صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام از صحف سابقہ
نبی کی پہلی زندگی نبی کی صداقت پر دلیل :
۔ الف۔ ’’وہ نبی جو ایسی گستاخی کرے کہ کوئی بات میرے نام سے کہے جس کے کہنے کا میں نے اسے حکم نہیں دیا یا اور معبودوں کے نام سے کہے تو وہ نبی قتل کیا جائے۔‘‘(استثنا ۱۸/۲۰)
ب۔’’خداوند یوں کہتا ہے کہ ان نبیوں کی بابت جو میرا نام لے کر نبوت کرتے ہیں۔جنہیں میں نے نہیں بھیجا…………یہ نبی تلوار اور کال سے ہلاک کئے جائیں گے۔‘‘ (یرمیاہ :۱۴تا۱۴/۱۶)
ج۔’’اور وہ جھوٹا نبی یا خواب دیکھنے والا قتل کیا جائے گا۔‘‘ (استثنا: ۱۳/۵)
د۔’’اور میرا ہاتھ ان نبیوں پر جو دھوکہ دیتے ہیں اور جھوٹی غیب دانی کرتے ہیں چلے گا……میں اپنے غضب کے طوفان سے اسے توڑوں گااور میرے قہر سے چھما چھم مینہ برسے گا اور میرے خشم کے پتھر پڑیں گے تاکہ اسے نابود کریں۔‘‘ (حزقی ایل باب ۱۳ آیت ۹ تا ۱۳)
ھ۔چنانچہ انجیل اعمال ۳۶،۵/۳۷ میں دو جھوٹے نبیوں کا ذکر بھی ہے جو مارے گئے اور ان کے متبعین تتر بتر ہو گئے۔پہلے کا نام تھیو داس اور دوسرے کا نام یہودہ گلیلی تھا۔
دوسری دلیل: یسوع کہتا ہے۔’’تم میں کون مجھ پرگناہ ثابت کر سکتا ہے۔‘‘(یوحنا ۸/۴۶) نیز یوحنا ۱۴/۱۹ ’’میں اتنی مدت سے تمہارے ساتھ ہوں۔‘‘
حضرت مرزا صاحب:۔ ’’ کون تم میں ہے جو میری سوانح زندگی میں کوئی نکتہ چینی کر سکتا ہے۔ ‘‘
(تذکرۃ الشہادتین۔ روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ ۶۴)
سچے نبی کو قبولیت دعا کا نشان عطا ہوتا ہے :
قبولیت دعا:۔ ’’جو دعا ایمان کے ساتھ ہو گی اس کے باعث بیمار بچ جائے گا اور خداوند اسے اٹھا کھڑا کرے گا۔اور اگر اس نے گناہ کئے ہوں تو ان کی بھی معافی ہوجائے گی۔ پس تم آپس میں ایک دوسرے سے اپنے اپنے گناہوں کا اقرار کرو۔ اور ایک دوسرے کے لیے دعا مانگو تاکہ شفا پاؤ۔ راستباز کی دعا کے اثر سے بہت کچھ ہو سکتا ہے۔‘‘(یعقوب ۱۵تا۵/۱۷ و یوحنا ۹/۳۱)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
’’ میں کثرت قبولیت دعا کا نشان دیا گیا ہوں۔ کوئی نہیں کہ جو اس کا مقابلہ کر سکے۔ میں حلفاًکہہ سکتا ہوں کہ میری دعائیں تیس ہزار کے قریب قبول ہو چکی ہیں اور ان کا میرے پاس ثبوت ہے۔‘‘
(ضرورۃ الامام۔ روحانی خزائن جلد۱۳ صفحہ ۴۹۷)
مثالیں:عبد الکریم، عبد الرحیم ابن نواب محمد علی خان صاحبؓ، و عبد الحی صاحبزادہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اﷲ عنہ
جھوٹا نبی قتل کیا جائے گا ۔ اس کا کاروبار نیست و نابود ہو جائے گا۔ کبھی نصرت نہیں ملتی درِ مولیٰ سے گندوں کو
وَ لَوۡ تَقَوَّلَ عَلَیۡنَا بَعۡضَ الۡاَقَاوِیۡلِ ﴿ۙ۴۵﴾ لَاَخَذۡنَا مِنۡہُ بِالۡیَمِیۡنِ ﴿ۙ۴۶﴾ ثُمَّ لَقَطَعۡنَا مِنۡہُ الۡوَتِیۡنَ ﴿۫ۖ۴۷﴾ فَمَا مِنۡکُمۡ مِّنۡ اَحَدٍ عَنۡہُ حٰجِزِیۡنَ ﴿۴۸﴾ (سورۃ الحاقۃ )
ترجمہ: اور اگر وہ بعض باتیں جھوٹے طور پر ہماری طرف منسوب کر دیتا ۔ تو ہم اُسے ضرور داہنے ہاتھ سے پکڑ لیتے۔ پھر ہم یقیناً اُس کی رگ جان کاٹ ڈالتے۔ پھر تم میں سے کوئی ایک بھی اُس سے (ہمیں) روکنے والا نہ ہوتا۔
(ا)پولوس رسول کہتا ہے:۔ ’’کیونکہ یہ تدبیر کا کام اگر آدمیوں کی طرف سے ہوا تو آپ برباد ہوجائے گالیکن اگر خدا کی طرف سے ہے تو تم ان لوگوں کو مغلوب نہ کر سکو گے۔‘‘(اعمال ۵/۳۹)
(ب)’’جو پودا خدا نے نہیں لگایا۔وہ جڑ سے اکھاڑا جائے گا۔‘‘
(متی ۱۵/۱۳ و زبور ۱۵تا۳۴/۲۰ و امثال۱۲/۲۱ و یسعیاہ۹/۱۴)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام
یہ اگر انساں کا ہوتا کاروبار اے ناقصاں
ایسے کاذب کے لئے کافی تھا وہ پروردگار
کچھ نہ تھی حاجت تمہاری نے تمہارے مکر کی
خود مجھے نابود کرتا وہ جہاں کا شہریار
(براہین احمدیہ حصہ پنجم ۔ روحانی خزائن جلد۲۱ صفحہ ۱۳۴)
زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعیین :
دانیال نبی کہتا ہے:۔
’’جس وقت سے دائمی قربانی موقوف کی جائے گی اور وہ مکروہ چیز جو خراب کرتی ہے قائم کی جائے گی۔ایک ہزار دو سو نوے دن ہوں گے۔ مبارک وہ جو انتظار کرتا ہے۔ ۱۳۳۵ روز تک آتا ہے۔‘‘
( دانیال ۱۱،۱۲/۱۲)
چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۹۰ھ ہی میں مبعوث ہوئے۔
’’یہ عجیب امر ہے اور میں اس کو خدا تعالیٰ کا ایک نشان سمجھتا ہوں کہ ٹھیک بارہ سو نوے 1290 ھ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ عاجز شرف مکالمہ و مخاطبہ پا چکا تھا۔‘‘ (حقیقۃ الوحی۔روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۲۰۸)
’’مسیح موعود مشرق سے آئے گا اور مغرب کی طرف بجلی کی طرح اس کی تبلیغ پہنچے گی۔‘‘ (متی ۲۴/۲۷)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
’’خدا نے محض اپنے فضل سے نہ میرے کسی ہنر سے مجھے چُن لیا۔ میں گمنام تھا مجھے شہرت دی اور اس قدر جلد شہرت دی کہ جیسا کہ بجلی ایک طرف سے دوسری طرف اپنی چمکار ظاہرکر دیتی ہے‘‘
(حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۳۴۷)
چاند سورج گرہن :
(۱)ستارے گریں گے اور چاند اور سورج تاریک ہو جائیں گے۔‘‘ (متی ۲۴/۲۹)
(۲) ’’چاند، سورج اور ستاروں میں نشان ظاہر ہوں گے۔‘‘ (لوقا۲۱/۲۵)
یہ چاند اور سورج گرہن ۱۸۹۴ء بمطابق رمضان ۱۳۱۱ھ میں ظاہر ہوا۔
طاعون کا نشان ؛۔
لڑائیاں ہوں گی، بھونچال آئیں گے اور مری پڑے گی۔(طاعون) (لوقا۲۱/۱۱ و زکریا ۱۴/۱۲)
چنانچہ بائیبل انگریزی زکریا ۱۴/۱۲ میں تو لفظ پلیگ ’’PLAGUE‘‘ بھی موجود ہے۔ ۱۸۸۲ء میں یہ طاعون بھی پڑی۔
تو نے طاعوں کو بھی بھیجا میری نصرت کے لیے تا وہ پورے ہوں نشاں جو ہیں سچّائی کا مدار
درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے :۔
یسوع نے جھوٹے اور سچے نبی میں امتیاز یہ بتایا ہے:۔
’’درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے۔‘‘
(متی ۱۶تا۷/۲۰ و لوقا۴۴،۶/۴۵ و متی ۱۲/۳۳ و یوحنا۱۶تا۱۵/۲۷)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کی عملی حالت دیکھو۔
نبی ہی غالب آتے ہیں۔
’’میں نے یہ باتیں تم سے اس لیے کہیں کہ تم مجھ میں اطمینان پاؤ۔دنیا میں مصیبت اٹھاتے ہو لیکن خاطر جمع رکھو میں دنیا پر غالب آیا ہوں۔‘‘(یوحنا۱۶/۳۳) نیز ۱۔یوحنا۵/۴۔قرآن مجید میں بھی ہے۔(المجادلۃ:۲۲)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
’’ٹھٹھا کرو جس قدر چاہو، گالیاں دو جس قدر چاہو اور ایذا اور تکلیف دہی کے منصوبے سوچو جس قدر چاہو۔ اور میرے استیصال کے لئے ہر ایک قسم کی تدبیریں اور مکر سوچو جس قدر چاہو پھر یاد رکھو کہ عنقریب خدا تمہیں دکھلادے گا کہ اُس کا ہاتھ غالب ہے‘‘(اربعین نمبر۳۔ روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ۴۰۳،۴۰۴)
انبیاء کی جما عتیں تدریجاً ترقی کرتی ہیں۔ ’’دیکھو جہان اس کا پیرو ہو چلا۔‘‘(یوحنا ۱۲/۱۹)جماعت احمدیہ کی تدریجی ترقی کو دیکھو۔