنوں اُس پر جان فدا کرنے کے لیے تیار ہوگئے تھے وہی اُس کے خون کے پیاسے ہو جائیں گے اور ہر طرح اس کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے اور آپ کی قبولیّت کسی انسانی امداد کے سہارے نہیں بلکہ خداتعالیٰ کے زبردست حملوں کے ذریعہ سے مقدر تھی۔
آپ کے بھائی صاحب کی وفات
1884ء میں آپ کے بھائی صاحب بھی فوت ہوگئے اور چونکہ وہ لاولد تھے اِس لیے اُن کے وارث بھی آپ ہی تھے لیکن اس وقت بھی آپ نے اُن کی بیوہ کی دلدہی کے لیے جائیداد پر قبضہ نہ کیا اور اُن کی درخواست پر نصف حصہ تو مرزا سلطان احمد صاحب کے نام پر لکھ دیا جنہیں آپ کی بھاوج نے رسمی طورپر متبنّٰی قرار دیا تھا آپ نے تبنّیت کے سوال پر تو صاف لکھ دیا کہ اسلام میں جائز نہیں لیکن مرزا غلام قادر مرحوم کی بیوہ کی دلدہی اور خبرگیری کے لیے اپنی جائیداد کا نصف حصہ بخوشی خاطر دے دیا اور باقی نصف پر بھی خود قبضہ نہ کیا بلکہ مدت تک آپ کے رشتہ داروں ہی کے قبضہ میں رہا۔
دوسری شادی، خلق خدا کا رجوع، اعلانِ دعویٰ حقّہ
بھائی صاحب کی وفات کے ڈیڑھ سال بعد آپ نے الہامِ الٰہی کے ماتحت دوسری شادی دہلی میں کی۔ چونکہ براہین احمدیہ شائع ہوچکی تھی۔ اب کوئی کوئی شخص آپ کو دیکھنے کے لیے آنے لگا تھا اور قادیان جو دنیا سے بالکل ایک کنارہ پر ہے مہینہ دو مہینے کے بعد کسی نہ کسی مہمان کی قیام گاہ بن جاتی تھی اور چونکہ لوگ براہین احمدیہ سے واقف ہوتے جاتے تھے۔ آپ کی شہرت بڑھتی جاتی تھی اور یہ براہین احمدیہ ہی تھی جسے پڑھ کر وہ عظیم الشان انسان جس کی لیاقت اور علمیّت کے دوست دشمن قائل تھے اور جس حلقہ میں بیٹھتا تھا خواہ یورپینوں کا ہو یا دیسیوں کا اپنی لیاقت کا سکہ اُن سے منواتا تھا آپ کا عاشق و شَیدا ہو گیا اور باوجود خود ہی ہزاروں کا معشوق ہونے کے آپ کا عاشق ہونا اُس نے اپنا فخر سمجھا۔ میری مراد اُستاذی المکرم حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب سے ہے جو براہین احمدیہ کی اشاعت کے وقت جموں میں مہاراجہ صاحب کے خاص طبیب تھے۔ انہوں نے وہاں ہی براہین احمدیہ پڑھی اور ایسے فریفتہ ہوئے کہ تادمِ مرگ حضرت صاحب کا دامن نہ چھوڑا۔
سلسلہ بیعت کا آغاز اور پہلی بیعت
غرض براہین احمدیہ کا اثر رفتہ رفتہ بڑھنا شروع ہوا اور بعض لوگوں نے آپ کی خدمت میں درخواست کی کہ آپ بیعت لیں لیکن آپ نے بیعت لینے سے ہمیشہ انکار کیا اور یہی جواب دیا کہ ہمارے سب کام خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ حتیّٰ کہ 1888ء کا دسمبر آ گیا جب کہ آپ کو الہام کے ذریعے لوگوں سے بیعت لینے کا حکم دیا گیا اور پہلی بیعت 1889ء میں لدھیانہ کے مقام پرجہاں میاں احمد جان نامی ایک مخلص تھے۔ اُن کے مکان پر ہوئی اور سب سے پہلے حضرت مولانا مولوی نورالدینؓنے بیعت کی اور اُس دن چالیس کے قریب آدمیوں نے بیعت کی۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ کچھ لوگ بیعت میںشامل ہوتے رہے۔
مسیح موعود ہونے کا دعویٰ اور اُس کا اعلان
لیکن 1891ء میں ایک اور تغیر عظیم ہوا یعنی حضرت مرزا صاحب کو الہام کے ذریعہ بتایا گیا کہ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام جن کے دوبارہ آنے کے مسلمان اور مسیحی دونوں قائل ہیں، فوت ہوچکے ہیں اور ایسے فوت ہوئے ہیں کہ پھر واپس نہیں آ سکیں گے اور یہ کہ مسیح کی بعثت ثانیہ سے مراد ایک ایسا شخص ہے جو اُن کی خوبو پر آوے اور وہ آپ ہی ہیں۔ جب اِس بات پر آپ کو شرح صدر ہوگیا اور بار بار الہام سے آپ کو مجبور کیا گیا کہ آپ اِس بات کا اعلان کریں تو آپ کو مجبورًا اِس کام کے لیے اُٹھنا پڑا۔ قادیان میں ہی آپ کو یہ الہام ہوا تھا۔ آپ نے گھر میں فرمایا کہ اب ایک ایسی بات میرے سپرد کی گئی ہے کہ اب اِس سے سخت مخالفت ہوگی اِس کے بعد آپ لدھیانہ چلے گئے اور مسیح موعود ہونے کا اعلان 1891ء میں بذریعہ اشتہار کیا گیا۔
علماء زمانہ کی شدید مخالفت اور مباحثہ لدھیانہ
اِس اعلان کا شائع ہونا تھا کہ ہندوستان بھر میں شور پڑ گیا اور اس قدر مخالفت ہوئی کہ الامان! وہی علماء جو آپ کی تائید کرتے تھے آپ کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے۔
مولوی محمد حسین بٹالوی کی مخالفت
مولوی محمد حسین بٹالوی جنہوں نے اپنے رسالہ اشاعۃ السنّہ میں آپ کی تائید میں زبردست آرٹیکل لکھے تھے انہوں نے ہی آپ کے خلاف زمین و آسمان سر پر اُٹھا لیا اور لکھا کہ مَیں نے ہی اس شخص کو چڑھایا تھا اور اب مَیں ہی اِسے گراؤں گا یعنی میری ہی تائید سے اِن کی کچھ عظمت قائم ہوئی تھی اب مَیں اتنی مخالفت کروں گا کہ یہ لوگوں کی نظروں سے گر جائیں گے اور بدنام ہو جائیں گے۔ مولوی صاحب مع بعض دیگر علماء کے لدھیانہ بھی پہنچے۔
مباحثہ لدھیانہ
اور مباحثہ کا چیلنج دیا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے منظور بھی فرما لیا۔ لیکن مباحثہ٭میں فریق مخالف نے اِس قسم کی کج بحثیاں شروع کیں کہ کچھ فیصلہ نہ ہو سکا اور جب ڈپٹی کمشنر صاحب نے دیکھا کہ ایک فتنۂ عظیم برپا ہے اور قریب ہے کہ کوئی صورت غدر کی پیدا ہو جائے تو انہوں نے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو ایک خاص حکم کے ذریعے لدھیانہ سے اُسی دن چلے جانے پر مجبور کیا۔ اِس پر بعض دوستوں کے مشورہ سے کہ شاید ایسا حکم آپ کے متعلق بھی جاری ہو آپ لدھیانہ سے امرتسر تشریف لے آئے اور آٹھ دن وہاں رہے لیکن بعد میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ صاحب نے دریافت کرنے پربتایا کہ آپ کے متعلق کوئی حکم نہ تھا جس پر آپ پھر لدھیانہ تشریف لے گئے اور پھر وہاں ہفتہ بھر کے قریب رہے اور پھر قادیان تشریف لے آئے۔
دہلی کا سفر اور مولوی نذیر حسین سے مباحثہ
اِس کے بعد کچھ مدت قادیان رہ کر پھر لدھیانہ تشریف لے گئے جہاں کچھ مدت رہے اور وہاں سے دہلی تشریف لے گئے جہاں آپ 28 ستمبر 1891ء کی صبح کو پہنچے۔ چونکہ دہلی اس زمانہ میں تمام ہندوستان کا علمی مرکز سمجھا جاتا تھا وہاں کے لوگوں میں پہلے سے ہی آپ کے خلاف جوش پھیلایا جاتا تھا آپ کے وہاں پہنچتے ہی وہاں کے علماء میں ایک جوش پیدا ہوا اور انہوں نے آپ کو مباحثہ کے چیلنج دینے شروع کیے اور مولوی نذیر حسین جو تمام ہندوستان کے علماءِ حدیث کے اُستاد تھے، اُن سے مباحثہ قرار پایا۔ مسجد جامع مقامِ مباحثہ قرار پائی لیکن مباحثہ کی یہ سب قرار داد مخالفین نے خود ہی کر لی۔ کوئی اطلاع آپ کو نہ دی گئی۔ عین وقت پر حکیم عبدالمجید خان صاحب دہلوی اپنی گاڑی لے کر آگئے اور کہا کہ مسجد میں مباحثہ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ایسے فساد کے موقعہ پر ہم نہیں جا سکتے جب تک پہلے سرکاری انتظام نہ ہو، پھر مباحثہ کے لیے ہم سے مشورہ ہونا چاہیے تھا اور شرائطِ مباحثہ طَے کرنی تھیں۔ آپ کے نہ جانے پر اور شور ہوا۔ آخر آپ نے اعلان کیا کہ مولوی نذیر حسین دہلوی جامع مسجد میں قَسم کھا لںر کہ حضرت مسیح علیہ السلام قرآن کی رُو سے زندہ ہیں اور اب تک فوت نہیں ہوئے اور اس قَسم کے بعد ایک سال تک کسی آسمانی عذاب میں مبتلا نہ ہوں تو مَیں جھوٹا ہوں اور مَیں اپنی کتب کو جلا دوں گا اور اس کے لیے تاریخ بھی مقرر کر دی۔ مولوی نذیر حسین صاحب کے شاگرد اِس سے سخت گھبرائے اور بہت روکیں ڈالنی شروع کر دیں لیکن لوگ مصر ہوئے کہ اس میں کیا حرج ہے کہ مرزا صاحب کا دعویٰ سن کر قَسم کھا جائیں کہ یہ جھوٹا ہے اور لوگ اُس وقت کثرت سے جامع مسجد میں اکٹھے ہوگئے۔ حضرت صاحب کو لوگوں نے بہت روکا کہ آپ نہ جائیں سخت بلوہ ہو جائیگا لیکن آپ وہاں ٭ گئے اور ساتھ آپ کے بارہ دوست تھے (حضرت مسیحؑ کے بھی بارہ ہی حواری تھے۔ اِس معرکۃ الآراء موقعہ پر آپ کے ساتھ یہ تعداد بھی ایک نشان تھی) جامع مسجد دہلی کی وسیع عمارت اندر اور باہر آدمیوں سے پُر تھی بلکہ سیڑھیوں پر بھی لوگ کھڑے تھے۔ ہزاروں آدمیوں کے مجمع میں سے گزر کر جب کہ سب لوگ دیوانہ وار خون آلود نگاہوں سے آپ کی طرف دیکھ رہے تھے آپ اس مختصر جماعت کے ساتھ محرابِ مسجد میں جا کر بیٹھ گئے۔
مجمع کے انتظام کے لیے سپرنٹنڈنٹ پولیس مع دیگر افسران پولیس اور قریباً سَو کانسٹیبلوں کے آئے ہوئے تھے۔ لوگوں میں سے بہتوں نے اپنے دامنوں میں پتھر بھرے ہوئے تھے اور ادنیٰ سے اشارے پر پتھراؤ کرنے کو تیار تھے اور مسیح ثانی بھی پہلے مسیح کی طرح فقیہیوں اور فریسیوں کا شکار ہو رہا تھا۔ لوگ اِس دوسرے مسیح کو سُولی پر لٹکانے کی بجائے پتھروں سے مارنے پر تُلے ہوئے تھے اور گفتگوئے مباحثہ میں تو انہیں ناکامی ہوئی۔ مسیح کی وفات پر بحث کرنا لوگوں نے قبول نہ کیا۔ قَسم بھی نہ کسی نے کھائی نہ مولوی نذیر حسین کو کھانے دی۔ خواجہ محمد یوسف صاحب پلیڈر علیگڑھ نے حضرت سے آپ کے عقائد لکھائے اور سنانے چاہے لیکن چونکہ مولویوں نے لوگوں کو یہ سنا رکھا تھا کہ یہ شخص نہ قرآن کو مانے نہ حدیث کو نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو۔ انہیں یہ فریب کُھل جانے کا اندیشہ ہوا، اِس لیے لوگوں کو اُکسادیا۔ پھر کیا تھا ایک شور برپا ہوگیا اور محمد یوسف کو وہ کاغذ سنانے سے لوگوں نے باز رکھا۔
افسر پولیس نے جب دیکھا کہ حالت خطرناک ہے تو پولیس کو مجمع منتشر کرنے کا حکم دیا اور اعلان کیا کہ کوئی مباحثہ نہ ہوگا۔ لوگ تتربتر ہوگئے۔۔ پولیس آپ کو حلقہ میں لے کر مسجد سے باہر گئی۔ دروازہ پر گاڑیوں کے انتظار میں کچھ دیر ٹھہرنا پڑا۔ لوگ وہاں جمع ہوگئے اور اشتعال مںہ آکر حملہ کرنے کا ارادہ کیا۔ اِس پر افسران پولیس نے گاڑی میں سوار کرا کر آپ کو روانہ کیا اور خود مجمع کے منتشر کرنے میں لگ گئے۔
اِس کے بعد مولوی محمدبشیر صاحب کو دہلی کے لوگوں نے بھوپال سے بلوایا اور اُن سے مباحثہ ہوا جس کا تمام حال چھپا ہوا موجود ہے۔
ڈپٹی عبداللہ آتھم سے مباحثہ کے حالات
کچھ دن کے بعد آپ واپس قادیان تشریف لے آئے۔ چند ماہ کے بعد1892ء میں پھر ایک سفر کیا۔ پہلے لاہور گئے وہاں مولوی عبدالحکیم کلانوری سے مباحثہ ہوا وہاں سے سیالکوٹ اور وہاں سے جالندھر اور پھر وہاں سے لدھیانہ تشریف لائے۔ لدھیانہ سے پھر قادیان تشریف لے آئے۔
مسیحیوں سے مباحثہ “جنگِ مقدس”
اس کے بعد 1893ء میں حضور کا مباحثہ مسیحیوں سے قرار پایا اور مسیحیوں کی طرف سے ڈپٹی عبداللہ آتھم مباحث مقرر ہوئے۔ یہ مباحثہ امرتسر میں ہوا اور پندرہ دن تک رہا اور “جنگِمقدس” کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔
اس مباحثہ میں بھی جیسا کہ ہمیشہ آپ کے مخالفین کو زک ہوتی رہی ہے، مسیحی ناظرین کو سخت زک ہوئی اور اس کا نہایت مفید اثر ہوا۔ اِس مباحثہ کے پڑھنے سے (یہ مباحثہ تحریری ہوا تھا اور طرفین آمنے سامنے بیٹھ کر ایک دوسرے کے پرچہ کا جواب دیتے تھے اور وہ اصل تحریریں ایک کتاب کی صورت میں شائع کی گئی ہیں ) معلوم ہوتا ہے کہ مسیحی مباحث آپ کے زبردست استدلال سے تنگ آ جاتا تھا اور بار بار دعویٰ بدلتا جاتا تھا اور بعض جگہ تو مسیحیوں کی طرف سے ناروا سخت کلامی تک کی گئی ہے۔ آپ نے اس جدید علمِ کلام کو پیش کیا کہ ہر ایک فریق اپنے مذہب کی صداقت کے دعاوی اور دلائل اپنی مسلّمہ کتب سے ہی پیش کرے۔
ایک عجیب واقعہ
اِس مباحثہ میں ایک عجیب واقعہ گزرا جس میں دوست دشمن آپ کی خداداد ذہانت بلکہ الٰہی تائید کے قائل ہو گئے اور وہ یہ کہ گو بحث اور اُمور پر ہو رہی تھی مگر مسیحیوں نے آپ کو شرمندہ کرنے کے لیے ایک دن کچھ لولے، لنگڑے اور اندھے اکٹھے کیے اور عین دوران مباحثہ میں آپ کے سامنے لا کر کہا کہ آپ مسیح ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، وہ تو لولے لنگڑے اور اندھوں کو اچھا کیاکرتے تھے۔
پس آپ کا دعویٰ تب ہی سچا ہو سکتا ہے جب کہ آپ بھی ایسے مریضوں کو اچھا کر کے دکھلائیں اور دور جانے کی ضرورت نہیں مریض حاضر ہیں۔ جب انہوں نے یہ بات پیش کی سب لوگ حیران رہ گئے اور ہر ایک شخص محو حیرت ہو کر اِس بات کا انتظار کرنے لگا کہ دیکھیں کہ مرزا صاحب اِس کا کیا جواب دیتے ہیں ؟ اور مسیحی اپنی اِس عجیب کارروائی پر بہت خوش ہوئے کہ آج اِن پر نہایت سخت حجت تمام ہوئی ہے اور بھری مجلس میں کیسی خجالت اُٹھانی پڑی ہے۔ لیکن جب آپ نے اِس مطالبہ کا جواب دیا تو اُن کی ساری خوشی مبدل بہ افسوس و ندامت ہوگئی اور فتح شکست سے بدل گئی اور سب لوگ آپ کے جواب کی برجستگی و معقولیت کے قائل ہوگئے۔ آپ نے فرمایا کہ اِس قسم کے مریضوں کو اچھا کرنا تو انجیل میں لکھا ہے ہم تو اِس کے قائل ہی نہیں بلکہ ہمارے نزدیک تو حضرت مسیحؑ کے معجزات کا رنگ ہی اور تھا۔ یہ تو انجیل کا دعویٰ ہے کہ وہ ایسے بیماروں کو جسمانی رنگ میں اچھا کرتے تھے اور اس طرح ہاتھ پھیر کر نہ کہ دعا اور دوا سے۔ لیکن انجیل میں لکھا ہے کہ اگر تم میں ذرّہ بھر بھی ایمان ہو تو تم لوگ اِس سے بڑھ کر عجیب کام کر سکتے ہو۔ پس اِن مریضوں کا ہمارے سامنے پیش کرنا آپ لوگوں کا کام نہیں بلکہ ہمارا کام ہے اور اب ہم اِن مریضوں کو جو آپ لوگو ں نے نہایت مہربانی سے جمع کر لیے ہیں آپ کے سامنے پیش کر کے کہتے ہیں کہ براہِ مہربانی انجیل کے حکم کے ماتحت اگر آپ لوگوں میں ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہے تو اِن مریضوں پر ہاتھ رکھ کر کہیں کہ اچھے ہو جاؤ۔ اگر یہ اچھے ہوگئے تو ہم یقین کر لیں گے کہ آپ لوگ اور آپ کا مذہب سچا ہے ورنہ جو دعویٰ آپ لوگوں نے خود کیا ہے اُسے بھی پورا نہ کر سکیں تو پھر آپ کی صداقت پر کس طرح یقین کیا جا سکتا ہے۔ اِس جواب کا ایسا اثر ہوا کہ مسیحی بالکل خاموش ہوگئے اور کچھ جواب نہ دے سکے اور بات ٹال دی۔
اس کے بعد انہی دنوں آپ ایک دفعہ فیروز پور تشریف لے گئے۔ اِن تمام سفروں میں ہر جگہ آپ کو دِق کیا گیا اور لوگوں نے آپ کو بڑا دکھ دیا اور جو کچھ تحریر کے ذریعہ شائع کیا گیا اس کی کوئی حد ہی نہیں۔ جہاں آپ جاتے وہیں لوگ مل کر آپ کو دکھ دیتے۔
تعطیل جمعہ کی کوشش
یکم جنوری 1896ء کو آپ نے اسلامی عظمت کے اظہار اور زبردست اسلامی شعار نماز جمعہ کے عام رواج کے لیے ایک کوشش کا آغاز فرمایا۔ یعنی گورنمنٹ ہند سے تعطیل جمعہ کی تحریک کی کارروائی شروع کی۔ بدقسمتی سے مسلمانوں میں جمعہ کے متعلق جو اُن کے لیے مسیح موعود کا ایک زبردست عملی نشان تھا ایسی غلط فہمیاں پیدا ہوگئی تھیں کہ بعض شرائط کو ملحوظ رکھ کر جمعہ کی فرضیت پر ہی بحث چھڑ چکی تھی اور عملی طور پر جمعہ بہت جگہ متروک ہو گیا تھا آپ نے اُس کو زندہ کیا اور چاہا کہ گورنمنٹ جمعہ کی تعطیل منظور فرمائے۔ اِس بارہ میں جو میموریل گورنمنٹ کی خدمت میں بھیجنا آپ نے تجویز فرمایا اُس کی تیاری سے پہلے ہی مولویوں نے اپنی عادت کے موافق مخالفت کی اور اس کام کو اپنے ہاتھ میں لیناچاہا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ کام محض للّٰہیّت سے کر رہے تھے آپ کو کسی تحسین و داد کی تمنا نہ تھی۔ آپ کا مدعا تو اِس اہم دینی خدمت کا انجام پانا تھا خواہ کسی کے ہاتھ سے ہو۔ آپ نے کل کام مولوی محمد حسین بٹالوی کی درخواست پر اُن کے سپرد کر دینے کا اعلان کر دیا کہ وہ جمعہ کی تعطیل کے لیے خود کوشش کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں تو کریں۔ مگر افسوس! انہوں نے اِس مفید کام کو اس راہ سے روک دیا مگر آپ کی یہ تحریک الٰہی تحریک تھی آخر خدا تعالیٰ نے آپ ہی کی جماعت کے ذریعہ اس کو پورا کیا۔
مذاہب عالَم کا عظیم الشان جلسہ
1896ء کے اواخر میں چند لوگوں نے مل کر لاہور میں ایک مذہبی کانفرنس منعقد کرنے کا ارادہ کیا اور اس کے لیے تمام مذاہب کے پَیروان کو شامل ہونے کی دعوت دی جنہوں نے بڑی خوشی سے اِس بات کو قبول کیا۔ بحث میں شرط تھی کہ کسی مذہب پر حملہ نہ کیا جاوے اور حسبِ ذیل پانچ مضامین پر مختلف مذاہب کے پیَروان سے مضامین لکھنے کی درخواست کی گئی:
- انسان کی جسمانی، اخلاقی اور روحانی حالتیں
- انسان کی زندگی کے بعد کی حالت
- دنیا میں انسان کی ہستی کی اصل غرض کیا ہے اور وہ کس طرح پوری ہو سکتی ہے۔
- کرم یعنی اعمال کا اثر دنیا و عاقبت میں کیا ہوتا ہے۔
- علم گیان و معرفت کے ذرائع کیا کیا ہیں۔
اس کانفرنس کا مجوزہ حضرتؑ کی خدمت میں بھی قادیان حاضر ہوا اور آپ نے ہر طرح اُن کی تائید کا وعدہ کیا بلکہ اصلی معنوں میں اِس کانفرنس کی بنیاد خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہی رکھی تھی۔ جو شخص بعد میں کانفرنس کا مجوز قرار پایا، قادیان آیا تو حضرت نے یہ تجویز پیش کی تھی۔ چونکہ آپ کی غرض دنیا کو اس صداقت سے آگاہ کرنا تھا جو آپ لے کر آئے تھے اور آپ کا ہر کام نمود ونمائش سے بالا تر ہوتا تھا اِس لیے آپ نے اس شخص کو اس تحریک میں سعی کرنے پر آمادہ کیا اور اس کا پہلا اشتہار قادیان میں ہی چھاپ کر شائع کرایا۔ اپنے ایک مرید کو مقرر کیا کہ وہ ہر طرح اُن کی مدد کرے اور خود بھی مضمون لکھنے کاوعدہ کیا۔ جب آپ مضمون لکھنے لگے تو آپ سخت بیمار ہوگئے اور دستوں کی بیماری شروع ہوگئی لیکن اس بیماری میں بھی آپ نے ایک مضمون لکھا اور جب آپ وہ مضمون لکھ رہے تھے تو آپ کو الہام ہوا کہ “مضمون بالا رہا”۔ یعنی آپ کا مضمون اس کانفرنس میں دوسروں کے مضامین سے بالا رہے گا۔ چنانچہ آپ نے قبل از وقت ایک اشتہار کے ذریعہ یہ بات شائع کر دی کہ میرا مضمون بالا رہے گا۔
اجلاس کانفرنس 28-27-26 دسمبر 1896ء کو مقرر تھے۔ جلسہ کے انتظام کے لیے چھ ماڈریٹر صاحبان مقرر تھے جن کے اسمائِ گرامی مندرجہ ذیل ہیں :۔
- رائے بہادر پرتول چندر صاحب جج چیف کورٹ پنجاب
- خان بہادر شیخ خدا بخش صاحب جج سمال کاز کورٹ لاہور
- رائے بہادر پنڈت رادھا کشن کول پلیڈر چیف کورٹ سابق گورنر جنرل جموں
- حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب طبیب شاہی
- رائے بہادر بھوانی داس ایم۔ اے سیٹلمنٹ آفیسر جہلم
- سردار جواہر سنگھ صاحب سیکرٹری خالصہ کالج کمیٹی لاہور
اِس کانفرنس کے لیے مختلف مذاہب کے مشہور علماء نے مضامین تیار کیے تھے اِس لیے لوگوں میں اِس کے متعلق بڑی دلچسپی تھی اور بہت شوق سے حصہ لیتے تھے اور یہ جلسہ ایک مذہبی دنگل کا رنگ اختیار کر گیا تھا اور ہر مذہب کے پَیرو اپنے اپنے قائم مقاموں کی فتح دیکھنے کے خواہشمند تھے۔ اِس صورت میں تمام پُرانے مذاہب جن کے پَیرو کثرت سے پیدا ہو چکے ہیں بالکل محفوظ تھے کیونکہ اُن کی داد دینے والے لوگ جلسہ گاہ میں کثرت سے پائے جاتے تھے لیکن مرزا صاحب کا مضمون ایک ایسے جلسے میں سنایا جانا تھا جس میں دوست برائے نام تھے اور سب دشمن ہی دشمن تھے کیونکہ اُس وقت تک آپ کی جماعت دو تین سَو سے زیادہ نہ تھی اور اُس جلسہ میں تو شاید پچاس سے زائد آدمی بھی شامل نہ ہوں گے۔
آپ کی تقریر 27 دسمبر کو ڈیڑھ بجے سے ساڑھے تین بجے تک تھی۔ آپ خود تو وہاں نہ جا سکے تھے لیکن آپ نے اپنے ایک مخلص مرید مولوی عبدالکریم صاحب کو اپنی طرف سے مضمون پڑھنے پر مقرر کیا تھا۔ جب انہوں نے تقریر شروع کی تو تھوڑی ہی دیر میں ایسا عالَم ہو گیا کہ گویا لوگ بُت بنے بیٹھے ہیں اور وقت کے ختم ہونے تک لوگوں کو معلوم ہی نہ ہوا کہ کس قدر عرصہ تک آپ بولتے رہے ہیں۔ وقت ختم ہونے پر لوگوں کو سخت تشویش ہوئی کیونکہ آپ کے مضمون کا ابھی پہلا سوال ہی ختم نہ ہوا تھا اور اُس وقت لوگوں کی خوشی کی کوئی انتہانہ رہی جب کہ مولوی مبارک علی صاحب سیالکوٹی نے، جن کا لیکچر آپ کے بعد تھا اعلان کیا کہ آپ کے مضمون کا وقت بھی حضرت صاحب کو ہی دیا جائے۔ چنانچہ مولوی عبدالکریم صاحب آپ کا لیکچر پڑھتے چلے گئے حتیّٰ کہ ساڑھے چار بج گئے جب کہ جلسہ کا وقت ختم ہونا تھا لیکن اب بھی پہلا سوال ختم نہ ہوا تھا اور لوگ مُصِر تھے کہ اِس لیکچر کو ختم کیا جائے۔ چنانچہ منتظمین جلسہ نے اعلان کیا کہ بِلالحاظ وقت کے یہ مضمون جاری رہے جس پر ساڑھے پانچ بجے تک سنایا گیا تب جا کر پہلا سوال ختم ہوا۔ مضمون کے ختم ہوتے ہی لوگوں نے اصرار کیا کہ اِس مضمون کے ختم کرنے کے لیے جلسہ کا ایک دن اور بڑھایا جائے چنانچہ 28 تاریخ کے پروگرام کے علاوہ 29تاریخ کو بھی جلسہ کا انتظام کیا گیا اور اُس روز چونکہ بعض اور مذاہب کے قائم مقاموں نے بھی وقت کی درخواست کی تھی اس لیے کارروائی جلسہ صبح کو بجائے ساڑھے دس بجے کے ساڑھے نو بجے سے شروع ہونے کا اعلان کیا گیا اور سب سے پہلے آپ ہی کا مضمون رکھا گیا اور گو پہلے دنوں میں لوگ ساڑھے دس بجے بھی پوری طرح نہ آتے تھے لیکن آپ کے پہلے دن کے لیکچر کا یہ اثر تھا کہ ابھی نو بھی نہ بجے تھے کہ ہر مذہب وملت کے لوگ جوق در جوق جلسہ گاہ میں جمع ہونے شروع ہوگئے اور عین وقت پر جلسہ شروع کیا گیا۔ اُس دن بھی گو آپ کے مضمون کے لیے اڑھائی گھنٹے دیے گئے تھے لیکن تقریر کے اس عرصہ میں ختم نہ ہو سکنے کی وجہ سے منتظمین کو وقت اور دینا پڑا کیونکہ تمام حاضرین یک زبان ہو کر اس تقریر کے جاری رکھنے پر مُصِر تھے چنانچہ ماڈریٹر صاحبان کو وقت بڑھانا پڑا۔ غرض دو روز کے قریباً ساڑھے سات گھنٹوں میں جا کر یہ تقریر ختم ہوئی اور تمام لاہور میں ایک شور پڑ گیا اور سب لوگوں نے تسلیم کیا کہ مرزا صاحب کامضمون بالا رہا اور ہر مذہب و ملِّت کے پَیرو اس کی خوبی کے قائل ہوئے۔ جلسہ کی رپورٹ مرتب کرنے والوں کا اندازہ ہے کہ آپ کے لیکچروں کے وقت حاضرین کی تعداد بڑھتے بڑھتے سات آٹھ ہزار تک ترقی کر جاتی تھی۔ غرض یہ لیکچر ایک عظیم الشان فتح تھی جو آپ کو حاصل ہوئی اور اس دن آپ کا سِکّہ آپ کے مخالفوں کے دلوں میں اور بھی بیٹھ گیا اور خود مخالف اخبارات نے اِس بات کو تسلیم کیا کہ آپ کا مضمون اِس کانفرنس میں بالا رہا۔ یہ مضمون وہی ہے جس کا انگریزی ترجمہ “ٹیچنگز آف اسلام” یورپ اور امریکہ میں خاص طور پر قبولیت حاصل کر چکا ہے۔
1897ء کے آغاز کے ساتھ عیسائی دنیا پر اتمامِ حجت کے لیے ایک اور طریق پیش کیا اور حضرت مسیح علیہ السلام کی حقیقی شخصیت کے ثابت کرنے کے لیے عیسائیوں کے غلط عقائد کی اصلاح کی خاطر چہل روزہ دعوتِ مقابلہ کا اعلان کیا۔ اگرچہ اِس مقابلہ میں دوسرے اہل مذاہب بھی شامل تھے مگر عیسائی بالخصوص مخاطب تھے۔ اِس کے ساتھ ایک ہزار روپیہ کا انعام بھی اُس شخص کے لیے مقرر تھا جو یسوع کی پیشگوئیوں کو حضرت مسیح موعودکی پیشگوئیوں اور نشانوں سے قوی تر دکھا سکے مگر کسی کو جرأت اور حوصلہ نہ ہوا۔
واقعہ قتل لیکھرام
1897ء میں لیکھرام نامی ایک آریہ 6 مارچ کو آپ کی ایک پیشگوئی کے مطابق مارا گیا اور اس پر آریوں میں سخت شور برپا ہوا اور بعض شریروں نے طرح طرح سے احمدیوں کو اور پھر اُن کے ساتھ دوسرے مسلمانوں کو بھی دکھ دینا شروع کیا اور حضرت مسیح موعود کے خلاف تو سخت ہی شور برپا ہوا اور کھلے لفظوں میں آپ پر قتل کا الزام لگایا گیا اور فورًا آپ کی تلاشی لی گئی کہ شاید کوئی سراغ قتل کا مل جاوے لیکن اللہ تعالیٰ نے دشمن کو ہر طرح ناکام رکھا اور باوجود اس کے کہ ہر طرح آپ پر الزام لگانے کی کوشش کی گئی لیکن پھر بھی کامیابی نہ ہوئی اور آپ اس الزام سے بالکل پاک ثابت ہوئے۔
حسین کامی رومی سفیر کا قادیان میں آنا
مئی 1897ء میں ایک عظیم الشان واقعہ کا آغاز ہوا جو تاریخ میں ایک نشان کے طور پر رہے گا۔ حسین کامی سفیر روم اپنی متعدد درخواستوں کے بعد حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت میں قادیان حاضر ہوا۔ حضرت نے اپنی خداداد فراست اور الہامی اطلاع پر اُسے اشارۃً اُس کی اپنی حالت اور ٹرکی پر آنے والے مصائب سے اطلاع دی کیونکہ سفیر مذکور نے سلطنتِ روم کی نسبت ایک خاص دعا کی تحریک کی تھی جس پر آپ نے اس کو صاف فرما دیا کہ سلطان کی سلطنت کی حالت اچھی نہیں ہے اور مَیں کشفی طریق سے اس کے ارکان کی حالت اچھی نہیں دیکھتا اور میرے نزدیک اِن حالتوں کے ساتھ انجام اچھا نہیں۔
اِن باتوں سے سفیر مذکور ناراض ہو کر چلا گیا اور لاہور کے ایک اخبار میں گندی گالیوں کا ایک خط چھپوایا جس سے مسلمانانِ ہندوپنجاب میں شور مچ گیا مگر بعد میں آنے والے واقعات نے اس حقیقت کو کھول دیا اِس کے ضمن میں بہت سی پیشگوئیاں پوری ہو گئیں۔ خود سفیر مذکور حضرت کے مشہور الہام اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ کا نشانہ بنا کیونکہ وہ ایک سنگین الزام میں ماخوذ ہو کر سزا یاب ہوا اور جس اخبار نے نہایت زور سے اِس مضمون کی تائید کی تھی اور اُسے چھاپا تھا وہ بھی سزا سے نہ بچا اور سلطنت ٹرکی کی جو حالت ہے وہ ہر شخص پر عیاں ہے۔
مقدمہ ڈاکٹر مارٹن کلارک
اِسی سن کی یکم اگست کو آپ کے خلاف ڈاکٹر مارٹن کلارک نام ایک مسیحی پادری نے مقدمہ سازش قتل مسٹر اے۔ ای مارٹینو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ امرتسر کی عدالت میں دائر کیا اور بیان کیا کہ مرزا صاحب نے عبدالحمید نام ایک شخص کو میرے قتل کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ اوّل تو ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر نے آپ کے نام وارنٹ گرفتاری جاری کیا لیکن بعد میں اُن کو معلوم ہوا کہ بوجہ غیر ضلع ہونے کے یہ بات اُن کے اختیار سے باہر ہے۔ پس مقدمہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ صاحب بہادر ضلع گورداسپور کی عدالت میں منتقل کیا جن کا نام ایم۔ ڈبلیو ڈگلس ہے اور جو اِس وقت جزائر انڈیمان کی چیف کمشنری سے پنشن یاب ہو کر ولایت میں ہیں۔ آپ کے سامنے بھی عبدالحمید نے یہی بیان کیا کہ مجھے مرزا صاحب نے مارٹن کلارک صاحب کے قتل کے لیے بھیجا تھا اور کہا تھا کہ ایک بڑے پتھر سے اِن کو مار دو۔ لیکن چونکہ اس بیان میں جو اُس نے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ امرتسر کے سامنے دیا تھا اور اُس میں جو اب آپ کے سامنے دیا کچھ فرق تھا اِس لیے آپ کو کچھ شک پڑ گیا اور آپ نے بڑے زور سے اِس امر کی تحقیقات شروع کی اور چار ہی پیشیوں میں 27 دن کے اندر مقدمہ فیصلہ کر دیا اور باوجود اِس کے کہ آپ کے مقابلہ پر ایک مسیحی جماعت تھی بلاتعصب حضرت مسیح موعود کے حق میں فیصلہ دیا اور آپ کو صاف بَری کر دیا بلکہ اجازت دی کہ اپنے مخالفین کے خلاف مقدمہ دائر کریں لیکن آپ نے اُن کو معاف کر دیا اور اُن پر کوئی مقدمہ نہ کیا۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ صاحب اپنے فیصلہ میں تحریر فرماتے ہیں :۔
’’ہم نے اُس کا بیان سنتے ہی اس کو بعید از عقل سمجھا کیونکہ اوّل تو اُس کا بیان جو ہمارے سامنے ہوا اُس بیان سے مختلف تھا جو امرتسر کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ صاحب کے سامنے ہوا۔ علاوہ ازیں اس کی وضع قطع ہی شُبہ پیدا کرنے والی تھی۔ دوسرے ہم نے اس کے بیانات میں یہ عجیب بات دیکھی کہ جس قدر عرصہ وہ بٹالہ میں مشن کے ملازموں کے پاس رہا اُس کا بیان مفصّل اور طویل ہوتا گیا۔ چنانچہ اُس نے ایک بیان 12 اگست کو دیا اور ایک 13 اگست کو اور دوسرے دن کے بیان میں کئی تفصیلات بڑھ گئیں جو پہلے دن کے بیان میں نہ تھیں۔ چونکہ اس سے ہمیں شُبہ پیداہوا کہ یا تو اسے کوئی سکھاتا ہے یا اِسے بہت کچھ معلوم ہے جسے وہ ظاہر نہیں کرنا چاہتا۔ اِس لیے ہم نے صاحب سپرنٹنڈنٹپولیس کو کہا جو ایک یورپین آفیسر تھے کہ اِس کو مشن کمپاؤنڈ سے نکال کر اپنی تحویل میں رکھو اور پھر بیان لو۔ انہوںنے اُسے مشن کے قبضہ سے نکال لیا اور جب آپ نے اُس سے بیان لیا تو بلا کسی وعدہ معافی کے وہ رو کر پاؤں پر گِر گیا اوربیان کیا کہ مجھ کو ڈرا کر یہ سب کچھ کہلوایا گیا ہے۔ مَیں اپنی جان سے بیزار ہوں اور خود کشی کے لیے تیار تھا اوردرحقیقت جو کچھ مَیں نے مرزا صاحب کے خلاف بیان کیا وہ عبدالرحیم، وارث الدین اور پریم داس عیسائیوں کی سازشاور اُن کے سکھانے سے کیا ہے۔ مرزا صاحب نے نہ مجھ کو بھیجا اور نہ میرا اُن سے کوئی تعلق تھا۔ چنانچہ جو دقت ایک دنکے بیان میں آتی دوسرے دن یہ مجھے سکھا دیتے اور مرزا صاحب کے جس مرید کی نسبت مَیں نے بیان کیا تھا کہ اُس نےبعد از قتل مجھے پناہ دینی تھی اُس کی شکل سے بھی مَیں واقف نہیں نہ اُس کا نام سنا تھا انہوں نے خود ہی اس کا ناماور پتہ مجھے یاد کرا دیا اور اِس ڈر سے کہ مَیں بھول نہ جاؤں میری ہتھیلی پر پنسل سے نام لکھ دیا تھا کہ اُس وقت دیکھلینا اور یہ بھی کہا کہ جب پہلے مجھ سے مرزا صاحب کے خلاف بیان لکھوایا تو اِن عیسائیوں نے خوش ہو کر کہا کہ ابہمارے دل کی مراد بَر آئی (یعنی اب ہم مرزا صاحب کو پھنسائیں گے)‘‘۔
یہ تمام تفصیل لکھ کر مجسٹریٹ صاحب بہادر نے آپ کو بَری کیا۔ اِس مقدمہ پر آپ کے مخالف اِس قدر خوش تھے کہ ایک آریہ وکیل نے بلا اُجرت اِس میں مسیحیوں کی طرف سے پَیروی کی اور مسلمان مولوی بھی آپ کے خلاف گواہی دینے آئے۔ غرض مسیحی، ہندو اور مسلمان مل کر آپ پر حملہ اور ہوئے اور بعض ناجائز طریق بھی اختیار کیے گئے لیکن خدا تعالیٰ نے کپتان ڈگلس کو پیلاطوس سے زیادہ ہمت اور حوصلہ دیا۔ انہوں نے ہر موقعہ پر یہی کہا کہ مَیں بے ایمانی نہیں کر سکتا اور یہ نہیں کیا کہ اپنے ہاتھ دھو کر مسیح موعود کو اس کے دشمنوں کے ہاتھ میں دے دیتے بلکہ انہوں نے آپ کو بَری کیا اور اِس طرح رومن حکومت پر برٹش راج کی برتری ثابت کر دی۔
انہی دنوں میں آپ نے “اَلصُّلْحُ خَیْر” کے نام سے ایک اشتہار شائع کر کے مسلمان علماء کے آگے تجویز پیش کی کہ وہ آپ کی مخالفت سے باز آجائیں اور آپ کو دشمنوں کا مقابلہ کرنے دیں اور اس کے لیے 10دس سال کی مدت مقرر کی کہ اس معیاد کے اندر اگر میں جھوٹا ہوں تو خود تباہ ہو جاؤں گا اور اگر سچا ہوں تو تم عذاب سے بچ جاؤ گے جو سچوں کی مخالفت کے سبب خداتعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتا ہے۔ لیکن مسلمانوں نے اس کو قبول نہ کیا اور دشمنان اسلام سے مقابلہ کرنے کی بجائے اپنے سے ہی مقابلہ پسندکیا۔
ایک سفر
اکتوبر 1897ء میں آپ کو ایک شہادت پر ملتان جانا پڑا۔ وہاں شہادت دے کرجب واپس تشریف لائے تو کچھ دنوں لاہور بھی ٹھہرے۔ یہاں جن جن گلیوں سے آپ گذرتے ان میں لوگ آپ کو گالیاں دیتے اور پکا ر پکار کر بُرے الفاظ آپ کی شان میں زبان سے نکالتے۔ میری عمر اس وقت آٹھ سال کی تھی اور میں بھی اس سفر میں آپ کے ساتھ تھا۔ میں اس مخالفت کی جو لوگ آپ سے کرتے تھے وجہ تو نہیں سمجھ سکتا تھا اس لیے یہ دیکھ کر مجھے سخت تعجب آتا کہ جہاں سے آپ گذرتے ہیں لوگ آپ کے پیچھے کیوں تالیاں پیٹتے ہیں، سیٹیاں بجاتے ہیں ؟ چنانچہ مجھے یاد ہے کہ ایک ٹنڈا شخص جس کا ایک پہنچا کٹا ہوا تھا اور بقیہ ہاتھ پر کپڑا باندھا ہوا تھا نہیں معلوم کہ ہاتھ کے کٹنے کا ہی زخم باقی تھا یا کوئی نیا زخم تھا وہ بھی لوگوں میں شامل ہوکر غالباً مسجد وزیرخاں کی سیڑھیوں پر کھڑا تالیاں پیٹتا اور اپنا کٹا ہوا ہاتھ دوسرے ہاتھ پر مارتا تھا اور دوسروں کے ساتھ مل کر شور مچا رہا تھا : ہائے ہائے مرزانٹھ گیا،، (یعنی میدان مقابلہ سے فرار کر گیا) اور میں اس نظارہ کو دیکھ کر سخت حیران تھا خصوصاًاس شخص پر اور دیر تک گاڑی سے سرنکال کر اس شخص کو دیکھتا رہا۔ لاہور سے حضرت صاحب سیدھے قادیان تشریف لے آئے۔
پنجاب میں طاعون اور حضور کی احتیاطی تدابیر
اُسی سال ملک پنجاب میں طاعون پھوٹا اور جب کہ تمام مذہبی آدمی اُن تدابیر کے سخت مخالف تھے جو گورنمنٹ نے انسدادِ طاعون کے متعلق نافذ کی تھیں۔ آپ نے بڑے زور سے اُن کی تائید کی اور اپنی جماعت کو آگاہ کیا کہ اِن تدابیر کو اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ اسلام کا حکم ہے کہ ہر قسم کی تدابیر جو حفظانِ صحت کے متعلق ہوں اُن پر عمل کیاجائے اور اِس طرح آپ نے امنِ عامہ کے قیام میں بہت بڑا کام کیا۔ کیونکہ اس وقت لوگوں میں عام طور پر یہ بات پھیلائی جاتی تھی کہ گورنمنٹ خود ہی طاعون پھیلاتی ہے اور جو تدابیر اس کے انسداد کی ظاہر کی جاتی ہیں وہ درحقیقت اِس وباء کو پھیلانے والی ہیں اور اسلام کے بھی خلاف ہیں۔ چنانچہ علماء نے بڑے زور کے ساتھ فتویٰ دے دیا تھا کہ طاعون کے دنوں میں گھر سے نکلنا سخت گناہ ہے اور اِس طرح ہزاروں جاہلوں کی موت کا باعث ہوگئے۔ چوہے مارنے کی گولیاں تقسیم کی گئیں تو انہی کو باعث طاعون قرار دیا گیا۔ پنجرے دیئے گئے تو اُن پر اعتراض کیا گیا۔ غرض اِس طرح شورش برپا تھی اور بعض جگہ حکّامِ سرکار پر حملے بھی ہوئے۔ ایسے وقت میں آپ کے اعلان اور آپ کی جماعت کے عمل کو دیکھ کر دوسرے لوگوں کو بھی ہدایت ہوئی اور آپ نے مسلمانوں کو آگاہ کیا کہ طاعون کے دنوں میں گھروں سے باہر نکلنا اور بستی سے باہر رہنا اسلام کی رُو سے منع نہیں بلکہ منع صرف یہ بات ہے کہ ایک شہر سے بھاگ کر دوسرے شہر میں جائے کیونکہ اس سے بیماری کے دوسرے شہروں میں پھیلنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔
قانونِ سڈیشن پر گورنمنٹ کو میموریل اور تجاویز
یہ ایام مذہبی بحث مباحثہ کے سبب سخت خطرناک ہو رہے تھے اور 1897ء اور 1898ء سَن خاص طور پر ممتاز تھے۔ آپس کی مخالفت سخت بڑھ رہی تھی اور سیاسی مفسدہ پرداز اس مذہبی دشمنی سے فائدہ اُٹھا کر گورنمنٹ کے خلاف لوگوں کو اُکسانے میں مشغول تھے اور اسی شرارت کو محسوس کر کے گورنمنٹ نے 1897ء میں سڈیشن کا قانون بھی پاس کیا تھا لیکن باوجود اس قانون کے ہندوستان امن سے فساد کی طرف منتقل ہو رہاتھا اور اس قانون کا کوئی عمدہ نتیجہ نہ نکلا تھا کیونکہ ہندوستان ایک مذہبی ملک ہے اور یہاں کے لوگ جتنے مذہب کے معاملہ میں جوش میں آ سکتے ہیں اتنے سیاسی امور میں نہیں آتے۔ لیکن اِس قانون میں مذہبی لڑائی جھگڑوں کا سدِّباب نہیں کیا گیا تھا اور نہ اس کی ضرورت گورنمنٹ اُس وقت محسوس کرتی تھی مگر جس بات کو مدبرانِ حکومت سمجھنے سے قاصر تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک گوشۂ تنہائی میں بیٹھے اسے دیکھ رہے تھے چنانچہ ستمبر 1897ء میں ایک میموریل تیار کر کے لارڈ ایلجن بہادر وائسرائے ہند کی خدمت میں ارسال کیا اور اُسے چھاپ کر شائع بھی کر دیا۔ اُس میں آپ نے ہِزایکسی لینسی کو بتایا کہ فتنہ و فساد کا اصلی باعث مذہبی جھگڑے ہیں اِن کے نتیجہ میں جو شورش لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوتی ہے اُسے بعض شریر گورنمنٹ کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ پس قانون سڈیشن میں مذہبی سخت کلامی کو بھی داخل کرنا چاہیے اور اس کے لیے آپ نے تین تجاویز بھی پیش کیں۔
- اوّل یہ کہ قانون پاس کر دینا چاہیے کہ ہر ایک مذہب کے پَیرو اپنے مذہب کی خوبیاں تو بے شک بیان کریں لیکن دوسرے مذہب پر حملہ کرنے کی ان کو اجازت نہ ہوگی۔ اس قانون سے نہ تو مذہبی آزادی میں فرق آوے گا اور نہ کسی خاص مذہب کی طرفداری ہوگی اور کوئی وجہ نہیں کہ کسی مذہب کے پَیرو اِس بات پر ناخوش ہوں کہ اُن کو دوسرے مذاہب پر حملہ کرنے کی اجازت کیوں نہیں دی جاتی۔
- اگر یہ طریق منظور نہ ہو تو کم سے کم یہ کیا جائے کہ کسی مذہب پر ایسے حملے کرنے سے لوگوں کو روک دیا جائے جو خود اُن کے مذہب پر پڑتے ہوں۔ یعنی اپنے مخالف کے خلاف وہ ایسی باتیں پیش نہ کریں جو خود ان کے ہی مذہب میں موجود ہوں۔
- اگر یہ بھی ناپسند ہو تو گورنمنٹ ہر ایک فرقہ سے دریافت کرکے اس کی مسلّمہ کتب مذہبی کی ایک فہرست تیار کرے اور یہ قانون پاس کر دیا جائے کہ اس مذہب پر ان کتابوں سے باہر کوئی اعتراض نہ کیا جائے کیونکہ جب اعتراضات کی بنیاد صرف خیالات یا جھوٹی روایات پر ہو جنہیں اس مذہب کے پَیرو تسلیم ہی نہیں کرتے تو پھر اُن کے رُو سے اعتراض کرنے کا نتیجہ باہمی بغض و عداوت ترقی کرنے کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے۔
اگر اس تحریک پر گورنمنٹ اُس وقت عمل کرتی تو جو فتنے اور فساد ہندوستان میں پہلے دنوں نمودار ہوئے وہ کبھی نہ ہوتے لیکن گورنمنٹ نے اس موقعہ پر اس ضرورت کو محسوس نہ کیا اور اس کے مدبرانِ سلطنت کی آنکھ اُن جراثیم کی بڑھنے والی طاقت کو نہ دیکھ سکی جنہیں اِس نبی وقت نے اُن کی ابتدائی حالت میں دیکھ لیا تھا مگر 1908ء میں پورے دس سال بعد گورنمنٹ کو مجبورًا یہ قانون پاس کرنا پڑا کہ ایک مذہب کے لوگوں کو دوسرے مذہب پر حملہ کرنا اور ناروا سختی کرنی درست نہیں اور اگر کوئی ایسا کرے تو اس پمفلٹ یا مضمون کے چھاپنے والے پریس یا اخبار کی ضمانت لی جائے یا اُسے ضبط کیا جائے۔ لیکن یہ قانون اس قدر عرصہ کے بعد پاس ہوا کہ اس کا وہ اثر اب نہیں ہو سکتا جو اُس وقت ہو سکتا تھا۔ دراصل ہندوستان کے سارے فتنے کی جڑ مذہبی جھگڑا ہے جو بعض شریروں کی عجیب پیچ درپیچ سازشوں کے ساتھ گورنمنٹ کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے اور جب کسی مذہب کے پیرؤں کی سب سے پیاری چیز (اُن کے مذہب) پر گندے الفاظ میں حملہ کیا جائے تو جاہل عوام کو گورنمنٹ سے بدظن کرنے کے لیے اِسی قدر کہہ دینا کافی ہے کہ سارا قصور گورنمنٹ کا ہے جس کے ماتحت ہمیں اِس قدر دکھ دیا جاتا ہے اور وہ لوگ اس ظالم کا پیچھا چھوڑ کر محسن گورنمنٹ کے سَر ہو جاتے ہیں۔
ایک دل آزار کتاب
1898ء میں ایک عیسائی مرتد نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات کے خلاف ایک نہایت دل آزار کتاب (۱)شائع کی جس سے مسلمانوں میں ایک جوش پیدا ہو گیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیکھا کہ یہ ملک کے امن پر اثر انداز ہوگا۔ لاہور کی ایک انجمن (۲)نے گورنمنٹ کے حضور اس کتاب کی ضبطی کے لیے میموریل بھیجنے کی تیاری کی لیکن آپ نے منع فرمایا کہ اِس کا نتیجہ مفید نہ ہوگا اور مشورہ دیا کہ اس کا ایک زبردست جواب لکھا جائے مگر انجمن والوں نے اس مشورہ کی قدر نہ کی جس پر آخر انہیں اُسی طرح ناکام رہنا پڑا جیسے آپ نے اُن کو قبل از وقت بتلا دیا تھا۔ خود حضرتؑ نے اس میموریل(۳) کی اعلانیہ مخالفت کی کیونکہ اصولی طور پر اس میموریل کا انجام بصورت منظوری یہ ہونا چاہیے تھا کہ اِسلام کا ضعف ثابت ہو آپ نے جواب دینے کے طریق کو مقدم کیا اور گورنمنٹ نے آپ کے میموریل کو قدر کی نظر سے دیکھا اِس طرح پر آپ نے مسلمانوں کے ایک جائز حق کی حفاظت کی جو انہیں تبلیغ اسلام اور اپنے مذہب کے خلاف لکھنے والوں کے جواب دینے کا تھا۔
جماعت کی شیرازہ بندی اور مخالفین کی ناکامی
اِسی سال آپ نے اپنی جماعت کے شیرازہ کو مضبوط کرنے اور خصوصیاتِ سلسلہ کے قائم رکھنے کے لیے جماعت کے تعلقاتِ ازدواج اور نظامِ معاشرت کی تحریک کی اور جماعت کو ہدایت فرمائی کہ احمدی اپنی لڑکیاں غیر احمدی لوگوں کو نہ دیا کریں۔
اِسی سال گورنمنٹ کو بھی آپ نے نشان بینی کی دعوت دی۔ دراصل اِسی ذریعہ سے آپ کو عمالِ حکومت پر اپنی تبلیغ کا کامل طور پر پہنچا دینا مقصودتھا جو علیٰ وجہ الاتم پورا ہوگیا۔
1898ء میں آپ نے اپنی جماعت کے بچوں کے لیے ایک ہائی سکول کی بنیاد رکھی جس میں اپنی جماعت کے طلباء چاروں طرف سے آ کر پڑھیں جس کی غرض یہ تھی کہ دوسرے سکولوں کے اثرات سے محفوظ رہیں۔ پہلے سال یہ سکول صرف پرائمری تک تھا لیکن ہر سال ترقی کرتا چلا گیا اور 1903ء میں میٹریکولیشن کے امتحان میں اس کے لڑکے شامل ہوئے۔
1899ء میں آپ پر ایک اور مقدمہ حفظِ امن کے متعلق آپ کے دشمنوں نے قائم کیا لیکن اس میں بھی آپ کے دشمن سخت ذلیل اور ناکام ہوئے اور آپ کو کامیابی حاصل ہوئی۔
1900ء میں آپ نے عیسائی مذہب پر ایک اتمامِ حجت کیا۔ یعنی آپ نے لاہور کے بشپ صاحب کو خدائی فیصلہ کی دعوت دی مگر باوجودیکہ ملک کے نامی اخبارات نے تحریک کی مگر بشپ صاحب اِس مقابلہ میں نہ آ سکے۔
جماعت کا نام احمدی رکھنا
1901ء میں مردم شماری ہونے والی تھی اس لیے 1901ء کے اواخر میں آپ نے اپنی جماعت کے نام ایک اعلان شائع کیا کہ ہماری جماعت کے لوگ کاغذاتِ مردم شماری میں اپنے آپ کو احمدی مسلمان لکھوائیں گویا اِس سال آپ نے اپنی جماعت کو احمدی کے نام سے مخصوص کر کے دوسرے مسلمانوں سے ممتاز کر دیا۔
مقدمہ انہدامِ دیوار
اِسی سال آپ کے مخالف رشتہ داروں نے آپ کو اور آپ کی جماعت کو دکھ دینے کے لیے (بیت اقصیٰ) کے دروازہ کے آگے ایک دیوار کھینچ دی جس کے سبب نمازیوں کو بہت دور سے پھیر کھا کر آنا پڑتا تھا اور اِس طرح بہت تکلیف اور حرج ہوتاتھا۔ جب انہوں نے کسی طرح نہ مانا تو مجبور ہو کر جولائی 1901ء میں آپ کو عدالت میں نالش دائر کرنی پڑی اور اگست سنہِ مذکور میں وہ مقدمہ آپ کے حق میں فیصل ہوا اور دیوار گرائی گئی اور خرچہ مقدمہ بھی آپ کے مخالفوں پر پڑا لیکن آپ نے اُن کو معاف کر دیا۔
(۱)۔ یہ کتاب ’’امہات المومنین‘‘ کے نام سے ایک عیسائی ڈاکٹر احمد شاہ مرتد نے شائع کی تھی۔
(۲)۔ لاہور کی انجمن سے ’’ انجمن حمایت اسلام لاہور‘‘ مراد ہے۔
(۳)۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے ۴ مئی ۱۸۹۸ء کو لیفٹینٹ گورنر پنجاب کے پاس یہ میموریل بھیجا تھا کہ جب ہزار کاپی اس کتاب کی مسلمانوں میں مفت تقسیم کرکے اُن کی دل آزاری کی گئی ہے تو اس کا ضبط کرنا لاحاصل ہے۔ پادریوں نے ایسی ہزاروں کتابیں لکھ کر مسلمانوں کی دل آزاری کی ہے۔ اس طریقِ مباحثہ کی اصلاح ہونی چاہیئے اور اِس قسم کے دلآزار اور ناپاک کلمات کے استعمال سے حکماً روک دینا چاہیے۔
ریویو آف ریلیجنز کا اجراء
1902ء میں آپ نے ولایت میں تبلیغ اسلام کے لیے ایک ماہوار رسالہ نکالنے کا حکم دیا جو ریویو آف ریلیجنز کے نام سے بفضل خدا اَب تک جاری ہے۔ اِس کا ایک ایڈیشن انگریزی اور ایک اُردو میں نکلتا ہے۔ اِس ریویو کے ذریعہ سے امریکہ اور یورپ میں نہایت احسن طور پر تبلیغ اسلام ہو رہی ہے اور اس کے زبردست مضامین کی دوست دشمن نے تعریف کی ہے۔ ابتداء میں علاوہ دیگر ممبرانِ سلسلہ کے خود حضرت مسیح موعودعلیہ السلام بھی اِس رسالہ میں مضمون دیا کرتے تھے جو دراصل اُردو میں لکھے جاتے تھے پھر اُن کا ترجمہ انگریزی رسالہ میں شائع ہوتا تھا۔ اِن مضامین کا پڑھنے والوں پر نہایت گہرا اثر پڑتا تھا اور یہی مضامین تھے جنہوں نے ریویو کی عظمت پہلے ہی سال میں قائم کر دی تھی۔
خطبہ الہامیہ
اِس سال عیدالاضحیہ کے موقعہ پر جو حج کے دوسرے دن ہوتی ہے الہامِ الٰہی کے ماتحت ایک تقریر آپ نے فی البدیہہ عربی زبان میں کی۔ اُس وقت ایک عجیب حالت آپ پر طاری تھی اور آپ کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا اور چہرہ سے نور ٹپکتا تھا اور نہایت پُر رعب وہیبت حالت تھی اور ایسا معلوم ہوتاتھا جیسے غنودگی کے عالَم میں ہیں۔ یہ تقریر ایسی لطیف اور اِس کی زبان ایسی بے مثل ہے کہ بڑے بڑے عربی دان اِس کی نظیر لانے سے قاصر ہیں اور اس کے اندر ایسے ایسے حقائق و معارف بیان ہوئے ہیں کہ عقلِ انسانی دنگ رہ جاتی ہے- یہ تقریر خطبہ الہامیہ کے نام سے چھپ کر شائع ہو چکی ہے اور سب کی سب عربی زبان میں ہے۔
عربی زبان کی ترویج کیلیے اسباب کا سلسلہ
اِسی زمانہ میں آپ نے اپنی جماعت کو عربی سکھانے کے لیے ایک نہایت لطیف تجویز فرمائی جو یہ تھی کہ نہایت فصیح اور آسان عبارت میں کچھ جملے بنائے جنہیں لوگ یاد کر لیں اور اِس طرح آہستہ آہستہ اُن کو عربی زبان پر عبور حاصل ہو جائے اور اُن فقرات میں یہ خوبی رکھی گئی تھی کہ وہ ایسے امور کے متعلق ہوتے تھے جن سے انسان کو روزمرہ کام پڑتا ہے اور جن میں ایسی اشیاء کے اسماء اور ایسے افعال استعمال کیے جاتے تھے جو انسان روز مرہ بولتا ہے۔ کچھ اسباق اس سلسلہ کے نکلے لیکن بعد میں بعض زیادہ ضروری امور کی وجہ سے یہ سلسلہ رہ گیا تا ہم آپ اپنی جماعت کے واسطے ایک راہ نکال گئے جس پر چل کروہ کامیاب ہو سکتی ہے۔ آپ کا منشاء یہ تھا کہ ہر ایک مُلک کی اصل زبان کے علاوہ عربی زبان بھی مسلمانوں کے واسطے مادری زبان ہی کی طرح ہو جائے اور عورت مرد سب اسے سیکھیں تا کہ آئندہ نسلوں کے لیے اس کا سیکھنا آسان ہو اور بچے بچپن میں ہی اپنی مادری زبان کے علاوہ عربی زبان سیکھ لیں اور یہ ارادہ تھا جس کے پورا ہوئے بغیر اسلام اپنی جڑوں پر پوری طرح نہیں کھڑا ہو سکتا کیونکہ جو قوم اپنی دینی زبان نہیں جانتی وہ کبھی اپنے دین سے واقف نہیں ہو سکتی۔ اور جو قوم اپنے دین سے واقف نہیں وہ کبھی اپنے دشمنانِ دین کے حملوں سے محفوظ نہیں رہ سکتی اور جو قومیں دین سے واقف ہونے کے لیے صرف ترجموں پر قناعت کرتی ہیں وہ نہ دین سے واقف رہتی ہیں نہ اُن کی کتاب سلامت رہتی ہے کیونکہ ترجمہ آہستہ آہستہ لوگوں کو اصل کتاب کے مطالعہ سے غافل کر دیتا ہے۔ چونکہ ترجمہ اصل کتاب کا قائم مقام نہیں ہو سکتا اِس لیے آخر کار وہ جماعت کہیں سے کہیں نکل جاتی ہے۔ آپ کے اِس ارادہ کو پورا کرنے کی طرف آپ کی جماعت کی توجہ لگی ہوئی ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ ایک دن کامیابی ہو جائے گی۔
منارۃ المسیح کی بنیاد
اِس سال حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بعض پیشگوئیوں کی بنا پر کہ مسیح دمشق کے مشرق کی جانب ایک سفید منارہ پر اُترے گا ایک منارہ کی بنیاد رکھی تا کہ وہ پیشگوئی لفظًا بھی پوری ہو جائے۔ گو اِس پیشگوئی کے حقیقی معنے یہی تھے کہ مسیح موعود کھلے کھلے دلائل اور براہین کے ساتھ آئے گا اور تمام دنیا پر اس کا جلال ظاہر ہوگا اور اس کو بہت بڑی کامیابی ہوگی کیونکہ علمِ تعبیر الرؤیا میں منارے سے مراد وہ دلائل ہیں جن کا انسان انکار نہ کر سکے اور بلندی پر ہونے کے معنے ایسی شان حاصل کرنے کے ہیں جو کسی کی نظر سے پوشیدہ نہ رہے اور مشرق کی طرف آنے سے مراد ایسی ترقی ہوتی ہے جسے کوئی نہ روک سکے۔
مقدمۂ کرم دین (ازالہ حیثیت عُرفی)
1902ء کے آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایک شخص کرم دین نے ازالہ عرفی کا مقدمہ کیا اور جہلم کے مقام پر عدالت میں حاضر ہونے کے لیے آپ کے نام سمن جاری ہوا۔ چنانچہ آپ جنوری 1903ء میں وہاں تشریف لے گئے۔ یہ سفر آپ کی کامیابی کے شروع ہونے کا پہلا نشان تھا کہ گو آپ ایک فوجداری مقدمہ کی جواب دہی کے لیے جا رہے تھے لیکن پھر بھی لوگوں کے ہجوم کا یہ حال تھا کہ اس کا کوئی اندازہ نہیں ہو سکتا۔ جس وقت آپ جہلم کے سٹیشن پر اُترے ہیں اُس وقت وہاں اس قدر انبوہِ کثیر تھا کہ پلیٹ فارم پر کھڑا ہونے کی جگہ نہ رہی تھی بلکہ اسٹیشن کے باہر بھی دو رویہ سڑکوں پر لوگوں کی اتنی بھیڑ تھی کہ گاڑی کا گزرنا مشکل ہو گیا تھا حتیّٰ کہ افسرانِ ضلع کو انتظام کے لیے خاص اہتمام کرنا پڑا اور غلام حیدر صاحب تحصیلدار اِس اسپیشل ڈیوٹی پر لگائے گئے۔ آپ حضرت صاحب کے ساتھ نہایت مشکل سے راستہ کراتے ہوئے گاڑی کو لے گئے کیونکہ شہر تک برابر ہجومِ خلائق کے سبب راستہ نہ ملتا تھا۔ اہلِ شہر کے علاوہ ہزاروں آدمی دیہات سے بھی آپ کی زیارت کے لیے آئے تھے۔ قریباً ایک ہزار آدمی نے اِس جگہ بیعت کی اور جب آپ عدالت میں حاضر ہونے کے لیے گئے تو اِس قدر مخلوق کارروائی مقدمہ سننے کے لیے موجود تھی کہ عدالت کو انتظام کرنا مشکل ہو گیا۔ دور میدان تک لوگ پھیلے ہوئے تھے۔ پہلی ہی پیشی میں آپ بَری کیے گئے اور مع الخیر واپس تشریف لے آئے۔
جماعت کی ترقی اور کرم دین والے مقدمہ کا طول پکڑنا
1903ء سے آپ کی ترقی حیرت انگیز طریق سے شروع ہوگئی اور بعض دفعہ ایک ایک دن میں پانچ پانچ سَو آدمی بیعت کے خطوط لکھتے تھے اور آپ کے پَیرو اپنی تعداد میں ہزاروں لاکھوں تک پہنچ گئے۔ ہر قسم کے لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی اور یہ سلسلہ بڑے زور سے پھیلنا شروع ہو گیا اور پنجاب سے نکل کر دوسرے صوبوں اور پھر دوسرے ملکوں میں بھی پھیلنا شروع ہو گیا۔
اِسی سال جماعت احمدیہ کے لیے ایک دردناک حادثہ پیش آیا کہ کابل میں اِس جماعت کے ایک برگزیدہ ممبر کو صرف مذہبی مخالفت کی وجہ سے سنگسار کیا گیا۔
مقدمات کا سلسلہ جو جہلم میں شروع ہوکر بظاہر ختم ہو گیا تھا پھر بڑے زور سے شروع ہو گیا۔ یعنی کرم دین جس نے پہلے وہاں آپ کے خلاف مقدمہ کیا تھا اُسی نے پھر گورداسپور میں آپ پر ازالہ حیثیت عرفی کی نالش دائر کر دی۔ اِس مقدمہ نے اِتنا طول کھینچا کہ جسے دیکھ کرحیرت ہوتی ہے۔ اِس مقدمہ کی کارروائی کے دوران میں ایک مجسٹریٹ بھی بدل گیا اور اس کی پیشیاں ایسے تھوڑے تھوڑے وقفہ سے رکھی گئیں کہ آخر مجبور ہو کر آپ کو گورداسپور کی ہی رہائش اختیار کرنی پڑی۔
اس مقدمہ کو اس قدر طول دیا گیا تھا کہ صرف تین چار الفاظ پر گفتگو تھی۔ کرم دین نے آپ کے خلاف ایک صریح جھوٹ بولا تھا۔ آپ نے اُس کی نسبت اپنی کتاب میں کذاب کا لفظ لکھا تھا جس کے معنی عربی زبان میں جھوٹا بھی ہیں اور بہت جھوٹا بھی۔ اِسی طرح ایک لفظ لئیم ہے جس کے معنے کمینہ ہیں۔ لیکن کبھی ولد الزنا کے معنوں میں بھی استعمال ہو جاتا ہے اور اُس کا زور اِس بات پر تھا کہ مجھے بہت جھوٹا اور ولدالزنا کہا گیا ہے۔ حالانکہ اگر ثابت ہے تو یہ کہ مَیں نے ایک جھوٹ بولا ہے۔ اِس پر عدالت میں ان الفاظ کی تحقیقات شروع ہوئی اور بعض اِس قسم کے اور باریک سوال پیدا ہوگئے جن پر ایسی لمبی بحث چھڑی کہ دو سال اِن مقدمات میں لگ گئے۔ دورانِ مقدمہ میں ایک مجسٹریٹ کی نسبت مشہور ہوا کہ اس کے ہم مذہبوں نے کہا ہے کہ مرزا صاحب اِس وقت خوب پھنسے ہوئے ہیں، ان کو سزا ضرور دو خواہ ایک دن کی قید کیوں نہ ہو۔ جن دوستوں نے یہ بات سنی سخت گھبرائے ہوئے آپ کے پاس حاضر ہوئے اور نہایت ڈر کر عرض کیا کہ حضور ہم نے ایسا سنا ہے۔ آپ اس وقت لیٹے ہوئے تھے یہ بات سنتے ہی آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور ایک ہاتھ کے سہارے سے ذرا اُٹھ بیٹھے اور اُٹھ کر بڑے زور سے فرمایا کہ کیا وہ خدا تعالیٰ کے شیر پر ہاتھ ڈالنا چاہتا ہے؟ اگر اُس نے ایسا کیا تو وہ دیکھ لے گا کہ اس کا کیا انجام ہوتا ہے۔ نہ معلوم یہ خبر سچی ہے یا جھوٹی لیکن اس مجسٹریٹ کو انہی دنوں وہاں سے بدل دیا گیا اور باوجود کوشش کے فوجداری اختیارات اُس سے لے لیے گئے اور کچھ مدت کے بعد اُس کا عہدہ بھی کم کر دیا گیا۔ اس کے بعد مقدمہ ایک اور مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہوا اُس نے بھی نہ معلوم کیوں اِس کو بہت لمبا کیا اور گو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی عدالت میں تو آپ کو کرسی ملتی تھی لیکن اِس مجسٹریٹ نے باوجود آپ کے سخت بیمار ہونے کے آپ کو کرسی نہ دی اور بعض دفعہ سخت پیاس کی حالت میں پانی پینے تک کی اجازت نہ دی۔ آخر ایک لمبے مقدمہ کے بعد آپ پر دو سَو روپے جرمانہ کیا اس پر سیشن جج صاحب امرتسر مسٹرہیری صاحب کی عدالت میں جو ایک یورپین تھے، اِس فیصلہ کی نگرانی کی گئی اور جب انہوں نے مقدمہ کی مسل دیکھی تو سخت افسوس ظاہر کیا کہ ایسے لغو مقدمہ کو مجسٹریٹ نے اس قدر لمبا کیوں کیا اور کہا کہ اگر یہ مقدمہ میرے پاس آتا تو مَیں ایک دن میں اِسے خارج کر دیتا۔ کرم دین جیسے انسان کو جو لفظ مرزا صاحب نے استعمال کیے اگر اُن سے بڑھ کر بھی کہے جاتے تو بالکل درست تھا۔ جو کچھ ہوا نہایت ناواجب ہوا اور انہوں نے دو گھنٹے کے اندر آپ کو بَری کر دیا اور جرمانہ معاف کر دیا اور اِس طرح دوسری دفعہ ایک یورپین حاکم نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا کہ خدا تعالیٰ حکومت انہی لوگوں کے ہاتھ میں دیتا ہے جن کو وہ اس کے قابل سمجھتا ہے۔
اِس مقدمہ کا فیصلہ جنوری 1905ء میں ہوا اور اس فیصلہ کے ساتھ خدا تعالیٰ نے جو وحی آپ پر کئی سال پیشتر مقدمہ کے انجام کی نسبت کی تھی وہ پوری ہوئی۔
اِس مقدمہ کی کارروائی کو ایک جگہ بیان کرنے کے لیے مَیں آپ کے دو ضروری سفر چھوڑ گیا ہوں جن میں سے آپ کا پہلا سفر تو لاہور کی طرف تھا جو دورانِ مقدمہ میں ماہِ اگست 1904ء میں ہوا۔ اِس دفعہ آپ لاہور میں پندرہ دن رہے۔ اِس سفر میں بھی چاروں طرف سے لوگ آپ کی زیارت کے لیے جوق در جوق آئے اور اسٹیشن پر تِل دھرنے کو جگہ نہ تھی اور اس تمام عرصہ میں ایک شور پڑا رہا۔ آپ کی قیام گاہ کے نیچے صبح سے شام تک برابر ایک مجمع رہتا۔ مخالف آن آن کر گالیاں دیتے اور شور مچاتے حتیّٰ کہ بعض شریروں نے زنانہ مکان میں گھسنے کی بھی کوشش کی جنہیں زبردستی باہر نکالا گیا۔ لاہور کے دوستوں کی درخواست پر آپ کا لیکچر مقرر ہوا جو چھاپا گیا اور ایک وسیع ہال میں وہ لیکچر مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم نے پڑھ کر سنایا آپ بھی پاس ہی بیٹھے ہوئے تھے۔ قریباً سات آٹھ ہزار آدمی تھے۔ اِس لیکچر کے ختم ہونے پر لوگوں نے درخواست کی کہ آپ کچھ زبانی بھی بیان فرمائیں۔ اس پر آپ اُسی وقت کھڑے ہوگئے اور آدھ گھنٹہ تک ایک مختصر سی تقریر فرمائی۔ چونکہ یہ ایک تجربہ شدہ بات تھی کہ آپ جہاں جاتے ہر مذہب و ملت کے لوگ آپ کے خلاف جوش دکھلاتے خصوصاً مسلمان کہلانے والے، اس لیے افسران پولیس نے اس دفعہ بہت اعلیٰ انتظام کیا ہوا تھا۔ دیسی پولیس کے علاوہ یوروپین سپاہی بھی انتظام کے لیے لگائے گئے تھے جو تلواریں ہاتھ میں لیے تھوڑے تھوڑے فاصلہ سے کھڑے ہوئے تھے۔ چونکہ پولیس افسروں کو معلوم ہو گیا تھا کہ بعض جہلاء جلسہ گاہ سے باہر فساد پر آمادہ ہیں اِس لیے انہوں نے آپ کی واپسی کے لیے خاص انتظام کر رکھا تھا اور چند سوار کچھ فاصلہ پر آگے آگے چلے جاتے تھے اور پیچھے آپ کی گاڑی تھی۔ گاڑی کے پیچھے پھر کچھ پولیس کے جوان تھے اور ان کے پیچھے پھر پولیس کے سوار جن کے پیچھے پیادہ پولیس مَین۔ اِس طرح بڑی حفاظت سے آپ کو گھر پہنچایا گیا اور منصوبہ بازوں کو اپنی شرارت میں کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ وہاں سے آپ واپس گورداسپور تشریف لے آئے۔ اواخر اکتوبر 1904ء میں آپ گورداسپور کے مقدمات سے گونہ فراغت پا کے قادیان آگئے۔
27 اکتوبر کو سیالکوٹ تشریف لے گئے کیونکہ وہاں کے دوستوں نے باصرار وہاں تشریف لے جانے کی درخواست کی تھی اور عرض کیا تھا کہ آپ اپنی ابتدائی عمر میں یہاں کئی سال رہے ہیں پس اب بھی جبکہ خدا تعالیٰ نے آپ کو عظیم الشّان کامیابی عطافرمائی ہے ایک دفعہ اِس طرف قدم رنجہ فرما کر اس زمین کو برکت دیں یہ سفر بھی آپ کی کامیابی کابیّن ثبوت تھا کیونکہ ہر ایک اسٹیشن پر آپ کی زیارت کے لیے اِس قدرمخلوق آتی تھی کہ سٹیشن کے حکام کو انتظام کرنا مشکل ہو جاتا تھا اور لاہور کے اسٹیشن پر تو اِس قدرہجوم ہوا کہ پلیٹ فارم ٹکٹ ختم ہوگئے اور اسٹیشن ماسٹر کو بلا ٹکٹ ہی لوگوں کو اندر آنے کی اجازت دینی پڑی۔ جب آپ سیالکوٹ پہنچے تو اسٹیشن سے آپ کی قیام گاہ تک جو میل بھر کے فاصلہ پر تھی، برابر لوگوں کا ہجوم تھا۔ شام کے وقت ٹرین اسٹیشن پر پہنچی تو سواری گاڑیوں میں چڑھتے چڑھاتے دیر لگ گئی اور آپ کی گاڑی ابھی تھوڑی ہی دور چلنے پائی تھی کہ اندھیرا ہوگیا۔ ہجوم خلائق کے سبب اور رات کے پڑ جانے سے اندیشہ ہوا کہ کہیں بعض لوگ گاڑیوں کے نیچے نہ آجائیں چنانچہ پولیس کو اِس بات کا خاص انتظام کرنا پڑا کہ آپ کے آگے آگے راستہ صاف رہے۔ سیالکوٹ کے ایک رئیس اور آنریری مجسٹریٹ پولیس کے ساتھ اِس کام پر تھے۔ اُن کو بڑی مشکل اور سختی سے راستہ کرانا پڑتا تھا اور گاڑی نہایت آہستہ آہستہ چل سکتی تھی۔ گاڑی کی کھڑکیاں کھول دی گئی تھیں۔ بازاروں اور گلیوں میں لوگ علاوہ دو رویہ کھڑے ہونے کے، دوکانوں کے برآمدے بھی بھرے ہوئے تھے اور بعض تو جگہ نہ ملنے کی وجہ سے کھڑکیوں کے چھجوں پر چڑھے بیٹھے تھے۔ تمام چھتوں پر ہندوؤں اور مسلمانوں نے آپ کی شکل دیکھنے کے لیے ہنڈیاں اور لیمپ جلا رکھے تھے اور چھتیں عورتوں اور مردوں سے بھری پڑی تھیں جوآپ کی گاڑی کے قریب آنے پر مشعلیں آگے کر کر کے آپ کی شکل دیکھتے تھے اور بعض لوگ آپ پر پُھول پھینکتے تھے۔
لیکچر سیالکوٹ
سیالکوٹ آپ نے پانچ روز قیام فرمایا اور علاوہ تبلیغ کے جو آپ گھر پر ملنے والوں کو کرتے رہے آپ کا ایک پبلک لیکچر بھی وہاں ہوا۔ جس وقت لیکچر کا اعلان ہوا اُسی وقت سیالکوٹ کے علماء نے بڑے زور سے اعلان کیا کہ کوئی شخص مرزاصاحب کا لیکچر سُننے نہ جائے اور یہ بھی فتویٰ دے دیا کہ جو شخص آپ کا لیکچرسُننے جائے گا اُس کا نکاح ٹوٹ جائے گا( یہ ایک زبردست ہتھیار اُس وقت سے علماء ہند کے پاس ہے جس کے ذریعہ سے وہ جاہل مسلمانوں پر اپنی حکومت قائم رکھتے ہیں اور جس کے لیے جھوٹی سچی کوئی بھی دلیل اُن کے پاس نہیں ) اور اِس اعلان کو ہی کافی خیال نہ کیا گیا بلکہ جس مکان میں آپ کا لیکچر تھا اُس کے مقابل چند مخالف مولویوں نے اپنے لیکچروں کا اِعلان کر دیا تا کہ لوگ آپ کے لیکچروں میں شامل نہ ہونے پائیں اور باہر کے باہر ہی رُک جائیں۔ علاوہ ازیں کچھ آدمی لیکچر گاہ کے دروازہ پر بھی مقرر کر دیے کہ اندر جانے والوں کو روکیں اور بتائیں کہ آپ کے لیکچر میں جانا گناہ ہے اور بعض تو اِس حد تک بڑھے کہ آنے والوں کو پکڑ پکڑ کر دوسری طرف لے جاتے تھے مگر باوجود اِس کے لوگ بڑی کثرت سے آئے اور جس وقت لوگوں نے سُنا کہ آپ لیکچر گاہ میں تشریف لے آئے ہیں تو مخالف علماء کا لیکچر چھوڑ کر وہاں بھاگ آئے اور اِس قدر شوق سے لوگوں نے حصّہ لیا کہ سرکاری ملازم بھی باوجود تعطیل کا دن نہ ہونے کے لیکچر میں شامل ہوئے۔
یہ لیکچر بھی چھپا ہوا ہے اور مولوی عبدالکریم صاحب نے پڑھ کر سُنایا تھا۔ دوران لیکچر میں بعض لوگوں نے شور مچانا چاہا۔ پولیس افسر نے جو ایک یوروپین صاحب تھے، نہایت ہوشیاری سے اُن کو روکا اور ایک بڑی لطیف بات فرمائی کہ تم مسلمانوں کو اِن کے لیکچر پر گھبرانے کی کیا وجہ ہے، تمہاری تو یہ تائید کرتے ہیں اور تمہارے رسول کی عظمت قائم کرتے ہیں۔ ناراض ہونے کا حق تو ہمارا تھا کہ جن کے خدا (مسیح) کی وفات ثابت کرنے پر یہ اِس قدر زور دیتے ہیں۔ غرض افسرانِ پولیس کی ہوشیاری کے باعث کوئی فتنہ وفساد نہ ہوا۔ اِس لیکچر میں ایک خصوصیّت یہ تھی کہ آپ نے پہلی مرتبہ اپنے آپ کو اہل ہنودپر اتمام حُجت کرنے کے لیے پبلک میں بحیثیت کرشن پیش کیا۔ جب لیکچر ختم ہوکر گھر کو واپس آنے لگے تو پھر بعض لوگوں نے پتھر مارنے کا ارادہ کیا لیکن پولیس نے اِس مفسدہ کو بھی روکا۔ لیکچر کے بعد دوسرے دن آپ واپس تشریف لے آئے اور اِس موقعہ پر بھی پولیس کے انتظام کی وجہ سے کوئی شرارت نہ ہو سکی۔ جب لوگوں نے دیکھا کہ ہمیں دُکھ دینے کا کوئی موقعہ نہیں ملا تو بعض لوگ شہر سے کچھ دور باہر جاکر ریل کی سٹرک کے پاس کھڑے ہوگئے اور چلتی ٹرین پر پتھر پھینکے لیکن اس کا نتیجہ سوائے کچھ شیشے ٹوٹ جانے کے اور کیا ہو سکتا تھا۔
مولوی عبدالکریم صاحب کی وفات اور سفرِ دہلی کے حالات
11 اکتوبر 1905ء کو آپ کے ایک نہایت مخلص مرید مولوی عبدالکریم صاحب جو مختلف موقعوں پر آپ کے لیکچر سُنایا کرتے تھے ایک لمبی بیماری کے بعد فوت ہوئے اور آپ نے قادیان میں ایک عربی مدرسہ کھولنے کا ارشاد فرمایا جس میں دین اسلام سے واقف علماء پیدا کیے جائیں تا کہ فوت ہونے والے علماء کی جگہ خالی نہ رہے۔ مولوی عبدالکریم صاحب کی وفات سے چند روز بعد آپ دہلی تشریف لے گئے اور وہاں قریباً پندرہ دن رہے۔ اُس وقت دہلی گوپندرہ سال پہلے کی دہلی نہ تھی جس نے دیوانہ وار شور مچایا تھا لیکن پھر بھی آپ کے جانے پر خوب شور ہوتا رہا۔ اس پندرہ دن کے عرصہ میں آپ نے دہلی میں کوئی پبلک لیکچر نہ دیا لیکن گھر پر قریباً روزانہ لیکچر ہوتے رہے جن میں جگہ کی تنگی کے سبب دو اڑھائی سَو سے زیادہ آدمی ایک وقت میں شامل نہںی ہو سکتے تھے۔ ایک دو دن لوگوں نے شور بھی کیا اور ایک دن حملہ کر کے گھر پر چڑھ جانے کا بھی ارادہ کیا لیکن پھر بھی پہلے سفر کی نسبت بہت فرق تھا۔
اِس سفر سے واپسی پر لدھیانہ کی جماعت نے دو دن کے لیے آپ کو لدھیانہ میں ٹھہرایا اور آپ کا ایک پبلک لیکچر نہایت خیروخوبی سے ہوا۔ وہاں امرتسر کی جماعت کا ایک وفدپہنچا کہ آپ ایک دو روز امرتسر بھی ضرور قیام فرمائیں جسے حضرتؑ نے منظور فرمایا اور لدھیانہ سے واپسی پر امرتسر میں اُتر گئے۔ وہاں بھی آپ کے ایک عام لیکچر کی تجویز ہوئی۔ امرتسر سلِسلہ احمدیہ کے مخالفین سے پُر ہے اور مولویوں کا وہاں بہت زورہے۔ اُن کے اُکسانے سے عوام الناس بہت شور کرتے رہے۔ جس دن آپ کالیکچر تھا اُس روز مخالفین نے فیصلہ کر لیا کہ جس طرح ہو لیکچر نہ ہونے دیں۔ چنانچہ آپ لیکچر ہال میں تشریف لے گئے تو دیکھا کہ دروازہ پر مولوی بڑے بڑے جُبّے پہنے ہوئے لمبے لمبے ہاتھ مار کر آپ کے خلاف وعظ کر رہے تھے اور بہت سے لوگوں نے اپنے دامنوں میں پتھر بھرے ہوئے تھے۔ آپ لیکچر گاہ میں اندر تشریف لے گئے اور لیکچر شروع کیا۔ لیکن مولوی صاحبان کو اعتراض کا کوئی موقعہ نہ ملا جس پر لوگوں کو بھڑکائیں۔ پندرہ منٹ آپ کی تقریر ہو چکی تھی کہ ایک شخص نے آپ کے آگے چائے کی پیالی پیش کی کیونکہ آپ کے حلق میں تکلیف تھی اور ایسے وقت میں اگر تھوڑے تھوڑے وقفہ سے کوئی سیال چیز استعمال کی جائے تو آرام رہتا ہے۔ آپ نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ رہنے دو لیکن اُس نے آپ کی تکلیف کے خیال سے پیش کر ہی دی۔ اس پر آپ نے بھی اُس میں سے ایک گھونٹ پی لیا۔ لیکن وہ مہینہ روزوں کا تھا۔ مولویوں نے شور مچادیا کہ یہ شخص مسلمان نہیں کیونکہ رمضان شریف میں روزہ نہیں رکھتا۔ آپ نے جواب میں فرمایا کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بیمار یا مسافر روزہ نہ رکھے بلکہ جب شفا ہو یا سفر سے واپس آئے تب روزہ رکھے اور مَیں تو بیمار بھی ہوں اور مسافر بھی۔ لیکن جوش میں بھرے ہوئے لوگ کب رُکتے ہیں۔ شور بڑھتا گیا اور باوجود پولیس کی کوشش کے فرونہ ہو سکا۔ آخر مصلحتاً آپ بیٹھ گئے اور ایک شخص کو نظم پڑھنے کے لیے کھڑا کر دیا گیا۔ اُس کے نظم پڑھنے پر لوگ خاموش ہوگئے۔ تب پھر آپ کھڑے ہوئے تو پھر مولویوں نے شور مچادیا اور جب آپ نے لیکچر جاری رکھا تو فساد پر آمادہ ہوگئے اور سٹیج پر حملہ کرنے کے لیے آگے بڑھے۔ پولیس نے روکنے کی کوشش کی لیکن ہزاروں آدمیوں کی رَو اُن سے روکے نہ رُکتی تھی اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سمندر کی ایک لہر ہے جو آگے ہی بڑھتی چلی آتی ہے۔ جب پولیس سے اُن کا سنبھالنامشکل ہوگیا تب آپ نے لیکچر چھوڑ دیا لیکن پھر بھی لوگوں کا جوش ٹھنڈا نہ ہوا اور انہوں نے سٹیج پر چڑھ کر حملہ اور ہونے کی کوشش جاری رکھی۔ اس پر پولیس انسپکٹر نے آپ سے عرض کی کہ آپ اندر کے کمرہ میں تشریف لے چلیں اور فوراً سپاہی دوڑائے کہ بند گاڑی لے آئیں۔پولیس لوگوں کو اِس کمرہ میں آنے سے روکتی رہی اور دوسرے دروازہ کے سامنے گاڑی لاکر کھڑی کر دی گئی، آپ اُس میں سوارہونے کے لیے تشریف لے چلے۔ آپ گاڑی میں بیٹھنے لگے تو لوگوں کو پتہ لگ گیا کہ آپ گاڑی میں سوار ہو کر چلے ہیں۔ اِس پر جو لوگ لیکچر ہال سے باہر کھڑے تھے وہ حملہ کرنے کے لیے آگے بڑھے اور ایک شخص نے بڑے زور سے ایک بہت موٹا اور مضبوط سونٹا آپ کو مارا۔ ایک مخلص مرید پاس کھڑا تھا وہ جھٹ آپ کو بچانے کے لیے آپ کے اور حملہ کرنے والے کے درمیان میں آگیا۔ چونکہ گاڑی کا دروازہ کُھلا تھا سونٹااُس پر رُک گیا اور اُس شخص کے بہت کم چوٹ آئی ورنہ ممکن تھا کہ اُس شخص کا خون ہو جاتا۔ آپ کے گاڑی میں بیٹھنے پر گاڑی چلی لیکن لوگوں نے پتھروں کا مینہ برسانا شروع کر دیا گاڑی کی کھڑکیاں بند تںیھ۔ اُن پر پتھر گرتے تھے تو وہ کُھل جاتی تھی۔ ہم انہیں پکڑ کر سبنھالتے تھے لیکن پتھروں کی بوچھاڑ کی وجہ سے ہاتھوں سے چُھوٹ چُھوٹ کر وہ گِر جاتی تھیں لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے کسی کے چوٹ نہیں آئی صرف ایک پتھر کھڑکی میں سے گذرتا ہوا میرے چھوٹے بھائی کے ہاتھ پر لگا۔ چونکہ پولیس گاڑی کے چاروں طرف کھڑی تھی بہت سے پتھر اُسے لگے جس پر پولیس نے لوگوں کو وہاں سے ہٹایا اور گاڑی کے آگے پیچھے بلکہ اُس کی چھت پر بھی پولیس مَین بیٹھ گئے اور دوڑاکر گاڑی کو گھر تک پہنچایا۔ لوگوں میں اِس قدر جوش تھا کہ باوجود پولیس کی موجودگی کے وہ دُورتک گاڑی کے پیچھے بھاگے۔ دوسرے دن آپ قادیان واپس تشریف لے آئے۔
وفات کی پیشگوئی اور سلسلہ کا نظام۔ صَدرانجمن کا قیام
دسمبر1905ء میں آپ کو الہام ہوا کہ آپ کی وفات قریب ہے جس پر آپ نے ایک رسالہ “الوصیّۃ” لکھ کر اپنی تمام جماعت میں شائع کر دیا اور اُس میں جماعت کو اپنی وفات کے قُرب کی خبر دی اور اُن کو تسلی دی اور الہام الٰہی کے ماتحت ایک مقبرہ بنائے جانے کا اعلان فرمایا اور اُس میں دفن ہونے والوں کے لیے یہ شرط مقرر کی کہ وہ اپنی تمام جائیداد کا دسواں حصہ اشاعتِ اسلام کے لیے دیں اور تحریر فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے بشارت دی ہے کہ اِس مقبرہ میں صرف وہی دفن ہو سکیں گے جو جنّتی ہوں گے اور ان اموال کی حفاظت کے لیے جو اس مقبرہ میں دفن ہونے کے لیے لوگ بغرض اشاعت اسلام دیں گے ایک انجمن مقرر فرمائی۔ اِس انتظام کے علاوہ یہ بھی پیشگوئی کی کہ جماعت کی حفاظت اور اس کو سنبھالنے کے لیے خداتعالیٰ خود میری وفات کے بعد اسی طرح انتظام کرے گا جس طرح کہ پہلے نبیوں کے بعد کرتا رہا ہے اور ایسے لوگوں کو کھڑا کرتا رہے گا جو جماعت کی نگرانی اسی طرح کریں گے جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے کی تھی۔ سلسلہ کی ضروریاتِ تعلیمی و تبلیغی کے لیے الوصیّۃ کی اشاعت تک مدرسہ اور میگزین کی انتظامی کمیٹیاں تھیں اور مقبرہ کے لیے ایک جدید انجمن تجویز ہوئی مگر خدام کی درخواست پر 1906ء کے دسمبر میں آپ نے اس انجمن کی بجائے جسے وصیتوں کے اموال کی حفاظت کے لیے مقرر کیا گیا تھا ایک ایسی انجمن قائم کر دی جس کے سپرد دینی اور دُنیاوی تعلیم کے مدارس، ریویوآف ریلیجنز، مقبرہ بہشتی وغیرہ سب متفرق کام کر دیئے اور مختلف انجمنوں کی بجائے ایک ہی صدر انجمن قائم کر دی۔
1907ء میں ستمبر کے مہینے میں آپ کا لڑکا مبارک احمد اس پیشگوئی کے مطابق جواس کی پیدائش کے وقت ہی چھاپ کر شائع کر دی گئی تھی، ساڑھے آٹھ سال کی عمر میں فوت ہوگیا۔
اِسی سال صدرانجمن کی مختلف شہروں میں شاخیں قائم کرنے کی تجویز کی گئی۔ دو مرد اور ایک عورت امریکن آپ سے ملنے کے لیے آئے جن سے دیر تک گفتگو ہوئی اور انہیں مسیح کی بعثتِ ثانیہ کی حکمت اور اصلیت سمجھائی۔
اِس سال پنجاب میں کچھ ایجی ٹیشن پیدا ہو گیا اس پر آپ نے اپنی جماعت کو گورنمنٹ کا ہرطرح وفادار رہنے کی تاکید فرمائی اور مختلف جگہ پر آپ کی جماعت نے اِس شورش کے فرو کرنے میں بِلا کسی لالچ کے خدمت کی۔
دسمبر میں آریوں نے لاہور میں ایک مذہبی کانفرنس منعقد کی اور سب مذاہب کے لوگوں کو اس میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ لیکن یہ شرط رکھی کہ کسی مذہب کے پَیروؤں کو دوسرے مذہب پر حملہ کرنے کی اجازت نہ ہوگی اور خود بھی اسی شرط کی پابندی کا اقرار کیا۔ آپ سے بھی اس میں شامل ہونے کی درخواست کی گئی تو آپ نے اُسی وقت کہہ دیا کہ مجھے تو اس تجویز میں دھوکے کی بو آتی ہے لیکن پھر بھی حجت پوری کرنے کے لیے ایک مضمون لکھ کر اُس میں پڑھنے کے لیے بھیج دیا۔ اس مضمون میں آپ نے بڑے زور سے آریوں کو صلح کی دعوت دی اور نہایت نرمی سے صرف اسلام کی خوبیاں ان کے سامنے پیش کیں۔ ہماری جماعت کے قریباً پانچ سَو آدمی ٹکٹ خرید کر اس کانفرنس میں شامل ہوتے رہے اور ہمارے باعث دوسرے مسلمان بھی شامل ہوتے رہے لیکن جب آریوں کی باری آئی تو انہوں نے نہایت گندہ طور پر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیں اور بُرے سے بُرے الفاظ حضورؐ کی نسبت استعمال کیے لیکن ہم آپؐ کی تعلیم کی ماتحت خاموشی سے اُن لیکچروں کو سنتے رہے اور کسی نے اُٹھ کر اِتنا بھی نہیں کہا کہ ہم سے وعدہ خلافی کی گئی ہے۔
21 مارچ 1908ء میں سرولسن صاحب بہادر فنانشل کمشنر صوبہ پنجاب قادیان تشریف لائے۔ چونکہ یہ پہلا موقعہ تھا کہ پنجاب کا ایک ایسا معزز اعلیٰ عہدیدار قادیان آیا۔ آپ نے تمام جماعت کو ان کے استقبال کا حکم دیا اور اپنی سکول گراؤنڈ میں اُن کا خیمہ لگوایا اور ان کی دعوت بھی کی۔ چونکہ آپ کی نسبت آپ کے مخالفین نے مشہور کر رکھا تھا کہ آپ درپردہ گورنمنٹ کے مخالف ہیں کیونکہ افسرانِ بالا سے باوجود اپنے قدیم خاندانی تعلقات کے کبھی نہیں ملتے آپ نے عملی طور پر اس اعتراض کو دور کر دیا اور فنانشل کمشنر صاحب سے ملاقات کے لیے خود تشریف لے گئے۔ اُس وقت آپ کے ساتھ سات آٹھ آدمی آپ کی جماعت کے بھی تھے۔ صاحب ممدوح نے نہایت تکریم کے ساتھ اپنے خیمہ کے دروازے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ریسیو کیا اور آپ سے مختلف امور آپ کے سلسلہ کے متعلق دریافت کرتے رہے لیکن اس تمام گفتگو میں ایک بات خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ اُن دنوں میں مسلم لیگ نئی نئی قائم ہوئی تھی اور حکّامِ انگریزی اس کی کونسی ٹیوشن پر ایسے خوش تھے کہ اُن کے خیال میں کانگریس کے نقائص دور کرنے میں یہ ایک زبردست آلہ ثابت ہوگی اور بعض حکّام رؤساء کو اشارۃً اِس میں شامل ہونے کی تحریک بھی کرتے تھے۔ فنانشل کمشنر صاحب بہادر نے بھی برسبیلِ تذکرہ آپ سے مسلم لیگ کا ذکر کیا اور اس کی نسبت آپ کی رائے دریافت کی۔ آپ نے فرمایا مَیں اسے پسند نہیں کرتا۔ فنانشل کمشنر نے اس کی خوبی کا اقرار کیا۔ آپ نے فرمایا کہ یہ راہ خطرناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ اسے کانگرس پر قیاس نہ کریں اس کا قیام تو ایسے رنگ میں ہوا تھا کہ اس کا اپنے مطالبات مںگ حد سے بڑھ جانا شروع سے نظر آ رہا تھا لیکن مسلم لیگ کی بنیاد ایسے لوگوں کے ہاتھوں اور ایسے قوانین کے ذریعے پڑی ہے کہ یہ کبھی کانگرس کا رنگ اختیار کر ہی نہیں سکتی۔ اس پر آپ کے ایک مرید خواجہ کمال الدین نے جو ووکنگ مشن کے بانی اور رسالہ مسلم انڈیا کے مالک ہیں، سرولسن کی تائید کی اور کہا کہ مَیں بھی اس کا ممبر ہوں اس کے ایسے قواعد بنائے گئے ہیں کہ اس کے گمراہ ہونے کا خطرہ نہیں۔ مگر دونوں کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ مجھے تو اس سے بو آتی ہے کہ ایک دن یہ بھی کانگرس کا رنگ اختیار کر لے گی۔ مَیں اس طرح سیاست میں دخل دینے کو خطرناک سمجھتا ہوں۔ یہ گفتگو تو اس پر ختم ہوئی لیکن ہر ایک سیاسی واقعات کا مطالعہ کرنے والا جانتا ہے کہ آپ کا خیال کس طرح لفظ بلفظ پورا ہوا۔
اِسی سال 26 اپریل کو بوجہ والدہ صاحبہ کی بیماری کے آپ کو لاہور جانا پڑا۔ جس دن قادیان سے چلنا تھا اُس رات کو الہام ہوا:۔
“مباش ایمن از بازیٔ روزگار“
یعنی حوادثِ زمانہ سے بے خوف مت ہو۔ اِس پر آپ نے فرمایا کہ آج یہ الہام ہوا ہے کہ جو کسی خطرناک حادثہ پر دلالت کرتا ہے۔ اتفاق سے اُسی رات میرے چھوٹے بھائی مرزا شریف احمد بیمار ہوگئے لیکن جس طرح سے ہو سکا روانہ ہوئے جب بٹالہ پہنچے، جو قادیان کا اسٹیشن تھا، تو وہاں معلوم ہوا کہ بوجہ سرحدی شورش کے گاڑیاں کافی نہیں اِسی لیے گاڑی ریزرو نہیں ہو سکی وہاں دو تین دن انتظار کرنا پڑا۔ آپ نے اپنے گھر میں فرمایا کہ اِدھر الہام متوحش ہوا ہے اُدھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے روکیں پڑ رہی ہیں۔ بہتر ہے کہ یہیں بٹالہ میں کچھ عرصہ کے لیے ٹھہر جائیں آب و ہَوا تبدیل ہو جائے گی۔ علاج کے لیے کوئی لیڈی ڈاکٹر یہیں بُلا لی جائے گی۔ لیکن انہوں نے اصرار کیا کہ نہیں لاہور ہی چلو۔ آخر دو تین دن کے انتظار کے بعد آپ لاہور تشریف لے گئے۔ آپ کے پہنچتے ہی تمام لاہور میں ایک شور پڑ گیا اور حسب دستور مولوی لوگ آپ کی مخالفت کے لیے اکٹھے ہوگئے۔ جس مکان میں آپ اُترے ہوئے تھے اُس کے پاس ہی ایک میدان میں آپ کے خلاف لیکچروں کا ایک سلسلہ شروع ہوا جو روزانہ بعد نماز عصر سے لے کر رات کے نو دس بجے تک جاری رہتا۔ اِن لیکچروں میں گندی سے گندی گالیاں آپ کو دی جاتیں اور چونکہ آپ کے مکان تک پہنچنے کا یہی راستہ تھا آپ کی جماعت کو سخت تکلیف ہوتی لیکن آپ نے سب کو سمجھا دیا کہ گالیوں سے ہمارا کچھ نہیں بگڑتا تم لوگ خاموش ہو کے پاس سے گزر جایا کرو۔ اُدھر دیکھا بھی نہ کرو۔ چونکہ اس دفعہ لاہور میں کچھ زیادہ رہنے کا ارادہ تھا اس لیے جماعت کے احباب چاروں طرف سے اکٹھے ہوگئے تھے اور ہر وقت ہجوم رہتا تھا اور لوگ بھی آپ سے ملنے کے لیے آتے رہتے تھے۔
لاہور کے رؤساء کو دعوت اور حضور کی تقریر
چونکہ رؤساء ہند بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ساری دنیا کے رؤساء دین سے نسبتاً غافل ہوتے ہیں، اس لیے آپ نے اُن کو کچھ سنانے کے لیے یہ تجویز فرمائی کہ لاہور کے ایک غیر احمدی رئیس کی طرف سے جو آپ کا بہت معتقد تھا رؤساء کو دعوت دی اور دعوتِ طعام میں کچھ تقریر فرمائی۔ تقریر کسی قدر لمبی ہوگئی جب گھنٹہ کے قریب گزر گیا تو ایک شخص نے ذرا گھبراہٹ کا اظہار کیا۔ اس پر بہت سے لوگ بول اُٹھے کہ کھانا تو ہم روز کھاتے ہیں لیکن یہ کھانا (غذائے روح) تو آج ہی میسر ہوا ہے۔ آپ تقریر جاری رکھیں۔ دو اڑھائی گھنٹہ تک آپ کی تقریر ہوتی رہی۔ اس تقریر کی نسبت لوگوں میں مشہور ہو گیا کہ آپ نے اپنا دعویٔ نبوت واپس لے لیا۔ لاہور کے اُردو روزانہ اخبارِ عام نے یہ خبر شائع کر دی۔ اس پر آپ نے اُسی وقت اس کی تردید فرمائی اور لکھا کہ ہمیں دعویٔ نبوت ہے اور ہم نے اسے کبھی واپس نہیں لیا۔ ہمیں صرف اِس بات سے انکار ہے کہ ہم کوئی نئی شریعت لائے ہیں۔ شریعت وہی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے۔
حضور علیہ السلام کا وصال
آپ کو ہمیشہ دستوں کی شکایت رہتی تھی۔ لاہور تشریف لانے پر یہ شکایت زیادہ ہوگئی اور چونکہ ملنے والوں کا ایک تانتا رہتا تھا اس لیے طبیعت کو آرام بھی نہ ملا۔ آپ اسی حالت میں تھے کہ الہام ہوا اَلرَّحِیْلُ ثُمَّ الرَّحِیْلُ یعنی کوچ کرنے کا وقت آگیا پھر کوچ کرنے کا وقت آ گیا۔ اس الہام پر لوگوں کو تشویش ہوئی لیکن فوراً قادیان سے ایک مخلص دوست کی وفات کی خبر پہنچی اور لوگوں نے یہ الہام اُس کے متعلق سمجھا اور تسلی ہوگئی لیکن آپ سے جب پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ نہیں یہ سلسلہ کے ایک بہت بڑے شخص کی نسبت ہے، وہ شخص اس سے مُراد نہیں۔ اس الہام سے والدہ صاحبہ نے گھبرا کر ایک دن فرمایا کہ چلو واپس قادیان چلیں۔ آپ نے جواب دیا کہ اَب واپس جانا ہمارے اختیار میں نہیں۔ اَب اگر خدا ہی لے جائے گا تو جا سکیں گے۔ مگر باوجود اِن الہامات اور بیماری کے آپ اپنے کام میں لگے رہے اور اس بیماری ہی میں ہندوؤں اور مسلمانوں میں صلح و آشتی پیدا کرنے کے لیے آپ نے ایک لیکچر دینے کی تجویز فرمائی اور لیکچر لکھنا شروع کر دیا اور اس کا نام “پیغام صلح” رکھا۔ اس سے آپ کی طبیعت اور بھی کمزور ہو گئی اور دستوں کی بیماری بڑھ گئی۔ جس دن یہ لیکچر ختم ہونا تھا اُس رات الہام ہوا:۔
“مکن تکیہ برعمر ناپائیدار“
یعنی نہ رہنے والی عمر پر بھروسہ نہ کرنا۔ آپ نے اُسی وقت یہ الہام گھر میں سنا دیا اور فرمایا کہ ہمارے متعلق ہے۔ دن کو لیکچر ختم ہوا اور چھپنے کے لیے دے دیا گیا۔ رات کے وقت آپ کو دست آیا اور سخت ضعف ہو گیا۔ والدہ صاحبہ کو جگایا۔ وہ اُٹھیں تو آپ کی حالت بہت کمزور تھی۔ انہوں نے گھبرا کر پوچھا کہ آپ کو کیا ہوا ہے؟ فرمایا وہی جو مَیں کہا کرتا تھا (یعنی بیماری موت) اس کے بعد پھر ایک اور دست آیا۔ اس سے بہت ہی ضعف ہو گیا فرمایا مولوی نور الدین صاحب کو بلواؤ (مولوی صاحب جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے بہت بڑے طبیب تھے) پھر فرمایا کہ محمود (مصنف رسالہ ہذا) اور میر صاحب (آپ کے خسر) کو جگاؤ۔ میری چارپائی آپ کی چارپائی سے تھوڑی ہی دور تھی۔ مجھے جگایا گیا اُٹھ کر دیکھا تو آپ کو کرب بہت تھا۔ ڈاکٹر بھی آ گئے تھے انہوں نے علاج شروع کیا لیکن آرام نہ ہوا۔ آخر انجکشن کے ذریعہ بعض ادویات دی گئیں۔ اس کے بعد آپ سو گئے۔ جب صبح کا وقت ہوا اُٹھے اور اُٹھ کر نماز پڑھی۔ گلا بالکل بیٹھ گیا تھا کچھ فرمانا چاہا لیکن بول نہ سکے۔ اس پر قلم دوات طلب فرمائی لیکن لکھ بھی نہ سکے۔ قلم ہاتھ سے چھٹ گئی۔ اس کے بعد لیٹ گئے اور تھوڑی دیر تک غنودگی سی طاری ہوگئی اور قریباً ساڑھے دس بجے دن کے آپ کی روح پاک اُس شہنشاہِ حقیقی کے حضور حاضر ہوگئی جس کے دین کی خدمت میں آپ نے اپنی ساری عمر صرف کر دی تھی اِنَّا لِلّہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ بیماری کے وقت صرف ایک ہی لفظ آپ کی زبان مبارک پر تھا اور وہ لفظ اللہ تھا۔
آپ کی وفات کی خبر بجلی کی طرح تمام لاہور میں پھیل گئی۔ مختلف مقامات کی جماعتوں کو تاریں دے دی گئیں اور اُسی روز شام یا دوسرے دن صبح کے اخبارات کے ذریعہ کُل ہندوستان کو اس عظیم الشان انسان کی وفات کی خبر مل گئی۔ جہاں وہ شرافت جس کے ساتھ آپ اپنے مخالفوں کے ساتھ برتاؤ کرتے تھے ہمیشہ یاد رہے گی، وہاں وہ خوشی بھی کبھی نہیں بھلائی جا سکتی جس کا اظہار آپ کی وفات پر آپ کے مخالفوں نے کیا۔ لاہور کی پبلک کا ایک گروہ نصف گھنٹہ کے اندر ہی اس مکان کے سامنے اکٹھا ہو گیا جس میں آپ کا جسم مبارک پڑا تھا اور خوشی کے گیت گا گا کر اپنی کورباطنی کا ثبوت دینے لگا۔ بعضوں نے تو عجیب عجیب سوانگ بنا کر اپنی خباثت کا ثبوت دیا۔
آپ کے ساتھ جو محبت آپ کی جماعت کو تھی اس کا حال اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ بہت تھے جو آپ کی نعش مبارک کو صریحاً اپنی آنکھوں کے سامنے پڑا دیکھتے تھے مگر وہ اس بات کے قبول کرنے کے لیے تو تیار تھے کہ اپنے حواس کو تو مختل مان لیں لیکن یہ باور کرنا انہیں دشوار و ناگوار تھا کہ اُن کا حبیب ان سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا ہو گیا ہے۔ پہلےمسیح کے حواریوں اور اس مسیح کے حواریوں کی اپنے مرشد کے ساتھ محبت میں یہ فرق ہے کہ وہ تو مسیح کے صلیب پر سے زندہ اُتر آنے پر حیران تھے اور یہ اپنے مسیح کے وصال پر ششدر تھے۔ اُن کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ مسیح زندہ کیونکر ہے اور اِن کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ مسیح فوت کیونکر ہوا۔ آج سے تیرہ سَو سال پہلے ایک شخص جو خاتم النبیین ہو کر آیا تھا اُس کی وفات پر نہایت سچے دل سے ایک شاعر نے یہ صداقت بھرا ہوا شعر کہا تھا کہ
مَنْ شَاءَ بَعْدَکَ فَلْیَمُتْ فَعَلَیْکَ کُنْتُ اُحَاذِرٗ
ترجمہ: کہ “تو میری آنکھ کی پتلی تھا۔ تیری موت سے میری آنکھ اندھی ہوگئی۔ اب تیرے بعد کوئی شخص پڑا مرا کرےہمیں اُس کی پرواہ نہیں کیونکہ ہم تو تیری ہی موت سے ڈر رہے تھے”۔
آج تیرہ سَو سال کے بعد اُس نبیؐ کے ایک غلام کی وفات پر پھر وہی نظارہ چشمِ فلک نے دیکھا کہ جنہوں نے اُسے پہچان لیا تھا اُن کا یہ حال تھا کہ یہ دنیا اُن کی نظروں میں حقیر ہوگئی اور اُن کی تمام تر خوشی اگلے جہان میں ہی چلی گئی بلکہ اب تک کہ آٹھ سال گزر چکے ہیں اُن کا یہی حال ہے اور خواہ صدی بھی گزر جائے مگر وہ دن اُن کو کبھی نہیں بھول سکتے جب کہ خدا تعالیٰ کا پیارا رسول اُن کے درمیان چلتا پھرتا تھا۔
درد انسان کوبیتاب کر دیتا ہے اور مَیں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کا ذکر کر کے کہیں سے کہیں چلا گیا۔ مَںت نے ابھی بیان کیا ہے کہ ساڑھے دس بجے آپ فوت ہوئے۔ اُسی وقت آپ کے جسم مبارک کو قادیان میں پہنچانے کا انتظام کیا گیا اور شام کی گاڑی میں ایک نہایت بھاری دل کے ساتھ آپ کی جماعت نعش لے کرروانہ ہوئی اور آپ کا الہام پورا ہوا جو قبل از وقت مختلف اخبارات میں شائع ہو چکا تھا کہ “اُن کی لاش کفن میں لپیٹ کر لائے ہیں “۔
بٹالہ پہنچ کر آپ کا جنازہ فوراً قادیان پہنچایا گیا اور قبل اس کے کہ آپ کو دفن کیا جاتا قادیان کی موجودہ جماعت نے (جن میں کئی سَو قائم مقام باہر کی جماعتوں کا بھی شامل تھا ) بالاتفاق آپ کا جانشین اور خلیفہ حضرت مولوی حاجی نورالدین صاحب بھیروی کو تسلیم کر کے اُن کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور اس طرح الوصیۃ کی وہ شائع شدہ پیشگوئی پوری ہوئی کہ جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکرؓ کھڑے کیے گئے تھے، میری جماعت کے لیے بھی خدا تعالیٰ اسی رنگ میں انتظام فرمائے گا۔ اس کے بعد خلیفۂ وقت نے آپ کا جنازہ پڑھا اور دوپہر کے بعد آپ دفن کیے گئے اور اس طرح آپ کا وہ الہام کہ(“ستائیس کو ایک واقعہ ہمارے متعلق”) جو دسمبر 1902ء میں ہوا اور مختلف اخبارات میں شائع ہو چکا تھا پورا ہوا کیونکہ 26 مئی کو آپ فوت ہوئے اور 27 تاریخ کو آپ دفن کیے گئے اور اس الہام کے ساتھ ایک اور الہام بھی تھا جس سے اس الہام کے معنی واضح کر دیے گئے تھے اور وہ الہام یہ تھا “وقت رسید” یعنی تیری وفات کا وقت آ گیا ہے۔
آپ کی وفات پر انگریزی و دیسی ہندوستان کے سب اخبارات نے باوجود مخالفت کے اِس بات کا اقرار کیا کہ اِس زمانہ کے آپ ایک بہت بڑے شخص تھے۔
حضرت بانی سلسلہ احمدیّہؑ کی پاکیزہ زندگی
قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کے ماموروں کی جو سچی تاریخ پیش کی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا…