خلیفہ خدابناتا ہے
کسی قسم کاخلیفہ ہواس کابناناجنابِ الہٰی کاکام ہے۔آدم کوبنایاتواس نے،داودکوبنایاتواس نے۔ہم سب کوبنایاتواس نے۔پھرحضرت بنی کریم ﷺکے جانشینوں کوارشادہوتاہے۔
وَعَدَاَللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْامِنْکُمْ وَعَمِلُوْاالصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِیْ الْاَرْضِ کَمَااسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمْ الَّذِیْ ارْتَضٰی لَھُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّھُمْ مِّنْ بَعْدِخَوْفِھِمْ اَمْناََ۔یَعْبُدُوْنَنِیْ لَایُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْئاََ۔وَمَنْ کَفَرَبَعَدَذٰلِکَ فَاُولٰئِکَ ھُمُ الفَاسِقُوْنَ۔
قرآن کریم سے یہ بات ثابت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی واسطہ سے کام کرواتاہے اورپھراسے اپنی طرف منسوب کرتاہے تواس میں خدائی قوتیں بھی داخل کردی جاتی ہیں تادنیاکویہ بات سمجھ آجائے کہ اگرچہ ظاہرمیں تمہیں کچھ نظرآرہاہے لیکن بباطن اس میں خدائی تصرف اورخدائی قوتیں کام کررہی ہیں۔حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب جنگ بدر کے موقعہ پراپنی مٹھی میں کنکرلئے اوران کنکروں کودشمن کی طرف آپ نے پھینکاتواگرچہ بظاہروہ ایک انسان کی مٹھی تھی اورکنکربھی ایک مٹھی میں جتنے آسکتے تھے اتنے ہی تھے۔مگرجب حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اس مٹھی سے کنکرپھینکے توخداتعالیٰ نے فرمایا:۔
مَارَمَیْتَ اِذْرَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی۔
کہ کنکروں کی یہ مٹھی تونے نہیں پھینکی بلکہ اللہ تعالیٰ نے پھینکی ہے۔نتیجہ بتاتاہے کہ وہ انسان کی مٹھی کے پھینکے ہوئے کنکرنہ تھے اس طرح خلیفہ کاانتخاب گوبظاہرمومنوں کی جماعت کرتی ہے۔لیکن درپردہ اس انتخاب میں خداتعالیٰ کی قدرت کام کررہی ہوتی ہے اوران سے انتخاب کرواکراپنی تقدیرپوری کرواتاہے اوراس کے متعلق یہ قراردیتاہے کہ اس شخص کومقام خلافت پرمیں نے فائزکیاہے اورخلافت کاجامہ اسے میں نے پہنایاہے اس کے ساتھ نصرت خداوندی اورتاثیرات الہٰیہ سے ظاہرہونے والے نتائج یہ ثابت کررہے ہوتے ہیں کہ یہ انسان کاکام نہیں انسان کی مجال نہیں کہ وہ اتنے بڑے بوجھ کواٹھاسکے اوراتنے بڑے کام کوانجام دے سکے۔جب تک خدائی قوتیں اوراعلیٰ طاقتیں اس کے ساتھ نہ ہوں ۔یہی وجہ ہے کہ ہرخلیفہ راشدغیرمعمولی حالات ومشکلات کے باوجودکامیاب وکامران ہوتاہے کیونکہ اب وہ انسانوں کابنایاہواخلیفہ نہیں بلکہ خداتعالیٰ کابنایااہواخلیفہ ہے۔
لیکن جوصرف ظاہرتکیہ کرتے ہیں اوروسوسہ پیداکرنے کی کوشش کرتے ہیں اورحقیقت پرنگاہ نہیں رکھتے ایسے لوگوں کے لئے اوران کے لئے جنہیں پوری معرفت نہیں ۔سائل کے حل کاواحدطریقہ یہ ہے کہ ہم دیکھیں کی ہمارے مسلمات کیاکہتے ہیں ،قرآن کریم کیاکہتاہے،خداتعالیٰ کیافرماتاہے،خداکے رسول کااس بارہ میں کیافیصلہ ہے،آپ کے صحابہ ؓنے اس بارہ میں کیارویہ اختیارکیا،اس زمانہ کے مامورمن اللہ مسیح موعودعلیہ السلام نے کیاارشادفرمایا،حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے اورحضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء کااس بارہ میں کیانظریہ ہے،اگران تمام برگزیدہ ہستیوں اورمسندترین ذرائع کافیصلہ یہ ہے کہ خلیفہ خدابناتاہے تومعاملہ کاتصفیہ ہوجاتاہے۔
خلافت کے متعلق قرآنی فیصلہ
سوسب سے پہلے ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کااس بارہ میں کیافرمان ہے ۔اللہ تعالیٰ سورۃ بقرۃ میں فرماتاہے۔ابتدائے آفرینش کے وقت خداتعالیٰ نے یہ اعلان فرمایاکہ خلیفہ بنانامیراکام ہے اورجب میں کسی کوخلیفہ بناتاہوں توانسان ایک طرف رہے فرشتوں کوبھی حکم ہوتاہے کہ وہ اس کے لئے سجدہ کریں فرمایا:۔
اِنِّیْ جَاعِل فِیْ الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً
اے لوگو!سنواورتوجہ سے سنو!کہ میں خداہی زمین میں خلیفہ بناتاہوں۔
تار یخ عالم اس بات پرگواہ ہے کہ جن کوخدانے خلیفہ بنایا۔ان کی ہی خلافت کواستحکام حاصل ہوااورجوخداکے بنائے ہوئے نہیں تھے ان کوکسی نے پوچھاتک نہیں ۔حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان فرمایا:۔
وَعَدَاَللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْامِنْکُمْ وَعَمِلُوْاالصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِیْ الْاَرْضِ کَمَااسْتَخْلَفَ
الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمْ الَّذِیْ ارْتَضٰی لَھُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّھُمْ مِّنْ بَعْدِخَوْفِھِمْ اَمْناً
یَعْبُدُوْنَنِیْ لَایُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْئاً۔وَمَنْ کَفَرَبَعَدَذٰلِکَ فَاُولٰئِکَ ھُمُ الفَاسِقُوْنَ۔
(سورۃ النور:آیت 56)
’’تم میں سے جولوگ ایمان لائے اورنیک اعمال بجالائے ان سے اللہ تعالیٰ نے پختہ وعدہ کیاہے کہ انہیں ضرورزمین میں خلیفہ بنائے گااوران کے لئے ان کے دین کوجواس نے ان کے لئے پسندکیاضرورتمکنت عطاکرے گااوران کی خوف کی حالت کے بعدضرورانہیں امن کی حالت میںبدل دے گاوہ میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کوشریک نہیں ٹھہرائیں گے جواس کے بعدبھی ناشکری کرے تویہی وہ لوگ ہیں جونافرمان ہیں ‘‘۔
(ترجمہ القرآن ازحضرت خلیفہ المسیح الرابع رضی اللہ عنہ،صفحہ606)
اللہ تعالیٰ کایہ فرمان نہایت وضاحت سے اس بات کی صراحت کررہاہے کہ خلیفہ بناناخداکاکام ہے اورامت مسلمہ میں بھی خلافت کے منصب کووہ خودہی قائم فرمائے گااوراس منصب کاجس کووہ اہل سمجھے گااسے خودہی اس منصب پرفائزفرمائے گایتاریخ اسلام سے ثابت ہے کہ اگرچہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال پرصحابہ ؓ کااجتماع ہوا،مشورہ ہوا،اورحضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کاانتخاب خلافت کے منصب کے لئے ہوا۔مگراللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ بیشک یہ انتخاب مومنوں نے کیا،لیکن ابوبکرصدیق کو خلافت کے جلیل القدرمنصب پرمیں نے ہی فائزکیااورانہیں خلیفہ میں نے ہی بنایا۔ساری امت مسلمہ متفق ہے کہ آیت لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ کے مصداق سب سے اول حضرت ابوبکرصدیق ؓہوئے اورخداتعالیٰ نے ان کی خلافت کے قیام کواپنی طرف نسبت دی فرمایاکہ خداتعالیٰ کایہ وعدہ ہے کہ وہ ضروروہ خودان نیک لوگوں میں سے کسی کو خلیفہ بنائے گااوران کے دین کووہ تمکنت،استحکام اورعظمت بخشے گا،
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے بھی یہی فرمایاکہ:۔تب خداتعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کوکھڑاکرکے دوبارہ اپنی قدرت کانمونہ دکھایااوراسلام کونابودہوتے ہوتے تھام لیااوراس وعدہ کوپوراکیا۔وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمْ الَّذِیْ ارْتَضٰی لَھُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّھُمْ مِّنْ بَعْدِخَوْفِھِمْ اَمْناً۔یعنی خوف کے بعدپھرہم ان کے پیرجمادیں گے۔
پس خلیفہ بنانے کی نسبت خداتعالیٰ نے قرآن مجیدمیں ہرجگہ اپنی طرف ہی کی ہے اورفرمایاکہ ہم خلیفہ بناتے ہیں،خلیفہ بناناانسانوں کاکام نہیں۔
خلافت کے متعلق رسول اللّٰہ صلٰی اللّٰہ علیہ وسلم کافیصلہ
اللہ تعالیٰ کے فرمان کی وضاحت کے بعداب ہم دیکھتے ہیں کہ خداکارسول نبیوں کاسردارحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کااس بارہ میں کیافیصلہ ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا جوحضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ اورعالم دین کی نابغہ تھیںاورجن دین کے علم کوسیکھنے کاارشادحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،ان کی روایت ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ایک دفعہ ذکرفرمایاکہ:۔
لقدھممت اواردت ان ارسل الی ابی بکروانبہ فاعھدان یقول القائلون اوایتمنّی المتمنّون ثم قلت یابی اللّٰہ ویرفع المومنون۔
(بخاری)
میں نے ارادہ کیاتھاکہ ابوبکرکوبلاکران کے حق میں خلافت کی تحریرلکھ دوں تاکہ میری وفات کے بعددوسرے لوگ خلافت کی خواہش لے کرنہ کھڑے نہ ہوجائیں اورکوئی کہنے والایہ نہ کہے کہ میں نے ابوبکرکی نسبت خلافت کازیادہ حقدارہوں مگرپھرمیں نے اس خیال سے اپناارادہ ترک کردیاکہ اللہ تعالیٰ ابوبکرکے سواکسی اورکی خلافت پرراضی نہ ہوگااورنہ ہی مومنوں کی جماعت کسی اورشخص کی خلافت کوقبول نہ کرے گی۔
اس حدیث سے واضح ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرصدیق ؓکے حق میں اس لئے وصیت نہیں لکھوائی کہ ّآپ جانتے تھے کہ خلیفہ خدابناتاہے اوراگرکوئی خداکی مرضی کے خلاف کوئی قدم اٹھائے گاتواسے کامیابی نہ ہوگی۔آخروہی ہواجوخداتعالیٰ کی منشاء تھی۔
ایک اورحدیث میں مروی ہے کہ حضرت حفصہ ؓجوحضرت عمرؓکی صاجزادی تھیں اورحضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ اورنہایت زیرک خاتون تھیں وہ بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:۔
اِنَّ ابابکریَلِی الخلافۃ من بعدی ثم بعدہٗ ابوکِ فَقَالَتْ مَن انباک یارسول اللہ قال نبّانی العلیم الخبیر۔
کہ میرے بعدابوبکرخلیفہ ہوں گے اوران کے بعدتمہارے باپ خلیفہ ہوں گے حضرت حفصہ ؓنے حضورکی خدمت میں عرض کی حضورآپ کوکیسے علم ہے ۔آپ ﷺنے فرمایاکہ علیم وخبیرخدانے مجھے بتایاہے کہ اس طرح ہوگا۔
یہ حدیث شیعہ حضرات کی مشہورکتاب تفسیرقمی میں بیان ہوئی ہے حضورپُر نورکے اس ارشادسے واضح ہے کہ خلیفہ خدابناتاہے اوراس قادروتواناہستی نے حضورکوقبل ازوقت اس بات سے آگاہ فرمایااوربتایاکہ آپ کی وفات کے بعدپہلاخلیفہ ابوبکر ؓ کوبناؤںگا۔اورپھرعمر ؓ کو۔
حضرت عثمان ؓجوحضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جلیل القدربزرگ صحابی تھے ان سے حضور ﷺنے فرمایا:۔
انّ اللّٰہ یقمصک قمیصا فان اردک المنافقون علی خلعہٖ فلاتخلعہ ابدا۔
(مسنداحمدبن حنبل)
اے عثمان یقیناتجھے اللہ تعالیٰ ایک قمیص پہنائے گااگرمنافق اس قمیص کواتارنے کی کوشش کریں توہرگزہرگزنہ اتارنا۔
امت مسلمہ کا اس بت پراتفاق ہے کہ حضور ﷺنے اس حدیث میں حضرت عثمان ؓ کویہ بشارت دی تھی کہ اللہ تعالیٰ تمہیں خلافت کاجامہ پہنائے گا۔اورمنافقین کاطبقہ اس جامہ کوچاک کرنے کی کوشش اورتم سے اتارنے کامطالبہ کرے گا۔لیکن تم نے ہرگزہرگزاس جامہ کونہیں اتارناہوگا۔حضورکایہ ارشادکیساواضح ہے کہ خلافت کی قمیص تمہیں خداتعالیٰ پہنائے گا،یہ اس خلافت کی قمیص کی عظمت واحترام کایہ تقاضاہوگاکہ دشمن خواہ کچھ کریں تم نے اس مطالبہ کوتسلیم نہ کرناہوگا۔یہ بشارت بعدکے واقعات سے ثابت ہے پوری ہوئی ۔خداتعالیٰ نے حضرت عثمان ؓ کومنصب خلافت پرفائزفرمایا۔منافقوں نے ایڑی چوٹی کازورلگایاکہ خلافت کی قمیص اوراس معززجامہ کوآپ سے اتروا لیں۔پھرخداکے اس برگزیدہ بندہ نے جان دینی قبول کی لیکن قمیص خلافت کی جوخدانے پہنائی تھی اسے اتارناگوارانہ کیا۔
ان احادیث سے ثابت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خلافت کے منصب کے متعلق یہی سمجھتے تھے کہ یہ منصب خداتعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھاہے۔اورجسے وہ اس مقام کااہل سمجھتاہے اسے ہی اس مقام پرفائزفرماتاہے۔
خلافت کے متعلق خلفائے راشدین کانظریہ
اب حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے جلیل القدرصحابہ اورآپ کے خلفاءؓ پرنگاہ ڈالتے ہیں کہ ان کااس بارہ میں کیاخیال تھا،یہ حقیقت ہے اورتاریخ نے اسے محفوظ کیاہے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام خلفاء اس ایمان پرقائم تھے کہ خلیفہ خدابناتاہے اوراس عالی منصب پرتقرری خداتعالیٰ کی طرف سے ہی ہوتی ہے۔
چنانچہ حضرت ابوبکرصدیق ؓفرماتے ہیں:۔
وقَدِاسْتَخْلَفَ اللّٰہ عَلَیْکُمْ خَلِیْفَۃََ لیَجْمَعَ بِہٖ اُلفتکم ویقیم بہٖ کَلِمَتکم۔
(دائرۃ المعارف مطبوعہ مصرجلد3،صفحہ 758)
کہ خداتعالیٰ نے تم پرمجھے خلیفہ مقررکردیاہے تاکہ تمہاری باہمی الفت واخوت اورشیرازہ بندی قائم رہے اوراس کے ذریعہ سے تمہاراکلمہ قائم رہے۔
حضرت ابوبکر ؓ کوتوعلم تھاکہ حضورکی وفات کے بعدلوگوں کااجتماع ہوا،مشورہ ہوا،بلکہ اختلاف ہوااورپھرصحابہ نے آپ کی بیعت خلافت کی۔پھربھی حضرت ابوبکرؓ خداکے رسول کاپیاراساتھی،دکھ سکھ میں ساتھ رہنے والا،سب سے اوّل ایمان لانے والاخدائی حکمتوں اورخدائی باتوں کوخداکے رسول کے بعدسب سے زیادہ سمجھنے اورجاننے والایہ اعلان کرتاہے کہ :۔
قَدِاسْتَخْلَفَ اللّٰہ عَلَیْکُمْ
کہ خداتعالیٰ نے تم پرمجھ کوخلیفہ مقررکردیاہے یہ نہیں فرماتے کہ تم نے مجھ پراحسان کیااورخلیفہ بنایابلکہ یہ فرماتے ہیں کہ خداتعالیٰ مجھے تمہاراخلیفہ مقررکردیاہے ۔
حضرت عمررضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:۔
من ارادان یّسال عنّی المال فلیاتنی فانّ اللّٰہ جعلنی خازناوقاسما۔
(تاریخ عمربن الخطاب،صفحہ 87)
جس شخص نے مال کے متعلق کچھ پوچھناہے تووہ میرے پاس آئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے خلیفہ بناکرقوم کے مال کاخازن مقررفرمایاہے اوراس کوتقسیم کرنے کاحق بخشاہے۔
حضرت عمرؓ کے اس قول سے ظاہرہے کہ وہ اس یقین پرقائم تھے کہ خداتعالیٰ نے انہیں خلیفہ مقررفرمایاہے اورکسی انسان نے انہیں خلیفہ نہیں بنایا۔یہ تقرری خداکی طرف سے تھی،یہ درست ہے کہ یہ تقرری حکمت الہٰیہ کے ماتحت بالواسطہ ہوتی ہے تامومنوں پردوہری اتمام حجت ہوبایں وجہ حضرت عمرؓ یہی سمجھتے اوراسی نظریہ پرقائم تھے کہ اس منصب خلافت پراللہ تعالیٰ نے ہی آپ کوفائزفرمایاہے۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کابھی یہی مذہب تھا۔آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:۔
ثُمَّ اسْتَخْلَفَ اللّٰہ اَبَابَکَرفَوَاللّٰہِ مَاعَصَیْتُہٗ وَلَاغَشَشْتُہٗ۔
(بخاری کتاب ھجرۃ الحبشہ)
اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکرؓ کوخلیفہ مقررفرمایااورخداتعالیٰ کی قسم میں نے ان کی پوری پوری اطاعت کی میں نے نہ توکبھی آپ کی نافرمانی کی اورنہ ہی کبھی آپ کودھوکادیا۔
باغیان خلافت نے جب فتنہ پیداکیااورخلافت کے منصب کی توہین کے لئے کمربستہ ہوگئے۔اورحضرت عثمان ؓ سے مطالبہ کیاکہ وہ خلافت سے الگ ہوجائیں توخداکے اس محبوب بندے نے بڑے زوردارپوری قوت سے ان کے مطالبہ کوردّکرتے ہوئے فرمایا:۔
مَاکُنْتُ لِاَخْلَعَ سِرْبَالًاسَرْبَلَنِیْہِ اللّٰہ تعالیٰ عَزَّوَجَلَّ۔
(طبری،جلد5،صفحہ:121)
میں کبھی بھی اس ردائے خلافت کوجوعزتوجلال والے خدانے مجھے پہنائی نہیں اتاروں گااگرحضرت عثمان ؓ کایہ مذہب اورایمان نہ ہوتاکہ خلیفہ خدابناتاہے توکس طرح ممکن تھاکہ ایسے خطرناک حالات میں جبکہ ان کی جان کاخطرہ سامنے تھااس جرأت سے یہ اظہارکرتے کہ مجھے خداتعالیٰ نے خلیفہ بنایاہے اورمیں اس کی قدرکرتاہوں میں اس کی بے حرمتی کامرتکب نہیں ہوسکتااوراس منصب سے ہرگزہرگزالگ نہیں ہوسکتا۔بلکہ تواریخ میں تویہاں تک لکھاہے کہ حضرت عثمان ؓ نے منافقوں کے مطالبہ کے سامنے سرتسلیم خم کرنے سے انکارکرتے ہوئے فرمایا:۔
’’مجھے پھانسی پرلٹک جانازیادہ مرغوب ہے بنسبت اس کے کہ میں اللہ تعالیٰ کے عطاکردہ منصبِ خلافت سے الگ ہوجاؤں ۔‘‘
خلافت کے متعلق حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کافیصلہ
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام،حکم وعدل بیان فرماتے ہیں:۔
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیوں اپنے بعدخلیفہ مقررنہ کیااس میں یہی بھیدتھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوخوب علم تھاکہ اللہ تعالیٰ خودایک خلیفہ مقررفرمائے گااورخداکے انتخاب میں کوئی نقص نہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کواس کام کے واسطے خلیفہ بنایا۔‘‘
(الحکم،16اپریل1908ء)
سیدناحضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:۔
’’خلیفہ جانشین کوکہتے ہیں اوررسول کاجانشین حقیقی معنوں کے لحاظ سے وہی ہوسکتاہے جوظلی طورپررسول کے کمالات اپنے اندررکھتاہواس واسطے رسول کریم ﷺنے نہ چاہاکہ ظالم بادشاہوں پرخلیفہ کالفظ اطلاق ہوکیونکہ خلیفہ درحقیقت رسول کاظل ہوتاہے اورچونکہ کسی انسان کے لئے دائمی طورپربقانہیں ۔لہذاخداتعالیٰ نے ارادہ کیاکہ رسولوں کے وجودکوجوتمام دنیاکے وجودوں سے اشرف واولیٰ ہیں۔ظلی طورپرہمیشہ کے لئے تاقیامت قائم رکھے۔سواسی غرض سے خداتعالیٰ نے خلافت کوتجویزکیا۔تادنیاکبھی اورکسی زمانہ میں برکات خلافت سے محروم نہ رہے‘‘۔
( روحانی خزائن جلد6صفحہ353،شہادۃ القرآن صفحہ57)
سیدناحضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مزید فرماتے ہیں:۔
’’صوفیاء نے لکھاہے کہ جوشخص کسی شیخ یارسول اورنبی کے بعدخلیفہ ہونے والاہوتاہے توسب سے پہلے خداکی طرف سے اس کے دل میں حق ڈالاجاتاہے۔جب کوئی رسول یامشائخ وفات پاتے ہیں تودنیاپرایک زلزلہ آجاتاہے اوروہ بہت خطرناک وقت ہوتاہے مگرخداتعالیٰ کسی خلیفہ کے ذریعہ اس کومٹاتاہے اورپھرگویااس امرکاازسرنواس خلیفہ کے ذریعہ اصلاح واستحکام ہوتاہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیوں اپنے بعدخلیفہ مقررنہ کیااس میں یہ بھیدتھاکہ آپ کوخوب علم تھاکہ خداتعالیٰ خودایک خلیفہ مقررفرمادے گاکیونکہ یہ خداکاہی کام ہے اورخداتعالیٰ کے انتخاب میں نقص نہیں۔‘‘
(ملفوظات جلدنمبر 2صفحہ524-525)
خلافت کے متعلق خلفائے احمدیت کانظریہ
حضرت خلیفہ المسیح الاوّل نوراللہ مرقدہ فرماتے ہیں:۔
نہ تم کوکسی نے خلیفہ بناناہے اورنہ میری زندگی میں کوئی بن سکتاہے۔جب میں مرجاؤں گاتوپھروہی کھڑاہوگاجس کوخداچاہے گا۔خداآپ اس کوکھڑاکردے گا۔‘‘
(بدر،6جولائی1912ء)
پھرایک اورجگہ پرحضرت خلیفہ المسیح الاوّل نوراللہ مرقدہ فرماتے ہیں:۔
’’مجھے اگرخلیفہ بنایاہے توخدانے بنایاہے اوراپنے مصالح سے بنایاہے خداکے بنائے ہوئے خلیفہ کوکوئی طاقت معزول نہیں کرسکتی۔۔۔ خداتعالیٰ نے مجھے معزول کرناہوگاتووہ مجھے موت دے گا،تم اس معاملہ کوخداکے حوالے کروتم معزول کی طاقت نہیں رکھتے ۔۔۔جھوٹاہے وہ شخص جوکہتاہے کہ ہم نے خلیفہ بنایا۔‘‘
(الحکم،21جنوری1916ء)
حضرت خلیفہ المسیح الاوّل نوراللہ مرقدہ فرماتے ہیں:۔
کسی قسم کاخلیفہ ہواس کابناناجنابِ الہٰی کاکام ہے۔آدم کوبنایاتواس نے،داؤدکوبنایاتواس نے۔ہم سب کوبنایاتواس نے۔پھرحضرت بنی کریم ﷺکے جانشینوں کوارشادہوتاہے۔
وَعَدَاَللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْامِنْکُمْ وَعَمِلُوْاالصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِیْ الْاَرْضِ کَمَااسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمْ الَّذِیْ ارْتَضٰی لَھُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّھُمْ مِّنْ بَعْدِخَوْفِھِمْ اَمْناً۔یَعْبُدُوْنَنِیْ لَایُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْئاً۔وَمَنْ کَفَرَبَعَدَذٰلِکَ فَاُولٰئِکَ ھُمُ الفَاسِقُوْنَ۔
جومومنوں میں سے خلیفہ ہوتے ہیں ان کوبھی اللہ ہی بناتاہے ۔ان کوخوف پیش آتاہے۔مگرخداتعالیٰ ان کوتمکنت عطاکرتاہے۔جب کسی قسم کی بدامنی پھیلے تواللہ ان کیلئے اس کی روہیں نکال دیتاہے۔جوان کامنکرہواس کی پہچان یہ ہے کہ اعمال صالحہ میں کمی ہوتی چلی جاتی ہے اوروہ دینی کاموں سے رہ جاتاہے۔
(الفضل 17ستمبر1913ء،صفحہ15:)
ایک اورجگہ حضرت خلیفہ المسیح الاوّل نوراللہ مرقدہ فرماتے ہیں:۔
’’چونکہ خلافت کاانتخاب عقلِ انسانی کاکام نہیں ۔عقل نہیں تجویزکرسکتی کے قویٰ قوی ہیں۔کس میں قوت انتظامیہ کامل طورپررکھی گئی ہے۔اس لئے جناب الہٰی نے خودفیصلہ کردیاہے۔وَعَدَاللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْامِنْکُمْ وَعَمِلُوْاالصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِیْ الاَرْضِ خلیفہ بنانااللہ تعالیٰ ہی کاکام ہے‘‘۔
(حقائق الفرقان جلدسوم صفحہ 255)
پھرآپ رضی اللہ عنہ مزیدبیان فرماتے ہیں :۔
لَیَسْتَخْلِفَنَّھُم:خلیفہ کابناناخداکے اختیارمیں ہے۔اورمیں اس امرمیں خودگواہ ہوں کہ خلافت خداکے فضل سے ملتی ہے۔
(حقائق الفرقان،جلدسوم،صفحات224)
پھرآپ رضی اللہ عنہ مزیدبیان فرماتے ہیں :۔
چونکہ خلافت کاانتخاب عقلِ انسانی کاکام نہیں ۔عقل نہیں تجویزکرسکتی کہ کس کے قویٰ قوی ہیں۔کس میں قوتِ انتظامیہ کامل طورپررکھی گئی ہے۔اس لئے جنابِ الہٰی نے خودفیصلہ کردیاہے۔وَعَدَاَللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْامِنْکُمْ وَعَمِلُوْاالصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِیْ الْاَرْضِ۔خلیفہ بنانااللہ تعالیٰ ہی کاکام ہے۔
اب واقعات صحیحہ سے دیکھ لوکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدحضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے کہ نہیں۔ یہ توصحیح بات ہے کہ وہ خلیفہ ہوئے کہ نہیں۔یہ توصحیح بات ہے کہ وہ خلیفہ ہوئے اورضرورہوئے۔شیعہ بھی مانتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ کوقوی،عزیز،حکیم خداماننے والاکبھی وہم بھی کرسکتاہے۔کہ اللہ تعالیٰ کے ارادہ پربندوں کاانتخاب غالب آگیاتھا۔منشاء الہٰی نہ تھا۔اورحضرت ابوبکررضی اللہ عنہ خلیفہ ہوگئے۔
غرض یہ بالکل سچی بات ہے کہ خلفائے ربّانی کاانتخاب انسانی دانشوں کانتیجہ نہیں ہوتا۔اگرانسانی دانش ہی کاکام ہوتاہے توکوئی بتائے کہ وادی غیرذی زرع میں وہ کیونکرتجویزکرسکتی ہے؟چاہئیے توتھاکہ ایسی جگہ ہوتاجہاں جہازپہنچ سکے۔دوسرے ملکوں اورقوموں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے اسباب ووجوہات کوسمجھ ہی نہیں سکتی تھی۔جواس انتخاب میں تھی۔اوران نتائج کااس کوعلم ہی نہ تھا۔جوپیداہونے والے تھے۔عملی رنگ میں اس کے سوادوسرامنتخب نہیں ہوا۔اورپھرجیساکہ عام انسانوں اوردنیاداروں کاحال ہے اورہرروزغلطیاں کرتے ہیں نقصان اٹھاتے اورآخرخائب وخاسرہوکراوربہت سی حسرتیں اورآرزوئیں لے کرمرجاتے ہیں ۔لیکن جنابِ الہٰی کاانتخاب بھی ایک انسان ہی ہوتاہے اس کوکوئی ناکامی پیش نہیں آتی۔وہ جدھرمنہ اٹھاتاہے ادھرہی اس کے واسطے کامیابی کے دروازے کھولے جاتے ہین اوروہ فضل ،شفاء،نور،اوررحمت کہلاتاہے۔
(الحکم 7فروری1901ء،صفحہ5)
حضرت مصلح موعودنوراللہ مرقدہ فرماتے ہیں:۔
’’خوب یادرکھو کہ خلیفہ خدابناناہے اورجھوٹاہے وہ انسان جوکہتاہے کہ خلیفہ انسانوں کامقررہ کردہ ہوتاہے حضرت خلیفہ المسیح مولوی نورالدین صاحب اپنی خلافت کے زمانہ میں چھ سال متواتراس مسئلہ پرزوردیتے رہے کہ خلیفہ خدامقررکرتاہے نہ انسان۔اوردرحقیقت قرآن شریف کوغورسے مطالعہ کرنے پرمعلوم ہوتاہے کہ ایک جگہ بھی خلافت کی نسبت انسانوں کی طرف نہیں کی گئی بلکہ ہرقسم کے خلفاء کی نسبت اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایاہے کہ انہیں ہم بناتے ہیں‘‘۔
(انوارالعلوم جلد 2صفحہ 11-12،21مارچ1914ء کی تقریر،کون ہے جوخداکے کام روک سکے)
حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ:۔
’’ہمارایہ عقیدہ ہے کہ خلیفہ اللہ تعالیٰ ہی بناتاہے اگربندوں پراس کوچھوڑاجاتاتوجوبھی بندوں کی نگاہ میں افضل ہوتااسے ہی وہ اپناخلیفہ بنالیتے ۔لیکن خلیفہ خوداللہ تعالیٰ بناتاہے اوراسکے انتخاب میں کوئی نقص نہیں وہ اپنے ایک کمزوربنداکوچنتاہے وہ جسے وہ بہت حقیرسمجھتے ہیں پھراللہ تعالیٰ اس کو چن کراس پراپنی عظمت اورجلال کاجلوہ کرتاہے اورجوکچھ اس میں سے وہ کچھ بھی باقی نہیں رہنے دیتا۔اورخداتعالیٰ کی عظمت اورجلال کے سامنے کلی طورپرفنااوربے نفسی کالبادہ وہ پہن لیتاہے اوراس کاوجوددنیاسے غائب ہوجاتاہے تب اللہ تعالیٰ اسے اٹھاکراپنی گود میں بٹھالیتاہے‘‘۔
(الفضل 17مارچ 1967ء)
خلافت کے متعلق بزرگان امت کانظریہ
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمۃ بیان فرماتے ہیں:۔
’’آیت یَسْتَخْلِفَنَّھُم کایہ مطلب ہے کہ خداتعالیٰ خلفاء مقررفرماتاہے۔۔۔یعنی جب اصلاح عالم کے لئے کسی خلیفہ کی ضرورت سمجھتاہے تولوگوں کے دلوں میں الہامََاڈال دیتاہے کہ وہ ایسے شخص کوخلیفہ منتخب کریں جسے خداتعالیٰ خلیفہ بناناچاہتاہے۔‘‘
(ازالۃ الخلفاء عن خلافۃ الخلفاء جلد1،صفحہ6)
حضرت مرزابشیراحمدصاحب ایم اے رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:۔
’’اسلام یہ تعلیم دیتاہے اورقرآن اس حقیقت کوصراحت کے ساتھ بیان کرتاہے کہ خلیفہ خدابناتاہے بظاہرایساشخص جولوگوں کی کژت رائے اوراتفاق رائے سے خلیفہ منتخب ہواس کے تقرریاانتخاب کوخداکی طرف منسوب کیاجائے مگریہی ہے کہ باوجودظاہری انتخاب کے ہرسچے خلیفہ کے انتخاب میں دراصل خداکامخفی ہاتھ کام کرتاہے۔اورصرف وہی شخص خلیفہ بنتاہے اوربن سکتاہے جسے خداتعالیٰ کی ازلی تقدیراس کام کے لئے پسندکرتی ہے اوراس کے سواکسی کی مجال نہیں کہ مسندِ خلافت پرقدم رکھنے کی جرأت کرسکے‘‘۔
(الفرقان،خلافت نمبر11943)
خلافت احمدیہ دائمی خلافت ہے
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یوم خلافت 27 مئی 2005ءکو خطبہ ج…