اعتراض: مرزا صاحب کی پیشگوئی کے برعکس قادیان میں طاعون آئی
ایک اعتراض یہ اٹھایا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے یہ پیشگوئی کی تھی کہ قادیان میں طاعون نہیں آئے گی۔اس کے برعکس طاعون آئی ۔
حضورؑ نے فرمایا کہ قادیان میں کبھی ویران کردینے والی طاعون نہیں پڑے گی
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ عبارت جس پر اعتراض کیا جاتا ہے درج ذیل ہے ۔ فرمایا :۔
”خدا قادیان کو طاعون کی تباہی سے محفوظ رکھے گا تاکہ تم سمجھو کہ قادیان اسی لئے محفوظ رکھی گئی کہ خدا کا رسول اور فرستادہ قادیان میں تھا ۔ ‘‘
(دافع البلاء ۔روحانی خزائن جلد 18ص 226)
حضور ؑنے بالکل اسی عبارت کے تحت حاشیے میں لکھا ہے کہ قادیان کو طاعون سے محفوظ رکھنے سے کیا مراد ہے؟ یہ بالکل جھوٹ ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے قادیان میں طاعون کا آنا ممنوع قرار دیا ہے ۔بلکہ حضرت مسیح موعود ؑ نے تو فرمایا ہے کہ قادیان میں طاعون آئے گی تو سہی مگر طاعون جارف یعنی جھاڑو دینے والی طاعون نہیں آئے گی ۔
چنانچہ حضرت اقدس ؑ دافع البلاء کے اسی مذکورہ بالا صفحے کے حاشیے میں فرماتے ہیں :
”ہم دعوی ٰسے لکھتے ہیں کہ قادیان میں کبھی طاعون جارف نہیں پڑے گی جو گاؤں کو ویران کرنے والی اور کھا جانے والی ہو تی ہے ۔‘‘
(دافع البلاء ص 9روحانی خزائن جلد 18ص 225)
پھر فرماتے ہیں کہ:
”اللہ تعالیٰ نے فرمادیا کہ میں قادیان کو اس تباہی سے محفوظ رکھوں گا۔ خصوصا ایسی تباہی سے کہ لوگ کتوں کی طرح طاعون کی وجہ سے مریں ۔یہاں تک کہ بھاگنے اور منتشر ہونے کی نوبت آوے ۔‘‘
(دافع البلاء ص 21روحانی خزائن جلد 18ص 237)
پھر فرمایا :
” کچھ حرج نہیں کہ انسانی برداشت کی حد تک کبھی قادیان میں بھی کوئی واردات شاذو نادر طور پر ہو جائے جو بربادی بخش نہ ہو اور موجب فرار و انتشار نہ ہو کیونکہ شاذو نادر معدوم کا حکم رکھتا ہے۔‘‘
(دافع البلاء ص 9روحانی خزائن جلد 18ص225)
قادیان کو طاعون کی تباہی سے محفوظ رکھنے کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہاما ان الفاظ میں دیا تھا کہ :۔
اِنَّہُ اَوَی الْقَرْیَۃَ کہ وہ قادر خدا قادیان کو طاعون کی تباہی سے محفوظ رکھے گا۔
اس کی تشریح میں فرماتے ہیں:
” انّہ، اٰوَیٰ الْقَرْیَۃَ اس کے یہ معنے ہیں کہ خدا تعالیٰ کسی قدر عذاب کے بعد اس گاؤں کو اپنی پناہ میں لے لے گا۔ یہ معنی نہیں ہیں کہ ہر گز اس میں طاعون نہیں آئے گی۔ اٰویٰ کا لفظ عربی زبان میں اُس پناہ دینے کو کہتے ہیں کہ جب کوئی شخص کسی حد تک مصیبت رسیدہ ہو کر پھر امن میں آجاتا ہے۔۔۔۔۔۔غرض اٰوٰی کا لفظ ہمیشہ اس موقع پر آتا ہے جب ایک شخص کسی حد تک کوئی مصیبت اٹھا کر پھر امن میں داخل کیاجاتا ہے ۔یہی پیشگوئی قادیان کی نسبت ہے چنانچہ صرف ایک دفعہ کسی قدر شدت سے طاعون قادیان میں ہوئی۔بعد اس کے کم ہوتی گئی ۔ ‘‘
(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22ص244،243)
پس ان پیشگوئیوں کے مطابق ایک دفعہ کسی قدر عذاب کے بعد اپنی امان میں لے لیا گیا۔
پس مذکو رہ بالا تما م بحث سے یہ با ت واضح ہے کہ حضرت مسیح مو عود ؑ نے ہر گز یہ دعو ی ٰ نہیں کیا کہ طاعون کبھی قا دیا ن میں وارد نہ ہو گی بلکہ پیش گو ئی یہی تھی کہ شدید حملہ طا عو ن کاقا دیا ن پر ہر گز نہیں ہو گا چنانچہ ایسا ہی ہو ا اور کبھی بھی ایسی طاعو ن جا رف قا دیان میں نہ آ ئی جو بر با دی اور تبا ہی کا با عث ہو ۔ہا ں حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنی طرف ہو نے والی خدا کی اس پا ک وحی کا اعلان ضرو ر فر ما یا کہ:
” اِنِّیْ اُحَا فِظُ کُلّ مَنْ فِیْ الدَّارِ اُحَا فِظُکَ خَا صَۃً‘‘
(تذکر ہ صفحہ 427تا 428)
کہ تیر ے گھر کی چا ر دیوا ری میں رہنے وا لے طا عون سے محفو ظ رہیں گے اور تیر ی تو خا ص حفا ظت کی جائے گی(خواہ چار دیواری کے اندر ہوں یا باہر)۔چنانچہ ایسا ہی ہوا۔حضرت اقدس علیہ السلام نے یہ اعلان فرمایا :۔
’’میرا یہی نشان ہے کہ ہر ایک مخالف خواہ وہ امروہہ میں رہتا ہے اور خواہ امرتسر میں اور خواہ دہلی میں اور خواہ کلکتہ میں اور خواہ لاہور میں اور خواہ گولڑہ میں اور خواہ بٹالہ میں۔ اگر وہ قسم کھا کر کہے گا کہ اس کا فلاں مقام طاعون سے پاک رہیگا تو ضرور وہ مقام طاعون میں گرفتار کیا جائیگا۔ کیونکہ اس نے خدا تعالیٰ کے مقابل پر گستاخی کی۔‘‘
(دافع البلاء۔روحانی خزائن جلد 18صفحہ238)
پیشگوئیوں کے اصول
پیشگوئیاں دراصل دو قسم کی ہوتی ہیں ۔بعض وعدہ پر مشتمل ہوتی ہیں اور بعض وعید یعنی کسی عذاب …