اعتراض: مرزا صاحب نے مسلمانوں کو ذریۃ البغایا کہا ہے
اعتراض اٹھایا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے دعاوی کو ماننے والوں کو مسلمان جبکہ نہ ماننے والوں کو ذریۃ البغایا کہا ہے ۔
معترضہ عبارت
معترضہ عبارت :۔
تِلْکَ کُتُبٌ یَنْظُرُ اِلَیْھَا کُلُّ مُسْلِمٍ بِعَیْنِ الْمَحَبَّۃِ وَالْمَوَدَّۃِ وَ یَنْتَفِعُ مِنْ مَعَارِفِھَا وَ یَقْبَلُنِیْ وَ یُصَدِّقُ دَعْوَتِیْ اِلَّا ذُرِّیَّۃَ الْبَغَایَا الَّذِیْنَ خَتَمَ اللہُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ فَھُمْ لَا یَقْبَلُوْنَ۔
(آئینہ کمالات اسلام۔ روحانی خزائن جلد 5صفحہ 547تا548)
ترجمہ :۔ یہ وہ کتب ہیں جن کو ہر مسلمان محبت و احسان کی نظر سے دیکھتا ہے ۔اور ان کتب کے معارف سے مستفید ہوتا ہے اور مجھے قبول کرتا ہےاور میری دعوت کی تصدیق کرتا ہےسوائے ذریۃ البغایا کے جن کے دلوں پر اللہ نے مہر کر دی ہے پس وہ مجھے قبول نہیں کرتے۔
اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے دو پہلومد نظر رکھنے پڑیں گے۔
1۔ اول یہ کہ “ذریۃ البغایا “کامطلب کیا ہے ؟
2۔ دوسرا یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ذریۃ البغایا کس کو کہا ہے ؟
ذریۃ البغایا کا مطلب
(ا) سب سے پہلے ہم اس کا وہ معنی درج کرتےہیں جو خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دوسرے موقع پر “ابن البغاء”جو ذریۃ البغایا سے ملتا جلتا لفظ ہے ، کا بیان فرمایا ہے ۔ چنانچہ آپؑ سعد اللہ لدھیانوی کے بارے میں لکھتے ہیں :۔
“مَیں نے اپنے قصیدہ انجام ِ آتھم میں اسکے متعلق لکھا تھا :۔
اٰذَیْتَنِیْ خُبْثًا فَلَسْتُ بِصَادِقٍ اِنْ لَّمْ تَمُتْ بِالْخِزْیِ یَا بْنَ الْبِغَاءِ
یعنی خباثت سے تُو نے مجھے ایذاء دی ہے ۔ پس اگر تُو اب رسوائی سے ہلاک نہ ہوا تو مَیں اپنے دعویٰ میں سچا نہ ٹھہرونگا اے سر کش انسان!”
(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 155)
(ب) لسان العرب عربی زبان کی مشہور لغت ہے ۔ اس میں لکھا ہے اَلْبَغِیَّۃُ فِی الْوَلَدِ نَقِیْضُ الرُّشْدِ وَ یُقَالُ ھُوَ ابْنُ بَغِیَّۃٍ
(لسان العرب۔جلد14صفحہ 78)
کہ کسی کو یہ کہنا کہ وہ ابن بغیہ ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے وہ ہدایت سے دور ہے کیونکہ لفظ”بغیہ”‘رشد’یعنی صلاحیت کا مخالف ہے ۔ گویا ذُریۃ البغایا کا ترجمہ ہو گا “ہدایت سے دور”۔
(ج) تاج العروس میں “بغایا “کا معنی یہ مذکور ہے : والبَغايا: الطِّلائِعُ الَّتِي تكونُ قبلَ وُرودِ الجَيْشِ۔
(تاج العروس۔جلد37صفحہ 188)
یعنی ایسےفوجی دستےجو کسی لشکر کے جانے سے پہلے پہنچتے ہیں۔انکو “بغایا “کہا جاتا ہے۔اس لحاظ سے “ذریۃ البغایا”کا یہ معنی بھی ہو سکتا ہے کہ ایسے لوگ جو لیڈروں کے تابع ہوں ۔
حضرت مسیح موعود ؑ نے مسلمانوں کو ذریۃ البغایا ہرگز نہیں کہا
دوسری بات کا جواب یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قطعًا غیر احمدیوں کو ذریۃ البغایا نہیں کہا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ :
ا۔ معترضہ عبارت سے کچھ سطر پہلے آپؑ فرماتے ہیں : قَدْ حُبِّبَ اِلَیَّ مُنْذُ دَنَوْتُ الْعِشْرِیْنَ اَنْ اَنْصُرَ الدِّیْنَ وَ اُجَادِلَ الْبَرَاھِمَۃَ وَالْقِسِّیْسِیْنَ۔ (آئینہ کمالات اسلام۔ روحانی خزائن جلد 5صفحہ 547)کہ جب مَیں بیس سال کا ہوا تبھی سے میری یہ خواہش رہی کہ میں آریوں اور عیسائیوں کے ساتھ مقابلہ کروں۔ اسکے بعد آپؑ نے اپنی کتب براہین احمدیہ ،فتح اسلام اور آئینہ کمالات اسلام کا حوالہ دیا ہے جو اسلام کی تائید میں لکھی گئی تھیں۔اسکے بعد آپ فرماتے ہیں کہ تِلْکَ کُتُبٌ یَنْظُرُ اِلَیْھَا کُلُّ مُسْلِمٍ بِعَیْنِ الْمَحَبَّۃِ وَالْمَوَدَّۃِکہ یہ وہ کتب ہیں جن کو ہر مسلمان محبت و احسان کی نظر سے دیکھتا ہے ۔وَ یَنْتَفِعُ مِنْ مَعَارِفِھَا وَ یَقْبَلُنِیْ وَ یُصَدِّقُ دَعْوَتِیْ۔ اور ان کتب کے معارف سے مستفید ہوتا ہے اور مجھے قبول کرتا ہےاور میری دعوت کی تصدیق کرتا ہے۔(یہاں جس دعوت کا ذکر ہو رہا ہے وہ اسلام کی دعوت ہے جس کا ذکر اسی کتاب میں آپؑ پہلے فرما چکے ہیں ۔ فرماتے ہیں :دَعَوْتُ اِلَی الْاِسْلَامِ شَیْخًا و َ شَابًّا(آئینہ کمالات اسلام ص389)یعنی میں نے ہر چھوٹے بڑے کو اسلام کی دعوت دی)اِلَّا ذُرِّیَّۃَ الْبَغَایَا الَّذِیْنَ خَتَمَ اللہُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ فَھُمْ لَا یَقْبَلُوْنَ سوائے ذریۃ البغایا کے جن کے دلوں پر اللہ نے مہر کر دی ہے ۔ جب آپ پہلے اسلام کی محبت اور اسکے دفاع کی لگن ظاہر فرمارہے ہیں تو مسلمانوں کو ذریۃ البغایا کس طرح کہہ سکتے ہیں ؟پس یہاں ان لوگوں کو مخاطب کیا گیا ہے جنہوں نے آپؑ کی دعوت ِ اسلام کو باوجود دلائل کے نہیں مانا۔
ب۔ دوسرا ثبوت بھی اسی کتاب میں موجود ہے ۔ آئینہ کمالات اسلام کے صفحہ 535پر آپؑ فرماتے ہیں :
ترجمہ :۔اے ملکہ میں تجھے نصیحت کرتاہوں کہ مسلمان تیرا بازو ہیں۔ پس تو ان کی طرف نظرِ خاص سے دیکھ اور اور انکی آنکھوں کوٹھنڈک پہنچااور انکی تالیف قلوب کر اورانکو اپنا مقر ب بنا۔اور بڑے سے بڑے خاص عہدے مسلمانوں کو دے ۔
غرضیکہ اسی آئینہ کمالات اسلام میں مخالفین کی پیش کردہ عبارت سے پہلے تو یہ لکھتےہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ نرمی کا برتاؤاور ان کی تالیف قلوب لازمی ہے پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ اسی جگہ انکے متعلق ایسے الفاظ استعمال کئے گئے ہوں جو ان کی دل شکنی کا باعث ہوں۔
پس”ذریۃ البغایا”کا صحیح معانی اس کا صحیح سیاق و سباق کو مد نظر رکھتے ہوئے ہی کیا جا سکتا ہے ۔
اگرچہ یہ بات درست ہے کہ بغایا کا معنی بدکار بھی ہوتا ہے مگر معترضہ عبارت میں سیاق و سباق کو دیکھا جائے تو یہ معنی درست نہیں ہو سکتا۔
حضرت بانی جماعت احمدیہ کی دعوت مقابلہ تفسیر نویسی اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کی اصل واقعاتی حقیقت
قارئین کرام!آجکل سوشل میڈیا پر احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیزمنفی مہم میں الزام تراشیوں کا ا…