پیشگوئیوں کے اصول
پیشگوئیاں دراصل دو قسم کی ہوتی ہیں ۔بعض وعدہ پر مشتمل ہوتی ہیں اور بعض وعید یعنی کسی عذاب کی خبر پر۔یہ ایک ابدی سچّائی ہے کہ خدا تعالیٰ کی بتائی ہوئی ہر بات سچی ہوتی ہے خواہ وہ آئندہ زمانہ کے لئے پیشگوئیوں کی صورت میں ہو یا ماضی کے واقعات کے بارہ میں خبروں کی صورت میں۔اسی طرح یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیشگوئیوں کے بارہ میں بعض معیار مقرر فرمائے ہیں جنہیں ہمیشہ مدّنظر رکھنا ضروری ہے۔جیسے
(1) بعض پیشگوئیاں مشروط ہوتی ہیں اورکسی شرط کے عدمِ تحقق کی وجہ سے پیشگوئی ٹل جاتی ہے ۔
(2) بعض پیشگوئیاں وعید کی ہوتی ہیں جو رجوع اور توبہ کی وجہ سے ٹل جاتی ہیں۔
(3) بعض میں نام کسی شخص یا قوم کا ہوتا ہے مگر اس کا اطلاق کسی اَور پر ہوتا ہے۔ بعض پیشگوئیاں ایسی ہوتی ہیں کہ مکذّبین کی سمجھ سے بہر حال بالا ہوتی ہیں مگر بسا اوقات ملہم بھی ان کے وہ معنے سمجھ لیتا ہے جو خدا تعالیٰ کی منشاء میں نہیں ہوتے۔
(4) اسی طرح بعض پیشگوئیاں مستقبل بعید سے تعلق رکھتی ہیں جن کے پورے ہونے کا قبل از وقت مطالبہ نامعقول اور ناجائز ہوتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ ۔
(۱)وعدہ کی پیشگوئیاں :۔
وہ پیشگوئیاں جوکسی وعدہ پر مشتمل ہوتی ہیں اگر ان کے ساتھ کوئی شرط مذکور نہ ہو تو وہ وعدہ لفظاً لفظاً پورا کر دیا جاتا ہے۔لیکن اگر وہ مشروط ہو اور جس شخص یا قوم سے وہ وعدہ ہو وہ اس شرط کو پورا نہ کرے جس شرط سے وہ مشروط ہے تو وہ پورا نہیں کیا جاتا یا اس میں اس وقت تک تأخیر ڈال دی جاتی ہے جب تک کہ مذکورہ شرط پوری نہیں کر دی جاتی۔قرآنِ کریم میں اس کی مثال حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کے ذکرمیں موجود ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں کنعان کی(مقدّس) سرزمین دینے کا وعدہ دیا اور فرمایا:۔يَا قَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ وَلَا تَرْتَدُّوا عَلَى أَدْبَارِكُمْ فَتَنْقَلِبُوا خَاسِرِينَ: اے مىرى قوم! ارضِ مقدس مىں داخل ہو جاؤ جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ رکھى ہے اور اپنى پىٹھىں دکھاتے ہوئے مُڑ نہ جاؤ ورنہ تم اس حال مىں لَوٹو گے کہ گھاٹا کھانے والے ہوگے ۔ (المائدة 22)
چونکہ یہ وعدہ پُشت نہ پھیرنے سے مشروط تھا ،جبکہ بنی اسرائیل نے یہ کہہ کر پشت پھیردی کہ قَالُوا يَا مُوسٰى إِنَّ فِيهَا قَوْمًا جَبَّارِينَ وَإِنَّا لَنْ نَدْخُلَهَا حَتّٰى يَخْرُجُوا مِنْهَا فَإِنْ يَخْرُجُوا مِنْهَا فَإِنَّا دَاخِلُونَ (23) قَالَ رَجُلَانِ مِنَ الَّذِينَ يَخَافُونَ أَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمَا ادْخُلُوا عَلَيْهِمُ الْبَابَ فَإِذَا دَخَلْتُمُوهُ فَإِنَّكُمْ غَالِبُونَ وَعَلَى اللّٰهِ فَتَوَكَّلُوا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (24) قَالُوا يَا مُوسٰى إِنَّا لَنْ نَدْخُلَهَا أَبَدًا مَا دَامُوا فِيهَا فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ (المائدۃ 25تا23)انہوں نے کہا اے موسى! ىقىناً اس مىں اىک بہت سخت گىر قوم ہے اور ہم ہرگز اس مىں داخل نہىں ہوں گے ىہاں تک کہ وہ اس مىں سے نکل جائىں پس اگر وہ اس مىں سے نکل جائىں تو ہم ضرور داخل ہو جائىں گے ۔ ان لوگوں مىں سے جو ڈر رہے تھے دو اىسے مَردوں نے جن پر اللہ نے انعام کىا تھا کہا، ان پر صدر دروازہ سے چڑھائى کرو پھر جب تم (اىک دفعہ) اس (دروازہ) سے داخل ہو گئے تو تم بالضرور غالب آ جاؤ گے اور اللہ پر ہى توکل کرو اگر تم مومن ہو ۔ انہوں نے کہا اے موسى! ہم تو ہرگز اس (بستى) مىں کبھى داخل نہىں ہوں گے جب تک وہ اس مىں موجود ہىں پس جا توُ اور تىرا ربّ دونوں لڑو ہم تو ىہىں بىٹھے رہىں گے۔
اس پر بطور سزا اللہ نے وہ موعودہ زمین چالیس سال کےلیے ان پر حرام کردی قَالَ فَإِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً يَتِيهُونَ فِي الْأَرْضِ فَلَا تَأْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْفَاسِقِينَ (المائدة -27) اس (ىعنى اللہ) نے کہا پس ىقىناً ىہ (ارضِ مقدس) ان پر چالىس سال تک حرام کر دى گئى ہے وہ زمىن مىں مارے مارے پھرىں گے پس بدکردار قوم پر کوئى افسوس نہ کر۔
گویا تکمیل وعدہ میں بھی بعض افعال کی وجہ سے تخلّف ہوجاتا ہے
(2)وعید کی پیشگوئیاں:۔
عدم عفو سے مشروط ہوتی ہیں۔چنانچہ حضرت امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ اپنی مشہور تفسیر مفاتيح الغيب المعرف بالتفسير الكبير میں لکھتے ہیں کہ جَمِيعُ الْوَعِيدَاتِ مَشْرُوطَةٌ بِعَدَمِ الْعَفْوِ، فَلَا يَلْزَمُ مِنْ تَرْكِهِ دُخُولُ الْكَذِبِ فِي كَلَامِ اللَّهِ تَعَالَى(تفسیر کبیر امام رازی ۔زیر آیت سورة آل عمران: آية 10)یعنی تمام وعیدی پیشگوئیاں عدم عفو کی شرط سے مشروط ہوتی ہیں ۔لہذا اگر وعیدی پیشگوئی لفظی طور پر پوری نہ بھی ہوتو اس سے خدا کے کلام کا جھوٹا ہونا ثابت نہیں ہوتا۔اس عربی فقرہ کا مطلب یہ بھی ہوسکتاہے کہ اگر اس عدم عفو کی شرط کا تذکرہ لفظی طور پر نہ بھی ہوتو پھر بھی خدا کے کلام کا جھوٹا ہونا ثابت نہیں ہوتا۔
اسی طرح مشہور تفسیر بیضاوی جس کا پورا نام أنوار التنزيل وأسرار التأويل ہے میں لکھا ہے کہ:انّ وعید الفساق مشروطٌ بعدم العفو(تفسیر بیضاوی زیر سورة آل عمران: آية 10ان اللہ لا یخلف المیعاد)یعنی فاسقوں کے متعلق عذاب کی پیشگوئی کا پورا ہونااس شرط سے مشروط ہوتا ہے کہ بشرطیکہ خداتعالیٰ معاف نہ کرے۔
وعیدی پیشگوئیوں کے متعلق یہ اصول بنیادی طور پر حدیث نبویؐ سے مأخوذ ہے۔ چنانچہ علامہ شہاب الدین آلوسیؒ اپنی مشہور تفسیر روح المعانی جس کا پورا نام روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني ہے،میں تحریرکرتے ہیں کہ :۔أن الله عز وجل يجوز أن يخلف الوعيد وإن امتنع أن يخلف الوعد، وبهذا وردت السنة،ففي حديث أنس رضي الله تعالى عنه «أن النبيﷺ قال: من وعده الله تعالى على عمله ثوابا فهو منجزه له، ومن أوعده على عمله عقابا فهو بالخيار»ومن أدعية الأئمة الصادقين رضي الله تعالى عنهم: يا من إذا وعد وفا، وإذا توعّد عفا،(تفسیرروح المعانی زیر آیت سورۃ النساء نمبر87تا93) یعنی خدا تعالیٰ کے لیے جائز ہے کہ وہ وعید (یعنی عذاب کی پیشگوئی)میں تخلّف کرے اگرچہ وعدہ کے خلاف کرنا ممتنع ہے۔اور اسی طرح سنت میں بھی وارد ہوا ہے۔چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔اگر خدا تعالیٰ انسان کے عمل پر کسی ثواب (انعام)کا وعدہ کرے تو اسے پورا کرتا ہے اور جس سے اُس کے کسی عمل پر عذاب کی وعید کرے اُسے اختیار ہے(چاہے تو اُسے پورا کرے ، چاہے تو معاف کردے)اور ائمہ صادقین کی دعاؤں میں سے ایک دعا اس طرح بھی ہے کہ يا من إذا وعد وفا، وإذا توعد عفا، اے وہ اللہ کہ جب وعدہ کرے تو پورا کرتا ہے اور جب وعید کرے معاف کرتا ہے۔
اہلِ سنت کے عقائد کی معروف کتاب ’’مسلّم الثبوت‘‘ میں لکھا ہے :’’انّ الایعاد فی کلامہٖ تعالیٰ مقیّدٌ بعدم العفو‘‘(صفحہ ۲۸)ترجمہ:۔ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہر وعید عدمِ عفو کی شرط سے مقیّد ہوتی ہے۔
پہلا اصول عذاب ادنی رجوع سے بھی ٹل سکتا ہے:۔
توبہ ،استغفار بلکہ ادنی رجوع سے بھی عذاب الہی بعض اوقات ٹل جاتا ہے ۔چنانچہ قوم فرعون حضرت موسی علیہ السلام کو استہزا کے طور پر يَا أَيُّهَا السَّاحِرُ کہہ کر عذاب کے ٹلنے کے لیے دعا کا کہتی ۔جبکہ خدا تعالیٰ کے علم میں بھی ہوتا کہ یہ عہد شکنی کریں گے جیسا کہ وہ فرماتا ہے کہ وَقَالُوا يَا أَيُّهَا السَّاحِرُ ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَهِدَ عِنْدَكَ إِنَّنَا لَمُهْتَدُونَ (50) فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُمُ الْعَذَابَ إِذَا هُمْ يَنْكُثُونَ (الزخرف 50-51)اور انہوں نے کہا اے جادوگر! ہمارے لئے اپنے ربّ سے وہ مانگ جس کا اس نے تجھ سے عہدکر رکھا ہے ىقىناً ہم ہداىت پانے والے ہو جائىں گے ۔ پس جب ہم نے ان سے عذاب کو دور کردىا تو معاً وہ بدعہدى کرنے لگے ۔
اور پھر خدا تعالیٰ مشرکین مکہ کی عذاب کی دعا کہ اگر یہ محمد مصطفیﷺ اور قرآن حق پر ہیں تو ہم پرآسمان سے پتھر پڑھیں کہ جواب میں فرماتا ہے کہوَإِذْ قَالُوا اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ هَذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِنَ السَّمَاءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ (33) وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ (الأَنْفال 33-34)اور (ىاد کرو) جب وہ کہہ رہے تھے کہ اے اللہ! اگر ىہى تىرى طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھروں کى بارش برسا ،ىا ہم پر اىک دردناک عذاب لے آ ۔ اور اللہ اىسا نہىں کہ انہىں عذاب دے جب کہ تُو ان مىں موجود ہو اور اللہ اىسا نہىں کہ انہىں عذاب دے جبکہ وہ بخشش طلب کرتے ہوں ۔
دوسرا اصول: پیشگوئیوں میں ملہم اجتہاد میں غلطی کرسکتا ہے۔
٭واقعہ حضرت نوح:بعض اوقات ملہم اپنے الہام کا اپنے اجتہاد سے ایک مفہوم قائم کرتا ہے لیکن بعد میں اس کا یہ اجتہاد درست ثابت نہیں ہوتا۔یعنی اس کے اپنے اجتہادی معنوں میں تو وہ غیب کی خبر پوری نہیں ہوتی البتہ اصل الہامی الفاظ میں وہ بہرحال پوری ہوتی ہے ا ور خودواقعات الہامی الفاظ کی صحیح تشریح و تعبیر ظاہر کر دیتے ہیں۔قرآنِ کریم میں ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام سے فرمایا کہ میں تیرے اہل کو غرق ہونے سے بچالوں گا۔ جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ حَتَّى إِذَا جَاءَ أَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ قُلْنَا احْمِلْ فِيهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ آمَنَ وَمَا آمَنَ مَعَهُ إِلَّا قَلِيلٌ :ىہاں تک کہ جب ہمارا فىصلہ آپہنچا اور بڑے جوش سے چشمے پھوٹ پڑے تو ہم نے (نوح سے) کہا کہ اس (کشتى) مىں ہر اىک (ضرورت کے جانور) مىں سے جوڑا جوڑا سوار کر اور اپنے اہل کو بھى سوائے اس کے جس کے خلاف فىصلہ گزر چکا ہے اور (اسے بھى سوار کر) جو اىمان لاىا ہے اور اس کے ہمراہ اىمان نہىں لائے مگر تھوڑے (هود 41) اورپھر جب حضرت نوح کا بیٹا غرق ہونے لگا تو انہوں نے خدا تعالیٰ کو اُس کا وعدہ ان الفاظ سے یاد دلاکہ وَنَادَى نُوحٌ رَبَّهُ فَقَالَ رَبِّ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي وَإِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ وَأَنْتَ أَحْكَمُ الْحَاكِمِينَ: اور نوح نے اپنے ربّ کو پکارا اور کہااے مىرے ربّ! ىقىناً مىرا بىٹا بھى مىرے اہل مىں سے ہے اور تىرا وعدہ بھی ضرور سچا ہے اور تُو فىصلہ کرنے والوں مىں سے سب سے
بہتر ہے۔ (ھود46) اس درخواست کا جواب اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ سے دیا ہے کہ قَالَ يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ فَلَا تَسْأَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنِّي أَعِظُكَ أَنْ تَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ (هود-47)اس نے کہا اے نوح! ىقىناً وہ تىرے اہل مىں سے نہىں بلاشبہ وہ تو سراپا اىک ناپاک عمل تھا پس مجھ سے وہ نہ مانگ جس کا تجھے کچھ علم نہىں مىں تجھے نصىحت کرتا ہوں مبادا تُو جاہلوں مىں سے ہو جائے۔
ان آیات سے ظاہر ہے کہ حضرت نوح نے اپنے غرق ہونے والے بیٹے کو اھلی میں داخل سمجھاکیونکہ جسمانی لحاظ سے وہ بہرحال آپ کے اھلی میں داخل تھا۔لیکن علم الہٰی میں وہ اہل کے بچائے جانے کے وعدہ میں داخل نہ تھا۔کیونکہ خدا کے نزدیک اھلیسےمراد وہ تھےجو روحانی لحاظ سے بھی اہل ہوں ۔پس ضروری نہیں کہ ملہم الہام کے جو معانی سمجھے وہ ضرور درست ہوں،یا جس امر کو وہ خدائی وعدہ سمجھے وہ ضرور خدائی وعدہ ہو اور اس میں تخلف جائز نہ ہو۔
٭حضرت یونس علیہ السلام نے اپنی قوم پر چالیس دنوں کے اندر اندر عذاب الٰہی نازل ہونے کی پیشگوئی فرمائی تھی(درمنثور زیر آیت یونس 99)مگر قوم نے خدا تعالیٰ کے حضور توبہ واستغفار کیا ،اور وہ لوگ رجوع الی الحق کرنے کی وجہ سے عذاب سے بچائے گئے۔جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَةٌ آمَنَتْ فَنَفَعَهَا إِيمَانُهَا إِلَّا قَوْمَ يُونُسَ لَمَّا آمَنُوا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَى حِينٍ (يونس 99)پس کىوں ىونس کى قوم کے سوا اىسى کوئى بستى والے نہىں ہوئے جو اىمان لائے ہوں اور جن کو اُن کے اىمان نے فائدہ پہنچاىا ہو جب وہ اىمان لائے تو ہم نے ان سے اس دنىوى زندگى مىں ذلّت کا عذاب دور کردىا اور انہىں اىک مدت تک سامانِ معىشت عطا کئے ۔
حضرت یونس کے متعلق ایک اور جگہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَذَا النُّونِ إِذْ ذَهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَنْ لَنْ نَقْدِرَ عَلَيْهِ فَنَادَى فِي الظُّلُمَاتِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ (الأنبياء 88)اور مچھلى والے (کا بھى ذکر کر) جب وہ غصے سے بھرا ہوا چلا اور اُس نے گمان کىا کہ ہم اُ س پر گرفت نہىں کرىں گے پس اندھىروں مىں گھرے ہوئے اُس نے پکارا کہ کوئى معبود نہىں تىرے سوا تُو پاک ہے ىقىناً مىں ہى ظالموں مىں سے تھا۔
حضرت یونس علیہ السلام سے یہ اجتہادی غلطی سرزد ہوئی تھی کہ وہ اس وجہ سے بھاگ نکلے کہ میری عذاب کی پیشگوئی لفظی طور پر پوری نہیں ہوئی حالانکہ یہ پیشگوئی وعیدی پیشگوئیوں کے قاعدہ کے ماتحت قوم کے توبہ اور رجوع سے ٹل گئی تھی۔اور یونس علیہ السلام پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوسکتاتھا۔خدا تعالیٰ نے حضرت یونس کے اس بلاوجہ بھاگ نکلنے یعنی کسی وعیدی پیشگوئی کے متعلق اس قسم کے اظہار کے واقعہ سے آنحضرت ﷺ کو نصیحت فرمائی فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تَكُنْ كَصَاحِبِ الْحُوتِ إِذْ نَادَى وَهُوَ مَكْظُومٌ (القلم 49)سو اپنے ربّ کے فىصلے کے انتظار مىں صبر کر اور مچھلى والے کى طرح نہ ہو جب اس نے (اپنے ربّ کو) پکارا اور وہ غم سے بھرا ہوا تھا۔
٭صلح حدیبیہ کا واقعہ بھی اس بات کی روشن دلیل ہے کہ انبیاء سے اجتہادی خطا کے واقع میں ہونے میں خدا تعالیٰ کی خاص حکمتیں اور مصلحتیں بھی مدنظر ہوتی ہیں،چنانچہ حضور نے رؤیا میں دیکھا کہ مسلمان بے خوب خانہ کعبہ کا طواف کررہے ہیں،لیکن رؤیا میں اگلے سال اس کے پورا ہونے کی شرط سے اطلاع نہیں دی گئی تھی ہاں اللہ تعالیٰ کے مدنظر یہی تھا کہ صلح واقعہ ہوجانے کے بعد الگے سال یہ رؤیا پوری ہوگی ۔اس واقعہ کی تفصیل میں لکھا ہےکہ جب فریقین میں باہم صلح کے لیے شرائط طے پاگئی جن میں بظاہر مسلمانوں پر دباؤ تھا۔اس موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور دریافت کیا کہ فَجَاءَ عُمَرُ فَقَالَ: أَلَسْنَا عَلَى الحَقِّ وَهُمْ عَلَى البَاطِلِ؟ أَلَيْسَ قَتْلاَنَا فِي الجَنَّةِ، وَقَتْلاَهُمْ فِي النَّارِ؟ قَالَ: «بَلَى» قَالَ: فَفِيمَ نُعْطِي الدَّنِيَّةَ فِي دِينِنَا وَنَرْجِعُ، وَلَمَّا يَحْكُمِ اللَّهُ بَيْنَنَا، فَقَالَ: «يَا ابْنَ الخَطَّابِ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ وَلَنْ يُضَيِّعَنِي اللَّهُ أَبَدًا» فَرَجَعَ مُتَغَيِّظًا (صحیح بخاری کتاب التفسیر سورۃ الفتح ) کیا ہم حق پر نہیں اور وہ باطل پر نہیں؟ کیا ہمارے مقتول جنت میں اور ان کے مقتول آگ میں نہیں ہوں گے؟ آپ ﷺنے فرمایا کیوں نہیں ضرور۔ عمرؓ نے کہاپھر ہم اپنے دین کے متعلق یہ ذلت کیوں قبول کریں (یعنی جنگ کے بغیر ہم ایسی شرائط پر صلح کررہے ہیں جس میں مشرکین کی طرف سے ہم پر ناجائز دباؤ ڈالا گیا ہے)اور یونہی واپس ہو جائیں اور ایسے وقت میں واپس ہوجائیں کہ ابھی اللہ نے ہمارے درمیان فیصلہ نہیں کیا۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا۔ خطاب کے بیٹے ! میں اللہ کا رسول ہوں اور اللہ مجھے کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ یہ سن کر عمر بن خطاب غصے سے بھرے لوٹ گئے ،
اسی موقعہ کی مزید تفصیل بخاری کتاب الشروط میں اس طرح بیان ہوئی ہے کہ فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ فَأَتَيْتُ نَبِيَّ اللَّهِ ﷺ فَقُلْتُ: أَلَسْتَ نَبِيَّ اللَّهِ حَقًّا، قَالَ: «بَلَى»، قُلْتُ: أَلَسْنَا عَلَى الحَقِّ، وَعَدُوُّنَا عَلَى البَاطِلِ، قَالَ: «بَلَى»، قُلْتُ: فَلِمَ نُعْطِي الدَّنِيَّةَ فِي دِينِنَا إِذًا؟ قَالَ: «إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ، وَلَسْتُ أَعْصِيهِ، وَهُوَ نَاصِرِي»، قُلْتُ: أَوَلَيْسَ كُنْتَ تُحَدِّثُنَا أَنَّا سَنَأْتِي البَيْتَ فَنَطُوفُ بِهِ؟ قَالَ: «بَلَى، فَأَخْبَرْتُكَ أَنَّا نَأْتِيهِ العَامَ»، قَالَ: قُلْتُ:لاَ، قَالَ: «فَإِنَّكَ آتِيهِ وَمُطَّوِّفٌ بِهِ»قَالَ: فَأَتَيْتُ أَبَا بَكْرٍ فَقُلْتُ: يَا أَبَا بَكْرٍ أَلَيْسَ هَذَا نَبِيَّ اللَّهِ حَقًّا؟ قَالَ: بَلَى، قُلْتُ: أَلَسْنَا عَلَى الحَقِّ وَعَدُوُّنَا عَلَى البَاطِلِ؟ قَالَ: بَلَى، قُلْتُ: فَلِمَ نُعْطِي الدَّنِيَّةَ فِي دِينِنَا إِذًا؟ قَالَ: أَيُّهَا الرَّجُلُ إِنَّهُ لَرَسُولُ اللَّهِﷺ وَلَيْسَ يَعْصِي رَبَّهُ، وَهُوَ نَاصِرُهُ، فَاسْتَمْسِكْ بِغَرْزِهِ، فَوَاللَّهِ إِنَّهُ عَلَى الحَقِّ، قُلْتُ: أَلَيْسَ كَانَ يُحَدِّثُنَا أَنَّا سَنَأْتِي البَيْتَ وَنَطُوفُ بِهِ؟ قَالَ: بَلَى، أَفَأَخْبَرَكَ أَنَّكَ تَأْتِيهِ العَامَ؟ قُلْتُ: لاَ، قَالَ: فَإِنَّكَ آتِيهِ وَمُطَّوِّفٌ بِهِ، قَالَ الزُّهْرِيُّ: قَالَ عُمَرُ -: فَعَمِلْتُ لِذَلِكَ أَعْمَالًا(بخاری الشُّرُوطِ,بَابُ الشُّرُوطِ فِي الجِهَادِ وَالمُصَالَحَةِ مَعَ أَهْلِ الحَرْبِ وَكِتَابَةِ الشُّرُوطِ)حضرت عمربن خطاب ؓکہتے تھے کہ میں نبیﷺکے پاس آیا اور میں نے کہا ۔ کیا آپ سچ مچ اللہ کے نبی نہیں ہیں۔ آپ ؐنے فرمایا، کیوں نہیں۔ میں نے کہا کیا ہم حق پر نہیں اور ہمارا دشمن باطل پر، آپ نے فرمایا، کیوں نہیں۔ عرض کیا ، تو پھر ہم اپنے دین سے متعلق ذلت آمیز شرطیں کیوں مانیں۔ آپ نے فرمایا، میں اللہ کا رسول ہوں اور میں اس کی نافرمانی نہیں کروں گا۔ وہ میری مدد کرے گا۔ میں نے کہا۔ کیا آپ ہم سے نہیں کہتے تھے کہ ہم عنقریب بیت اللہ میں پہنچیں گے اور اس کا طواف کریں گے، آپ نے فرمایا،بے شک اور کہا۔ کیا میں نے تمہیں یہ بتایا تھا کہ ہم بیت اللہ میں اسی سال پہنچیں گے۔ عمرؓ کہتے تھے۔ میں نے کہا نہیں۔ تو آپ نے فرمایا۔ تو پھر تم بیت اللہ ضرور پہنچو گے اور اس کا طواف بھی کرو گے۔ عمرؓ کہتے تھے یہ سن کر میں ابو بکرؓ کے پاس آیا اور میں نے کہا، ابوبکر! کیا حقیقت میں آنحضرت ؐ اللہ کے نبی نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا،کیوں نہیں ۔ میں نے کہا۔ کیا ہم حق پر نہیں ہیں اور ہمارا دشمن باطل پر ، انہوں نے کہا، کیوں نہیں۔ میں نے کہا، ہم اپنے دین سے متعلق ذلت آمیز شرط کیوں قبول کریں۔ اس وقت ابوبکرؓ نے کہا، اومردخدا! بے شک آنحضرتؐ اللہ کے رسول ہیں اور رسول اپنے رب کی نافرمانی نہیں کیا کرتے اور اللہ ضرور ان کی مدد کرے گا۔آپ کے طے فرمودہ معاہدے کو مضبوطی سے تھامے رہو۔ اللہ کی قسم آپ یقینا حق پر ہیں۔ میں نے کہا، کیا آپ ہم سے نہیں کہتے تھے کہ ہم ضرور بیت اللہ میں پہنچیں گے اور اس کا طواف کریں گے۔ ابوبکرؓ نے کہا، بے شک ۔ کیا آنحضرت ؐ نے تم کو یہ بھی بتایا تھا کہ تم اسی سال وہاں پہنچو گے،میں نے کہا، نہیں۔ ابوبکرؓ نے کہا، پھر تم ضرور وہاں پہنچو گے اور اس کا طواف کروگے۔ امام زہری نے کہا۔ حضرت عمرؓ کہتے تھے۔ میں نے اس غلطی کی وجہ سے بطور کفارہ کئی نیک عمل کئے
اسی واقعہ کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے کہ لَقَدْ صَدَقَ اللّٰهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِنْ شَاءَ اللّٰهُ آمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لَا تَخَافُونَ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا فَجَعَلَ مِنْ دُونِ ذَلِكَ فَتْحًا قَرِيبًا (الفتح 28)ىقىناً اللہ نے اپنے رسول کو (اس کى) رؤىا حق کے ساتھ پورى کردکھائى کہ اگر اللہ چاہے گا تو تم ضرور بالضرور مسجدِ حرام مىں امن کى حالت مىں داخل ہوگے، اپنے سروں کو منڈواتے ہوئے اور بال کترواتے ہوئے، اىسى حالت مىں کہ تم خوف نہىں کروگے پس وہ اس کا علم رکھتا تھا جو تم نہىں جانتے تھے پس اس نے اس کے علاوہ قرىب ہى اىک اَور فتح مقدر کردى ہے ۔ آنحضرتﷺ ١٤٠٠ صحابہ کو لے کر مدینہ سے چلے تھے اگر اس خدائی بشارت کو اس طرح سمجھا جاتا کہ یہ عمرہ اس سال نہیں بلکہ آئندہ سال ہو گا تو آنحضور ﷺ کبھی یہ قدم نہ اٹھاتے کہ ١٤٠٠ آدمی لے کر چل پڑتے ۔حضورﷺ کا عمرہ کے لیے چلے جانا محض اپنے اجتہاد کی بنا پر تھا ، اور آپ ؐنےاپنے رؤیا کی یہی تعبیر خیال کی تھی کہ اسی سال عمرہ امن سے ہوجائے گا،جبکہ مقام حدیبیہ پر جا کراس رؤیا کی اصل حقیقت کھلی۔ اور بظاہر یہ کتنا بڑا دھچکہ تھا، حضرت عمرؓ جیسے صحابی کو ہلا کر رکھ دیا۔ چنانچہ زادالمعاد میں علامہ ابن قیم المتوفی 751ه فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ :وَاللَّهِ مَا شَكَكْتُ مُنْذُ أَسْلَمْتُ إِلَّا يَوْمَئِذ: یعنی خدا کی قسم میں جب سے مسلمان ہوا مجھے صرف اس دن شک پیدا ہوا۔
(زاد المعاد في هدي خير العباد، فَصْلٌ فِي قِصّةِ الْحُدَيْبِيَة ،فَصْلٌ في تَقْلِيدُهُ ﷺ الْهَدْيَ بِذِي الْحُلَيْفَةِ وَبَعْثُهُ عَيْنًا لَهُ ابْنَ خُزَاعَةَ إِلَى قُرَيْشٍ)
٭ہجرت مدینہ:اسی طرح ہجرت مدینہ کی رؤیا کو سمجھنے میں بھی اجتہادی خطا ہوئی،جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ عَنِ النَّبِیِّ ﷺ قَالَ رَأَیْتُ فِی الْمَنَامِ أَنِّی أُہَاجِرُ مِنْ مَکَّۃَ إِلَی أَرْضٍ بِہَا نَخْلٌ فَذَہَبَ وَہلِی إِلَی أَنَّہَا الْیَمَامَۃُ أَوْ ہَجَرُ فَإِذَا ہِیَ الْمَدِینَۃُ یَثْرِبُ (مسلم، کتاب الرؤیا، باب رؤیا النبیؐ) حضرت ابوموسیٰ سے مروی ہے کہ نبیﷺنے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں مکہ سے ایک ایسی زمین کی طرف ہجرت کر رہا ہوں جہاں کہ بہت کھجوریں ہیں۔ پس میرا خیال اس طرف گیا کہ وہ یمامہ ہے۔ یا ہجر مگر دراصل وہ تھا مدینہ یعنی یثرب ہے۔
پس انبیاء کے اپنے استدلال میں غلطی ہو سکتی ہے،لیکن یہ صداقتِ نبوت میں حارج نہیں،اور اس پر اعتراض کرنا دیانتداری نہیں۔جبکہ وہ وحی جو خدا کی طرف سے نبی پر اتاری جاتی ہے اس میں کبھی غلطی نہیں ہوتی۔
٭حضور ﷺ سے خزائن کا وعدہ: اسی طرح صحیح بخاری میں یہ حدیث نقل کی گئی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا فَبَيْنَا أَنَا نَائِمٌ أُتِيتُ بِمَفَاتِيحِ خَزَائِنِ الأَرْضِ، فَوُضِعَتْ فِي يَدِي» قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: وَقَدْ ذَهَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنْتُمْ تَنْتَثِلُونَهَا(بخاری كِتَابُ التَّعْبِيرِ،بَابُ رُؤْيَا اللَّيْلِ)کہ میں سور رہا تھا کہ مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں دی گئیں ،یہاں تک کہ وہ میرے ہاتھوں رکھ دی گئیں ،حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ تو تشریف لے گئے ،اور اب اے صحابہ رسول ﷺ ان خزانوں کو تم لا رہے ہو،
٭حضور ﷺ اپنی سب سے پہلی بیوی کی وفات کی پیشگوئی: اسی طرح احادیث میں لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ازواج مطہرات کے استفسار پر کہ ہم میں سے کون سب سے پہلے حضورﷺ سے ملے گی یعنی بیویوںمیں سے پہلے کونسی فوت ہو گی؟کےجواب میں فرمایا کہ جس کے ہاتھ لمبے ہوں گے۔ جبکہ ظاہری طور پر حضرت سودہ ؓکے ہاتھ سب سے لمبے تھے لیکن سب سے پہلے حضورﷺ کی وفات کے بعد حضرت زینب بنت جحشؓ کی وفات ہوئی ،انکی وفات پر ازواج نے یقین کر لیا کہ پیشگوئی پوری ہو گئی یعنی ان کا ہاتھ جود وسخا میں سب سے بڑھ کر تھا، حالانکہ یہ بات اجماعی طور پر تسلیم شدہ تھی کہ سودہ ؓ کے لمبے ہاتھ ہیں۔ وہی پہلے فوت ہو گی کیونکہ آنحضرتﷺ نے ہاتھوں کو ناپتے دیکھ کر بھی منع نہیں فرمایا تھا جس سے اجماعی طور پر سودہؓ کی وفات تمام بیویوں سے پہلے یقین کی گئی؛ لیکن آخرکار ظاہری معنے صحیح نہ نکل،چنانچہ حدیث میں لکھا ہے کہ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا أَنَّ بَعْضَ أَزْوَاجِ النَّبِیِّ ﷺقُلْنَ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیُّنَا أَسْرَعُ بِکَ لُحُوقًا قَالَ أَطْوَلُکُنَّ یَدًا فَأَخَذُوا قَصَبَۃً یَذْرَعُونَہَا فَکَانَتْ سَوْدَۃُ أَطْوَلَہُنَّ یَدًا فَعَلِمْنَا بَعْدُ أَنَّمَا کَانَتْ طُولَ یَدِہَا الصَّدَقَۃُ وَکَانَتْ أَسْرَعَنَا لُحُوقًا بِہِ وَکَانَتْ تُحِبُّ الصَّدَقَۃَ(بخاری،کتاب الزکاۃ، باب فضل صدقۃ الشحیح الصحیح) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض ازاوج نے نبیﷺسے عرض کیا کہ ہم میں سے کون آپؐ سے پہلے ملے گی ۔ آپؐ نے فرمایا: تم میں سے جس کے ہاتھ سب سے زیادہ لمبے ہیں۔ تو انہوں نے ایک سرکنڈا پکڑا اور ہاتھ ناپنے لگے۔ تو کیا دیکھا کہ حضرت سودہؓ ان میں سے سب سے لمبے ہاتھوں والی ہیں۔ بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ لمبے ہاتھوں سے مراد صدقہ تھا اور ہم میں سے آپ سے وہ سب سے پہلے ملنے والی حضرت زینب بنت جحشؓ تھی۔ جو صدقہ کرنا پسند کرتی تھی۔
پیشگوئیوں کے بارے میں اجماع ہو ہی نہیں سکتا۔ کیونکہ مستقبل کے متعلق انسانوں کو صحیح علم نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ علامہ محمود شلتوت مفتی مصر تحریر کرتے ہیں:
اما الحِسِیاتُ المُستقبلةُ من اشراط السّاعة و اُمور الاخرة فقد قالواانّ الاجماعَ علیھا لا یعتبر من حیث ھو اجماع، لان المُجْمعینَ لا یعلمُون الغیبَ …… لان الحسیَ المستقبَلَ لا مَدْخَلَ للاجتھاد فیہ
(الفتاو یٰ صفحہ67 از مفتی مصر علامہ محمود شلتوت)
ترجمہ: یعنی جہاں تک مستقبل کے امور کا تعلق ہے جیسے علامات قیامت اور امور آخرت۔ تو ایسے امور کے متعلق علماء نے کہا ہے کہ اجماع کی کوئی حیثیت نہیں۔ کیونکہ اجماع کرنے والے غیب کا علم نہیں رکھتے۔ اس لیے مستقبل کے امور کے متعلق اجتہاد کو کوئی دخل نہیں۔
اس حد تک تو ہم تسلیم کرتے ہیں کہ آخری زمانے میں ابن مریم نے نازل ہونا ہے اور اس نے آکر اسلام کو غالب کرنا ہے۔ کیونکہ یہ خبر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ میں تواتر کے ساتھ ملتی ہے۔ لیکن یہ کہنا کہ ابن مریم سے مراد مسیح ناصری ہی ہے اور نزول سے مراد آسمان سے ہی نازل ہونا ہے یہ بالکل غلط ہے تمام امت نے اس پر ہرگز اجماع نہیں کیا۔ بزرگان امت کے حوالہ جات گذشتہ صفحات میں گزر چکے ہیں جو مسیح ناصری کو وفات یافتہ تسلیم کرتے ہیں اور ان کی آمد کو بروزی رنگ میں مانتے ہیں۔
سلف اور خلف کے لیے یہ ایک ایمانی امر تھا جو پیشگوئیوں کو انہوں نے اجمالی طور پر مان لیا۔ انہوں نے ہرگز یہ دعویٰ نہیں کیا کہ ہم ان پیشگوئیوں کی تہ تک پہنچ گئے ہیں اور درحقیقت ابن مریم سے مراد مسیح ابن مریم ہی ہے۔ اور اسی طرح ان پیشگوئیوں میں مذکور ہ تمام علامات ظاہری صورت میں ہی پوری ہونی ہیں۔ اگر امت کا اجماع ہوتا تو ان میں سے نہ کوئی وفات مسیح کا قائل ہوتا اور نہ ہی مسیح کی آمد کو بروزی قراردیتا۔ ہاں اتنی بات تو ہم بھی تسلیم کرتے ہیں کہ امت کے بعض علماء کو واقعی غلط فہمی ہوئی ہے کہ انہوں نے آخری زمانے میں ابن مریم کے آنے سے مراد مسیح ابن مریم کوہی لیا ہے۔ لیکن ہمارے موقف کو اس سے کوئی کمزوری نہیں پہنچتی کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ بعض اوقات انبیاء کے ذہن میں بھی پیشگوئی پوری ہونے کا ایک خاص اور معین مفہوم مراد ہوتا ہے لیکن عملاً وہ پیشگوئی کسی اور رنگ میں پوری ہوتی ہے۔چنانچہ احادیث میں ہمیں اس امر کی کئی مثالیں ملتی ہےہیں مثلارسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ابھی مکہ میں ہی تھے کہ آپ نے اپنی ہجرت کے متعلق ان الفاظ میں پیشگوئی کی۔
’’رأیتُ فی المَنا م انی اُھاجِر مِن مکة الی ارضٍ بھا نخْل ، فذھب وھلی الی انھا الْیَمامة او ھجر، فاذا ھِی الْمدینة یَثْرب‘‘
یعنی میں نے رؤیا میں دیکھا کہ میں مکہ مکرمہ سے ایک ایسی سرزمین کی طرف ہجرت کر رہا ہوں جس میں کھجوروں کے باغات ہیں۔ پس میں نے سمجھا کہ یہ جگہ یا یمامہ ہے یا ھجر ہے۔ لیکن عملاً جب ہجرت ہوئی تو وہ سرزمین مدینہ یثرب تھی۔
(صحیح بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوة فی الاسلام۔ صحیح بخاری کتاب التعبیر باب اذا رای بقرة تنحر)
اسی طرح یہ بھی ذکر ملتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میری وفات کے بعد میری بیویوں میں سے پہلے وہ فوت ہو گی جس کے ہاتھ لمبے ہوں گے۔ آپؐ کی بیویوں نے جب یہ سنا تو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہی باہم ہاتھ ماپنے شروع کر دیے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو منع نہ فرمایا بلکہ ان کے اس عمل پر خاموش رہے۔ چنانچہ جب بیویوں نے ہاتھ ماپے تو سب سے لمبے ہاتھ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے نکلے۔اب تمام لوگوں نے یہی سمجھ لیا کہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سب سے پہلے فوت ہوں گی۔ لیکن عملاً یہ ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جس بیوی کی سب سے پہلے وفات ہوئی وہ حضرت زینب بنت جحش تھی۔ تب دوسری بیویوں اور باقی لوگوں کو سمجھ آئی کہ لمبے ہاتھوں سے مراد سخاوت تھی۔ چونکہ حضرت زینب باقی بیویوں کے مقابلے میں زیادہ سخاوت کرنے والی تھیں۔اس لیے ان کی پہلے وفات ہوئی۔ صحیح بخاری میں لکھا ہے:۔
’’عن عائشة رضی اللّٰہ عنھا: انّ بعضَ ازواجِ النّبیّ ﷺ قُلن لِلنّبی صلی اللہ علیہ وسلم: اَیّنا اَسرعُ بک لُحوقًا؟ قال اَطولکُنّ یدا۔ فاخذوا قصبة یَذْرعُونَھا فکانَت سَودة اَطْولھن یَدًا، فَعلِمنا بعد انّما کانتْ طول یدھا الصّدقة، وکانت اسرعْنا لُحُوقا بہ، وکانت تحبّ الصّدقة‘‘
(صحیح بخاری کتاب الزکاة باب فضل صدقة الشحیح الصحیح)
حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ بعض ازواج مطہرات نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ کہ ہم میں سے سب سے پہلے آپ کی وفات کے بعد آپ سے کون ملے گی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے جس کے ہاتھ سب سے لمبے ہیں۔ پس انہوں نے سر کنڈا پکڑا اور ہاتھ ماپنے شروع کیے تو حضرت سودہ کے ہاتھ سب سے لمبے نکلے ۔ لیکن ہمیں بعد میں معلوم ہوا جب حضرت زینب کی وفات ہوئی کہ لمبے ہاتھوں سے مراد صدقہ تھا اور حضرت زینب صدقہ وخیرات کو بہت پسند کرتی تھیں۔
اس حدیث میں:فَاَخَذُوْا قَصَبَةً یَذْرَعُوْنَھَا:کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جن سے ثابت ہو رہا ہے کہ رسول اکرم ﷺ کی موجودگی میں ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن نے ہاتھ ماپے تھے۔ اگر آپ ﷺ وہاں موجود نہ ہوتے اور صرف ازواج مطہرات ہی ہاتھ ماپتیں تو مؤنث جمع کے صیغے:فاخَذْنَ قصبةً یَذْرَعْنَھَا:استعمال ہونے چاہیے تھے۔
فتح الباری شرح صحیح بخاری میں لکھا ہے:۔
’’نِسْوَة النبی ﷺ حَمَلْن طُول الیَدِ علی الحقِیْقةِ فلم ینکر علیھن‘‘
(فتح الباری شرح صحیح بخاری الجزء الثالث صفحہ288 از امام حافظ احمد بن علی بن حجر العسقلانی (852 ھ) دارنشر الکتب الاسلامیة۔ 2۔ شارع شیش محل لاہور پاکستان طبع1401ھ ،1981ء)
یعنی ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن نے ہاتھوں کی لمبائی کی حقیقت کوظاہر پر محمول کیا تھا اور رسول کریم ﷺ نے ان کے اس عمل کو نہ روکا اور نہ انہیں منع کیا۔
اس سے ملتا جلتا مضمون صحیح بخاری کتاب الزکوٰة باب فضل صدقة الشحیح الصحیح حاشیہ احمد علی سہانپوری اور صحیح مسلم کتاب فضائل صحابہ باب من فضائل زینب ام المومنین میں بیان ہوا ہے۔علاوہ ازیں ازواج مطہرات کو اس پیشگوئی کے ظاہرًا پورا ہونے پر اس قدر یقین تھا کہ رسول اکرمﷺکی وفات کے بعد بھی وہ اپنے ہاتھوں کو ماپتی رہتی تھیں کہ کس کے ہاتھ لمبے ہیں۔ چنانچہ فتح الباری حضرت عائشہ کی روایت بیان ہے:
’’فکنّا اذا اجْتَمعنا فِی بَیتٍ اِحدَانا بعدَ وفَاةِ رسولِ اللہﷺ نَمُدُّ ایْدینا فی الجدار نَتَطاول فَلم نَزلْ نفعل ذالک حتّی تُوفّیتْ زینب بنت جحش وکانت اِمْراة قَصیرة ولم تکن اَطوَلَنا فعرَفنا حِینئذٍ ان النبی ﷺ انّما اَراد بطولِ الید الصّدقةَ وکانت زینب امراة صَناعةَ الیَدِ‘‘
(فتح الباری جزء 3صفحہ287)
یعنی رسول اکرم ﷺ کی وفات کے بعد جب کبھی بھی ہم اپنے میں سے کسی کے گھر اکٹھی ہوتیں تو ہم دیوار پر اپنے اپنے ہاتھوں کو پھیلا کر ماپتیں کہ کس کے ہاتھ لمبے ہیں۔ اور یہ کام ہم مسلسل کرتی رہیں یہاں تک کہ حضرت زینب بنت جحش وفات پاگئیں حالانکہ حضرت زینب کے ہاتھ چھوٹے تھے۔ تب ہمیں پتہ چلا کہ لمبے ہاتھوں سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد صدقہ وخیرات اور سخاوت میں لمبے ہاتھ ہونا تھا۔ اور حضرت زینب میں یہ خوبی پائی جاتی تھی۔
پس اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ جب تک پیشگوئیوں کا ظہور نہ ہو اس سے پہلے پیشگوئیوں کے متعلق اجماع کا دعویٰ کرنا بالکل غلط ہے۔
اسی طرح صلح حدیبیہ کے متعلق آنحضرت ﷺ یہی سمجھے کہ ہم اس رؤیا کے مطابق جس میں مجھے صحابہ کو طواف کرتے دکھایا گیا تھا، اسی سال طواف کعبہ کریں گے۔اس پر اتنا یقین تھا کہ آنحضرت ﷺ 1400 صحابہ کو لے کر سینکڑوں کلو میٹر کا انتہائی کٹھن سفر کر کے پہنچے لیکن اس سال طواف نہ ہو سکا۔
(سیرة حلبیہ اردو ترجمہ از محمد اسلم قاسمی جلد 5صفحہ51زیر عنوان غزوہ حدیبیہ دارالاشاعت کراچی۔ تالیف علامہ علی بن برہان الدین حلبی)
بہرحال یہ تمام مثالیں ثابت کر رہی ہیں کہ پیشگوئیوں کی حقیقت سمجھنے میں بعض اوقات نبی کو بھی غلطی لگ سکتی ہے۔
اب ہم نزول عیسیٰ کی پیشگوئی کو ایک اَور زاویے سے دیکھتے ہیں۔ نزول المسیح کی پیشگوئی اشراطِ ساعہ میں سے ایک ہے۔ اور اشراطِ ساعہ کے متعلق لکھا ہے کہ یہ متشابہات میں سے ہیں۔ یعنی علامات قیامت کے متعلق کوئی آدمی یقین اور وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ یہ اس طرح پوری ہوں گی اور فلاں تاریخ کو یہ علامت پوری ہو گی اور فلاں تاریخ کو یہ علامت تکمیل کو پہنچے گی۔ یا پھر اس علامت کی یہ کیفیت ہوگی۔ اس طرح اس کا ظہور ہوگا۔ یہ تمام امورمستقبل سے تعلق رکھتے ہیں۔ جن کے متعلق قطعیت سے نہیں کہا جا سکتا کہ ان کا ظہور کس طرح ہوگا۔ علمائے امت نے نزول مسیح اور خروج دجال اور اشراطِ ساعہ کو متشابہات میں شمار کیا ہے۔ اور متشابہات کے متعلق بزرگان دین کا یہی موقف ہے کہ ان کی حقیقت کو خدا تعالیٰ کے سپرد کرنا چاہیے۔ ہمارا فرض بس یہی ہے کہ ان کے وقوع پذیر ہونے پر ایمان رکھیں۔ اور ان کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے قطعیت کے ساتھ کوئی ایسی رائے قائم نہ کریں جو بعد میں ہمارے لیے ٹھوکر کا موجب بنے۔ ہمارے لیے متشابہات پر ایمان لانا ضروری ہے اور ان کے حقائق کا علم خدا کے سپرد کرنا لازمی ہے۔
علامہ الخازن اپنی تفسیر میں زیر آیت:وَمَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَہ اِلَّا اللّٰہ:متشابہات کے بارہ میں لکھتے ہیں:
قیل یجوزُ ان یکون لِلقرآن تَاویل اسْتاثَر اللّٰہ بعلمہِ ولم یطلعْ علیہ احدًا مِن خلقہ کعلم قیامِ الساعةِ ووقت طلوعِ الشمسِ من مغربِھا وخروجِ الدجّال ونزول عیسیٰ ابن مریمَ وعلم الحروفِ المقطّعة واشباہِ ذالک ممّا اسْتاثرَ اللّٰہُ بعلمہ فالایمانُ بہ واجب وحقائقُ علومِہ مفوضة الی اللّٰہ تعالیٰ۔ وھذا قول اکثر المفسِّرین وھو مذھبُ ابن مسعود وابن عباس فی روایة عنہ وابی ابن کعب وعائشة واکثر التابعین
(تفسیرالخازن تالیف علاء الدین علی بن محمد بن ابراہیم البغدادی زیر آیت وما یعلم تاویلہ آل عمران:7)
کہا گیا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ قرآن کریم کی آیات متشابہات کے ایسے معنے ہوں جو اللہ تعالیٰ کے علم سے ہی مخصوص ہوں اور اس نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو ان معنوں سے مطلع نہ کیا ہو۔ جیسے کہ قیام ساعت کا علم، طلوع شمس من المغرب کا وقت، خروج دجال، نزول عیسیٰ ابن مریم اور حروف مقطعات کا علم اور اس جیسے دیگر امور۔ پس ایسے امور پر ایمان لانا تو ضروری ہے اور ان کے حقائق کا علم خدا کے سپرد کرنا چاہیے۔ یہی قول اکثر مفسرین کا ہے اور یہی مذہب حضرت ابن مسعود اور ایک روایت کے مطابق حضرت ابن عباس کا، حضرت ابی بن کعب، حضرت عائشہ اور اکثر تابعین کاہے۔
علامہ محمد رشید رضا صاحب اپنی تفسیر ’’تفسیر المنار‘‘ میں لکھتے ہیں:
وذھب جمھور عظیم منھم الی انہ لا متشابہ فی القرآن الا اخبار الغیب
(تفسیر المنار زیر آیت آل عمران :8)
یعنی مفسرین علماء میں سے بھاری اکثریت کا یہ خیال ہے کہ قرآن کریم میں سوائے اخبار غیبیہ کے کوئی متشابہ نہیں ہے۔
علامہ جلال الدین سیوطی نےاپنی مشہور کتاب ’’الاتقان فی علوم القرآن ‘‘ میں محکمات اور متشابہات کے متعلق مختلف اقوال لکھے ہیں۔ متشابہات کے متعلق پہلا قول یہ لکھا ہے:
’’جس چیز کا علم اللہ تعالیٰ نے اپنے ہی لیے خاص کیا ہے۔ جیسے قیامت کا قائم ہونا، اور دجال کا خروج اور سورتوں کے اوائل کے حروف مقطعہ، یہ سب متشابہ ہیں‘‘
(الاتقان حصہ دوم اردو ترجمہ مولانا محمد حلیم انصاری صفحہ102زیر عنوان محکم اور متشابہ )
مذکورہ بالا حوالہ جات سے بصراحت ثابت ہو رہا ہے کہ مستقبل کے امور مثلاً نزول عیسیٰ اور قتل دجال اور یاجوج ماجوج وغیرہ متشابہات میں سے ہیں جن کا حقیقی علم صرف خدا تعالیٰ کو ہے۔ ان کی حقیقت کو خدا تعالیٰ پر چھوڑ دینا چاہیے اور ان پیشگوئیوں کا پورا ہونا لوگوں کو بتا دے گا کہ ان کی حقیقت کیاتھی۔ علمائے امت کے اس موقف کے ہوتے ہوئے ان علماء کا یہ کہنا کہ اسرائیلی مسیح کے اس امت میں آنے کے متعلق اجماع ہے ایک بے بنیاد دعویٰ سے بڑھ کر اور کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔
پھر اجماع کی بحث کو اگر ہم گذشتہ امتوں میں تلاش کریں کہ کیا کبھی کسی کے نزول کے متعلق کسی امت کا اجماع ہواتھا اور پھر اس امت کے اجماع کے مطابق کوئی شخص آسمان سے نازل ہوا تھا یا پھر ان کے ظاہری اجماع کے برعکس اس کا کوئی مثیل آیا تھا تو ہمیں اس معاملے میں یہود کی واضح مثال نظر آتی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد سے پہلے یہودنے بھی بائبل کی روشنی میں ایک ظاہری اجماع کیا تھا۔ وہ بھی یہی کہتے تھے کہ بائبل کی روشنی میں حضرت ایلیاء آسمان پر گئے ہیں اور وہ اب تک زندہ بیٹھے ہوئے ہیں جیسا کہ سلاطین 2باب2 آیت نمبر11میں مندرج ہے۔ اور پھرمسیح کی آمد سے قبل ایلیاء کا دوبارہ آسمان سے نازل ہونا بھی صحیفہ ملاکی باب4 آیت نمبر5میں لکھا ہے۔ چنانچہ یہود کا یہی موقف تھا کہ ایلیاء آسمان پر زندہ ہے اور وہ آسمان سے نازل ہوگا۔ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئے تو یہود نے یہی نام نہاد ظاہری اجماع ان کے سامنے رکھ دیا اور کہا کہ اگر تم سچے ہو تو پھر وہ ایلیا ءکہاں ہے جس نے آسمان سے نازل ہونا تھا۔ حضرت عیسیٰ نے حضرت یحیٰ علیہ السلام کے متعلق فرمایا کہ ایلیاء یہی ہے۔ چاہو تو قبول کرو۔ اب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہودیوں کے ظاہری اجماع کے بالکل برعکس بات کہی اور یہودیوں کو ظاہر پرستی کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے دو سچے نبیوں یعنی حضرت یحیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت سے منکر ہونا پڑا۔ ان علماء کے لیے قابل فکر مقام ہے کہ وہ عیسیٰ علیہ السلام جس کو آسمان پر زندہ بٹھائے ہوئے ہیں اور جس کے آسمان سے نازل ہونے کی راہ تک رہے ہیں، اسی عیسیٰ نے خود یہ فیصلہ کردیا کہ جب کسی کی آسمان سے نازل ہونے کے متعلق پیشگوئی بیان ہوئی ہوتو اس سے مراد اس شخص کا مثیل ہوا کرتا ہے جیسے ایلیاء کے مثیل یحیٰ بنے، نہ کہ بعینہٖ وہی شخص مراد ہوتاہے۔ لیکن جس طرح اکثر یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بات کو نہیں مانا تھا اور اس کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے سچے نبی کا انکار کرنا پڑا تھا اسی طرح حضرت عیسیٰ کی بات کو آج کل کے اکثر نام نہاد علماء نے نہیں مانا اور خدا تعالیٰ کے ایک سچے نبی کو قبول کرنے سے محروم رہے ہیں۔ حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ سے پہلے کے علماء معذور ہیں۔ وہ علماء جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پہلے گذرے ہیں اور حیات مسیح کا عقیدہ رکھتے تھے، ان کے متعلق حضرت بانیٔ جماعت احمد یہ فرماتے ہیں:
گذشتہ اکابر قابل مواخذہ نہیں ہوں گے
’’گذشتہ بزرگ جو گذر چکے ہیں اگر انہوں نے مسئلہ وفات مسیح کو نہ سمجھا ہو اور اس میں غلطی کھائی ہو تو اس سبب سے ان پر مؤاخذہ نہیں۔ کیونکہ ان کے سامنے یہ بات کھول کر بیان نہیں کی گئی تھی۔ اور یہ مسائل ان کی راہ میں نہ تھے۔ انہوں نے اپنی طرف سے تقویٰ و طہارت میں حتی الوسع کوشش کی۔ ان لوگوں کی مثال ان یہودی فقہاء کے ساتھ دی جاسکتی ہے جو کہ بنی اسرائیل میں آنحضرتﷺ کے زمانہ سے بہت پہلے گذر چکے تھےاور ان کا پختہ عقیدہ تھا کہ آخری نبی جو آنے والا ہے وہ حضرت اسحٰق ؑکی اولاد میں سے ہوگا اور اسرائیلی ہوگا۔ وہ مرگئے اور بہشت میں گئے۔ لیکن جب آنحضرتﷺ کے ظہور سے یہ مسئلہ روشن ہوگیا کہ آنے والا آخری نبی بنی اسماعیل میں سے ہے اور ایسا ہی ہونا چاہیے تھا تب بنی اسرائیل میں سے جو لوگ ایمان نہ لائے وہ کافر قرار دے گئے اور لعنتی ہوئے اور آج تک ذلیل وخوار اور در بدر زدہ ہوکر پھر رہے ہیں۔ ‘‘
٭دعا وصدقہ:بعض اوقات ملہم ایک وعیدی پیشگوئی کو قضائے مبرم سمجھ لیتا ہے ،لیکن عنداللہ وہ قضائے معلّق ہوتی ہے۔ایسی مبرم سمجھی جانے والی قضاء بعض اوقات صدقہ اور دعا وغیرہ سے ٹل جاتی ہے۔چنانچہ حدیث میں لکھا ہے کہ۔يَا بُنَيَّ أَكْثِرْ مِنَ الدُّعَاءِ، فَإِنَّ الدُّعَاءَ يَرُدُّ الْقَضَاءَ الْمُبْرَمَ (کنزالعمال جلد2الباب الثامن: الدعاء.الفصل الأول: فضله والحث عليه ۔حدیث نمبر 3120)یعنی اے میرے بیٹے کثرت سے دُعا کیا کرو۔کیونکہ دعا تقدیر مبرم(یعنی تقدیر مبرم سمجھی ہوئی )کو بھی ٹال دیتی ہے۔
٭اسلامی تعلیمات کے مطابق کوئی شخص خدا کے دربار سے مایوس نہیں ہوسکتا ۔اسی لیے فرمایا قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللّٰهِ إِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (الزمر 54)تُو کہہ دے کہ اے مىرے بندو! جنہوں نے اپنى جانوں پر زىادتى کى ہے اللہ کى رحمت سے ماىوس نہ ہو ىقىناً اللہ تمام گناہوں کو بخش سکتا ہے ىقىناً وہى بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے ۔
تقدیر مبرم کی اقسام:۔ وہ تقدیرِ مبرم کہ جس کے دعا و صدقہ سے ٹل جانے کا ذکر احادیث نبویّہ کی رو سے قبل ازیں پیش کیا ہے ایسی تقدیرِ مبرم ہوتی ہے جو دراصل خدا تعالیٰ کے ہاں تو مبرم نہیں ہوتی بلکہ معلق ہی ہوتی ہے، لیکن ملہم پر اس کا معلّق ہونا ظاہر نہیں کیا جاتا اور وہ اجتہادًا اس کے قطعی مبرم ہونے کا حکم لگا دیتا ہے اور پھر خبر کے پورا نہ ہونے پر پتہ لگ جاتا ہے کہ دراصل وہ معلق تھی۔چنانچہ حضرت مجدّد الف ثانی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں۔
’’باید دانست کہ اگر پرسند کہ بسبب چیست کہ در بعضے از کشوف کوئی کہ ازاولیاء اللہ صادر مے گردد غلط واقع مے شود وخلاف آں ظہور مے آید۔ مثلاً خبرکردند کہ فلاں بعد از یکماہ خواہد مرد یا از سفر بوطن مراجعت خواہد نمود اتفاقاً بعد از یکماہ ازیں چیز ہیچ کدام بوقوع نیامد۔ در جواب گوئم کہ حصولِ آں مکشوف و مخبر عنہ مشروط بشرائط بودہ است کہ صاحبِ کشف درآں وقت بہ تفصیل اطلاع نیافتہ و حکم کردہ بحصول آں شیء مطلقاً یا آنکہ گویم کلی از احکام لوحِ محفوظ بر عارفے ظاہر نشد کہ آں حکم فی نفسہٖ قابل محو و اثبات است و از قضائے معلق اما ازاں عارف را از تعلیق و قابلیت محو و بے خبر نے دریں صورت اگر بمقتضائے علم خود حکم کند ناچار احتمالِ تخلف خواہد شد۔‘‘ ترجمہ:۔جاننا چاہئے کہ اگر یہ سوال کریں کہ اس بات کا کیا سبب ہے کہ بعض آئندہ ہونے والے واقعات کی خبر دینے سے متعلق بعض کشوف جو خدا کے پیاروں سے صادر ہوتے ہیں غلط واقع ہو جاتے ہیں اور ان کے خلاف ظہور میں آتا ہے مثلاً خبر دیتے ہیں کہ فلاں شخص ایک ماہ کے اندر مر جائے گا یا سفر سے وطن واپس آ جائے گا۔ اتفاقاً ایک ماہ کے بعد دونوں میں سے کوئی بات وقوع میں نہیں آتی۔
اس سوال کے جواب میں ہم کہتے ہیں کہ یہ کشف اور اس کی خبر مشروط بشرائط ہوتی ہے جس پر اس وقت صاحبِ کشف کو ان شرائط کی تفصیل سے اطلاع نہیں ملتی و ہ اس کے مطلق پورے ہونے کا حکم لگا دیتا ہے یا یہ کہ لوحِ محفوظ کے احکام کلی طور پر اس عارف پر ظاہر نہیں ہوئے کہ وہ حکم فی نفسہٖ محو واثبات کے قابل ہے اور قضائے معلق میں سے ہے ۔لیکن اس عارف کو اس کی تعلیق اور محو کی قابلیت کی خبر نہیں ہوتی۔ اس صورت میں اپنے علم کے تقاضا کے مطابق وہ حکم لگا دیتا ہے۔ ناچار ایسی خبر کے پورا نہ ہونے کا احتمال ہو گا۔ (مکتوبات امام ربّانی۔ جلد اوّل صفحہ۲۲۳ مکتوب۲۱۷۔مطبع منشی ۔نول کشور۔لکھنؤ)
حضرت مجدّد الف ثانی علیہ الرحمہ اسی مکتوب میں اگلے صفحہ پر قضائے معلق کی دو قسمیں بیان فرماتے ہوئے رقمطراز ہیں۔کہ
’’قضائے معلق بردو گونہ است قضائے است کہ تعلیقِ اُو رَا دَرلوحِ محفوظ ظاہر ساختہ اند و ملائکہ را برآں اطلاع دادہ و قضائے کہ تعلیقِ او نزدِ خدا است جلّ شانہٗ و بس در لوحِ محفوظ صورتِ قضائے مبرم دارد و ایں قسم اخیر از قضائے معلق نیزاحتمال تبدیل دارد در رنگ قسم اوّل۔‘‘ ترجمہ:۔ قضائے معلق کی دو قسمیں ہیں۔ ایک قضائے معلق وہ ہے کہ جس کا معلق ہونا لوحِ محفوظ میں ظاہر کر دیا گیا ہوتا ہے۔ اور فرشتوں کو اس ( تعلیق) پر اطلاع دیدی جاتی ہے ۔اور ایک قضائے معلق وہ ہے جس کا معلق ہونا صرف خدا تعالیٰ جلّ شانہٗ ہی جانتا ہے۔اور لوحِ محفوظ میں وہ قضائے مبرم کی صورت میں ہوتی ہے۔یہ آخری قسم قضائے معلق کی بھی(جو صورۃً مبرم ہوتی ہے) پہلی قسم کی قضا کی طرح تبدیلی کا احتمال رکھتی ہے۔
(مکتوبات جلد اوّل صفحہ۲۲۴۔مطبع منشی ۔نول کشور۔لکھنؤ)
حضرت مجدّد الف ثانی علیہ الرحمہ اس جگہ آنحضرت ﷺکے زمانہ کا ایک واقعہ اور جبریل علیہ السلام کی پیشگوئی درج کرتے ہیں جس میں ایک شخص کی موت کی خبر دی گئی تھی مگر صدقہ دینے کی وجہ سے وہ بچ گیا۔ (مکتوبات ۔جلد اوّل صفحہ ۲۳۲)
اسی طرح کا ایک واقعہ تفسیر روح البیان میں بھی درج ہے کہ’’ان قصارًا مرّ علیٰ عیسیٰ علیہ السلام مع جماعۃ من الحواریین فقال لھم عیسیٰ احضروا جنازۃ ھذا الرجل وقت الظہر فلم یمت ھٰذا القصار فقال نعم ولٰکن تصدّق بعد ذٰلک ثلاثۃ ارغفۃٍ فنجا من الموت‘‘
ترجمہ:۔’’ایک دھوبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا جب کہ ایک حواریوں کی جماعت ان کے پاس تھی ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے حواریوں سے کہا کہ اس آدمی کے جنازہ پر ظہر کے وقت حاضر ہو جانا۔ لیکن وہ نہ مرا تو جبریل نازل ہوا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اسے کہا ۔ کیا تونے مجھے اس دھوبی کی موت کی خبر نہ دی تھی؟ جبریل نے کہا ۔ہاں لیکن اس نے تین روٹیاں صدقہ میں دے دیں تو موت سے نجات پا گیا۔‘‘(تفسیر روح البیان۔جلد ۱ صفحہ ۲۵۷ مطبوعہ دارالفکر العربی)
پس جیسا کہ احادیث میں آیا ہے صدقہ و دعا سے مبرم تقدیر بھی ٹل جاتی ہے۔ یہ وہی مبرم تقدیر ہوتی ہے جو دراصل تو معلق ہوتی ہے لیکن ملہم اُسے مبرم سمجھتا ہے کیونکہ اس پر اس کے معلق ہونے کی وضاحت خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوئی ہوتی۔
تعبیر کا کسی اور رنگ میں ظہور:ایک اصل پیشگوئیوں کا یہ بھی ہے کہ کبھی ایک بات دکھائی جاتی ہے مگر وہ پوری کسی اور رنگ میں ہوتی ہے۔ چنانچہ لکھا ہے۔
’’قال اھل التعبیر انّ رسول اللہﷺ رأی فی المنام اُسید ابن ابی العیص والیاً علیٰ مکّۃ مسلماً، فمات علیٰ الکفر و کانت الرؤیا لولدہٖ عتاب اسلمَ۔‘‘
ترجمہ:۔اہلِ تعبیر کا کہنا ہے کہ رسول اللہﷺ نے خواب میں اسید بن ابی العیص کو مسلمان ہونے کی حالت میں مکّہ کا والی دیکھا۔ وہ تو کفر پر مر گیا اور رؤیا اس کے بیٹے عتاب کے حق میں پوری ہوئی جو مسلمان ہو گیا ۔ (تاریخ الخمیس۔ جلد ۲ صفحہ ۱۲۱)
اسی طرح حدیث میں ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا:’’بینما انا نائمٌ البارحۃ اذااُتیت مفاتیح خزآئن الارض حتّٰی وضعت فی یدي قال ابوھریرۃ فذھب رسول اللہ ﷺ و انتم تنتقلونھا۔‘‘ ترجمہ:۔اس دوران جب کہ میں سو رہا تھا مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں دی گئیں۔یہانتک کہ وہ میرے ہاتھوں میں رکھ دی گئیں۔ ابوھریرہ رضی اللہ عنہٗ کہتے ہیں کہ آنحضرتﷺتو تشریف لے گئے اور (اے صحابہ !) اب تم ان خزانوں کو لا رہے ہو۔
(بخاری۔کتاب التعبیر۔باب رؤیا اللیل)
چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تورات میں موجود بعض پیشگوئیوں میں اجتہادی خطاء کے وقوع پذیر ہونے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ۔
’’ توریت کی بعض عبارتوں سے ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بعض اپنی پیشگوئیوں کے سمجھنے اور سمجھانے میں اجتہادی طور پر غلطی کھائی تھی اور وہ اُمیدیں جو بہت جلد اور بلا توقف نجات یاب ہونے کے لئے بنی اسرائیل کو دی گئی تھیں وہ اس طرح پر ظہور پذیر نہیں ہوئی تھیں۔ چنانچہ بنی اسرائیل نے خلاف اُن اُمیدوں کے صورت حال دیکھ کر اور دل تنگ ہو کر ایک مرتبہ اپنی کم ظرفی کی وجہ سے جو اُن کی طینت میں تھی کہہ بھی دیا تھا کہ اے موسیٰ و ہارون جیسا تم نے ہم سے کیا خدا تم سے کرے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ دل تنگی اس کم ظرف قوم میں اسی وجہ سے ہوئی تھی کہ انہوں نے جو جلد مخلصی پا جانے کا اپنے دلوں میں حسب پیرایہ تقریر موسوی اعتقادکر لیا تھا اس طور پر معرضہ ظہور میں نہیں آیا تھا اور درمیان میں ایسی مشکلات پڑ گئیں تھیں جن کی پہلے سے بنی اسرائیل کو صفائی سے خبر نہیں دی گئی تھی اس کی یہی وجہ تھی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی اُن درمیانی مشقتوں اور اُن کے طول کھینچنے کی ابتدا میں مصفا اور صاف طور پر خبرنہیں ملی تھی لہذا اُن کے خیال کا میلان اجتہادی طور پر کسی قدر اس طرف ہو گیا تھا کہ فرعون بے عون کا آیات بیّنات سے جلد تر قصّہ پاک کیا جائے گا۔ سو خداتعالیٰ نے جیسا کہ قدیم سے تمام انبیاء سے اس کی سنّت جاری ہے پہلے ایام میں حضرت موسیٰ کو ابتلا میں ڈالنے کی غرض سے اور رُعب استغنا اُن پر وارد کرنے کے ارادہ سے بعض درمیانی مکارہ اُن سے مخفی رکھے کیونکہ اگر تمام آنے والی باتیں اور وارد ہونے والی صعوبتیں اور شدّتیں پہلے ہی ان کو کھول کر بتلائی جاتیں تو ان کا دل بکلّی قوی اور طمانیت یاب ہو جاتا۔پس اس صورت میں اس ابتلاء کی ہیبت ان کے دل پر سے اٹھ جاتی جس کا وارد کرنا حضرت کلیم اللہ پر اور ان کے پیروؤں پر بمراد ترقی درجات و ثواب آخرت ارادہ الٰہی میں قرار پا چکا تھا۔ ایسا ہی حضرت مسیح علیہ السلام نے جو جو اُمیدیں اور بشارتیں اپنے حواریوں کو اس دنیوی زندگی اور کامیابی اور خوشحالی کے متعلق انجیل میں دی ہیں وہ بھی بظاہر نہایت سہل اور آسان طریقوں سے اور جلد تر حاصل ہونے والی معلوم دیتی تھیں۔ اور حضرت مسیح علیہ السلام کے مبشرانہ الفاظ سے جو ابتدا میں اُنہوں نے بیان کئے تھے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا اُسی زمانہ میں ایک زبردست بادشاہی ان کی قائم ہونے والی ہے۔ اسی حکمرانی کے خیال پر حواریوں نے ہتھیار بھی خرید لئے تھے کہ حکومت کے وقت کام آوینگے۔ ایسا ہی حضرت مسیح کا دوبارہ اُترنا بھی جناب ممدوح نے خود اپنی زبان سے ایسے الفاظ میں بیان فرمایا تھا جس سے خود حواری بھی یہی سمجھتے تھے کہ ابھی اس زمانہ کے لوگ فوت نہیں ہوں گے اور نہ حواری پیالہ اجل پئیں گے کہ جو حضرت مسیح پھر اپنی جلالت اور عظمت کے ساتھ دُنیا میں تشریف لے آئینگے اور معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا خیال اور رائے اُسی پیرایہ کی طرف زیادہ جھکا ہوا تھا کہ جو انہوں نے حواریوں کے ذہن نشین کیا جو اصل میں صحیح نہیں تھا یعنی کسی قدر اس میں اجتہادی غلطی تھی اور عجیب تر یہ کہ بائیبل میں یہ بھی لکھا ہے کہ ایک مرتبہ بنی اسرائیل کے چار سو نبی نے ایک بادشاہ کی فتح کی نسبت خبر دی اور وہ غلط نکلی یعنی بجائے فتح کے شکست ہوئی۔ دیکھو سلاطین اوّل باب ٢٢ آیت ١٩‘‘ (سبز اشتہار ۔روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 451.453)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے جن چار سو نبیوں کا ذکر فرمایا ہے وہ جھوٹے نبی نہ تھے اور نہ ہی وہ بعل بت کے پجاری تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے لیے خود تورات کا حوالہ دیا ہے۔جبکہ جو جھوٹے نبی بعل بت کے پجاری تھے ان کا ذکر باب ٢٢ میں نہیں بلکہ باب ١٦ میں ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حوالہ باب ٢٢ کا دیا ہے نہ کہ باب ١٦ کا۔ یہ سب کچھ ١۔ سلاطین باب ٢٢ آیت ٥ تا ٢٨ میں لکھا ہوا موجود ہے ،جس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہوسفط نے شاہ اسرائیل سے کہا۔ آج کے دن خداوند (نہ کہ بعل۔ ناقل) کی مرضی الہام سے دریافت کیجئے۔ تب شاہ اسرائیل نے اس روز نبیوں کو جو چار سو کے قریب تھے، اکٹھا کیا۔ اور ان سے پوچھا۔ پھر یہوسفط بولا۔ ان کے سوا خداوند کا کوئی نبی ہے؟ (اس کے بعد لکھا ہے کہ میکایاہ نبی کو لایا گیا۔ ناقل) اس نے (میکایاہ نے) جواب میں کہا۔۔۔۔ دیکھ خداوند تیرے نے ان سب نبیوں کے منہ میں جھوٹی روح ڈالی ہے اور خداوند ہی نے تیری بابت (مجھ کو) خبر دی ہے۔ (١۔ سلاطین باب٢٢) غرض باب٢٢ والے نبی بعل والے نبی نہیں ہیں۔ بعل والے نبیوں کا ذکر باب١٦ میں الگ طور پر درج ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کا ذکر نہیں فرمایا۔ نیز ان کی تعداد چار سو نہیں بلکہ چار سو پچاس تھی۔ (١۔ سلاطین ٢٢/١٨ )
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتاب ازالہ اوہام میں انبیاء کی اجتہادی خطاء کے مضمون کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:۔
’’انبیاء سے بھی اجتہاد کے وقت امکانِ سہو وخطا ہے۔ مثلًا اس خواب کی بناء پر جس کا قرآن کریم میں ذکر ہے جو بعض مومنوں کے لئے موجب ابتلاء کا ہوئی تھی آنحضرت ﷺ نے مدینہ منوّرہ سے مکّہ معظمہ کا قصد کیا اور کئی دن تک منزل درمنزل طے کر کے اس بلدہ مبارکہ تک پہنچے مگر کفار نے طواف خانہ کعبہ سے روک دیا اور اُس وقت اس رؤیا کی تعبیر ظہور میں نہ آئی۔ لیکن کچھ شک نہیں کہ آنحضرتﷺنے اِسی امید پر یہ سفر کیا تھا کہ اب کے سفر میں ہی طواف میسّر آجائے گا اوربلاشبہ رسول ﷺ کی خواب وحی میں داخل ہے لیکن اس وحی کے اصل معنے سمجھنے میں جو غلطی ہوئی اس پر متنبّہ نہیں کیا گیا تھا تبھی تو خداجانے کئی روز تک مصائب سفر اُٹھا کرمکہ معظمہ میں پہنچے۔ اگر راہ میں متنبّہ کیاجاتا تو آنحضرت ﷺ ضرور مدینہ منورہ میں واپس آجاتے پھرجب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں نے آپ کے روبرو ہاتھ ناپنے شروع کئے تھے تو آپ کو اس غلطی پر متنبّہ نہیں کیا گیا یہاؔں تک کہ آپ فوت ہوگئے اور بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی یہی رائے تھی کہ درحقیقت جس بیوی کے لمبے ہاتھ ہیں وہی سب سے پہلے فوت ہوگی۔ اِسی وجہ سے باوجودیکہ آپ کے رُوبرو باہم ہاتھ ناپے گئے مگر آپ نے منع نہ فرمایاکہ یہ حرکت تو خلاف منشاء پیشگوئی ہے۔ اِسی طرح ابن صیّاد کی نسبت صاف طورپر وحی نہیں کھلی تھی اور آنحضرت کا اوّل اوّل یہی خیال تھا کہ ابن صیّاد ہی دجّال ہے۔ مگر آخر میں یہ رائے بدل گئی تھی۔ ایسا ہی سورہ روم کی پیشگوئی کے متعلق جو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے شرط لگائی تھی۔ آنحضرت ﷺنے صاف فرمایا کہ بضع کا لفظ لغت عرب میں نو برس تک اطلاق پاتا ہے اور میں بخوبی مطلع نہیں کیا گیا کہ نوبرس کی حد کے اندر کس سال یہ پیشگوئی پوری ہوگی۔ایسا ہی وہ حدیث جس کے یہ الفاظ ہیں فذھب وھلی الٰی انھا الیمامۃ او الھجر فاذا ھی المدینۃ یثرب صاف صاف ظاہرکر رہی ہے کہ جو کچھ آنحضرت ﷺ نے اپنے اجتہاد سے پیشگوئی کا محل ومصداق سمجھا تھا وہ غلط نکلا۔ اور حضرت مسیحؔ کی پیشگوئیوں کا سب سے عجب ترحال ہے۔ بارہا انہوں نے کسی پیشگوئی کے معنے کچھ سمجھے اور آخر کچھ اور ہی ظہور میں آیا۔ یہودا اسکریوطی کو ایک پیشگوئی میں بہشت کابارھواں تخت دیا لیکن وہ بکلّی بہشت سے محروم رہا۔ اور پطرس کو کبھی بہشت کی کنجیاں دیں اورکبھی اُس کو شیطان بنایا۔ اسی طرح انجیل سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح کا مکاشفہ کچھ بہت صاف نہیں تھا اور کئی پیشگوئیاں ان کی بسبب غلط فہمی کے پوری نہیں ہو سکیں مگر اپنے اصلی معنوں پر پوری ہوگئیں۔ بہر حال ان تمام باتوں سے یقینی طورپر یہ اصول قائم ہوتاہے کہ پیشگوئیوں کی تاویل اور تعبیر میں انبیاء علیہم السلام کبھی غلطی بھی کھاتے ہیں۔ جس قدر الفاظ وحی کے ہوتے ہیں وہ تو بلاشبہ اول درجہ کے سچے ہوتے ہیں مگر نبیوں کی عادت ہوتی ہے کہ کبھی اجتہادی طورپر بھی اپنی طرف سے اُن کی کسی قدر تفصیل کرتے ہیں۔ اور چونکہ وہ انسان ہیں اس لئے تفسیر میں کبھی احتمال خطاکا ہوتا ہے۔لیکن امور دینیہ ایمانیہ میں اس خطا کی گنجائش نہیں ہوتی (ازالہ اوہام ۔روحانی خزائن جلد 3صفحہ471.472)
عبدالحکیم مرتد کی پیشگوئی کے مطابق مسیح و مہدی مرزا غلام احمد علیہ السلام کی وفات ہوئی؟
اپنی وفات کے متعلق حضرت مسیح موعود ؑ کے الہامات جواب :۔ ۱۔ دسمبر ۱۹۰۵ء میں اپنی وفات سے اڑ…