اعتراض: پیشگوئی محمدی بیگم پوری نہ ہوئی
محمدی بیگم سے متعلق پیشگوئی کا پس منظر
اس پیشگوئی کا سبب محمدی بیگم کے والد مرزا احمد بیگ اور ان کے دوسرے رشتہ دار تھے۔ یہ لوگ چچا کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بھی رشتہ دار تھے ۔ان کی حالت حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتاب ’’ آئینہ کمالاتِ اسلام‘‘ میں یوں بیان فرماتے ہیں
ترجمہ :۔ ’’ خدا تعاالیٰ نے میرے چچیرے بھائیوں اور دوسرے رشتہ داروں( احمد بیگ وغیرہ) کو ملحدانہ خیالات اور اعمال میں مبتلا اور رسومِ قبیحہ اور عقائدِ باطلہ اور بدعات میں مستغرق پایا اور ان کو دیکھا کہ وہ اپنے نفسانی جذبات کے تابع ہیں اور خدا تعالیٰ کے وجود کے منکر اور فسادی ہیں۔‘‘
( ترجمہ عربی عبارت ۔آئینہ کمالاتِ اسلام۔روحانی خزائن جلد 5صفحہ566)
پھر فرمایا
ترجمہ :۔’’ایک رات ایسا اتفاق ہوا کہ ایک شخص روتا ہوا آیامیں اس کے رونے کو دیکھ کر خائف ہوا اور اس سے پوچھا کہ تمہیں کسی کے مرنے کی اطلاع ملی ہے؟ اس نے کہا نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت بات ہے۔میں ان لوگوں کے پاس بیٹھا ہو اتھا جو دینِ خداوندی سے مرتد ہو چکے ہیں ۔ پس ان میں سے ایک نے آنحضرت ﷺ کو نہایت گندی گالی دی۔ ایسی گالی کہ میں نے اس سے پہلے کسی کافر کے منہ سے بھی نہیں سنی تھی اور میں نے انہیں دیکھا کہ وہ قرآنِ مجید کو اپنے پاؤں تلے روندتے اور ایسے کلمات بولتے ہیں جن کے نقل کرنے سے زبان کانپتی ہے۔اور وہ کہتے ہیں کہ دنیا میں کوئی خدا نہیں۔ خداکا وجود محض ایک مفتریوں کا جھوٹ ہے۔ ‘‘
(ترجمہ عربی عبارت۔ آئینہ کمالاتِ اسلام۔روحانی خزائن جلد 5صفحہ568)
نشان طلبی
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں
ترجمہ :۔’’ان لوگوں نے خط لکھا جس میں رسولِ کریمﷺ اور قرآن مجید کو گالیاں دیں اور وجودِ باری عزّ اسمہٗ کا انکار کیا اور اس کے ساتھ ہی مجھ سے میری سچائی اور وجودِ باری تعالیٰ کے نشانات طلب کئے اور اس خط کو انہوں نے دنیا میں شائع کر دیا اور ہندوستان کے غیر مسلموں کی بہت مدد کی اور انتہائی سرکشی دکھائی۔‘‘
(ترجمہ عربی عبارت۔ آئینہ کمالاتِ اسلام۔روحانی خزائن جلد5صفحہ568)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا
ان کی نشان طلبی پرحضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدائے قادرِ مطلق کے حضور ان لفاظ میں دعا کی
’’ یَا رَبِّ انصُرعَبدَک َوَاخذُل اَعدَائِکَ……‘‘
( آئینہ کمالاتِ اسلام۔روحانی خزائن جلد 5صفحہ568)
ترجمہ:۔ میں نے کہا اے میرے خدا! اپنے بندے کی مدد کر اور اپنے دشمنوں کو ذلیل کر……۔
خدا تعالیٰ کا جواب
اللہ تعالیٰ نے اس دردمندانہ دعا کو قبول کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہاماً اطلاع دی کہ
’’ میں نے ان کی بدکرداری اور سرکشی دیکھی ہے۔پس میں عنقریب ان کومختلف قسم کے آفات سے ماروں گا اور آسمان کے نیچے انہیں ہلاک کروں گا اور عنقریب تو دیکھے گا کہ میں ان سے کیا سلوک کرتا ہوں اورہم ہر چیز پر قادر ہیں۔ میں ان کی عورتوں کو بیوائیں، ان کے بچوں کو یتیم اور گھروں کو ویران کر دوں گا۔تاکہ وہ اپنے کئے کی سزا پائیں لیکن میں انہیں یک دم ہلاک نہیں کروں گا بلکہ آہستہ آہستہ تاکہ وہ رجوع کریں اور توبہ کرنے والوں میں سے ہو جائیں اور میری لعنت ان پر اور ان کے گھر کی چاردیواری پر، ان کے بڑوں پر، اور ان کے چھوٹوں پر،ان کی عورتوں اور مردوں پر اور ان کے مہمانوں پر جو ان کے گھروں میں اتریں گے،نازل ہونے والی ہے اور وہ سب کے سب ملعون ہونے والے ہیں سوائے ان کے جو ایمان لائیں اور ان سے قطع تعلق کریں اور ان کی مجلسوں سے دور ہوں وہ رحمتِ الہٰی کے تحت ہوں گے۔‘‘
(ترجمہ از عربی عبارت۔ آئینہ کمالاتِ اسلام۔روحانی خزائن جلد 5صفحہ570،569)
اس خاندان کے بارہ میں یہ ایک عمومی انذار پر مبنی الہام تھا ۔لیکن اس کے بعد خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوان لوگوں کے بارہ میں جس معیّن پیشگوئی پر اطلاع بخشی اس کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا
’’انہی ایاّم میں مرزا احمد بیگ والد محمّدی بیگم صاحبہ نے ارادہ کیا کہ اپنی ہمشیرہ کی زمین کوجس کا خاوند کئی سال سے مفقود الخبرتھا اپنے بیٹے کے نام ہبہ کرائے ، لیکن بغیر ہماری مرضی کے وہ ایسا کر نہیں سکتا تھا ۔اس لئے کہ وہ ہمارے چچا زاد بھائی کی بیوہ تھی ۔ اس لئے احمد بیگ نے ہماری جانب بعجز و انکسار رجوع کیا۔ اور قریب تھا کہ ہم اس ہبہ نامہ پر دستخط کر دیتے لیکن حسبِ عادت استخارہ کیا تو اس پر وحی الہٰی ہوئی جس کا ترجمہ یوں ہے۔’’ اس شخص کی بڑی لڑکی کے رشتہ کے لئے تحریک کراور اس سے کہہ! کہ وہ تجھ سے پہلے دامادی کا تعلق قائم کرے اور اس کے بعد تمہارے نور سے روشنی حاصل کرے۔ نیز اس سے کہو کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ زمین جو تو نے مانگی ہے دیدونگا اور اس کے علاوہ کچھ اور زمین بھی، نیز تم پر کئی او ر رنگ میں احسان کروں گا بشرطیکہ تم اپنی لڑکی کا مجھ سے رشتہ کردو اور یہ تمہارے اور میرے درمیان عہد و پیمان ہے جسے تم اگر قبول کرو گے تو مجھے بہترین قبول کرنے والا پاؤ گے۔اور اگر تم نے قبول نہ کیا تو یادرکھو کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ اس لڑکی کا کسی اور شخص سے نکاح نہ اس لڑکی کے حق میں مبارک ہو گا اور نہ تمہارے حق میں۔ اور اگر تم اس ارادہ سے باز نہ آئے تو تم پر مصائب نازل ہوں گے اور آخری مصیبت تمہاری موت ہوگی اور تم نکاح کے بعد تین سال کے اندر مرجاؤ گے بلکہ تمہاری موت قریب ہے جو تم پر غفلت کی حالت میں وارد ہوگی اور ایسا ہی اس لڑکی کا شوہر بھی اڑہائی سال کے اندر مر جائے گا اور یہ قضائے الٰہی ہے۔‘‘ پس تم جو کچھ کرنا چاہو کرو میں نے تمہیں نصیحت کر دی ہے۔‘‘
(ترجمہ عربی عبارت۔ آئینہ کمالاتِ اسلام۔روحانی خزائن جلد5 صفحہ573۔572)
خدا تعالیٰ کو اس کی توحید سب سے پیاری ہے اور اس کے بعد پھر وہ ذات سب سے پیاری ہوتی ہے جو اس دنیا میں اس کی توحید کی علمبردار ہوتی ہے۔ان سب کے لئے وہ بیحدغیرت دکھاتا ہے ۔اور جہانتک اس معاشرے کا تعلق ہے جس کی یہاں بحث ہو رہی ہے جس میں یہ خاندان تھا،تو اس میں ایک مرد کے لئے سب سے ز یادہ جائے غیرت اس کے گھر کی عورت ہوتی ہے۔خدا تعالیٰ کے کاموں کی حکمتیں تو وہی جانتا ہے لیکن اس جگہ جو حالات نظر آتے ہیں۔ ان کے پیشِ نظر یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جس طرح ان لوگوں نے خدا تعالیٰ کی غیرت کو بھڑکانے کے سامان کئے تھے بعینہٖ اسی طرح خدا تعالیٰ نے ان لوگوں کی غیرت کی جگہوں کو ضرب لگائی تاکہ وہ نصیحت اور عبرت حاصل کریں اور توبہ کرتے ہوئے اس کی طرف رجوع کریں۔ ان لوگوں نے چونکہ ذاتِ باری تعالیٰ اور محبوبِ باری تعالیٰ حضرت محمّد مصطفی ﷺ کی شان میں گستاخیاں کی تھیں جن کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی روح میں غیرت کا ایک الاؤ بھڑک رہا تھا۔آپ ؑ کے دل سے خدا تعالیٰ کی توحید کے لئے اور اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمّد مصطفی ﷺکے لئے ناموس کے لئے التجائیں اٹھتی تھیں۔ بالآخر خدا تعالیٰ نے آپ ؑ کو الہاماً یہ خبر دی
’’ فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللّٰہُ کی تفصیل مکرر توجہ سے یہ کھلی ہے کہ خدا تعالیٰ ہمارے کنبے اور قوم میں سے ایسے تمام لوگوں پر کہ جو اپنی بےدینی اور بدعتوں کی حمایت کیوجہ سےپیش گوئی کے مزاحم ہو نا چاہیں گےاپنے قہری نشان نازل کرے گااور ان سے لڑے گا اور انھیں انواع و اقسام کے عذابوں میں مبتلا کردیگا۔ اور مصیبتیں ان پر اتارے گا جن کی ہنوز انہیں خبر نہیں۔ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں ہو گاجو اس عقوبت سے خالی رہے کیونکہ انہوں نے نہ کسی اور وجہ سے بلکہ بے دینی کی رہ سے مقابلہ کیا۔‘‘
(اشتہار 10جولائی 1888ءمجموعہ اشتہارات جلد1 ص160-161)
پھر 15 جولائی والے اشتہار میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حسبِ ذیل الہام بھی درج کرتے ہوئے فرمایا کہ
’’رَأَیتُ ھٰذِہِ الْمَرْأَۃَ وَ أَثَر البُکَاءِ عَلٰی وَجْھِھَا فَقُلْتُ أَیَّتُھَا الْمَرْأَۃ تُوبِی تُوبِی فَاِنَّ الْبَلَاءَ عَلٰی عَقِبِکِ وَالْمُصِیبَۃُ نَازِلَۃٌ عَلَیْکِ یَمُوْتُ وَ یَبْقٰی مِنْہ کِلابٌ مُتَعَدَّدَۃٌ۔‘‘
(اشتہار 15 جولائی 1888ء۔مجموعہ اشتہارات جلد1حاشیہ ص162)
ترجمہ:۔ میں نے اس عورت (یعنی محمّدی بیگم کی نانی) کو( کشفی حالت میں) دیکھا اور رونے کے آثار اس کے چہرے سے ظاہر تھے۔پس میں نے اس سے کہا کہ اے عورت توبہ کر ! توبہ کر! کیونکہ بلا تیری اولاد پر ہے۔اور مصیبت تجھ پر نازل ہونے والی ہے۔ ایک مرد مر جائے گا اور اس کی طرف کتّے باقی رہ جائیں گے۔
پس اس امر کو بنیادی طور پر یاد رکھنا چاہئے کہ الہام ’’یرَدُّھَا اِلَیْکَ لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہ‘‘ (یعنی انجام کار اس کی اس لڑکی کو تمہارے پاس واپس لائے گا۔کوئی نہیں جو خدا کی باتوں کوٹال سکے۔ اشتہار10جولائی 1888ء۔مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 158) توبہ نہ کرنے کی شرط سے مشروط ہے۔ اس کی وضاحت 15 جولائی والے الہام سے ہوتی ہے۔ یعنی توبہ کے وقوع میں آنے سے پیشگوئی کا یہ حصہ جو محمّدی بیگم کی واپسی سے تعلق رکھتا ہے ٹل سکتا تھا۔
چنانچہ جب محمّدی بیگم کے باپ نے ان کا نکاح دوسری جگہ کر دیا تو پیشگوئی کے مطابق محمّدی بیگم کا والد مرزا احمد بیگ نکاح کرنے کے بعدچھ ماہ کے عرصہ میں پیشگوئی کی میعاد کے اندر ہلاک ہو گیا۔اس کی ہلاکت کا اس خاندان پرگہرا اثر پڑااور وہ پہلے سے بتائی ہوئی تقدیرِ الہٰی سے بیحد خوفزدہ ہوئے۔اسی اثر کے تحت محمّدی بیگم کے خاوند مرزا سلطان محمد نے بھی توبہ کی اور رجوع الیٰ اللہ کیا۔ اس پیشگوئی میں ابتدائی طور پر ہی اللہ تعالیٰ نے یہ بات داخل فرمائی تھی کہ
’’ میں انہیں یک دم ہلاک نہیں کروں گا۔بلکہ آہستہ آہستہ تاکہ وہ رجوع کریں اور توبہ کرنے والوں میں سے ہو جائیں۔‘‘
(ترجمہ از عربی عبارت۔ آئینہ کمالاتِ اسلام۔روحانی خزائن جلد 5صفحہ570،569)
اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس پیشگوئی کی اصل غرض اس خاندان کی توبہ اور اصلاح تھی۔اوریہی اس پیشگوئی کا حقیقی محور تھا۔جب تک شرط قائم رہی خدا تعالیٰ کی تقدیر قہری رنگ میں پوری ہوئی اور مرزا احمد بیگ اس کا نشانہ بنا۔ اس سے عبرت حاصل کرکے رجوع الیٰ اللہ کرنے والوں پر خدا تعالیٰ کی تقدیرِعفو جاری ہوئی۔ لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہ کایہی معنیٰ ہے کہ جب کوئی توبہ کرتا ہے اوراللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے تو وہ اس کو عذاب میں مبتلا نہیں کرتا بلکہ اس کو معاف کرتا ہے۔ اس کی اس تقدیر میں تبدیلی نہیں ہوتی۔پس اس خاندان کی توبہ اور رجوع الیٰ اللہ سے خدا تعالیٰ کے نہ تبدیل ہونے والے کلمات قائم رہے اور اس پیشگوئی کا مقصود پورا ہو گیا۔ اور اس کے دوسرے حصے جو مشروط تھے وہ ٹل گئے۔چونکہ محمّدی بیگم کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف واپسی عدمِ توبہ کی شرط سے مشروط تھی اوریہ واپسی اس کے خاوند کے مرنے اور محمّدی بیگم کے بیوہ ہونے کے بعدہی ممکن تھی اس لئے پیشگوئی میں اس سے نکاح کی شق غیر مشروط نہ تھی۔جب اس کے خاوند نے شرطِ توبہ سے فائدہ اٹھایا تو خدا تعالیٰ کے عفو کے تحت آ کر موت سے بچ گیا۔اسی وجہ سے نکاح جو اس کی موت سے معلق اور مشروط تھا وہ ضروری الوقوع نہ رہا ۔
اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا یہ اجمالی نقشہ ہے۔ جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے، میعاد کے اندرمرزا سلطان محمّد کی موت نہ ہونے کا سبب اس کی توبہ اور رجوع الیٰ اللہ تھا۔ الہٰی قوانین میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وعید کی پیشگوئی، خواہ اس میں شرط کا بیان نہ بھی ہو، ہمیشہ عدمِ توبہ کے ساتھ مشروط ہوتی ہے۔لہذا وہ لازماًتوبہ اور رجوع سے ٹل جاتی ہے ۔لیکن جہانتک اس پیشگوئی کا تعلق ہے ،اس میں خدا تعالیٰ نے توبہ کی شرط بیان فرما دی تھی۔ اس لئے محمّدی بیگم کے خاوند کی توبہ اور رجوع الیٰ اللہ سے نکاح والی شق ٹل کر کالعدم ہو گئی۔ پس خدا تعالیٰ کے الہامات پر کسی شخص کو یہ اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں کہ نکاح کیوں وقوع میں نہ آیا۔
مرزا احمد بیگ اور اس کے داماد کی موت کی میعاد میں اختلاف کی حکمت
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مرزا احمد بیگ(محمدی بیگم کے والد) کو مخاطب کر کے لکھا تھا کہ
’’آخِرُالمَصَائِبِ مَوْتکَ تَمُوتُ اِلیٰ ثَلاثِ سِنِیْنَ بَلْ مَوتُکَ قَرِیْبٌ‘‘
(آئینہ کمالاتِ اسلام۔روحانی خزائن۔جلد5 صفحہ573)
ترجمہ:۔ آخری مصیبت تیری موت ہے اور تو تین سال بلکہ اس سے قریب مدّت میں مر جائے گا۔
اسی جگہ محمّدی بیگم کے خاوند کے لئے اڑہائی سال کی مدّت بیان کی گئی ہے۔واقعات کے لحاظ سے’’ مَوتُکَ قَرِیْبٌ ‘‘ کا الہام اس طرح پورا ہوا کہ مرزا احمد بیگ اپنی لڑکی کا نکاح مرزا سلطان محمّدسے کرنے کے بعدپیشگوئی کے مطابق چھ ماہ کے عرصہ میں ہی ہلاک ہو گیا۔ یہ ہلاکت اس کی بیباکی اور شوخی میں بڑھ جانے کا نتیجہ تھی۔ورنہ ممکن تھا کہ اس کا داماد پہلے مر جاتا۔ نیز اس میں یہ اشارہ تھا کہ اگر مرزا احمد بیگ کی موت اپنے داماد سے پہلے واقع ہو جائے تو پھر مرزا سلطان محمّد توبہ کر کے ضرور بچ جائے گا اور اس کے بارہ میں پیشگوئی ٹل جائے گی۔’’ آخِرُالمَصَائِبِ مَوْتکَ ‘‘ سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ مرزا احمد بیگ کی موت اس خاندان پرمصیبتوں میں سے آخری مصیبت ہو گی اور اس سے عبرت کے سامان ہونگے اور وہ خاندان دیگر مصیبتوں سے بچ جائے گا اور پیشگوئی کی اصل غرض یعنی توبہ اور رجوع الیٰ اللہ اور اصلاح پوری ہوگی۔
مرزا سلطان محمّد کی توبہ
مرزا سلطان محمّد کی توبہ کی وجہ سے جب اس کی موت نہ ہوئی تو بعض لوگوں نے یہ اعتراض کیا کہ اس کی موت پیشگوئی کے مطابق واقع نہیں ہوئی تو اس کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ اعلان فرمایا
’’ فیصلہ تو آسان ہے۔ احمد بیگ کے داماد سلطان محمّد سے کہو کہ تکذیب کا اشتہار دے پھر اس کے بعد جو میعاد خدا تعالیٰ مقرر کرے اگر اس سے اس کی موت تجاوز کرے تو میں جھوٹا ہوں۔‘‘
(انجامِ آتھم۔ روحانی خزائن جلد11صفحہ32 حاشیہ)
’’ضرور ہے کہ یہ وعید کی موت اس سے تھمی رہے جب تک کہ وہ گھڑی نہ آ جائے کہ اس کو بیباک کر دے۔ سو اگر جلدی کرنا ہے تو اٹھواس کو بے باک اور مکذّب بناؤ اور اس سے اشتہار دلاؤ اور خدا کی قدرت کا تماشا دیکھو۔‘‘
(انجامِ آتھم۔ روحانی خزائن جلد11 صفحہ32 حاشیہ)
یہ دونوں اعلان ظاہر کرتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس چیلنج کے بعد اگر مرزا سلطان محمّد کسی وقت شوخی اور بے باکی دکھاتے یا مخالفین ان سے تکذیب کا اشتہار دلانے میں کامیاب ہو جاتے تو پھر اس کے بعد اس کی موت کے لئے جو میعاد خدا تعالیٰ قائم فرماتا وہ قطعی فیصلہ کن اور تقدیرِ مبرم ہوتی اور اس کے مطابق لازماًاس کی موت واقع ہوتی۔اورپھر اس کے بعد محمّدی بیگم کا نکاح حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ضروری اور اٹل ہو جاتا۔اس تفصیل کو جاننے کے بعد کسی کا یہ کہنا کہ یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی بالکل بے بنیاد اور جھوٹ ہے۔
مرزا سلطان محمّد کی توبہ کا قطعی ثبوت
مرزا سلطان محمّد نہ صرف یہ کہ حقیقۃً توبہ کر چکے تھے بلکہ اس پیشگوئی کی صداقت کے مصدّق بھی تھے ۔نیز یہ بھی کہ اس کی تصدیق پر نہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں قائم رہے بلکہ صدقِ دل سے اپنی موت تک اس پر ثبات دکھایا،اس کا ثبوت یہ ہے کہ کتاب ’’انجامِ آتھم‘‘ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مذکورہ بالا چیلنج کے شائع ہونے پرآریوں اور عیسائیوں میں سے بعض لوگ ان کے پاس پہنچے اور انہیں ایک خطیر رقم دینے کا وعدہ کیا تا وہ حضرت اقدس ؑ پر نالش کریں۔
مرزا سلطان محمّد جن سے محمّدی بیگم کی شادی ہوئی انہوں نے نہ صرف یہ کہ توبہ کی بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عقیدت مندبن گئے اور اس پیشگوئی کی صداقت کے گواہ بنے۔ان کی گواہی انتہائی وزنی اور حتمی اس لئے ہے کہ ان کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کی موت اور پھر ان کی بیوہ کے اپنے نکاح میں آنے کی پیشگوئی کی تھی اور اپنی متعدد کتب و اشتہارات میں اس کا ذکر بھی فرمایا تھا ، ان کو تو آپ ؑ سے طبعاً دشمنی اور عناد ہونا چاہئے تھا۔لیکن وہ چونکہ نیک فطرت انسان تھے اس لئے انہوں نے کسی منفی جذبے کو اپنی فطری سچائی پر غالب نہ آنے دیا۔ اس کا ناقابلِ ردّ ثبوت یہ ہے کہ حافظ جمال احمد صاحب فاضل مبلغِ سلسلہ احمدیہ نے ان کا ایک انٹرویو لیا جواخبار الفضل۔ 9؍13 جون 1921 میں ’’مرزا سلطان محمّد صاحب کا ایک انٹرویو‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس میں انہوں نے بیان کیا کہ
’’میرے خسر جناب مرزا احمد بیگ صاحب واقع میں عین پیشگوئی کے مطابق فوت ہوئے، مگر خدا تعالیٰ غفور الرحیم ہے، اپنے دوسرے بندوں کی بھی سنتا ہے اور رحم کرتا ہے……… میں ایمان سے کہتا ہوں کہ یہ نکاح والی پیشگوئی میرے لئے کسی قسم کے بھی شکّ و شبہ کا باعث نہیں ہوئی۔ باقی رہی بیعت کی بات، سو میں قسمیّہ کہتا ہوں کہ جو ایمان اور اعتقاد مجھے حضرت مرزا صاحب پر ہے میرا خیال ہے کہ آپ کو بھی جو بیعت کر چکے ہیں اتنا نہیں ہوگا۔…….باقی میرے دل کی حالت کا اندازہ اس سے لگا سکتے ہیں کہ اس پیشگوئی کے وقت آریوں نے لیکھرام کی وجہ سے اور عیسائیوں نے آتھم کی وجہ سے مجھے لاکھ لاکھ روپیہ دینا چاہا، تا میں کسی طرح مرزا صاحب پر نالش کروں۔ اگر میں وہ روپیہ لے لیتا تو امیر کبیر بن سکتا تھا۔ مگر وہی ایمان اور اعتقاد تھا جس نے مجھے اس فعل سے روکا۔‘‘
(الفضل9؍13 جون 1921 ء)
مرزا سلطان محمّد صاحب کا یہ بیان ان کی زندگی میں ہی شائع ہوا۔انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس پیشگوئی کو مومنانہ سوچ اور بصیرت کی نظر سے دیکھا توباوجود ایک طرح سے فریقِ مخالف ہونے کے ، خود اس کی صداقت کے گواہ بن گئے۔چونکہ وہ حقیقی توبہ کر چکے تھے اور پیشگوئی کی صداقت کے قائل تھے اس لئے وہ اس گراں بہا لالچ دئے جانے پر بھی کسی قسم کی بے باکی اور شوخی کے لئے تیّار نہ ہوئے۔
اسی طرح حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمدؓ کی مرزا سلطان محمّد صاحب سے ملاقات کے بارہ میں حلفیہ شہادت ہے ۔اس ملاقات میں انہوں نے بعینہٖ انہی جذبات کا اظہار کیا جو مذکورہ بالا انٹرویو میں بیان ہوئے ہیں۔
حضرت مولوی ظہورحسین مجاہدِ بخارا نے مرزا سلطان محمّد سے اپنی ایک ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے یہ حلفیہ شہادت دی کہ انہوں نے بتایا کہ
ان کے پاس مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری بھی آئے تھے اور شدید اصرار کیا کہ وہ انہیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف ایک ایسی تحریر دیدیں جس میں یہ بیان ہو کہ یہ پیشگوئی غلط ثابت ہوئی۔مرزا سلطان محمّد نے بیان کیا کہ’’ مولوی ثناء اللہ امرتسری صاحب یہی رٹ لگاتے رہے جس پر میں نے ایسی تحریر دینے سے صاف طور پرانکار کر دیا اور وہ بے نیلِ مرام واپس چلے گئے۔…… حضرت مرزا صاحب کے متعلق میری عقیدت ہی تھی جس کی وجہ سے میں نے ان کی ایک بھی نہ مانی۔ … … عیسائی اور آریہ قوم کے بڑے بڑے لیڈروں نے بھی مجھ سے اس قسم کی تحریر لینے کی خواہش کی مگر میں نے کسی کی نہ مانی اور صاف ایسی تحریر دینے سے انکار کرتا رہا۔
علاوہ ازیں انہوں نے اپنے ایک احمدی دوست کے نام اپنے ایک خط میں بھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا۔ وہ لکھتے ہیں
’’از انبالہ چھاؤنی 21؍3؍13
برادرم سلّمہٗ
نوازش نامہ آپ کا پہنچا ۔یاد آوری کا مشکور ہوں۔ میں جناب مرزا جی صاحب مرحوم کو نیک ۔بزرگ۔ اسلام کا خدمت گذار۔ شریف النفس۔خدا یاد پہلے بھی اور اب بھی خیال کررہاہوں۔ مجھے ان کے مریدوں سے کسی قسم کی مخالفت نہیں ہے۔ بلکہ افسوس کرتا ہوں کہ چند ایک امورات کی وجہ سے ان کی زندگی میں ان کا شرف حاصل نہ کر سکا۔
نیازمند سلطان محمّد از انبالہ
رسالہ نمبر9
پیشگوئی کی عین مطابق، محمدی بیگم کے والد مرزا احمد بیگ کی موت سے اس خا ندان کی توبہ اور رجوع الیٰ اللہ کا نتیجہ تھا کہ اس میں سے بہت سے افراداس پیشگوئی کے مصدّق ہو کر حلقہ بگوشِ احمدیّت ہو ئے۔ جن کی تفصیل ذیل میں درج ہے۔
1۔اہلیہ مرزا احمد بیگ صاحب (والدہ محمّدی بیگم۔ یہ موصیہ تھیں) 2۔ ہمشیرہ محمّدی بیگم
3 ۔مرزا محمّد احسن بیگ جو مرزا احمد بیگ کے داماد ہیں اور اہلیہ مرزا احمد بیگ کے بھانجے ہیں 4 ۔عنایت بیگم ہمشیرہ محمّدی بیگم
5 ۔مرزا محمّد بیگ صاحب پسر مرزا احمد بیگ صاحب 6۔مرزا محمود بیگ صاحب پوتا مرزا احمد بیگ صاحب
7 ۔دختر مرزا نظام دین صاحب اور ان کے گھر کے سب افراد 8۔مرزا گل محمّد پسر مرزا نظام دین صاحب
9۔اہلیہ مرزا غلام قادر صاحب ( موصیہ تھیں) 10۔محمودہ بیگم ہمشیرہ محمّدی بیگم صاحبہ
11۔مرزا محمّد اسحاق بیگ صاحب ابن مرزا سلطان محمّد صاحب۔
یہ سب محمدی بیگم کے بالکل قریبی رشتہ دار ہیں اوریہ سب اس پیشگوئی کے بعد اس کی صداقت کو دیکھ کر حلقہ بگوشِ احمدیت ہوئے ۔ ان میں سے مرزا اسحق بیگ صاحب ، محمدی بیگم کے بیٹے ہیں۔ انہوں نے نہ صرف یہ کہ خدا تعالیٰ کی منشا کے عین مطابق اس پیشگوئی کے عملاً وقوع کی شہادت دی بلکہ اس کے علمی پہلوؤں پر بھی ایک جامع بحث کی۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں
’’ بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم
احبابِ کرام ! السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ‘
پیشتر اس کے کہ میں اپنا اصل مدّعا ظاہر کروں، یہ عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ واﷲ میں کسی لالچ یا دنیوی غرض یا کسی دباؤ کے ماتحت جماعتِ احمدیہ میں داخل نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ماتحت ایک لمبے عرصہ کی تحقیقِ حق کے بعد اس بات پر ایمان لایا ہوں کہ حضرت مرزا صاحب اپنے ہر دعوٰی میں صادق اور مامور من اﷲ ہیں اور اپنے قول وفعل میں ایسے صادق ثابت ہوئے ہیں کہ کسی حق شناس کو اس میں کلام نہیں ہو سکتا۔آپ کی تمام پیشگوئیاں ٹھیک ٹھیک پوری ہوئیں۔یہ الگ سوال ہے کہ بعض لوگ تعصّب یا نہ سمجھنے کی وجہ سے بعض پیشگوئیوں کو پیش کر کے عوام کو دھوکا دیتے ہیں کہ وہ پوری نہیں ہوئیں۔ مثلاً ان میں سے ایک پیشگوئی مرزا احمد بیگ صاحب وغیرہ کے متعلق ہے۔اس پیشگوئی کو ہر جگہ پیش کر کے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کا پورا ہونا ثابت کرو۔حالانکہ وہ بھی صفائی کے ساتھ پوری ہو گئی۔ میں اس پیشگوئی کے متعلق ذکر کرنے سے پیشتر یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ یہ ایک انذاری پیشگوئی تھی اور ایسی انذاری پیشگوئیاں خدا تعالیٰ اپنے نبی کے ذریعہ اس لئے کرایا کرتا ہے کہ جن کے متعلق ہوں ان کی اصلاح ہو جائے۔ چنانچہ قرآنِ کریم میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے وَ ماَ نُرْسِلُ بِالاٰیٰتِ اِلَّا تَخْوِیْفًا کہ ہم انبیاء کو نشانات اس لئے دیتے ہیں کہ لوگ ڈر جائیں۔
اس میں اﷲ تعالیٰ نے یہ اصل بیان فرما دیا کہ ایسی انذاری پیشگوئیاں لوگوں کی اصلاح کی غرض سے کی جاتی ہیں۔ جب وہ قوم اﷲ تعالیٰ سے ڈر جائے اور اپنی صلاحیّت کی طرف رجوع کرے تو اﷲ تعالیٰ اپنا معلّق عذاب بھی ٹال دیتا ہے۔جیسا کہ حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کا واقعہ نیز حضرت موسٰی ؑ کی قوم کے حالات وَلَمَّا وَقَعَ عَلَیْھِمُ الرِّجْز سے ظاہر ہے۔اس صورت میں انذاری پیشگوئی کا لفظی طور پر پورا ہونا ضروری نہیں ہوتا۔یہی نقشہ یہاں نظر آتا ہے کہ جب مرزا صاحبؑ کی قوم اور رشتہ داروں نے گستاخی کی ، یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کی ہستی سے انکار کیا، نبی کریمﷺ اور قرآنِ پاک کی ہتّک کی اور اشتہار دے دیا کہ ہمیں کوئی نشان دکھایا جائے تو اس کے جواب میں اﷲ تعالیٰ کے مامور کے ذریعہ پیشگوئی فرمائی۔اس پیشگوئی کے مطابق میرے نانا جان مرزا احمد بیگ صاحب ہلاک ہو گئے اور باقی خاندان ڈر کر اصلاح کی طرف متوجّہ ہو گیا۔جس کا ناقابلِ تردید ثبوت یہ ہے کہ اکثر نے احمدیّت قبول کر لی۔تو اﷲ تعالیٰ نے اپنی صفتِ غفورالرحیم کے ماتحت قہر کو رحم میں بدل دیا۔
میں پھر زور دار الفاظ میں اعلان کرتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ پیشگوئی پوری ہو گئی۔
میں ان لوگوں سے جن کو احمدیّت قبول کرنے میں یہ پیشگوئی حائل ہے عرض کرتا ہوں کہ وہ مسیح الزمان ؑ پر ایمان لے آئیں۔ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں، یہ وہی مسیحِ موعود ؑ ہیں جن کی نسبت نبی کریم ﷺ نے پیشگوئی فرمائی تھی اور ان کا انکار نبی کریمﷺ کا انکار ہے۔حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے کیا درست فرمایا ہے
صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے
ہیں درندے ہر طرف میں عافیّت کا ہوں حصار
اِک زماں کے بعد اب آئی ہے یہ ٹھنڈی ہوا
پھر خدا جانے کہ کب آویں یہ دن اور یہ بہار
خاکسار مرزا محمّد اسحٰق بیگ، پٹی ضلع لاہور حال وارد چک 165۔2بی۔‘‘
(مطبوعہ ۔الفضل 26 فروری 1932صفحہ 9)
الغرض یہ پیشگوئی وعیدی پیشگوئیوں کے اصولوں کے عین مطابق ،خدا تعالیٰ کی بتائی ہوئی تفصیلات کے ساتھ پوری ہوئی ۔ نیز اس کی اصل غرض بھی پوری ہوئی یعنی اس خاندان کی اصلاح ہوئی اور وہ اللہ تعالی کی طرف لوٹ آئے۔ ایک ہی فرد کی ہلاکت سے باقی سارے خاندان نے عبرت حاصل کی۔ان میں سے بعض نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عجزو نیاز سے خط بھی لکھے اور دعا کی درخواست کی۔ان خطوط کا ذکر آپ ؑ نے اپنی کتاب ’’حقیقۃ الوحی‘‘(روحانی خزائن۔جلد22 صفحہ195) میں کیا ہے۔
پیشگوئی کا تجزیہ
اس پیشگوئی کا اگر تجزیہ کیا جائے تو عملاً اس کے پانچ حصے ہیں۔جن میں سے پہلے تین حصے لفظاً پورے ہوئے اور وعیدی پیشگوئی ہونے کی وجہ سے باقی دو حصے مرزا سلطان کی توبہ اور رجوع الیٰ اللہ سے ٹل گئے۔کیونکہ وعیدی پیشگوئیوں کے بارہ میں سنت اللہ یہ ہے کہ وہ توبہ کی شرط کے ساتھ مشروط ہوتی ہیں۔لہٰذا پیشگوئیوں کے اصول اوران کے بارہ میں سنت اللہ کی رو سے نفسِ پیشگوئی پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہو سکتا۔
پیشگوئی کے یہ پانچ حصے جوحضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ’’آئینہ کمالاتِ اسلام‘‘ اور ’’شہادۃ القرآن‘‘ سے مأخوذ ہیں، درجِ ذیل ہیں۔
حصہ اوّل:۔اگر مرزا احمد بیگ اپنی بڑی لڑکی کا نکاح حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے نہ کرے گاتو پھر وہ اس وقت تک زندہ رہے گا کہ اپنی اس لڑکی کا نکاح کسی دوسری جگہ کرے۔
حصہ دوم:۔نکاح تک وہ لڑکی بھی زندہ رہے گی۔
حصہ سوم:۔ دوسری جگہ نکاح کرنے کے بعد مرزا احمد بیگ تین سال کے اندر بلکہ بہت جلد ہلاک ہو جائے گا۔
حصہ چہارم:۔ دوسری جگہ نکاح کے بعد اس لڑکی کا خاوند اڑہائی سال کے اندر ہلاک ہو جائے گا۔(بشرطیکہ وہ توبہ اور رجوع الیٰ اللہ نہ کرے کیونکہ وعیدی پیشگوئی لازماً مشروط بعدمِ توبہ ہوتی ہے۔)
حصہ پنجم:۔خاوند کی ہلاکت کے بعد وہ لڑکی بیوہ ہوگی۔اور بیوہ ہونے کے بعد حضرت اقدس کے نکاح میں آئے گی۔یعنی پیشگوئی کا یہ آخری حصہ اس لڑکی کے خاوند کی موت سے مشروط تھا۔
نشان اوّل:۔ پیشگوئی کا پہلا حصہ بطور نشان اوّل پورا ہوگیا۔ اگر محمّدی بیگم کا باپ اس کا نکاح کرنے سے پہلے وفات پا جاتا تو پیشگوئی کاحصہ اوّل پورا نہ ہوتا مگر یہ صفائی کے ساتھ پورا ہوا۔ کیونکہ پیشگوئی یہ تھی کہ’’تم نکاح کے بعد تین سال کے اندر مر جاؤ گے بلکہ تمہاری موت قریب ہے۔‘‘
نشان دوم:۔پیشگوئی کے دوسرے حصہ کے مطابق لڑکی نکاح تک زندہ رہ کر نشان بنی۔ اگر وہ نکاح سے پہلے مر جاتی تو پیشگوئی کا دوسرا حصہ بھی پورا نہ ہوتا۔ مگر یہ حصہ بھی نہایت صفائی کے ساتھ پورا ہوا۔
نشان سوم:۔دوسری جگہ نکاح کے بعد لڑکی کا باپ چھ ماہ کے عرصہ میں ہلاک ہو گیا۔ اگر اس کی موت تین سال سے تجاوز کر جاتی تو پیشگوئی کایہ حصہ بھی پورا نہ ہوتا۔لیکن یہ حصہ بھی نہایت صفائی کے ساتھ پورا ہوا۔
اس طرح یہ تینوں حصے پورے ہو کر اس پیشگوئی کی صداقت کے نشان بن گئے۔
باقی دو حصوں کا ظہور
پچھلے دو حصے اس طرح ظہور پذیر ہوئے کہ محمّدی بیگم کے خاوند مرزا سلطان محمّد پر اپنے خسر کی موت سے سخت ہیبت طاری ہوئی اور اس نے توبہ اور استغفار کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کیااور وعیدی پیشگوئی کی شرطِ توبہ سے فائدہ اٹھا کر موت سے بچ گیا۔ شرطِ توبہ سے فائدہ اٹھا نے کے باعث اس سے موت تو ٹل گئی لیکن پیشگوئی کی اصل غرض یعنی’’تاکہ وہ رجوع کریں اور توبہ کرنے والوں میں سے ہو جائیں‘‘
بڑے جلال اور کمال کے ساتھ پوری ہوئی۔جیسا کہ حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کی توبہ اور رجوع الیٰ اللہ کی وجہ سے ان سے وہ عذاب ٹل گیا تھا جو حضرت یونس علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق ان پر چالیس دن پورے ہو جانے کے بعد لازماً وارد ہونے والا تھا۔
چونکہ مرزا سلطان محمّدکی توبہ اور رجوع الیٰ اللہ سے اس سے موت ٹل گئی اور حضرت اقدس سے محمّدی بیگم کا نکاح اس کے بیوہ ہو جانے سے مشروط تھا اس لئے اب اس کا وقوع میں آنا ضروری نہ رہا۔اس طرح پیشگوئی کے یہ آخری دو حصے اس کی اصل غرض کے حاصل ہو جانے کے رنگ میں پورے ہوئے۔
اب نکاح کا وقوع صرف اس بات سے معلق ہو کررہ گیا کہ مرزا سلطان محمّد از خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں کسی وقت بیباکی اور شوخی دکھائے اور پیشگوئی کی تکذیب کرے۔یہ تکذیب محض امکانی تھی ،ضروری الوقوع نہ تھی۔اور نکاح کے اس طرح معلق ہونے کی حد بھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی تک ہی تھی۔مگر محمّدی بیگم کا خاوند مرزا سلطان محمّد، حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں بھی توبہ پر قائم رہا اور بعد میں بھی۔ اسی طرح اس خاندان کے دوسرے افراد نے بھی اصلاح کر لی تو اس وعیدی پیشگوئی کی اصل غرض جو اس خاندان کی اصلاح تھی پوری ہو گئی۔کیونکہ اس خاندان کے افراد نے الحاد اور دہریّت کے خیالات کو ترک کر دیا اور اسلام کی عظمت کے قائل ہو گئے اور ان میں سے اکثر نے احمدیت کو قبول کیا۔یہاں خدا تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ
مَا کَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ (الانفال:34)
ترجمہ:۔ اللہ ان لوگوں کو عذاب دینے والا نہیں ہے اس حال میں کہ وہ استغفار کر رہے ہوں۔
خدا تعالیٰ کے اس قانون کے مطابق اب مرزا سلطان محمّد پر عذاب صرف اسی صورت میں نازل ہو سکتا تھا کہ وہ توبہ کو توڑ دیتا اور پیشگوئی کی تکذیب کر دیتا اور پھر اس کی موت کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے نئی میعاد مقرر ہوتی۔ اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کتاب انجامِ آتھم کے صفحہ۳۲ پر نکاح کی پیشگوئی کومرزا سلطان محمّد کی طرف سے آئندہ اس پیشگوئی کی تکذیب کرنے اور بیباکی اور شوخی دکھانے سے اور اس کے لئے نئی میعاد مقرر ہونے سے معلق قرار دے دیا۔ایسا ہونا اس لئے ضروری تھا کہ یہ امکان ابھی باقی تھا کہ مرزا سلطان محمّد کسی وقت اگرتکذیب کر دیتا تو پیشگوئی میں لوگوں کے لئے اشتباہ پیدا ہو جاتا۔
وعیدی پیشگوئی کی اصل غرض چونکہ توبہ اور استغفار اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع دلانا اور خدا تعالیٰ کی عظمت کا سکّہ دلوں پر بٹھانا اور اصلاح ہوتی ہے اس لئے جب یہ شرط پوری ہو جائے تو پھر سنت اللہ کے مطابق عذاب بالکل ٹل جایا کرتا ہے ۔ اور اگر انہوں نے توبہ پر قائم نہ رہنا ہو تو پھر سنت اللہ یوں ہے کہ عذاب میں اس وقت تک تاخیر ہو جاتی ہے کہ وعیدی پیشگوئی کے متعلقین پھر بے باکی اور شوخی دکھاتے ہوئے توبہ توڑ دیں۔
اقتباسات حضرت مسیح موعود علیہ السلام دربارہ محمدی بیگم پیشگوئی
معترضین نے حضرت مسیح موعود کی زندگی میں اس اعتراض کو مختلف انداز سے دہرایا ہے اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے جواب کو مختلف انداز سے اپنی بیشتر کتب میں درج فرمایا ہے ۔معترضین نے اس اعتراض کو اس طرح دہر ایا ہے
1۔ کیا آتھم اورداماد مرزا احمد بیگ اور آپ کے فرزند موعود کا کوئی نتیجہ ظہور میں آیا؟
2۔کیا احمدبیگ کی لڑکی کا قصہ دیگر الہامات کی صداقت کو مشتبہ نہیں کرتا ؟
حضرت مسیح موعودؑ نے اس اعتراض کاجواب جو مختلف کتابوں میں دیا وہ کچھ اس طرح سے ہے ۔آپ ؑ فرماتے ہیں:
” اس پیشگوئی کی دو ٹانگیں تھیں ۔ایک احمد بیگ کی موت کے متعلق اورایک اس کے داماد کے متعلق۔ سو تم سن چکے ہو کہ احمد بیگ مدت ہوئی کہ پیشگوئی کی منشاء کے موافق فوت ہوچکا ہے ۔اوراسکی قبر ہوشیار پور میں موجود ہے ۔ رہ گیااس کاداماد سو پیشگوئی کی شرط کی وجہ سے اسکی موت میں تاخیر ڈالدی گئی اور ہم بیان کرچکے ہیں کہ پیشگوئی شرطی تھی۔ پھر جب احمد بیگ شرط سے لاپرواہ رہ کر مرگیا تو اس کی موت نے اس کے داماد اوردوسرے اقارب کو یہ موقع دیاکہ وہ ڈریں ۔ اورشرط سے فائدہ اٹھائیں ۔ سو ایسا ہی ہوا۔ اوراحمد بیگ اوراسکے داماد کے متعلق جو شرطی الہام تھا اس کی یہ عبارت تھی رَأَیْتُ ھٰذِہِ الْمَرْاَٴةَ وَاَثْرَ الْبُکَاءِ عَلٰی وَجْھِھَا فَقُلْتُ اَیَّتُھَا الْمَرْأةُ تُوْبِیْ تُوْبِیْ فَاِنَّ الْبَلَاءَ عَلیٰ عَقِبِکِ وَالْمُصِیْبَةُ نَازِلَةٌ عَلَیْک ِیَمُوْتُ وَ یَبْقَی مِنْہُ کِلَابٌ مُتَعَدِّدَةٌ۔ چنانچہ مجھے یا د ہے کہ یہ الہام قبل از وقت بمقام ہوشیار پور شیخ مہر علی کے مکان پر بحاضری حافظ محمد یوسف یا منشی محمد یعقوب و نیز بحاضری منشی الٰہی بخش صاحب آپ کی جماعت میں سے ایک شخص کو جس کا نام عبدالرحیم تھا یا عبد لواحد تھا سنایا گیا تھا اوربعد میں یہ الہام چھپ بھی گیا تھا ۔غرض یہ پیشگوئی شرطی تھی جیسے کہ آتھم کی پیشگوئی شرطی تھی۔ اوراگر وہ شرطی نہ بھی ہوتی تاہم بوجہ وعید ہونے کے یونس نبی کی پیشگوئی سے مشابہ ہوتی اورخداکی باتوں کا صبر سے انجام دیکھنا چاہئے نہ شرارت سے اعتراض ۔”
(تحفہ غزنویہ۔ روحانی خزائن جلد15صفحہ 554)
”خوب جانتے ہیں کہ احمد بیگ اوراس کے داماد کی نسبت بھی پیشگوئی آتھم کی پیشگوئی کی طر ح شرطی تھی ۔۔۔۔۔ جب کہ احمد بیگ کی موت نے جو اس پیشگوئی کی ایک شاخ تھی اس کے اقارب کے دلوں میں سخت خوف پیدا کردیا ۔ اوران کو خیال آیا کہ دوسری شاخ بھی معرض خطرہ میں ہے ۔کیونکہ ایک ٹانگ اس پیشگوئی میعاد کے اندر ٹوٹ چکی تھی تب انکے دل خوف سے بھر گئے اورصدقہ خیرات دیا اورتوبہ استغفار میں مشغول رہے تو خدا نے اس پیشگوئی میں بھی تاخیر دال دی اور جیسا کہ میں ابھی بیان کر چکا ہوں ان لوگوں کی خوف کی وجہ یہ تھی کہ یہ پیشگوئی نہ صرف احمد بیگ کے داماد کی نسبت تھی بلکہ خود احمد بیگ کی موت کی نسبت بھی تھی اورپہلا نشانہ اس پیشگوئی کا وہی تھا بلکہ مقدم بالذات وہی تھا پھر جب احمد بیگ میعاد کے اندر مر گیا اور کمال صفائی سے اس کی نسبت پیشگوئی پوری ہوگئی تب اس کے اقارب کے دل سخت خوف سے بھر گئے اوراتنے روئے کہ ان کی چیخیں اس قصبہ کے کناروں تک جاتی تھیں اوربار بار پیشگوئی کا ذکر کرتے تھے اورجہاں تک ان سے ممکن تھا توبہ اوراستغفا ر صدقہ خیرات میں مشغول ہوئے تب خدا ئے کریم نے اس پیشگوئی میں بھی تاخیر ڈال دی۔“
(تتمہ حقیقة الوحی ۔روحانی خزائن جلد22صفحہ464)
” اس پیشگوئی کے دو حصے تھے اور دونوں شرطی تھے ۔ ایک حصہ شرطی طور پر احمد بیگ کی وفات کے متعلق تھا۔ یعنی اس میں یہ پیشگوئی تھی کہ اگر وہ خدا تعالیٰ کی قرارداد شرطوں کا پابند نہ ہو تو تین برس پورے ہونے سے پہلے ہی فوت ہوجائیگا ۔ اورنہ صرف وہی بلکہ اس کے ساتھ اور کئی موتیں اس کی اقارب کی ہونگی ۔ پس چونکہ وہ شوخی کی راہ سے کسی شرط کاپابند نہ ہوسکا اس لئے خدا نے اس کو میعا د پوری ہونے سے پہلے ہی اس جہان سے اٹھادیا اورکئی موتیں اوربھی ساتھ ہوئیں ۔مگر دوسرا حصہ پیشگوئی کا جو احمد بیگ کے داماد کی نسبت تھا اس میں اس وجہ سے تاخیر ڈال دی گئی کہ باقی ماندہ لوگوں نے اس شرط کے مضمون سے اپنے دلوں میں خوف پیدا کیا اوربہت ڈرے اوریہ بات ہر ایک کی سمجھ میں آسکتی ہے کہ اگر دو شخص کے موت کی نسبت کوئی پیشگوئی ہو اور ایک ان میں سےمیعاد کے اند ر مرجائے تو طبعاً دوسرے کے دل میں خوف پیدا ہوجاتا ہے ۔پس یہ توضروری امر تھا کہ احمد بیگ کے داماد کا گروہ احمدبیگ کی موت کو دیکھ کر اپنے دلوں میں بہت ڈرتا ۔سو خدا نے اپنے وعدے کے موافق جب ان لوگوں کا خوف دیکھا تو داماد کی وفات کے متعلق جو پیشگوئی تھی اس میں تاخیر ڈا ل دی ۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے ۔جیسا کہ ڈپٹی عبداللہ آتھم اور پنڈت لیکھرام کی نسبت جو پیشگوئی وفات کی تھی اس میں ظہور میں آیا۔کیونکہ ڈپٹی عبداللہ آتھم نے وفات کی پیشگوئی سن کر بہت خوف ظاہر کیا اس لئے اس کی موت میں تاخیر ڈال دی گئی۔ اور مقرر شدہ دنوں سے کچھ مہینے زیادہ زندہ رہا۔ لیکن لیکھرام نے پیشگوئی کو سنکر بہت شوخی ظاہر کی اوربد گوئی میں حد سے زیادہ بڑھ گیا۔ اسلئے وہ اصلی میعاد سے بھی پہلے ہی اس جہان سے اٹھایا گیا۔حقیقت یہ ہے کہ ایسی پیشگوئیاں جو خدا کے رسول کرتے ہیں جن میں کسی کی موت یا اوربلا کی خبر ہوتی ہے وہ وعید کی پیشگوئیاں کہلاتی ہیں۔اورسنت اللہ ہے کہ خواہ ان میں کوئی شرط ہو یا نہ ہو وہ توبہ اوراستغفار سے ٹل سکتی ہیں یہ ان میں تاخیر ڈال دی جاتی ہے۔جیسا کہ یونس نبی کی پیشگوئی میں وقوع میں آیا۔ اوریونس نبی نے جو اپنی قوم کے لئے چالیس دن تک عذاب آنے کا وعدہ کیا تھا وہ قطعی وعدہ تھا۔ اس میں ایمان لانے یا ڈرنے کی کوئی شرط نہ تھی۔مگر باوجود اسکے جب قوم نے تضرع اورزاری اختیار کی توخداتعالیٰ نے اس عذاب کو ٹال دیا۔ تمام انبیاء علیھم السلام کے اتفاق سے یہ تسلیم شدہ عقیدہ ہے کہ ہر ایک بلا جو خدا تعالیٰ کسی بند ہ پر نازل کرنےکا ارادہ کرتا ہے وہ بلا صدقہ اورخیرات اورتوبہ اوراستغفار اوردعا سے رفع ہوسکتی ہے ۔پس اگروہ بلاجس کا نازل کرنے کاارادہ کیا گیا ہے کسی نبی اوررسول اورمامور من اللہ کو اس سے اطلاع دی جائے تو وہ وعید کی پیشگوئی کہلاتی ہے ۔اورچونکہ وہ بلا ہے اس لئے خداتعالیٰ کے وعدہ کے موافق توبہ و استغفار اورصدقہ خیرات اوردعا وتضرع سے دفع ہوسکتی ہے ۔یا اس میں تاخیر پڑسکتی ہے اور اگر وہ بلا جو پیشگوئی کے رنگ میں ظاہر کی گئی ہے صدقہ خیر ات وغیر ہ سے دور نہ ہوسکے تو خدا تعالیٰ کی تمام کتابیں اس سے باطل ٹھیرینگی۔اورتمام نظام دین کا اس سے درہم برہم ہوجائے گا۔ معترض نے اسلام پر یہ سخت حملہ کیا ہے اورنہ صرف اسلام پر بلکہ تمام نبیوں پر یہ حملہ ہے اوراگر عمداً یہ حملہ نہیں کیا تواسلام اورشریعت سے سخت ناواقفیت اسکی ثابت ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں سے ایمانداروں کو متنبہ رہنا چاہئے کہ میرے پر حملہ کرنے سے ان کا ارادہ صرف میرے پر حملہ نہیں ہے بلکہ دین اسلام کی انکو کچھ پر وا نہیں ۔ اوراسلام کے وہ چھپے دشمن ہیں ۔خدا تعالیٰ اپنے دین کو ان کے شر سے محفوظ رکھے۔
اس ناسمجھ کو یہ بھی تو خبر نہیں کہ جیسے خدا تعالیٰ نے اپنے اخلاق میں یہ داخل رکھا ہے کہ وہ وعید کی پیشگوئی کو توبہ و استغفار اوردعا اور صدقہ سے ٹال دیتا ہے اسی طرح انسان کو بھی اس نے یہی اخلاق سکھائے ہیں جیسا کہ قرآن شریف اورحدیث سے بھی یہ ثابت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی نسبت جو منافقین نے محض خباثت سے خلاف واقعہ تہمت لگائی تھی اس تذکرہ میں بعض سادہ لوح صحابہ بھی شریک ہوگئے تھے ۔ ایک صحابی ایسے تھے کہ وہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے گھر سے دو وقتہ روٹی کھاتے تھے۔ حضرت ابو بکرؓ نے ان کی اس خطا پر قسم کھائی تھی اوروعید کے طور پر عہد کرلیا تھا کہ میں اس بے جا حرکت کی سزا میں اس کو کبھی روٹی نہ دونگا ۔ اس پریہ آیت نازل ہوئی تھی وَلْیَعْفُوا وَلْیَصْفَحُوا أَلَا تُحِبُّونَ أَن یَغْفِرَ اللَّہُ لَکُمْ وَاللَّہُ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ ۱ (سورة نور آیت ۲۳)تب حضرت ابو بکر ؓ نے اپنے اس عہد کو توڑدیا اوربد ستور روٹی لگادی ۔ اسی بنا ء پراسلا می اخلاق میں یہ داخل ہے کہ اگر وعید کے طور پر کوئی عہد کیا جائے تو اس کا توڑنا حسن اخلاق میں داخل ہے ۔مثلاً اگر کوئی اپنے خدمت گار کی نسبت قسم کھائے کہ میں اس کو ضرور پچاس جوتے ماروں گا تو اس کی توبہ اورتضرع پر معاف کرنا سنتِ ِاسلام ہے تا تَخَلَّقْ بِاَخْلَاقِ اللّٰہِ ہوجائے مگر وعدہ کا تخلف جائز نہیں ۔ترک ِ وعدہ پر باز پر س ہوگی مگر ترک وعید پر نہیں۔
(براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد21 صفحہ 179تا 181)
“یہ تو شرطی پیشگوئی تھی جیسا کہ عبد اللہ آتھم کی موت کی نسبت بھی شرطی پیشگوئی تھی۔ جس کی وفات پر قریباً گیارہ برس گذرگئے ۔مگر یونس بنی نے اپنی قوم کے ہلاک ہونے کی نسبت پیشگوئی کی تھی۔ اس میں تو کوئی شرط نہ تھی ۔مگر وہ قوم بھی توبہ و استغفار سے بچ گئی ۔ہم بار بار کہہ چکے ہیں کہ وعید کی پیشگوئیاں توبہ و استغفار سے تاخیر پذیر ہوسکتی ہیں بلکہ منسوخ ہوسکتی ہیں۔جیسا کہ یونس کی قوم کی نسبت جو ہلاک کرنے کا وعدہ تھا صرف توبہ سے ٹل گیا۔ مگر افسوس اس زمانہ کے یہ لوگ کیسے اندھے ہیں کہ بار بار ان کو کتاب اللہ کے موافق جواب دیا جاتا ہے اورپھر نہیں سمجھتے ۔کیا ان کے نزدیک یونس نبی سچا نبی نہیں تھا؟ جس کی پیشگوئی بغیر کسی شرط کے تھی اور قطعی پیشگوئی تھی کہ چالیس دن میں اسکی قوم عذاب سے ہلاک کی جائے گی مگر وہ قوم ہلاک نہ ہوئی۔ مگر اسجگہ توایسا اعتراض آتا نہ تھا جیسا کہ حضرت یونس کی پیشگوئی پر آتا تھا۔
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد21صفحہ 370)
” افسوس کہ وہ اپنی ناانصافی سے ذرہ اس بات کو نہیں سوچتے کہ اس پیشگوئی کا ایک جزو نہایت صفائی سے میعاد کے اندر پورا ہوچکا ہے اوردو ٹانگوں میں سے ایک ٹانگ ٹوٹ چکی ہے۔ پس ضرور تھا کہ جن لوگوں کو ایسا غم اورایسی مصیبت پہنچی وہ توبہ اور خوف سے اس لائق ہوجاتے کہ خدا تعالیٰ اس پیشگوئی کے دوسرے حصہ میں تاخیر ڈال دیتا۔ یسعیاہ نبی کی پیشگوئی جو قطعی طور پر بتلاتی تھی کہ اسرائیل کا بادشاہ پندرہ دن میں مر جائے گا۔ وہ پیشگوئی اس بادشاہ کے تضرع کے سبب سے پندرہ سال کے ساتھ خدا نے بدل دی۔ یہ قصہ ہماری حدیثوں میں ہی نہیں بلکہ عیسائیوں اوریہودیوں کی کتابوں میں بھی ابتک موجود ہے۔“
(حوالہ انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ 336تا 338)
محمدی بیگم کی پیشگوئی کے متعلق اعتراضات کے جوابات
اعتراض:۔اعتراض ہوتا ہے کہ الہام میں تھا کہ اس عورت کانکاح آسمان پر پڑھا گیا تھا؟پھر نکاح کیوں نہ ہوا؟
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
”اور یہ امر کہ الہام میں یہ بھی تھا کہ اس عورت کا نکاح آسمان پر میرے ساتھ پڑھا گیا ہے ۔یہ درست ہے مگر جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں اس نکاح کے ظہور کے لیے جو آسمان پر پڑھاگیا خدا کی طرف سے ایک شرط بھی تھی جو اسی وقت شائع کی گئی تھی اوروہ یہ کہ اَیَّتُھَا الْمَرْأةُ تُوْبِیْ تُوْبِیْ فَاِنَّ الْبَلَاءَ عَلیٰ عَقِبِکِ پس جب ان لوگوں نے اس شرط کو پوراکر دیا تو نکاح فسخ ہوگیا یا تاخیر میں پڑ گیا ۔ کیا آپ کو خبر نہیں کہ یَمْحُوا اللّٰہُ مَایَشَاءُ وَ یثبتُ نکاح آسمان پر پڑھا گیا یا عرش پر مگر آخر وہ سب کاروائی شرطی تھی ۔شیطانی وساوس سے الگ ہوکر اس کو سوچنا چاہئےکیا یونسؑ کی پیشگوئی نکاح پڑھنے سے کچھ کم تھی جس میں بتلایا گیا کہ آسمان پر یہ فیصلہ ہوچکا ہے کہ چالیس دن تک اس قوم پر عذاب نازل ہوگا مگر عذاب نازل نہ ہوا حالانکہ اس میں کسی شرط کی تصریح نہ تھی ۔ پس وہ خدا جس نے اپنا ایسا ناطق فیصلہ منسوخ کردیا کیا اس پر مشکل تھا کہ اس نکاح کو بھی منسوخ یا کسی اور وقت پر ڈال دے غرض بے حیا لوگ ان اعتراضوں کے وقت نہیں سو چتے کہ ایسے اعتراض سب نبیوں پر پڑتے ہیں ۔نمازیں بھی پہلے پچاس نمازیں مقر ر ہوکر پھر پانچ رہ گئیں اورتوریت پڑھ کر دیکھوصد ہا مرتبہ خدا کے قرار دادہ عذاب حضرت موسیٰ کی شفاعت سے منسوخ کیے گئے ۔ ایسا ہی یونسؑکی قوم پر آسمان پر جو ہلاکت کا حکم لکھا گیا تھا وہ حکم انکی توبہ سے منسوخ کردیا گیا ۔ اورتمام قوم کو عذاب سے بچالیا گیا اوربجائے اس کے حضر ت یونس ؑ خو د سخت مصیبت میں پڑ گئے کیونکہ ان کو یہ خیال دامنگیر ہوا کہ پیشگوئی قطعی تھی اورخدا کا ارادہ عذاب نازل کرنے کا مصمم تھا۔ افسوس کہ یہ لوگ یونس کے قصہ سے بھی کچھ سبق حاصل نہیں کرتے ۔ اس نے نبی ہوکر محض اس خیال سے سخت مصیبتیں اٹھائیں کہ خدا کا قطعی ارادہ جو آسمان پر قائم ہوچکا تھا کیونکر فسخ ہوگیا ہے اورخد ا نے توبہ پر ایک لاکھ آدمی کو بچالیا اوریونس ؑکے منشا ء کی کچھ بھی پروا نہ کی ۔
کیسے نادان وہ لوگ ہیں جن کا یہ مذہب ہے کہ خدا پنے ارادوں کو بدلا نہیں سکتا اور وعید یعنی عذاب کی پیشگوئی کو ٹال نہیں سکتا مگر ہمارا یہ مذہب ہے کہ وہ ٹال سکتا ہے اورہمیشہ ٹالتا رہا ہے اورہمیشہ ٹالتا رہے گا اورہم ایسے خدا پر ایمان نہیں لاتے کہ جو بلا کو توبہ اوراستغفار سے رد نہ کرسکے ۔اور تضرع کرنے والوں کے لئے اپنے ارادوں کو بدل نہ سکے ۔وہ ہمیشہ بدلتا رہے گا یہاں تک کہ پہلی آسمانی کتابوں میں لکھا ہے کہ ایک بادشاہ کی صرف پندرہ دن کی عمر رہ گئی تھی خدا نے اس کی تضرّع اور گریہ و زاری سے بجائے پندرہ دن کے پندرہ سال کر دئے یہی ہمار ا ذاتی تجربہ ہے کہ ایک خوفناک پیشگوئی ہوتی ہے اور دعا سے ٹل جاتی ہے پس اگر ان لوگوں کا فرضی خدا ان باتوں پر قادر نہیں تو ہم اس کو نہیں مانتے ۔ہم اس خدا کو مانتے ہیں جس کی صفت قرآن شریف میں یہ لکھی ہے کہ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہ عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ (البقرہ:107)اور وعید یعنی عذاب کی پیشگوئی ٹلنے کے بارہ میں تمام نبی متفق ہیں۔
رہی وعدہ کی پیشگوئی جس کی نسبت یہ حکم ہے کہ اِنَّ اللّٰہَ لَایُخلِفُ المِیعَاد ۔۔۔۔۔۔۔(آل عمران:10)اسکی نسبت بھی ہمارا یہ ایمان ہے کہ خدا اس وعدہ کا تخلف نہیں کرتا جو اس کے علم کے موافق ہے ۔لیکن اگر انسان اپنی غلطی سے ایک بات کو خدا کا وعدہ سمجھ لے جیسا کہ حضرت نوح ؑ نے سمجھ لیا تھا ایسا تخلف وعدہ جائز ہے ۔کیونکہ دراصل وہ خدا کا وعدہ نہیں بلکہ انسانی غلطی نے خواہ نخواہ اسکو وعدہ قرار دیا ہے۔۔۔”
(حقیقۃ الوحی۔روحانی خزائن جلد 22 ص570تا572)
”اعتراض:۔ یہ بھی اعتراض کرتے ہیں کہ احمد بیگ کی لڑکی کے لئے طرح طرح کی امید دینے سے کیوں کوشش کی گئی؟
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
“یہ بھی اعتراض کرتے ہیں کہ احمد بیگ کی لڑکی کے لئے طرح طرح کی امید دینے سے کیوں کوشش کی گئی؟نہیں سمجھتے کہ وہ کوشش اسی غرض سے تھی کہ وہ تقدیر اس طور سے ملتوی ہو جائے اوروہ عذاب ٹل جائے ۔یہی کوشش عبداللہ آتھم اورلیکھرام سے بھی کی گئی تھی۔ یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ کسی پیشگوئی کے پورا کرنے کے لئے کوئی جائز کوشش کرنا حرام ہے ۔ذرہ غور سے اورحیا سے سوچو کہ کیا آنحضرت ﷺ کو قرآن شریف میں یہ وعدہ نہیں دیا گیا تھا کہ عرب کی بت پرستی نابود ہوگی اور بجائے بت پر ستی کے اسلام قائم ہوگا ۔ اوروہ دن آئیگا کہ خانہ کعبہ کی کنجیاں آنحضرت ﷺ کے ہاتھ میں ہوں گی۔ جس کو چاہیں گے دیں گے ۔اورخدا یہ سب کچھ آپ کرے گا۔ مگر پھر بھی اسلام کی اشاعت کے لئے ایسی کوشش ہوئی جس کی تفصیل کی ضرورت نہیں ۔ بلکہ حدیث صحیح میں ہے اگر کوئی خواب دیکھے اور اس کی کوشش سے وہ خواب پوری ہوسکے تو اس روٴیا کو اپنی کوشش سے پورا کرلینا چاہیے۔“
(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 133تا 138 )
اعتراض:۔ احمد بیگ کے داماد کا کیا قصور تھا؟
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
“احمد بیگ کے داماد کا یہ قصور تھا کہ اس نے تخویف کا اشتہار دیکھ کر اس کی پروانہ کی خط پر خط بھیجے گئے ان سے کچھ نہ ڈرا پیغام بھیج کر سمجھایا گیا کسی نے اس طرف ذرا التفات نہ کی اوراحمد بیگ سے ترک تعلق نہ چاہا بلکہ وہ سب گستاخی اور استہزا میں شریک ہوئے ۔ سو یہی قصورتھا کہ پیشگوئی کو سن کر پھر ناطہ کرنے پر راضی ہوئے اورشیخ بٹالوی کا یہ کہنا کہ نکاح کے بعد طلاق کے لئے ان کو فہمائش کی گئی تھی یہ سراسر افترا ہے بلکہ ابھی تو ان کا ناطہ بھی نہیں ہوچکا تھا جبکہ ان کو حقیقت سے اطلاع دی گئی تھی اوراشتہار تو کئی بر س پہلے شائع ہوچکے تھے۔”
(انوارلاسلام ۔روحانی خزائن جلد9 ص102-103)
اعتراض:۔ ۔حضرت مرزا صاحب نے ’’ازالہ اوہام‘‘ میں 1891 ء میں لکھا کہ خدا تعالیٰ ہر طرح سے اس کو ( یعنی محمّدی بیگم کو)تمہاری طرف لائے گا۔باکرہ ہونے کی حالت میں یا بیوہ کر کے اور ہر ایک روک کو درمیان سے اٹھا دے گا اور اس کام کو ضرور پورا کرے گا۔ کوئی نہیں جو اس کام کو روک سکے۔‘‘تو ایسا لکھنے کے باوجود درمیانی روکیں کیوں نہ اٹھائی گئیں؟
الجواب:۔ محمّدی بیگم باکرہ ہونے کی حالت میں اس وجہ سے نکاح میں نہ آئی کہ اس کے باپ نے شوخی کی راہ اختیار کر کے اس کا نکاح مرزا سلطان محمّد آف پٹی سے کر دیا۔اس کا یہ عمل پیشگوئی کے اس حصہ کو پورا کرنے کی بنیاد بن گیا جو ایسی صورت میں اس کی ہلاکت کے بارہ میں تھا۔چنانچہ وہ چھ ماہ کے اندر مر گیا۔اس سے محمّدی بیگم کے خاوند پر پیشگوئی کی ہیبت طاری ہو گئی اور اس نے توبہ اور استغفار سے کام لیا اورحضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں بھی اپنی اس توبہ پر قائم رہا اور آپ ؑ کے بعد بھی۔پس اس کے اس شرطِ توبہ سے فائدہ اٹھانے کی وجہ سے نکاح والا حصہ منسوخ ہو گیا۔یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اجتہاد تھا کہ سب روکیں اٹھا دی جائیں گی، نہ کہ الہام۔
جیسا کہ پہلے بھی ذکر کیا گیا ہے خدا تعالیٰ فرماتا ہے ’’ مَا کَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ ‘‘( الانفال:34) کہ اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ ان کو عذاب دے جبکہ وہ بخشش طلب کرتے ہوں۔یعنی توبہ و استغفار کی روک کو جبراً اٹھانا اللہ تعالیٰ کی شان کے خلاف ہے۔ چونکہ مرزا سلطان محمّدنے اس شرط سے فائدہ اٹھاکر اس پیشگوئی کی اصل غرض کو پورا کر دیا تھا اس لئے اس کے دوسرے حصے کے نفوذ کی ضرورت نہیں تھی لہٰذا وہ حصہ ٹل گیا۔
پیشگوئیوں کے اصول
پیشگوئیاں دراصل دو قسم کی ہوتی ہیں ۔بعض وعدہ پر مشتمل ہوتی ہیں اور بعض وعید یعنی کسی عذاب …