اعتراض: مرزا صاحب نے مسمانوں اور عیسائیوں کو ولد الحرام کہا ہے

حضرت مسیح موعود ؑ پر اعتراض ہوتا ہے کہ آپ نے ایسے مسلما نوں اور عیسا ئیوں کو جو آپ کی تکذیب کر تے ہیں ولد الحرام کہا ہے۔

جواب

آپؑ کی جس تحریر پر اعتراض ہوتا ہے وہ یہ ہے :۔

’’اور ہماری فتح کا قائل نہیں ہو گا تو صاف سمجھا جاوے گا کہ اس کو ولد الحرام بننے کاشوق ہے او رحلال زادہ نہیں۔‘‘

(انوار الاسلام ۔ روحانی خزائن جلد 9 ص31)

جواب:۔

معترض نے ا س جگہ بہت ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصنیف میں سے وہ حصہ پیش کیا جس سے ایک قاری کو دھوکا دیا جاسکے ۔آپ اس تحریر کا اتنا حصہ تو پیش کر دیتے کہ جس سے ان الفاظ کا مخاطب واضح ہو جاتا ۔قارئین کے لیے اس تحریر کو مکمل طور پر حضرت مسیح موعود ؑکی کتاب انوار الاسلام سے در ج کیا جاتا ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:۔

’’سوچنا چاہیئے کہ باوجود اس سنت قدیمہ اور موجودگی شرط کے کیوں عبداللہ آتھم پر عذاب موت نازل ہو ہاں اگر یہ دعویٰ کرو کہ عبد اللہ آتھم نے ایک ذرہ حق کی طرف رجوع نہیں کیا اور نہ ڈرا تو اس وہم کی بیخ کنی کے لئے یہ سیدھا اور صاف معیار ہے کہ ہم عبد اللہ آتھم کو دو ہزار روپیہ نقد دیتے ہیں۔ وہ تین مرتبہ قسم کھا کر یہ اقرار کر دے کہ میں نے ایک ذرہ بھی اسلام کی طرف رجوع نہیں کیا اور نہ اسلامی پیشگوئی کی عظمت میرے دل میں سمائی بلکہ برابر سخت دل اور دشمن اسلام رہا اور مسیح کو برابر خدا ہی کہتا رہا۔ پھر اگر ہم اسی وقت بلا توقف دو ہزار روپیہ نہ دیں تو ہم پر لعنت اور ہم جھوٹے اور ہمارا الہام جھوٹا۔ اور اگر عبد اللہ آتھم قسم نہ کھائے یا قسم کی سزا میعاد کے اندر نہ دیکھ لے تو ہم سچے اور ہمارا الہام سچا۔ پھر بھی اگر کوئی تحکم سے ہماری تکذیب کرے اور اس معیار کی طرف متوجہ نہ ہو اور ناحق سچائی پر پردہ ڈالنا چاہے تو بے شک وہ ولد الحلال اور نیک ذات نہیں ہوگا کہ خواہ نخواہ حق سے رو گردان ہوتا ہے اور اپنی شیطنت سے کوشش کرتا ہے کہ سچے جھوٹے ہو جائیں۔

اب اس سے زیادہ صاف اور کون فیصلہ ہوگا کہ ہم دو کلموں کے مول میں خود امرت سر میںؔ جاکر دو ہزار روپیہ دیتے ہیں۔ مسٹر عبداللہ آتھم اگر درحقیقت مجھے کاذب سمجھتا ہے اور جانتا ہے کہ ایک ذرہ بھی اس نے اسلامی عظمت کی طرف رجوع نہیں کی تو وہ ضرور بلا توقف عبارت مذکورہ بالا کے موافق اقرار کر دے گا کیونکہ اب تو وہ اپنے تجربہ سے جان چکا کہ میں جھوٹا ہوں اور مسیح کی حفاظت کو اس نے مشاہدہ کر لیا پھر اس مقابلہ سے اس کو کیا خوف ہے کیا پہلے پندرہ مہینوں میں مسیح زندہ تھا اور مسٹر عبد اللہ آتھم کی حفاظت کر سکتا تھا اور اب مر گیا ہے اس لئے نہیں کر سکتا جبکہ عیسائیوں نے اپنے اشتہار میں یہ کہہ کے اعلان دیا ہے کہ خداوند مسیح نے مسٹر عبد اللہ آتھم کی جان بچائی تو پھر اب بھی خداوند مسیح جان بچائے گا۔ کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی کہ اب مسیح کے خداوند قادر ہونے کی نسبت مسٹر عبد اللہ آتھم کو کچھ شک اور تردد پیدا ہو جائے اور پہلے وہ شک نہ ہو بلکہ اب تو بہت یقین چاہیئے کیونکہ اس کی خداوندی اور قدرت کا تجربہ ہو چکا اور نیز ہمارے جھوٹ کا تجربہ۔ لیکن یاد رکھو کہ مسٹر عبد اللہ آتھم اپنے دل میں خوب جانتا ہے کہ یہ باتیں سب جھوٹ ہیں کہ اس کو مسیح نے بچایا جو خود مر چکا وہ کس کو بچا سکتا ہے اور جو مر گیا وہ قادر کیونکر اور خداوند کیسا بلکہ سچ تو یہ ہے کہ سچے اور کامل خدا کے خوف نے اس کو بچایا اگر اب نادان عیسائیوں کی تحریک سے بے باک ہو جائے گاتو پھر اس کامل خدا کی طرف سے بے باکی کا مزہ چکھے گا۔ غرض اب ہم نے فیصلہ کی صاف صاف راہ بتا دی اور جھوٹے سچے کیلئے ایک معیار پیش کر دیا۔ اب جو شخص اس صاف فیصلہ کے برخلاف شرارت اور عناد کی راہ سے بکواس کرے گا اور اپنی شرارت سے بار بار کہے گا کہ عیسائیوں کی فتح ہوئی اور کچھ شرم اور حیا کو کام نہیں لائے گا اور بغیر اس کے جو ہمارے اس فیصلہ کا انصاف کی رو سے جواب دے سکے انکار اور زبان درازی سے باز نہیں آئے گا اور ہماری فتح کا قائل نہیں ہوگا تو صاف سمجھا جاوے گا کہ اس کو ولد الحرام بننے کا شوق ہے اور حلال زادہ نہیں۔ پس حلال زادہ بننے کیلئے واجب یہ تھا کہ اگر وہ مجھے جھوٹا جانتا ہے اورعیسائیوں کو غالب اور فتح یاب قرار دیتا ہے تو میری اس حجت کو واقعی طور پر رفع کرے جو میں نے پیش کی ہے پس اس پر کھانا پینا حرام ہے اگر وہ اس اشتہار کو پڑھے اور مسٹر عبد اللہ آتھم کے پاس نہ جائے اور اگر خداوند تعالیٰ کے خوف سے نہیں تو اس گندے لقب کے خوف سے بہت زور لگاوے کہ تا وہ کلمات مذکورہ کا اقرار کردے اور تین ہزار روپیہ لے لے اور یہ کاروائی کر دکھاوے پھر اگر عبد اللہ آتھم میعاد قرار دادہ سے بچ جائے تو بے شک تمام دنیا میں مشہور کر دے کہ عیسائیوں کی فتح ہوئی ورنہ حرام زادہ کی یہی نشانی ہے کہ سیدھی راہ اختیار نہ کرے اور ظلم اور ناانصافی کی راہوں سے پیار کرتا رہے۔ اگر کسی کو ایسا ہی اسلام سے بغض اورؔ عیسائیت کی طرف میل ہے اور بہر صورت عیسائیوں کو فتح یاب بنانا چاہتا ہے تو اب اس راہ کے سوا اور تمام راہیں بند ہیں نہ ہم کسی کو ولد الحرام کہتے نہ حرام زادہ نام رکھتے بلکہ جو شخص ایسے سیدھے اور صاف فیصلہ کو چھوڑ کر زبان درازی سے باز نہیں رہے گا وہ آپ یہ تمام نام اپنے لئے اختیار کرے گا خداتعالیٰ جانتا ہے کہ بے شک اسلام کی فتح ہوئی اور دین محمدی ہی غالب رہا اور عیسائی ذلیل ہوئے اور جو شخص اس فتح کو نہیں مانتا چاہیے کہ وہ اس طریق اور فیصلہ کی راہ سے ہم کو ملزم کرے اور اس فیصلہ کی راہ سے ہم کو جھوٹا اور مغلوب قرار دے ورنہ بجز اس کے کیا کہیں کہ یک خطا دو خطا سویم مادر بخطا۔

(انوار الاسلام ،روحانی خزائن جلد 9 ص31،32)

قارئین کرام !ہم آپ کو اس مذکورہ عبارت اور واقعہ کے حالات سے آگاہ کرتے ہیں کہ جب حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے ساتھ پادری عبد اللہ آتھم کا مباحثہ ہوا اور اس میں پادری عبد اللہ آتھم کو شکست ہو ئی تو اس نے آنحضرت ﷺ کی شان مبارک کچھ ایسے کلمات کہے جن سے آنحضرتﷺ کی ہتک شان ہوتی تھی ۔اس وجہ سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے جوش اسلام اور آنحضرتﷺ کی ذات کے لیے غیر ت کی وجہ سے اللہ سے خبر پاکر پیش گوئی فرمائی کہ عبد اللہ آتھم پندرہ ماہ کے اندر ہاویہ میں گرایا جائے گا بشرطیکہ وہ حق کی طرف رجوع نہ کرے۔عبد اللہ آتھم نے خاموشی اختیار کی اور اپنی غلطی سے انکا ر کیا کہ میں نے آنحضرتﷺ کی شان میں گستاخی نہیں کی ۔چنانچہ اس نے اس طرح توبہ کی جس کی وجہ سے وہ عذاب سے بچ گیا ۔تب عیسائیوں نے شور مچایا کہ پیش گوئی پوری نہیں ہوئی ۔اس پر حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا کہ عبداللہ آتھم نے حق کی طرف رجوع کیا جس نے اسے عذاب سے بچا لیا اور اگر ایسا نہیں ہے تو عبد اللہ آتھم اعلان کر دے کہ اس نے حق کی طر ف رجوع نہیں کیا اس صورت میں اسے انعام بھی دیا جائے گا اور پیش گوئی کو جھوٹا سمجھا جائے گا۔چنانچہ عبد اللہ آتھم نے مستقل خاموشی اختیار کی ۔اس کے بعد بھی بعض نادان لوگوں نے عیسائیوں کا ساتھ دیتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی مخالفت کی اور پیش گوئی کی تکذیب کی۔چنانچہ اس پر حضور نے انعام مقرر کر کے فیصلہ کی راہ بھی معین فرمادی اور ساتھ فرمایا کہ جو شخص اس طریقت فیصلہ پر عمل بھی نہیں کرتا اور اس کے ساتھ ساتھ حق کا اخفاء بھی کرتا ہے اور پیش گوئی کو جھوٹا قرار دیتا ہے وہ شرفاء میں سے نہیں ہے کیونکہ شرفاء کے ایسے کام نہیں ہوتے ۔ایسے لوگ بد بخت ہی تھے جنہوں نے نہ تو انعام والے فیصلہ کی راہ کواختیار کیا اور نہ ہی اپنی تکذیب اور مخالفت سے باز آئے۔

قارئین کرام پر واضح ہو چکا ہوگا کہ اس عبارت میں خطاب کن لوگوں سے ہے ۔یہ الفاظ تو صرف بے حیا اور ڈھیت ہٹ دھرمی دکھانے والے عیسائیوں اور مسلمانوںمیں سے ان کے لیے ہیں جو باوجود حق کے واضح ہوجانے کے بعد بھی اس کا انکار کرتے ہوئے اللہ کی پیش گوئی کو جھوٹا قرار دیتے تھے اور مسلمانوں کے مقابلہ میں عیسائیوں کی ناواجب فتح قرار دیتے تھے ۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں فطری طور پر آنحضرت ﷺ کی محبت میں بڑا جو ش تھا اور آپؑ کوئی بھی اعتراض جو آنحضو رﷺیا اسلام پر کیا جاتا تھا ا س کا اپنی ایمانی غیرت اور فنا فی الرسول ﷺ ہونے کی وجہ سے مخالفین کا منہ بند کر دیتے تھے کہ کوئی بھی آنحضرتﷺ یا اسلام پر ناپاک حملہ نہ کرسکے ۔

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

حضرت بانی جماعت احمدیہ کی دعوت مقابلہ تفسیر نویسی اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کی اصل واقعاتی حقیقت

قارئین کرام!آجکل سوشل میڈیا پر احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیزمنفی مہم میں الزام تراشیوں کا ا…