امکا ن نبوّت ۔ قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں

قرآن کریم  کے مختلف مقامات پربڑی وضاحت سے امت محمدیہ میں نبوت کے امکان کا ذکر ہوا ہے۔ ان میں سے چند آیات درج ذیل ہیں:۔

دلیل نمبر 1:

اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے:۔

وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فاُوْلٰئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِنَ النَّبِیِیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَآءوَالصّٰلِحِیْنَ وَحَسُنَ اُوْلٰئِکَ رَفِیْقاً۔                                            (ا لنساء ۷۰)

یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (محمد مصطفی  ﷺ) کی اطاعت کریں پس وہ ان کے ساتھ شامل ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا ہے یعنی نبی صدیق شہید اور صالح اور یہ ان کے اچھے ساتھی ہیں ۔

اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ آنحضرت  ﷺ کی پیروی سے ایک انسان صالحیت کے مقام سے ترقی کر کے نبوت کے مقام تک پہنچ سکتا ہے اگر آیت کے یہ معنے کئے جائیں کہ خدا تعالیٰ اور رسول اللہ  ﷺ کی اطاعت کرنے والے صرف ظاہری طور پر نبیوں کے ساتھ ہوں گے نبی نہیں ہوں گے تو یہی تشریح دوسرے تین مدارج کے بارے میں بھی کرناپڑے گی اور آنحضرت  ﷺ کے پیرو صرف بظاہر صدیقوں  ،شہیدوں اور صالحین کے ساتھ ہوں گے خود صدیق،شہیداور صالح نہیں ہوں گے۔یہ تشریح صحیح نہیں کیونکہ یہ معنی آنحضرت  ﷺکی شانِ بزرگ کے صریح منافی ہیں کہ ان کی پیروی سے کوئی شخص صدیق شہید اور صالح بھی نہیں ہو سکتا بلکہ صرف ظاہری طور پر ان کے ساتھ ہوگا حالانکہ امت محمدیہ کے اطاعت کرنے والوں کا اس دنیا میں زمانی اور مکانی طور پر پہلے انعام یافتہ لوگوں کے ساتھ ہونا امر محال ہے اور آیت فاولٰٓئک مع الذین انعم اللہ علیھم جملہ اسمیہ ہے جو استمرار پر دلالت کرتا ہے یعنی اس دنیا میں ان کے ساتھ ہونا بھی ثابت کرتا ہے پس اس دنیا میں ساتھ ہونے میں مرتبہ پانا ہی مراد ہو سکتا ہے۔

ہمارے انہی معنوں کی تائیدامام راغب علیہ الرحمۃ کی تفسیر سے بھی ہو تی ہے ۔تفسیر بحر المحیط میں لکھا ہے :۔

والظاھر ان قولہ من النبیین تفسیرٌ للذین انعم اللہ علیھم فکانہٗ قیل من یطع اللہ والرسول منکم الحقہٗ اللہ بالذین تقدمھم ممن انعم اللہ علیھم قال الراغب ممن انعم اللہ علیھم من الفِرَقِ الاربع فی المنزلۃ والثواب النبی بالنبی ِ والصدیق بالصدیق والشہید بالشہید والصالح بالصالح۔

(تفسیر بحر محیط زیر آیت سورۃ نساء۶۹)

ترجمہ:۔ یہ ظاہر ہے کہ اللہ تعالی کا قول ’’من النبیین‘‘ ’’الذین انعم اللہ علیھم‘‘ کی تفسیر ہے ۔گویا یہ کہا گیا ہے کہ جو تم میں سے اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا اللہ تعالیٰ اسے ان انعام یافتہ لوگوں سے ملا دیگا جو ان سے پہلے گذر چکے ہیں ۔راغب نے کہا ہے یعنی ان چار گروہوں کے ساتھ درجہ اور ثواب میں شامل کر دے گا جن پر اس نے انعام کیا ہے۔اس طرح کہ جو تم سے نبی ہوگااس کو نبی کے ساتھ ملا دے گا اور جو صدیق ہوگا اس کو صدیق کے ساتھ ملا دے گا اور شہید کو شہید کے ساتھ ملا دے گا اور صالح کو صالح کے ساتھ ملا دے گا ۔

اس عبارت میں امام راغب علیہ الرحمۃ نے’’النبی بالنبی‘‘کہہ کر ظاہر کر دیا ہے  کہ اس امت کا نبی گذشتہ انبیاء کے ساتھ شامل ہو جائے گا جس طرح اس امت کے صدیق گذشتہ صدیقوں اور اس امت کے شہید گزشتہ شہیدوں اور اس امت کے صالح گذشتہ صالحین کے ساتھ شامل ہوں گے۔ گویا ان کی تفسیر کے مطابق امت محمدیہ کے لئے آنحضرت  ﷺ کی اتباع میں نبوت کا دروازہ کھلا ہے ۔ورنہ وہ کون سے نبی ہوں گے جو امام راغب علیہ الرحمۃ کی اس تفسیر کے مطابق انبیاء کی صف میں شامل ہوں گے؟

امام راغب ؒ اپنی کتاب المفردات فی غریب القراٰن میں لکھتے ہیں:۔

’’مع یقتضی الاجتماع اما فی المکان نحوھما  معاً فی الدارا وْفی الزمان نحو ولد معاً او فی المعنی کالمتضایفین نحوالاخ والاب فان احدھما صارا خاً للاٰخر  فی حال ما صارا لاخر  اخاہ واما فی الشرف والرتبۃ  نحوھما معاًفی العلو‘‘               (المفردات زیر لفظ مع )

کہ لفظ مع  اجتماع کا متقاضی ہے اور یہ اجتماع چار طرح سے ہوسکتا ہے۔(۱)دونوں ایک مکان میں اکٹھے ہوں (۲)دونوں ایک زمانہ میں اکٹھے ہوں(۳) دونوں ایک اضافی معنی میں شریک ہوں (۴) دونوں ایک درجہ اور مرتبہ میں یکساں ہوں‘‘

ظاہر ہے کہ امت محمدیہ کے لئے سابق نبیوںؔ،صدیقوںؔ،شہیدوںؔاور صالحینؔ کے ساتھ زمانی اور مکانی معیت حاصل نہیں تھی ۔سابق منعم علیھم لوگوں کے ساتھ امت محمدیہ کی معیت صرف درجہ اور مرتبہ میں یکسانیت والی ہی ہو سکتی ہے ۔اسی قسم کی معیت آیت قرآنی وَتَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ(آل عمران:۱۹۴) میں بھی مراد ہے ۔کیونکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ ہمیں نیک ہونے کی صورت میں موت دیجیو ٔ۔یہ معنے ہر گز نہیں کہ جب کوئی نیک مرنے لگے تو ہماری بھی روح قبض کر لیجیئو ۔چونکہ آیت ومن یطع اللہ والرسول میں خیر امت کے مراتب اور مناقب کا ذکر ہے ،اس فضل کا بیان ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لئے مقرر فرمایا ہے اسلئے اس جگہ اشتراک رتبہ کے معنے ہی ہو سکتے ہیں ۔اگر کہو کہ نبی کوئی نہیں بن سکتا تو یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ امت میں سے کسی کے صالح ،شہید اور صدیق  بننے کا بھی امکان نہیں کیونکہ مع کا لفظ تو سب کے ساتھ ہے۔ہم تسلیم کرتے ہیں کہ مع کے موقع کے لحاظ سے مختلف معنے ہوتے ہیں اور قرآن مجید میں بھی یہ لفظ مختلف معنوں میں آیا ہے جس سے بعض لوگوں کو غلطی لگ جاتی ہے لیکن لفظ مع لغت اور آیات کے رو سے اشتراک فی الرتبہ کے معنی بھی رکھتا ہے اور آیت زیر نظر میں اس معنی کے سوا کوئی معنے چسپاں نہیں ہوسکتے ۔

 

دلیل نمبر 2:

یٰبَنِیْ اٰدَمَ اِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ رُسُلٌ مِنْکُمْ یَقُصُّوْنَ عَلَیْکُمْ اٰیٰتِیْ فَمَنِ اتَّقیٰ وَاَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ۔                               (الاعراف۔۳۶)

یعنی اے بنی آدم !جب کبھی آئندہ تم میں سے تمہارے پاس رسول آئیں گے جو تم پر میری آیات بیان کریں تو جو لوگ تقویٰ اختیار کر کے اپنی اصلاح کر لیں گے ان پر کوئی خوف اور غم نہیں ہوگا ۔

اس آیت کے سیاق میں خدا تعالیٰ نے آنحضرت  ﷺ کے ذریعہ سے بنی نوع انسان کو قل کہہ کر کئی ہدایات دلائی ہیں اور اسی سلسلہ میں تمام نوع انسانی کو خطاب کر کے فرمایا ہے کہ آئیندہ جب بھی تم میں سے رسول تمہارے پاس آئیں تو تقویٰ اختیار کر کے اصلاح کرنے والے ہی کامیاب ہوں گے۔

اس سے ایک پہلی آیت میں ہے یا بنی اٰدم خذوا زینتکم عند کل مسجدٍ۔ کہ اے بنی آد م ہر مسجد کے قریب زینت اختیار کرو ۔عرب کے لوگ خانہ کعبہ کا ننگے بدن طواف کرتے تھے اس لئے یہ آیت نازل ہوئی ۔امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ اس کی تفسیر فرماتے ہیں:۔

فانہٗ خطابٌ لاھل ذٰلک الزمان ولکل من بعدھم            (تفسیر اتقان جلد۲ ص۳۴الناشر سہیل اکیڈمی کاروان پریس لاہور)

یعنی اے بنی آدم کے الفاظ سے یہ خطاب اس زمانہ اور بعدکے لوگوں سے ہے۔

پس زیر بحث آیت میں بھی بنی آدم کے الفاظ میں تمام بنی نوع انسان کو خطاب کر کے ان میں رسولوں کے بھیجے جانے کی پیشگوئی اور انہیں قبول کرنے کی ہدایت دی گئی ہے ۔علامہ بیضاوی اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں:۔

اتیان الرسل امرٌ جائزٌ غیر واجبٍ                               (تفسیر بیضاوی الاعراف زیر آیت۳۵)

کہ رسولوں کا آنا جائز یعنی ممکن ہے واجب یعنی ضروری نہیں ۔

 

دلیل نمبر 3:

اللہ تعالیٰ اپنی سنت مستمرہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:۔

اَللّٰہُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلَا ئِکَۃِ رُسُلاً وَّمِنَ النَّاسِ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ م بَصِیْرٌ (الحج: ۷۶)

کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں میں سے بھی اور انسانوں میں سے بھی رسول منتخب کرتا ہے اور کرتا رہے گا ۔کیونکہ وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔

پس اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی سنت مذکور ہے کہ وہ فرشتوں اور انسانوں میں سے رسول منتخب فرماتا رہتا ہے۔دوسری جگہ فرماتا ہے وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلاً ۔کہ خدا تعالیٰ کی سنت میں تبدیلی نہیں ہے ۔فرشتوں کا بھیجا جانا آج بھی سب مسلمانوں کو مسلّم ہے مگر تعجب ہے کہ وہ انسانوں میں سے کسی کے رسول بنائے جانے پر اعتراض کر رہے ہیں ۔

 

دلیل نمبر 4:

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَاالضَّآلِیْنَ (سورۃالفاتحہ)

اے اللہ !تو ہمیں صراط مستقیم کی طرف رہنمائی فرما اور ان لوگوں کے راستہ پر چلا جن پر تو نے انعام فرمایا ہے۔ ان کی راہ سے بچا جو مغضوب علیہم تھے یا گمراہ اور ضالین تھے۔

اس آیت میں امت محمدیہ کو مغضوب علیہم اور ضالین کی راہ سے بچنے اور منعم علیہم کی راہ پر چلنے کی دعا سکھلای گئی ہے۔ احادیث میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا قول مروی ہے کہ مغضوب علیہم سے مراد یہود ہیں اور ضالین سے مراد نصاریٰ ہیں۔یعنی جب ان دونوں پر روحانی زوال آیا تو وہ مغضوب علیہم ضالین بن گئے ورنہ پہلے وہ انعام پانے والے تھے۔اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے  وَاِذْ قَالَ مُوْسیٰ لِقَوْمِہٖ یَا قَوْمِ اذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ  اِذْ جَعَلَ فِیْکُمْ اَنْبِیَآئَ وَجَعَلَکُمْ مُّلُوْکاً (المائدہ :۲۱)کہ موسیٰؑ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ اے میری قوم!اللہ تعالیٰ کے اس انعام کو یاد کرو کہ اس نے تم میں انبیاء پیدا کئے اور اس نے تمہیں بادشاہت عطا کی۔

دونوں آیتوں پر یکجائی نظر کرنے سے صاف کھل جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صراط الذین انعمت علیہم  کی خود تعلیم کردہ دعا میں دراصل مسلمانوں کو بشارت دی ہے کہ تم پر بھی بادشاہت اور نبوت کا انعام جاری رہے گا کیونکہ یہ دونوں قومی انعام ہیں اور اب تم کو اللہ تعالیٰ نے منعم علیہم بنانے کا فیصلہ فرمایا ہے تم خیر امت ہو اور حضرت خیرالرسل کے ماننے والے ہو اس لئے اب تم کو ہی یہ انعام ملتا رہے گا ۔البتہ دعا کرتے رہو کہ خدایا ہمیں منعم علیہم بننے کے بعد پھر کبھی یہود ونصاریٰ کی طرح مغضوب علیہم یا ضالین نہ بنائیو۔

 

دلیل نمبر 5:

وَاِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ النَّبِیِّینَ لَمَآ اٰتَیْتُکُمْ مِّنْ کِتَابٍ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآئَکُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُوْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرُنَّہٗ قَالَ ئَ اَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰی ذٰلِکُمْ اِصْرِیْ قَالُوْا اَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْہَدُوْ ا وَاَنَا مَعَکُمْ مِنَ الشّٰہِدِیْنَ۔                                (آل عمران:۸۲)

ترجمہ:۔یاد کرو جب اللہ تعالیٰ نے نبیوں سے یہ پختہ عہدلیا کہ میں نے ہی تم کو کتاب اور حکمت دی ہے۔ پس اگر کوئی رسول تمہاری تعلیمات کا مصدق تمہارے پاس آئے تو اس پر ضرور ایمان لانا اور اس کی ضرور نصرت کرنا۔فرمایا کیا تم اقرار کرتے ہو اور اس پر میرے عہد کو قبول کرتے ہو ۔انہوں نے کہا ہاں ہم اقرار کرتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں ‘‘

اس آیت میں نبیوں سے عہد لینے کا ذکر ہے ۔مراد یہی ہے کہ ہر نبی کے ذریعہ اس کی امت سے اقرار لیا گیا کہ آنے والے پیغمبرپر ایمان لائے اور اس کی تائید ونصرت کرے۔اس آیت میں’’رسول مصدق لما معکم‘‘ سے مطلق طور پرہر آنے والا رسول مراد ہے اور اس طرح یہ آیت صریح طور پر دلالت کرتی ہے کہ ہر نبی کے بعد نبی کا آنا ممکن ہے اور یہ سلسلہ رہتی دنیا تک جاری رہے گا ۔

ہاں اس آیت میں ’’رسول مصدق لما معکم‘‘ میں تنکیر کو تفخیم شان کے لئے بھی قرار دیا جا سکتا ہے ۔اور معنے یہ ہوں گے کہ اس میں سب سے بڑے پیغمبر حضرت محمد  مصطفیٰ ﷺ کی پیشگوئی ہے سب امتیں آپ پر ایمان لانے کی مکلف ہیں ۔آپ کے بعد کے انبیاء آپ کے اظلال ہیں وہ اس صورت میں آپؐ کے وجود باجود میں ہی شامل ہوں گے ۔اس صورت میں یہ بات بالکل واضح ہو جائے گی کہ آنحضرت ؐ جملہ نبیوں کے مصدق ہیں جنہیں دوسری جگہ خاتم النبیین قرار دیا گیا ہے ۔گویا قرآن مجید سے متعین ہو گیا کہ خاتم النبیین کے معنے مصدق النبیین  کے ہیں وھوالمراد۔

 

وَاِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِیّٖنَ مِیْثَاقَھُمْ وَمِنْکَ وَمِنْ نُّوْحٍ وَاِبْرَاہِیْمَ وَمُوْسیٰ وَعِیْسیٰ بْنِ مَرْیَمَ وَاَخَذْنَا مِنْھُمْ مِّیْثَاقاً غَلِیْظاً۔ لِیَسْئَلَ الصَّادِقِیْنَ عَنْ صِدْقِھِمْ وَاَعَدَّ  لِلْکافِرِیْنَ عَذَاباً اَلِیْماً                                          (احزاب:۸۔۹)

ترجمہ:۔یاد کرو جب ہم نے نبیوں سے ان کا پختہ عہد لیا اور تجھ سے بھی ۔نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ بن مریم علیہم السلام سے بھی ۔ہم نے سب سے مضبوط عہد لیا تاکہ اللہ تعالیٰ صادقوں سے ان کی سچائی کے بارے میں دریافت کرے ۔اس نے کافروں کے لئے دردناک عذاب تیار کیا ہے۔

اس آیت میں صراحت سے فرمایا ہے کہ جن انبیاء سے میثاق لیا گیا ان میں آنحضرت  ﷺ بھی شامل ہیں ۔سورہ آل عمران والی آیت کو ساتھ ملا کر تدبر کیا جائے تو واضح ہو جاتاہے کہ قرآن مجید کے ذریعہ بھی یہ عہد لیا گیا ہے کہ مسلمان آنے والے نبیوں پر ایمان لاتے رہیں۔ورنہ سورہ احزاب کی آیت میں ’’ومنک‘‘ کے الفاظ بے معنی قرار پاتے ہیں مشہور تفسیر حسینی میں اس کے معنے یوں لکھے ہیں:۔

’’واذاخذنا ۔یادرکھو کہ لیا ہم نے من النبیین نبیوں سے میثاقھم عہد ان کا اس بات پرکہ خدا کی عبادت کریں اور خدا کی عبادت کی طرف بلائیں اور ایک دوسرے کی تصدیق کریں۔یا ہر ایک کو بشارت دیں اس پیغمبر کی کہ ان کے بعد ہوگا ۔اور یہ عہد پیغمبروں سے روز الست میں لیا گیا ۔ومنک اور لیا ہم نے تجھ سے بھی عہد اے محمدؐ  ‘‘

(تفسیر حسینی اردو سورۃ احزاب زیر آیت ۷۔۸)

 

دلیل نمبر 6:مَاکَانَ اللّٰہُ لِیَذَرَ الْمُؤْ مِنِیْنَ عَلٰی مَآ اَنْتُمْ عَلَیْہِ حَتیّٰ یَمِیْزَ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُطْلِعَکُمْ عَلَی الْغَیْبِ وَلٰکِنَ اللّٰہَ یَجْتَبِیْ مِنْ رُّسُلِہٖ مَنْ یَّشَآئُ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرُسُلِہٖ وَاِنْ تُؤمِنُوْا وَتَتَّقُوْا فَلَکُمْ اَجْرٌ عَظِیْمٌ .                               (آل عمران :۱۸۰)

ترجمہ:۔اللہ تعالیٰ کے شایان شان نہیں کہ وہ مومنوں کو اسی حالت پر چھوڑ دے جس پر تم ہو۔بلکہ وہ طیب و خبیث میں امتیاز کرتا رہے گا مگر وہ تم کو (براہ راست )غیب پر مطلع نہ کرے گا لیکن وہ جس کو چاہے گا اپنے رسولوں کے طور پر منتخب کرے گا ۔تم اے مسلمانو!اللہ اور اس کے سب رسولوں پر ایمان لاؤ۔اگر تم ایمان لاؤ گے اور تقویٰ اختیار کرو گے تو تمہارے لئے بہت بڑا اجر ہوگا‘‘

قارئین کرام! اس آیت میں خطاب صحابہ رضی اللہ عنہم اور ساری امت مسلمہ سے ہے ۔پہلی قوموں سے نہیں مسلمانوں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ وعدہ فرماتا ہے کہ وہ خبیث اور طیب میں امتیاز کرے گا لیکن اس کے لئے یہ صورت نہ ہوگی کہ براہ راست ہر شخص کو یہ غیبی بات بتائی جائے کہ کون طیب ہے اور کون نہیں۔بلکہ اللہ تعالیٰ اس امتیاز کے لئے یہ طریق اختیار فرمائے گا کہ وہ اپنے برگزیدہ رسول مبعوث کرتا رہے گا ۔اس وعدہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تاکید فرمائی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سب رسولوں پر ایمان لائیں ۔ایمان لانے اور تقویٰ اختیار کرنے کی صورت میں انہیں اجر عظیم ملے گا۔

یہ گویا آنحضرت  ﷺکے بعد کے امتی نبیوں پر ایمان لانے کا میثاق ہے۔ کیونکہ آنحضرت ؐ کے بعد صرف آپ کی اطاعت کرنے والے اور آپؐ  کی شریعت کا نفاذ کرنے والے انبیاء ہی آسکتے ہیں جیسا کہ دوسری نص وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ سے بالبداہت  ثابت ہے۔

 

ماخوذ :القول المبین فی تفسیر خاتم النبین۔از مولانا ابو العطاء جالندھری صاحب

ختم نبوت پر علمی تبصرہ۔ از قاضی محمد نذیر صاحب فاضل

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

امکا ن نبوت ۔ قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں

قرآن کریم کے مختلف مقامات پربڑی وضاحت سے امت محمدیہ میں نبوت کے امکان کا ذکر ہوا ہے۔ ان م…