حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ کاعشق رسول ﷺ – آپؑ کی تحریرات اور آپؑ کے واقعات کی روشنی میں
ذیل میں حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کی تحریرات سے کچھ اقتباس پیش ہیں ۔یہ تحریرات آپؑ کی متفرق کتب سے لی گئی ہیں۔ ان اقتباسات سے ہر شخص کو معلوم ہو سکتا ہے کہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام اور احمدی کس محبت ،کس خلوص،کس عقیدت اور کس یقین و وثوق سے سید ولد آدم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو خاتم النبیین اور تمام آدم زادوں سے افضل و اولیٰ مانتے ہیں ۔ان تحریرات کی روشنی میں ہر پڑھنے والا اندازہ لگا سکتا ہے کہ غیر احمدی علماء احمدیوں کو’’منکرین ختم نبوت ‘‘قرار دینے میں سراسر بے انصافی اور ظلم کی راہ اختیار کررہے ہیں۔چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
جس کے عالی مقام کا انتہاء معلوم نہیں ہو سکتا
’’میں ہمیشہ تعجب کی نگاہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمدؐ ہے(ہزار ہزار درود اور سلام اس پر) یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے اس کے عالی مقام کا انتہاء معلوم نہیں ہو سکتا اور اس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں ۔افسوس کہ جیسا حق شناخت کا ہے اس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا ۔وہ توحید جو دنیا سے گم ہو چکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنیا میں لایا ۔ اس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی۔ اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میں اس کی جان گداز ہوئی ۔اس لئے خدا نے جو اس کے دل کے راز کا واقف تھا اس کو تمام انبیاء اور تمام اوّلین وآخرین پر فضیلت بخشی اور اس کی مرادیں اس کی زندگی میں اس کو دیں‘‘ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد۲۲ ص۱۱۸۔۱۱۹)
تمام آدم زادوں کے لئے ایک ہی رسول اور ایک ہی شفیع
’’نوع انسان کے لئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن،اور تمام آدم زادوں کیلئے اب کوئی رسول اورشفیع نہیں مگر محمد مصطفی ﷺ سو تم کوشش کرو کہ سچی محبت اس جاہ وجلال کے نبی ؐ کے ساتھ رکھو اور اس کے غیر کو اس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو تا آسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جاؤ اور یاد رکھو کہ نجات وہ چیز نہیں جو مرنے کے بعد ظاہر ہو گی بلکہ حقیقی نجات وہ ہے کہ اسی دنیا میں اپنی روشنی دکھلاتی ہے ۔نجات یافتہ کون ہے؟وہ جو یقین رکھتا ہے جو خدا سچ ہے اور محمد ﷺ اس میں اور تمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہے اور آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی اور رسول ہے اور نہ قرآن کے ہم رتبہ کوئی اور کتاب ہے۔اور کسی کے لئے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے ۔مگر یہ برگزیدہ نبی ہمیشہ کے لئے زندہ ہے‘‘ (کشتی نوح روحانی خزائن جلد۱۹ ص۱۳۔۱۴)
ہمیشہ کے لئے جلال اور تقدس کے تخت پر بیٹھنے والا نبی
’’اے تمام وہ لوگو جو زمین پر رہتے ہو! اور اے تمام وہ انسانی روحو، جو مشرق اور مغرب میں آباد ہو !میں پورے زور کے ساتھ آپ کو اس طرف دعوت کرتا ہوں کہ اب زمین پر سچا مذہب صرف اسلام ہے اور سچا خدا بھی وہی خدا ہے جو قرآن نے بیان کیا ہے اور ہمیشہ کی روحانی زندگی والا نبی اور جلال اور تقدس کے تخت پر بیٹھنے والا حضرت محمد مصطفی ﷺ ہے‘‘ (تریاق القلوب روحانی خزائن جلد۱۵ ص۱۴۱)
بنی نوع انسان کا بے نظیر ہمدرد
’’اگر کسی نبی کی فضیلت اس کے ان کاموں سے ثابت ہو سکتی ہے جن سے بنی نوع کی سچی ہمدردی سب نبیوں سے بڑھ کر ظاہر ہو تو اے سب لوگو اٹھو، اور گواہی دو کہ اس صفت میں محمد ﷺ کی دنیا میں کوئی نظیر نہیں۔۔۔۔۔اندھے مخلوق پرستوں نے اس بزرگ رسولؐ کو شناخت نہیں کیا جس نے ہزاروں نمونے سچی ہمدردی کے دکھلائے۔لیکن اب میں دیکھتا ہوں کہ وہ وقت پہنچ گیا ہے کہ یہ پاک رسول شناخت کیا جائے چاہو تو میری بات کو لکھ رکھو ۔۔۔۔۔اے سننے والوسنو اور اے سوچنے والوسوچو اور یاد رکھو کہ حق ظاہر ہوگا اور وہ جو سچا نور ہے چمکے گا‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد2ص184۔ایڈیشن UK 2018ء)
نبی کریم کی فضیلت کل انبیاء پر میرے ایمان کا جزو اعظم
’’میرا مذہب یہ ہے کہ اگر رسول اللہ ﷺ کو الگ کیا جاتا اور کل نبی جو اس وقت تک گذر چکے تھے ۔سب کے سب اکٹھے ہو کر وہ کام اور وہ اصلاح کرنا چاہتے جو رسول اللہ ﷺ نے کی ہر گز نہ کر سکتے ۔ان میں وہ دل اور وہ قوت نہ تھی جو ہمارے نبی ؐ کو ملی تھی۔اگر کوئی کہے کہ یہ نبیوں کی معاذ اللہ سوء ادبی ہے تو وہ نادان مجھ پر افتراء کرے گا ۔میں نبیوں کی عزت اورحرمت کرنا اپنے ایمان کا جزو سمجھتا ہوں ،لیکن نبی کریم کی فضیلت کل انبیاء پر میرے ایمان کا جزو اعظم ہے اور میرے رگ وریشہ میں ملی ہوئی بات ہے ۔یہ میرے اختیار میں نہیں کہ اس کو نکال دوں۔ بدنصیب اور آنکھ نہ رکھنے والا مخالف جو چاہے سو کہے ہمارے نبی کریم ﷺنے وہ کام کیا ہے، جو نہ الگ الگ اور نہ مل مل کر کسی سے ہو سکتا تھا اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشآء‘‘ (ملفوظات جلد ۱ ص۴۲۰ ۔انڈیا ایڈیشن۲۰۱۰)
اس قدر کبھی دل نہ دکھتا
’’اس قدر بدگوئی اور اہانت اوردشنام دہی کی کتابیں نبی کریم ﷺکے حق میں چھاپی گئیں اور شائع کی گئیں کہ جن کے سننے سے بدن پر لرزہ پڑتا اور دل رورو کر یہ گواہی دیتا ہے کہ اگر یہ لوگ ہمارے بچوں کو ہماری آنکھوں کے سامنے قتل کرتے اور ہمارے جانی اوردلی عزیزوں کو جو دنیا کے عزیز ہیں ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتے اور ہمیں بڑی ذلت سے جان سے مارتے اور ہمارے تمام اموال پر قبضہ کر لیتے تو واللہ ثم واللہ ہمیں رنج نہ ہوتا اور اس قدر کبھی دل نہ دکھتا جو ان گالیوں اور اس توہین سے جو ہمارے رسول کریمؐ کی کی گئی دُکھا‘‘ (آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد۵ ص ۵۱۔۵۲)
سب سے افضل و اعلیٰ واکمل وارفع واجلیٰ و اصفانبی
واجلیٰ و اصفا تھے اس لئے خدائے جل شانہ نے ان کو عطر کمالات خاصہ سے سب سے زیادہ معطر کیا اور وہ سینہ اور دل جو تمام اولین و آخرین کے سینہ و دل سے فراخ تر وپاک تر ومعصوم تر و روشن تر وعاشق ترتھا وہ اسی لائق ٹھہرا کہ اس پر ایسی وحی نازل ہو کہ جو تمام اوّلین و آخرین کی وحیوں سے اقویٰ و اکمل وارفع واتم ہو کر صفات الٰہیہ کے دکھلانے کے لئے ایک نہایت صاف اور کشادہ اور وسیع آئینہ ہو ‘‘ (سرمہ چشم آریہ حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد ۲ ص۷۱۔لند ن ایڈیشن ۱۹۸۶ء)
مجدد اعظم
’’ہمارے نبی ﷺ اظہار سچائی کے لئے ایک مجدد اعظم تھے جو گم گشتہ سچائی کو دوبارہ دنیا میں لائے۔اس فخر میں ہمارے نبی ﷺ کے ساتھ کوئی بھی نبی شریک نہیں کہ آپ نے تمام دنیا کو ایک تاریکی میں پایا اور پھر آپ کے ظہور سے وہ تاریکی نور سے بدل گئی ۔جس قوم میں آپ ظاہر ہوئے آپ فوت نہ ہوئے جب تک کہ اس تمام قوم نے شرک کا چولہ اتار کر توحید کا جامہ نہ پہن لیا اور نہ صرف اس قدر بلکہ وہ لوگ اعلیٰ مراتب ایمان کو پہنچ گئے اور وہ کام صدق اور وفا اور یقین کے ان سے ظاہر ہوئے کہ جس کی نظیر دنیا کے کسی حصہ میں پائی نہیں جاتی یہ کامیابی اور اس قدر کامیابی کسی نبی کو بجز آنحضرت ﷺ کے نصیب نہیں ہوئی‘‘ (لیکچر سیالکوٹ ۔روحانی خزائن جلد۲۰ ص۲۰۶)
ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دعائیں
’’وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرا گزرا کہ لاکھوں مردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہو گئے اور پشتوں کے بگڑے ہوئے الٰہی رنگ پکڑ گئے اور آنکھوں کے اندھے بینا ہوئے اور گونگوں کی زبان پر الٰہی معارف جاری ہو ئے اور دنیا میں یک دفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا۔ کچھ جانتے ہو کہ وہ کیا تھا ؟ وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دعائیں ہی تھیں جنہوں نے دنیا میں شور مچا دیا اور وہ عجائب باتیں دکھلائیں کہ جو اس امی بے کس سے محالات کی طرح نظر آتی تھیں ۔اللھم صل وسلم وبارک علیہ واٰلہ بعدد ھمہ وغمہ وحزنہ لھذہ الامۃ وانزل علیہ انوار رحمتک الی الابد‘‘ (برکات الدعا ۔روحانی خزائن جلد۶ ص۱۰۔۱۱)
انسان کامل اور کامل نبی
’’وہ انسان جس نے اپنی ذات سے اپنی صفات سے اپنے افعال سے اپنے اعمال سے اور اپنے روحانی اور پاک قویٰ کے پر زور دریا سے کمال تام کا نمونہ علماً وعملاً وصدقاً وثباتاً دکھلایا اور انسان کاملؐ کہلایا۔۔ ۔۔۔وہ انسان جو سب سے زیادہ کامل اور انسان کامل تھا اور کامل نبی تھا اور کامل برکتوں کے ساتھ آیا جس سے روحانی بعث اور حشر کی وجہ سے دنیا کی پہلی قیامت ظاہر ہوئی اور ایک عالم کا عالم مرا ہوا اس کے آنے سے زندہ ہوگیا وہ مبارک نبی حضرت خاتم الانبیاء امام الاصفیاء ختم المرسلین فخر النبیین جناب محمد مصطفی ﷺ ہیں۔ اے پیارے خدا اس پیارے نبیؐ پر وہ رحمت اور درود بھیج جو ابتداء دنیا سے تو نے کسی پر نہ بھیجا ہو‘‘ (اتمام الحجہ ۔روحانی خزائن جلد۸ ص ۳۰۸)
جس کے ساتھ ہم ۔۔۔۔اس عالم گزران سے کوچ کریں گے
’’ہمارے مذہب کا خلاصہ اور لب لباب یہ ہے کہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہمارا اعتقاد جو ہم اس دنیوی زندگی میں رکھتے ہیں جس کے ساتھ ہم بفضل وتوفیق باری تعالیٰ اس عالم گزران سے کوچ کریں گے یہ ہے کہ حضرت سیدنا و مولانا محمد مصطفی ﷺ خاتم النبیین وخیر المرسلین ہیں جن کے ہاتھ سے اکمال دین ہو چکا اور وہ نعمت بمرتبہ اتمام پہنچ چکی جس کے ذریعہ سے انسان راہ راست کو اختیار کر کے خدا ئے تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے‘‘ (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ ص ۱۶۹۔۱۷۰)
خدا نما:۔
’’ہم نے ایک ایسے نبی کا دامن پکڑا ہے جو خدا نما ہے۔ کسی نے یہ شعر بہت ہی اچھا کہا ہے۔
محمدِؐ عربی بادشاہ ِہر دوسرا
کرے ہے روح قُدس جس کے در کی دربانی
اسے خدا تو نہیں کہہ سکوں پہ کہتا ہوں
کہ اس کی مرتبہ دانی میں ہے خدا دانی
ہم کس زبان سے خدا کا شکر کریں جس نے ایسے نبی کی پیروی ہمیں نصیب کی جو سعیدوں کی ارواح کے لئے آفتاب ہے ۔جیسے اجسام کے لئے سورج وہ اندھیرے کے وقت ظاہر ہوا اور دنیا کو اپنی روشنی سے روشن کر دیا ۔وہ نہ تھکا نہ ماندہ ہوا جب تک کہ عرب کے تمام حصہ کو شرک سے پاک نہ کر دیا۔ وہ اپنی سچائی کی آپ دلیل ہے کیونکہ اس کا نور ہر ایک زمانہ میں موجود ہے اور اس کی سچی پیروی انسان کو یوں پاک کرتی ہے کہ جیسا ایک صاف اور شفاف دریا کا پانی میلے کپڑے کو‘‘ (چشمہ معرفت حصہ دوم ۔روحانی خزائن جلد ۲۳ ص۳۰۲۔۳۰۳)
اپنی جان اور ماں باپ سے پیارا نبی
’’جو لوگ ناحق خدا سے بے خوف ہو کر ہمارے بزرگ نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو برے الفاظ سے یاد کرتے اور آنجناب پر ناپاک تہمتیں لگاتے اور بدزبانی سے باز نہیں آتے ہیںان سے ہم کیونکر صلح کریں ۔میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہم شورہ زمین کے سانپوں اور بیابانوں کے بھیڑیوں سے صلح کر سکتے ہیں، لیکن ان لوگوں سے ہم صلح نہیں کر سکتے جو ہمارے پیارے نبی پر جو ہمیں اپنی جان اور ماں باپ سے بھی پیارا ہے ناپاک حملے کرتے ہیں۔خدا ہمیں اسلام پر موت دے ہم ایسا کام کرنا نہیں چاہتے جس میں ایمان جاتا رہے‘‘ (پیغام صلح روحانی خزائن جلد ۲۳ ص ۴۵۹)
منظوم کلام حضرت اقدس علیہ السلام
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی بانیٔ جماعت احمدیہ اپنے عربی منظوم کلام میں اپنے محبوب ﷺ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
یَاعَیْنَ فَیْضِ اللّٰہِ وَالْعِرْفَانِ
یَسْعٰی اِلَیْکَ الْخَلْقُ کَالْظَّمْاٰنِ
اے اللہ تعالیٰ کے فیض اور عرفان کے چشمے ! لوگ تیری طرف سخت پیاسے کی طرح دوڑتے چلے آرہے ہیں۔
یَا بَحْرَ فَضْلِ الْمُنْعِمِ الْمَنَّانِ
تَھْوِیْ اِلَیْکَ الزُّمَرُ بِالْکِیْزَانِ
اے انعام کرنے والے اور نہایت ہی محسن خدا کے فضلوں کے سمندر!لوگ گروہ در گروہ کوزے لئے ہوئے تیری طرف بھاگتے چلا آرہے ہیں۔
اُنْظُرْ اِلَیَّ بِرَحْمَۃٍ وَّتَحَنُّنٍ
یَا سَیِّدِیْ اَنَا اَحْقَرُ الْغِلْمَانِ
(اے میرے محبوب) مجھ پر رحمت اور شفقت کی نظر کیجئے اے میرے آقا میں آپ کا ناچیز غلام ہوں۔
مِنْ ذِکْرِ وَجْھِکَ یَا حَدِیْقَۃَ بَھْجَتِیْ
لَمْ اَخْلُ فِیْ لَحْظٍ وَّلَا فِیْ اٰنِ
(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد۵ ص ۵۹۰،۵۹۴ )
اے میری خوشی اور مسرت کے چشمے! میں کسی لحظہ اور کسی وقت آپ کے ذکر سے خالی نہیں ہوتا ۔
یَا شَمْسَ مُلْکِ الْحُسْنِ وَالْاِحْسَانِ
نَوَّرْتَ وَجْہَ الْبَرِّ وَالْعُمْرَانِ
اے حسن واحسان کے ملک کے سورج تو نے آبادیوں اور ویرانوں کا چہرہ منور کر دیا ہے۔
اِنِّیْ اَرٰی فِیْ وَجْھِکَ الْمُتَھَلِّلِ
شَاْناً یَّفُوْقُ شَمَائِلَ الْاِنْسَانِ
(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ ص ۵۹۰۔ ۵۹۱ )
(اے میرے معشوق )یقینا میں تیرے درخشاں اور چمکتے ہوئے چہرہ میں ایک ایسی شان دیکھتا ہوں جو انسانی خصائل سے بالا ہے۔
وَذِکْرُ الْمُصْطَفٰے رَوْحٌ لِقَلْبِیْ
وَصَارَ لِمُھْجَتِیْ مِثْلَ الطَّعَامٖ
(نورالحق حصہ دوم۔ روحانی خزائن جلد ۸ ص ۲۵۸)
اورنبی ﷺ کا ذکر میرے دل کے لئے آرام ہے اور میری جان کے لئے مثل طعام کے ہے
وَآثَرْتُ حُبَّکَ بَعْدَ حُبِّ مُھَیْمِنِیْ
وَتُصْبِیْ جَنَانِیْ مِنْ سَنَاکَ وَتَجْلِبُ
(کرامات الصادقین۔ روحانی خزائن جلد ۷ ص ۱۰۴)
(اے میرے پیارے) خدا تعالیٰ کی محبت کے بعد میں نے تیری محبت کو (ہر محبت پر ) ترجیح دی ہے اور آپ نے میرے دل کو اپنے نور سے گرویدہ بنا لیا ۔
حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ اپنے فارسی منظوم کلام میں اپنے آقا ﷺ سے اپنی دلی محبت کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
حسن روئش بہ ز ماہ و آفتاب
خاک کوئش بہ زمشک و عنبرے
(دیباچہ براہین احمدیہ حصہ اوّل۔ روحانی خزائن جلد ۱ ص ۱۸)
آپ ﷺ کے چہرہ کا حسن چاند اور سورج سے بھی زیادہ ہے اور اس کے کوچہ کی خاک مشک وعنبر سے بہتر ہے ۔
منکہ مے بینم رخ آں دلبرے
جاں فشانم گر دہد دل دیگرے
میں جو اس ( محبوب حقیقی) کا چہرہ دیکھ رہا ہوں اگر کوئی دوسرا اس کو اپنا دل دیتا ہے تو میں اس پر اپنی جان قربان کرتا ہوں ۔
محو روئے او شد ست ایں روئے من
بوئے او آید زبام و کوئے من
(ضمیمہ سراج منیر ۔ روحانی خزائن جلد ۱۲ ص ۹۷)
یہ میرا چہرہ آپ ﷺ کے چہرہ میں گم ہو گیا اور میرے مکان اور کوچہ سے اس کی خوشبو آرہی ہے ۔
دگر استاد را نامے ندانم
کہ خواندم در دبستان محمدؐ
(تریاق القلوب ۔روحانی خزائن جلد ۱۵ ص ۳۸۳ )
مجھے کسی اور استاد کا نام معلوم نہیں کیونکہ میں نے محمد ﷺ کے مدرسہ سے تعلیم حاصل کی ہے ۔
عجب نوریست در جان محمد ؐ
عجب لعلیست در کان محمدؐ
محمد رسول اللہ ﷺ کی جان میں عجیب قسم کا نور ہے اور آپ کی کان میں حیرت انگیز لعل ہیں۔
ندانم ہیچ نفسے در دو عالم
کہ دارد شوکت و شانِ محمدؐ
میں دونوں جہانوں میں کوئی ایسا فرد نہیں پاتا جو محمد ﷺ جیسی شان و شوکت رکھتا ہو۔
سرے دارم فدائے خاک احمدؐ
دلم ہر وقت قربان محمدؐ
(آئینہ کمالات اسلام جلد۵ ص ۶۴۹)
میرا سر احمد ﷺ کی خاک پر فدا ہے اور میرا دل ہر وقت آپؐ پر قربان۔
یادِ آن صورت مرا از خود بُرد
ہر زمان مستم کند از ساغرے
(دیباچہ براہین احمدیہ۔روحانی خزائن جلد ۱ ص۱۹)
اس (محبوب ) کی یاد مجھے بے خود بنا دیتی ہے اور وہ ہر وقت مجھے (اپنے عشق کے) ساغر سے مست رکھتا ہے۔
حضرت بانی ٔ جماعت احمدیہ اپنے اردو منظوم کلام میں اپنے آقا سے دلی الفت کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکایا ہم نے
کوئی دیں .دین محمد ؐ سا نہ پایا ہم نے
کوئی مذہب نہیں ایسا کہ نشاں دکھلاوے
یہ ثمر باغ محمد ؐ سے ہی کھایا ہم نے
تیری الفت سے ہے معمور مرا ہر ذرہ
اپنے سینہ میں یہ اک شہر بسایا ہم نے
(آئینہ کمالات اسلام ۔روحانی خزائن جلد ۵ ص ۲۲۴۔۲۲۵ )
برتر گمان و وہم سے احمد ؐ کی شان ہے
جس کا غلام دیکھو مسیح الزمان ہے
(حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد ۲۲ ص ۲۸۶)
پہلوں سے خوب تر ہے خوبی میں اک قمر ہے
اس پر ہر اک نظر ہے بدر الدجیٰ یہی ہے
وہ آج شاہ دیں ہے وہ تاج مرسلیں ہے
وہ طیب وامیں ہے اس کی ثناء یہی ہے
اس نور پر فدا ہوں اس کا ہی میں ہوا ہوں
وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے
(قادیان کے آریہ اور ہم ۔روحانی خزائن جلد ۲۰ ص ۴۵۶)
دلبرا مجھ کو قسم ہے تری یکتائی کی
آپ کو تیری محبت میں بھلایا ہم نے
(آئینہ کمالات اسلام ۔روحانی خزائن جلد۵ ص۲۲۵ )
حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ کاعشق رسولﷺ واقعات کی روشنی میں کاش یہ شعر میری زبان سے نکلتا
ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ حضرت مسیح موعود اپنے مکان کے ساتھ والے البیت میں جو البیت المبارک کہلاتا ہے ۔اکیلے ٹہل رہے تھے اور آہستہ آہستہ کچھ گنگناتے جاتے تھے اور اس کے ساتھ ہی آپ کی آنکھوں سے آنسوؤںکی تار بہتی چلی جارہی تھی۔اس وقت ایک مخلص دوست نے باہر سے آکر سنا تو آپ آنحضرت ﷺ کے صحابی حضرت حسّان بن ثابت کا ایک شعر پڑھ رہے تھے جو حضرت حسّان نے آنحضرت ﷺ کی وفات پر کہا تھا اور وہ شعر یہ ہے ؎
کُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِیْ فَعَمِیَ عَلَیْکَ النَّاظِرٗ
مَنْ شَآئَ بَعْدَکَ فَلْیَمُتْ فَعَلَیْکَ کُنْتُ اُحَاذِرٗ
(دیوان حسّان بن ثابت)
’’یعنی اے خدا کے پیارے رسول! تو میری آنکھ کی پتلی تھا جو آج تیری وفات کی وجہ سے اندھی ہو گئی ہے۔ اب تیرے بعد جو چاہے مرے مجھے تو صرف تیری موت کا ڈر تھا جو واقع ہو گئی‘‘
راوی کا بیان ہے کہ جب میں نے حضرت مسیح موعود کو اس طرح روتے دیکھا اور اس وقت آپ البیت میں بالکل اکیلے ٹہل رہے تھے تو میں نے گھبرا کر عرض کیا کہ حضرت! یہ کیا معاملہ ہے اور حضور کو کونسا صدمہ پہنچا ہے ؟حضرت مسیح موعود نے فرمایا۔ میںاس وقت حسّان ؓ بن ثابت کا یہ شعر پڑھ رہا تھا اور میرے دل میں یہ آرزو پیدا ہورہی تھی کہ’’کاش یہ شعر میری زبان سے نکلتا ‘‘ (سیرت طیبہ ص ۲۷۔۲۸ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے ۔ اپریل ۱۹۶۰ء)
ایسا عشق میں نے کسی شخص میں نہیں دیکھا
حضرت مرزا سلطان احمد صاحب جو حضرت مسیح موعود کی پہلی بیوی سے سب سے بڑے بیٹے تھے۔ آپ حضور کی زندگی میں جماعت احمدیہ میں داخل نہیں ہوئے تھے ۔بلکہ آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رحمہ اللہ تعالیٰ کے زمانہ میں بیعت کی ۔ آپ کے قبول احمدیت سے پہلے زمانہ کی بات ہے کہ ان سے ایک دفعہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے حضرت مسیح موعود کے اخلاق و عادات کے متعلق پوچھا تو انہوں نے اس پر فرمایا کہ
’’ایک بات میں نے والد صاحب (یعنی حضرت مسیح موعود) میں خاص طور پر دیکھی ہے وہ یہ کہ آنحضرت ﷺ کے خلاف والد صاحب ذرا سی بات بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے اگر کوئی شخص آنحضرتؐ کی شان کے خلاف ذرا سی بات بھی کہتا تھا توو الد صاحب کا چہرہ سرخ ہو جاتا تھا اور غصے سے آنکھیں متغیر ہونے لگتی تھیں اور فوراً ایسی مجلس سے اٹھ کر چلے جاتے تھے آنحضرت ﷺ سے تو والد صاحب کو عشق تھا۔ایسا عشق میں نے کسی شخص میں نہیں دیکھا اور مرزا سلطان احمد صاحب نے اس بات کو بار بار دھرایا ‘‘ (سیرت طیبہ ص۳۴ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم ۔اے اپریل ۱۹۶۰ء)
کیا میں آنحضرت ﷺ کے مزار کو دیکھ بھی سکوں گا!
حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ کے فرزند حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم ۔اے لکھتے ہیں:۔
’’ایک دفعہ گھریلو ماحول کی بات ہے کہ حضرت مسیح موعود کی کچھ طبیعت ناساز تھی اور آپ گھر میں چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے اور حضرت اماں جان نوّر اللہ مرقدھا اور ہمارے نانا جان یعنی حضرت میر ناصر نواب صاحب مرحوم بھی پاس بیٹھے تھے کہ حج کا ذکر شروع ہو گیا ۔حضرت نانا جان نے کوئی ایسی بات کہی کہ اب تو حج کے لئے سفر اور رستے وغیرہ کی سہولت پیدا ہو رہی ہے حج کو چلنا چاہئے۔اس وقت زیارت حرمین شریفین کے تصور میں حضرت مسیح موعود کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں اور آپ اپنے ہاتھ کی انگلی سے اپنے آنسو پونچھتے جاتے تھے ۔حضرت نانا جان کی بات سن کر فرمایا:۔’’یہ تو ٹھیک ہے اور ہماری بھی دلی خواہش ہے مگر میں سوچا کرتا ہوں کہ کیا میں آنحضرت ﷺ کے مزارکو دیکھ بھی سکوں گا‘‘
یہ ایک خالصۃً گھریلو ماحول کی بظاہر چھوٹی سی بات ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو اس میں اُس اتھاہ سمندر کی طغیانی لہریں کھیلتی ہوئی نظر آتی ہیں جو عشقِ رسول ؐ کے متعلق حضرت مسیح موعود کے قلب صافی میں موجزن تھیں۔ حج کی کسے خواہش نہیں مگر ذرا اس شخص کی بے پایاں محبت کا انداز ا لگاؤ جس کی روح حج کے تصور میں پروانہ وار رسول پاکؐ (فداہ نفسی) کے مزار پر پہنچ جاتی ہے اور اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی چل پڑتی ہے‘‘ (سیرت طیبہ ص۳۵۔۳۶ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔ اے اپریل ۱۹۶۰ء)
ہمارے آقا کو تو گالیاں دیتا ہے اور ہمیں سلام کرتا ہے
ایک دفعہ حضرت مسیح موعود سفر میں تھے اورلاہور کے اسٹیشن کے پاس ایک مسجد میں وضو فرما رہے تھے ۔اس وقت پنڈت لیکھرام حضور سے ملنے کے لئے آیا اور آکر سلام کیا ۔مگر حضرت صاحب نے کچھ جواب نہیں دیا۔ اس نے اس خیال سے کہ شاید آپ نے سنا نہیں دوسری طرف سے ہو کر پھر سلام کیا۔مگر آپ نے پھر بھی توجہ نہیں کی ۔اس کے بعد حاضرین میں سے کسی نے کہا کہ حضور! پنڈت لیکھرام نے سلام کیا تھا آپ نے فرمایا:۔
’’ہمارے آقا کو گالیاں دیتا ہے اور ہمیں سلام کرتا ہے‘‘ (سیرت المہدی حصہ اوّل ص ۲۷۲ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔ اے ۱۹۳۵ء)
جس مجلس میں ہمارے رسول اللہ کو برا بھلا کہا گیا تم اس مجلس میں کیوں بیٹھے رہے؟
’’ایک دفعہ آریہ صاحبان نے وچّھو والی لاہور میں ایک جلسہ منعقد کیا اور اس میں شرکت کرنے کے لئے تمام مذاہب کے ماننے والوں کو دعوت دی ۔اسی طرح حضرت مسیح موعود سے بھی باصرار درخواست کی کہ آپ بھی اس بین الادیان جلسہ کے لئے کوئی مضمون تحریر فرمائیں اور وعدہ کیا کہ جلسہ میں کوئی بات خلاف تہذیب اور کسی مذہب کی دلآزاری کا رنگ رکھنے والی نہیں ہو گی اس پر حضرت مسیح موعود نے اپنے ایک ممتاز حواری حضرت مولوی نور الدین صاحب کو جو بعد میں جماعت احمدیہ کے خلیفۂ اوّل ہوئے بہت سے احمدیوں کے ساتھ لاہور روانہ کیا اور ان کے ہاتھ ایک مضمون لکھ کر بھیجا جس میں دینِ محمد ؐ کے محاسن بڑی خوبی کے ساتھ اور بڑے دلکش رنگ میں بیان کئے گئے تھے۔مگر جب آریہ صاحبان کی طرف سے مضمون پڑھنے والے کی باری آئی تو اس نے اپنی قوم کے وعدوں کو بالائے طاق رکھ کر اپنے مضمون میں رسول پاک ﷺ کے خلاف اتنا زہر اگلا اور ایسا گند اچھالا کہ خدا کی پناہ ۔جب اس جلسہ کی اطلاع حضرت مسیح موعود کو پہنچی اور جلسہ میں شرکت کرنے والے احباب قادیان واپس آئے تو آپ حضرت مولوی نور الدین صاحب اور دوسرے احمدیوں پر سخت ناراض ہوئے اور بار بارجوش کے ساتھ فرمایا کہ جس مجلس میں ہمارے رسول اللہ ؐ کو برا بھلا کہا گیا اور گالیاں دی گئیں تم اس مجلس میں کیوں بیٹھے رہے ؟ اور کیوں نہ فوراً اٹھ کر باہر چلے آئے؟تمہاری غیرت نے کس طرح برداشت کیا کہ تمہارے آقا کو گالیاں دی گئیں اور تم خاموش بیٹھے سنتے رہے ؟اور پھر آپ نے بڑے جوش کے ساتھ یہ قرآنی آیت پڑھی کہ
اِذَا سَمِعْتُمْ اٰیٰتِ اللّٰہِ یُکْفَرُ بِھَا وَیُسْتَھْزَأُ بِھَا فَلَا تَقْعُدُوْا مَعَھُمْ حَتیّٰ یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِہٖ۔ : یعنی اے مومنو! جب تم سنو کہ خد اکی آیات کا دل آزار رنگ میں کفر کیا جاتا اور ان پر ہنسی اڑائی جاتی ہے تو تم ایسی مجلس سے فوراً اٹھ جایا کرو تا وقتیکہ یہ لوگ کسی مہذبانہ انداز گفتگو کو اختیار کریں۔ (سورہ نسآء)
اس مجلس میں حضرت مولوی نور الدین صاحب (خلیفہ اوّل) بھی موجود تھے اور وہ حضرت مسیح موعود کے ان الفاظ پر ندامت کے ساتھ سر نیچے ڈالے بیٹھے رہے۔ بلکہ حضرت مسیح موعود کے اس غیورانہ کلام سے ساری مجلس ہی شرم وندامت سے کٹی جارہی تھی‘‘ (سیرت طیبہ ص۳۱تا۳۳ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔ اے اپریل ۱۹۶۰ء)
نور کی مشکیں
حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود فرماتے ہیں:۔
’’ایک رات اس عاجز نے اس کثرت سے درود شریف پڑھا کہ دل وجان اس سے معطر ہوگیا ۔اسی رات خواب میں دیکھا کہ فرشتے آب زلال کی شکل پر نور کی مشکیں اس عاجز کے مکان میں لئے آتے ہیں اور ایک نے ان میں سے کہا یہ وہی برکات ہیں جو تو نے محمد کی طرف بھیجی تھیں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ (براہین احمدیہ۔ روحانی خزائن جلد اوّل ص ۵۹۸)
اے میرے آسمانی آقا! اس ابتلاء عظیم سے نجات بخش
’’مخالفین نے ہمارے رسول ﷺ کے خلاف بیشمار بہتان گھڑے ہیں اور اپنے اس دجل کے ذریعہ ایک خلقِ کثیر کو گمراہ کر کے رکھ دیا ہے۔ میرے دل کو کسی چیز نے کبھی اتنا دکھ نہیں پہنچایا جتنا کہ ان لوگوں کے اس ہنسی ٹھٹھا نے پہنچایا ہے جو وہ ہمارے رسول پاک ﷺ کی شان میں کرتے رہتے ہیں ۔ان کے دلآزار طعن وتشنیع نے جو وہ حضرت خیر البشر ﷺ کی ذاتِ والا صفات کے خلاف کرتے ہیں میرے دل کو سخت زخمی کر رکھا ہے خدا کی قسم اگر میری ساری اولاد اور اولاد کی اولاد اور میرے سارے دوست اور میرے سارے معاون ومدد گار میری آنکھوں کے سامنے قتل کر دئیے جائیں اور خود میرے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دئیے جائیں اور میری آنکھ کی پتلی نکال پھینکی جائے اور میں اپنی تمام مرادوں سے محروم کر دیا جاؤں اور اپنی تمام خوشیوں اور تمام آسائشوںکو کھو بیٹھوں تو ان ساری باتوں کے مقابل پر بھی میرے لئے یہ صدمہ زیادہ بھاری ہے کہ رسول اکرم ﷺ پر ایسے ناپاک حملے کئے جائیں ۔پس اے میرے آسمانی آقا تو ہم پر اپنی رحمت اور نصرت کی نظر فرما اور ہمیں اس ابتلاء ِعظیم سے نجات بخش‘‘ (ترجمہ عربی عبارت آئینہ کمالات اسلام ۔روحانی خزائن جلد۵ ص۱۵ )
لفظی تحریف قرآن کے الزام کی تردید
آجکل سوشل میڈیا پر احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیز مہم میں الزام تراشیوں کا ایک سلسلہ، یعنی پ…