حضرت بانی سلسلہ احمدیّہؑ کی پاکیزہ زندگی
قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کے ماموروں کی جو سچی تاریخ پیش کی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے ماموروں کی صداقت کی ایک بہت بڑی دلیل دعویٰ سے پہلے ان کی پاک زندگی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں شرک اور دوسری بدیوں سے محفوظ رکھتا ہے اور وہ قوم کے اندر ایک نہایت اعلیٰ اخلاق سے بھر پور زندگی گزارتے ہیں اور قوم ان کے پاک کردار کی گواہی دینے پر مجبور ہو جاتی ہے۔
دعویٰ کے بعد دشمن ان پر ہر طرح کے الزام لگاتا اور گند اچھالتا ہے مگر دعویٰ سے پہلے کی زندگی پر کسی طرح بھی انگلی نہیں اٹھا سکتا ۔پس دعویٰ کے بعد کے اعتراضات قابل توجہ نہیں کیونکہ وہ دشمنی کی نظر سے کئے جاتے ہیں ۔ وہ پاک کردار لائق توجہ ہے جب وہ ایک عام فرد کی حیثیت سے زندگی گزار رہا ہوتا ہے۔
حضرت بانی سلسلہ احمدیہ مرزا غلام احمد قادیانی نے اس زمانہ میں خدا کے مامور ہونے کا دعویٰ فرمایا کہ میں ہی وہ موعود ہوں جس کا امت محمدیہ چودہ سو سال سے انتظار کر رہی ہے ۔آپ نے اپنی صداقت کے دلائل میں اپنی دعویٰ سے پہلے کی زندگی کو بھی پیش فرمایا آپ نے اپنے مخالفین کو چیلنج کرتے ہوئے فرمایا:۔
چیلنج
’’تم کوئی عیب افتراء یا جھوٹ یا دغا کا میری پہلی زندگی پر نہیں لگا سکتے۔ تا تم یہ خیال کرو کہ جوشخص پہلے سے جھوٹ اور افتراء کا عادی ہے یہ بھی اس نے جھوٹ بولا ہوگا ۔کون تم میں ہے جو میری سوانح زندگی میں کوئی نکتہ چینی کر سکتا ہے۔ پس یہ خدا کا فضل ہے کہ جو اس نے ابتداء سے مجھے تقویٰ پر قائم رکھا اور سوچنے والوں کے لئے یہ ایک دلیل ہے ۔‘‘ (تذکرۃالشہادتین روحانی خزائن جلد۲۰ ص۶۲)
پھر فرمایا:۔
’’میری ایک عمر گزر گئی ہے مگر کون ثابت کر سکتا ہے کہ کبھی میرے منہ سے جھوٹ نکلا ہے۔ پھر جب میں نے محض للہ انسانوں پر جھوٹ بولنا متروک رکھا اور بارہا اپنی جان اور مال کو صدق پر قربان کیا تو پھر میں خدا تعالیٰ پر کیوں جھوٹ بولتا ‘‘ (حیات احمد جلد اوّل ص۱۲۶۔از شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی۱۹۲۸ء)
اس چیلنج پر ایک سو سال ہونے کو آئے ہیں مگر کسی کو اس کا جواب دینے کی ہمت نہیں ہوئی۔دعویٰ کے بعد تو مخالفین ہر طرح کے الزام لگایا ہی کرتے ہیں ۔مگر دعویٰ سے پہلے کی زندگی پر نہ صرف کوئی انگلی نہیں اٹھا سکا بلکہ بیسیوں لوگوں نے آپ کی پاکیزگی کی گواہی دی جنہوں نے آپ کو دیکھا اور جن کا آپ سے واسطہ پڑا۔
مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی
مشہور اہلحدیث عالم مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے دعویٰ کے بعد آپ کی شدید مخالفت کی۔ مگر اس سے پہلے انہوں نے آپ کی کتاب براہین احمدیہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:۔
’’مؤلف براہین احمدیہ مخالف و موافق کے تجربے اور مشاہدے کی رو سے (واللہ حسیبہ) شریعت محمدیہ پر قائم و پرہیز گار اور صداقت شعار ہیں‘‘ (اشاعۃ السنہ جلد۷ ص۹)
مولانا ابوالکلام آزاد صاحب
ہندوستان کے مشہور عالم دین اور مفسر قرآن اور صحافی ابوالکلام آزاد گواہی دیتے ہیں:۔
’’کیریکٹر کے لحاظ سے مرزا صاحب کے دامن پر سیاہی کا چھوٹے سے چھوٹا دھبہ بھی نظر نہیں آتا ۔وہ ایک پاکباز کا جینا جیا اور اس نے ایک متقی کی زندگی بسر کی۔ غرضیکہ مرزا صاحب کی ابتدائی زندگی کے پچاس سالوں نے بلحاظ اخلاق وعادات اور کیا بلحاظ خدمات وحمایت دینِ مسلمانان ہند میں ان کو ممتاز برگزیدہ اور قابل رشک مرتبہ پر پہنچا دیا‘‘ (اخبار وکیل امرتسر ۳۰ مئی ۱۹۰۸ء)
منشی سراج الدین صاحب
مشہور مسلم لیڈر اور صحافی اور شاعر مولانا ظفر علی خان صاحب کے والد بزرگوار منشی سراجدین صاحب ایڈیٹر اخبار زمیندار گواہی دیتے ہیں:۔
’’ہم چشمدید شہادت سے کہہ سکتے ہیں کہ جوانی میں بھی نہایت صالح اور متقی بزرگ تھے۔۔۔۔۔آپ بناوٹ اور افتراء سے بری تھے‘‘ (اخبار زمیندار مئی ۱۹۰۸ء)
جناب ایڈیٹر صاحب پیسہ اخبار نے بانی سلسلہ احمدیہ کا ذکر ان الفاظ میں کیا:۔
’’ایک باخدا مولوی جو قال اللہ اور قال الرسول کی تابعداری کرتا ہے‘‘ (پیسہ اخبار لاہور۲۲ فروری ۱۸۹۲ء)
سید میر حسن صاحب
ہندوستان میں علوم شرقیہ کے بلند پایہ عالم اور علامہ اقبال کے استاد مولوی سید میر حسن صاحب نے آپ کو اسی دور میں ۲۸ سال کی عمر میں دیکھا اور بعد میں یوں گواہی دی ۔
’’آپ عزت پسند اور پارسا اور فضول ولغو سے مجتنب اور محرزتھے‘‘
’’ادنیٰ تامل سے بھی دیکھنے والے پر واضح ہو جاتا تھا کہ حضرت اپنے ہر قول وفعل میں دوسروں سے ممتاز ہیں‘‘ (سیرۃ المہدی جلد اوّل ص ۱۵۴ ۔۲۷۰)
حکیم مظہر حسین صاحب
سیالکوٹ کے حکیم مظہر حسین صاحب جو بعد میں آپ کے شدید مخالف بنے انہوں نے آپ کے متعلق لکھا :۔
’’ثقہ صورت، عالی حوصلہ اور بلند خیالات کا انسان‘‘ (اخبار الحکم ۷ اپریل ۱۹۳۴ء)
قادیان کا ہندو
آپ کے حق میں گواہی دینے والوں میں آپ کے گاؤں قادیان کا وہ ہندو بھی شامل ہے جس نے بچپن سے آخر تک آپ کو دیکھا۔ وہ کہتا ہے :۔
’’میں نے بچپن سے مرزا غلام احمد کو دیکھا میں اور وہ ہم عمر ہیں۔ اور قادیان میرا آنا جانا ہمیشہ رہتا ہے اور اب بھی دیکھتا ہوں جیسی عمدہ عادات اب ہیں ایسی ہی نیک خصلتیں اور عادات پہلے تھیں ۔سچا امانتدار اور نیک، میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ پرمیشور مرزا صاحب کی شکل اختیار کر کے زمین پر اتر آیا ہے‘‘ (تذکرۃ المہدی جلد۲ ص ۳۴)
’’بنگالی‘‘ اخبار کلکتہ
کلکتہ سے شائع ہونے والے ایک اخبار’’بنگالی‘‘نے لکھا:۔
’’مرزا صاحب مذہب اسلام کے مجدد تھے‘‘ (بحوالہ تشحیذ الاذہان جلد۳ نمبر۱۰ ص ۳۸۳ ۔۱۹۰۸ء)
وکیل کی گواہی
جوانی میں آپ کی راستبازی اور سچ گوئی کا شہرہ تھا ۔آپ نے کئی خاندانی مقدمات میں اپنے خاندان کے خلاف گواہی دی اور ان کی ناراضگی مول لی مگر سچ کا دامن نہ چھوڑا ۔دعویٰ سے پہلے ایک عیسائی نے آپ کے خلاف مقدمہ کیا جس میں آپ کے وکیل کے مطابق جھوٹ بولے بغیر نجات نہ تھی۔ مگر آپ نے جھوٹ بولنے سے انکار کر دیا ۔اور خدا نے آپ کو فتح دی ۔اس مقدمہ میں آپ کے وکیل فضل الدین صاحب آپ کی اس فوق العادت راست گفتاری کے گواہ تھے۔وہ کہتے ہیں:۔
’’مرزا صاحب کی عظیم الشان شخصیت اور اخلاقی کمال کا میں قائل ہوں۔۔۔۔۔میں انہیں کامل راستباز یقین کرتا ہوں‘‘ (الحکم ۱۴ نومبر ۱۹۳۴ء ص ۴)
محمد شریف صاحب بنگلوری
نامور صحافی جناب مولانا محمد شریف صاحب بنگلوری ایڈیٹر منشور محمدی نے آپ کے متعلق یہ کلمات استعمال فرمائے:۔
’’افضل العلماء فاضل جلیل جرنیل فخر اہل اسلام ہند مقبول بارگہ صمد جناب مولوی مرزا غلام احمد صاحب‘‘ (منشور محمدی ص۲۱۴ بنگلور ۲۵ رجب ۱۳۰۰ھ)
حضرت صوفی احمد جان صاحب لدھیانوی
مشہور باکمال صوفی حضرت احمد جان صاحب لدھیانوی نے آپ کے خدمت دین کے بے پایاں جذبوں کو دیکھ کر فرمایا: ؎
ہم مریضوں کی ہے تمہی پہ نظر
تم مسیحا بنو خدا کے لئے
(تاثرات قادیان ص۶۷ از ملک فضل حسیں مطبوعہ ۱۹۳۸ء)
حضرت مرزا صاحب کے پاکیزہ کردار اور اعلیٰ اخلاق کے بارہ میں جتنی گواہیاں اوپر درج کی گئی ہیں ان میں کوئی ایک بھی احمدی نہیں ہے۔ بلکہ کئی تو حضرت مرزا صاحب کے سخت مخالف ہیں ۔مگر خدا نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے حق میں ان کی زبان سے یہ کلمات جاری کروائے اور حضور ہی کے الفاط میں سوچنے والوں کے لئے یہ ایک دلیل ہے جس کی طرف سب نظریں اٹھ رہی تھیں خدا نے اس کو مسیحا بنا دیا۔
حضرت بانیٔ سلسلۂ احمدیّہ اورمسلم مشاہیر
حضرت بانی سلسلہ احمدیہ مرزا غلام احمد قادیانی نے ۱۸۸۲ء میں دعویٰ فرمایا کہ میں آنحضرت ﷺ …