مسلمانو ں کی توہین کا اصولی جواب
مسلما نو ں کی توہین کا اصولی جواب
واضح رہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ پر یہ الزام لگانا کہ نعوذباللہ آپ نے تمام مسلمانوں خواہ ان کا تعلق کسی بھی زمانے یا مسلک سے ہو کو گالیاں دی ہیں ایک جاہلانہ اعتراض ہے جس کی کچھ بھی حقیقت نہیں ۔ا ول تو حضرت مرزا صاحب کے بعض سخت الفاظ کے متعلق لفظ گالی کا اطلاق کرنا حد درجہ کی بد دیانتی ہے دوسرا یہ کہ حضرت صاحب کے ان سخت الفاظ کے مخاطب بھی گنتی کے چندلو گ تھے نہ کہ معترضین کے گمراہ کن گمان کے مطابق تمام مسلمان۔
حضرت مرزا صاحب نے ہر گز ہر گز شریف اور مہذب مولویوں یا دوسرے عام مسلمانوں کو گالی نہیں دی ۔ یہ محض معترضین کی شر انگیزی ہے کہ وہ عوام الناس اور شریف علماء کو حضرت مرزا صاحب کے خلاف اشتعال دلانے کی غرض سے اصل عبارات کو ان کے سیاق وسباق سے علیحدہ کر کے اور کانٹ چھانٹ کر پیش کر کے کہتے ہیں کہ مرزا صاحب نے تمام مسلمانوں کو گالیاں دی ہیں ۔حالانکہ حضرت مرزا صاحب کی ان تحریرات میں سخت الفاظ(جنہیں معترضین گالیوں کے نا م سے موسوم کرتے ہیں) کے مخاطب وہ چند گنتی کے مولوی ۔پادری یا پنڈت تھے جو حضرت صاحب کو ایک لمبے عرصے تک نہایت فحش اور ننگی گالیاں دیتے رہے۔ چنانچہ انہوں نے حضرت صاحب اور حضور ؑ کے اہل بیت کے گندے اور توہین آمیز کارٹو ن بنا کر شائع کیے۔
ان لوگوں میں محمد بخش جعفر زٹلی ۔شیخ محمد حسین ۔سعد اللہ لدھیانوی اور عبد الحق امرتسری خاص طور پر گالیاں دینے میں پیش پیش تھے ۔ پس حضرت مسیح موعود ؑکے بعض سخت الفاظ اس قسم کے بد زبان لوگوں کی نسبت بطور جواب کے ہیں۔ لیکن تعجب ہے کہ وہ معدودے چند مخصوص لوگ جو ان تحریرات کے اصل مخاطب تھے ۔عرصہ ہوا فوت بھی ہو چکے اور آج ان کا نام لیوا بھی کوئی باقی نہیں۔لیکن معترضین آج سے قریباً 100برس پہلے کی شائع شدہ تحریریں پیش کر کے موجودہ لوگوں کو یہ دھوکہ دیتے ہیں کہ یہ تحریرات تمہارے متعلق ہیں ۔حالانکہ آج کے یہ بے خودمعترضین اور ان کے سامعین وہ لوگ ہیں جو ان تحریروں کی اشاعت کے وقت ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔
پھر یہ بات تو ہر شخص تسلیم کرے گا کہ اس قسم کی گندی اور فحش گالیاں جیسی حضرت صاحب کے مخالفین نے آپ کو دیں سن کر کوئی شریف یا نیک فطرت انسان ان گالیاں دینے والوں کو پسندیدگی کی نگاہ سے کبھی نہیں دیکھ سکتا ۔پس اگر ایسے لوگوں کی نسبت حضرت صاحب نے جوابی طور پر بظاہر سخت الفاظ استعمال فرمائے ہوں تو بموجب ارشاد خداوندی :
”لَایُحِبُ اللہُ الْجَھْرَ بِالْسُّوْءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ ” (النساء :149)
(اللہ بری با ت کہنا پسند نہیں کرتا مگر وہ مستثنی ہے جس پر ظلم کیا گیا ہو)
حضرت صاحب کی کسی تحریر کو بھی سخت یا نا مناسب نہیں کہا جاسکتا ۔
پھر حضرت صاحب نے ان گالیاں دینے والے گندے دشمنوں کو بھی کوئی گالی نہیں دی بلکہ حقیقت الامر کو بیا ن کیا۔ آپ نے ان کی نسبت جو کچھ فرمایا ۔دراصل وہ آنحضرت ﷺ کی حدیث کا بڑا نرم ترجمہ کیا ہے ۔
حدیث میں ہے: ۔”عُلَمَاءُ ھُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ اَدِیْمِ السَمَاءِ”
( مشکوة کتاب العلم با ب الاعتصام با لکتا ب وا لسنة قدیمی کتب خا نہ آ رام با غ کرا چی)
کہ وہ علماء آسمان کے نیچے بد ترین مخلوق ہوں گے ۔
گویا اگر آسمان کے نیچے بد ذا ت بھی رہتے ہیں تو فرمایا شرھم یعنی ان سے بھی وہ بد تر ہوں گے ۔پس حضرت نے تو نرم الفاظ استعمال فرمائے ہیں ورنہ آنحضرت ﷺ نے تو تفضیل کل کا صیغہ بولا ہے ۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بھی فرما دیا کہ:
”لَیْسَ کَلَامُنَا ھَذَا فِیْ اَخْیَارِھِمْ بَلْ فِیْ اَشْرَارِھِمْ ”
(الھدیٰ حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ314)
کہ ہم نے جو کچھ لکھا ہے یہ صرف شریر علماء کی نسبت لکھا ہے ورنہ غیر احمدیوں میں سے جو علماء شریر نہیں ہیں ۔ہم نے ان کی نسبت یہ نہیں لکھا۔
پھر معترضین کا حضرت مسیح موعود پر علیہ السلام یہ الزام لگا نا کہ نعوذبا للہ آپ نے امت محمدیہ کے تمام گذشتہ اولیا ء اور صالحین امت کی توہین کی اور ان کو گالیا ں دیں ،بھی سراسر بد دیا نتی پر مبنی الزام ہے اور حضرت مرزا صاحب کے معتقدات اور صریح بیانا ت کے خلا ف ہے
حضرت بانی جماعت احمدیہ کی دعوت مقابلہ تفسیر نویسی اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کی اصل واقعاتی حقیقت
قارئین کرام!آجکل سوشل میڈیا پر احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیزمنفی مہم میں الزام تراشیوں کا ا…