حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ آپ نے مخالفین کی نسبت سخت زبان استعمال کی ہے
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں جواب
اس اعتراض کا ذکر اور اس کا جواب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تحریر ازالہ اوہام میں کیا ہے ۔ آپ فرماتے ہیں:۔
’’پہلی نکتہ چینی اس عاجز کی نسبت یہ کی گئی ہے کہ اپنی تالیفات میں مخالفین کی نسبت سخت الفاظ استعمال کئے ہیں جن سے مشتعل ہو کر مخالفین نے اللہ جلَّشَانُہ، اور اس کے رسول کریم کی بے ادبی کی اور پُر دشنام تالیفات شائع کر دیں۔ قرآن شریف میں صریح حکم وارد ہے کہ مخالفین کے معبودوں کو سب اور شتم سے یاد مت کرو تاوہ بھی بے سمجھی اور کینہ سے خدائے تعالیٰ کی نسبت سبّ و شتم کے ساتھ زبان نہ کھولیں۔لیکن اس جگہ برخلاف طریق ماموریہ کے سب و شتم سے کام لیا گیا۔ ‘‘
اماالجواب
دشنام دہی اور اظہار واقعہ میں فرق ہے
’’پس واضح ہو کہ اس نکتہ چینی میں معترض صاحب نے وہ الفاظ بیان نہیں فرمائے جو اس عاجز نے بزعم ان کے اپنی تالیفات میں استعمال کئے ہیں اور درحقیقت سب و شتم میں داخل ہیں۔میں سچ سچ کہتا ہوں کہ جہاں تک مجھے معلوم ہے میں نے ایک لفظ بھی ایسا استعمال نہیں کیا جس کو دشنام دہی کہا جائے بڑے دھوکہ کی با ت یہ ہے کہ اکثر لوگ دشنام دہی اور بیان واقعہ کو ایک ہی صورت میں سمجھ لیتے ہیں اور ان دونوں مختلف مفہوموں میں فرق کرنا نہیں جانتے بلکہ ایسی ہریک بات کو جو دراصل ایک واقعی امر کا اظہار ہو اور اپنے محل پر چسپاں ہو محض اس کی کسی قدر مرارت کی وجہ سے جو حق گوئی کے لازم حال ہوا کرتی ہے دشنام ہی تصور کر لیتے ہیں حالانکہ دشنام اور سب اور شتم فقط اس مفہوم کا نام ہے جو خلاف واقعہ اور دروغ کے طور پر محض آزار رسانی کی غرض سے استعمال کیا جائے ‘‘
قرآن کریم میں برموقع سخت الفاظ استعمال کئے گئے ہیں
’’اور اگر ہریک سخت اور آزار دہ تقریر کو محض بوجہ اس کے مرارت اور تلخی اور ایذارسانی کے دشنام کے مفہوم میں داخل کر سکتے ہیں تو پھر اقرار کرنا پڑے گا کہ سارا قرآن شریف گالیوں سے پُر ہے کیونکہ جو کچھ بتوں کی ذلت اور ُبت پرستوں کی حقارت اور ان کے بارہ میں لعنت ملامت کے سخت الفاظ قرآن شریف میں استعمال کئے گئے ہیں یہ ہرگز ایسے نہیں ہیں جن کے سننے سے بت پرستوں کے دل خوش ہوئے ہوں بلکہ بلاشبہ ان الفاظ نے ان کے غصہ کی حالت کی بہت تحریک کی ہو گی۔کیا خدائے تعالیٰ کا کفار مکہ کو مخاطب کرکے یہ فرمانا کہ اِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ حَصَبُ جَھَنَّمَ معترض کے من گھڑت قاعدہ کے موافق گالی میں داخل نہیں ہے کیا خدائے تعالیٰ کا قرآن شریف میں کفار کو شَرُّالْبَرِیَّۃ قرار دینا اور تمام رذیل اور پلید مخلوقات سے انہیں بد تر ظاہر کرنا یہ معترض کے خیال کے روسے دشنام دہی میں داخل نہیں ہوگا؟کیاخدائے تعالیٰ نے قرآن شریف میں وَ اغْلُظْ عَلَیْھِمْ نہیں فرمایا کیا مومنوں کی علامات میں اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّارِنہیں رکھا گیا ‘‘
حضرت مسیح کی سخت زبانی
’’کیا حضرت مسیح کا یہودیوں کے معزز فقیہوں اور فریسیوں کو سؤر اور کتے کے نام سے پکارنا اور گلیل کے عالی مرتبہ فرمانروا ہیرودیس کا لونبڑی نام رکھنا اور معزز سردار کاہنوں اور فقیہوں کوکنجری کے ساتھ مثال دینا اور یہودیوں کے بزرگ مقتداؤں کو جو قیصری گورنمنٹ میں اعلیٰ درجہ کے عزت دار اور قیصری درباروں میں کُرسی نشین تھے ان کریہہ اور نہایت دل آزار اور خلاف تہذیب لفظوں سے یاد کرنا کہ تم حرام زادے ہو حرام کار ہو شریرہو بدذات ہوبے ایمان ہو احمق ہو ریاکار ہو شیطان ہو جہنمی ہو تم سانپ ہو سانپوں کے بچے ہو۔کیا یہ سب الفاظ معترض کی رائے کے موافق فاش اور گندی گالیاں نہیں ہیں اِس سے ظاہر ہے کہ معترض کا اعتراض نہ صرف مجھ پر اور میری کتابوں پر بلکہ درحقیقت معترض نے خدائے تعالیٰ کی ساری کتابوں اور سارے رسولوں پر نہایت درجہ کے جلے سڑے دل کے ساتھ حملہ کیا ہے اور یہ حملہ انجیل پر سب سے زیادہ ہے کیونکہ حضرت مسیح کی سخت زبانی تمام نبیوں سے بڑھی ہوئی ہے اور انجیل سے ثابت ہے کہ اس سخت کلامی کی وجہ سے کئی مرتبہ یہودیوں نے حضرت مسیح کے مارنے کے لئے پتھر اٹھائے اورسردار کاہن کی بے ادبی سے حضرت مسیح نے اپنے منہ پر طمانچے بھی کھائے اور جیسا کہ حضرت مسیح نے فرمایا تھا کہ میں صلح کرانے نہیں آیا بلکہ تلوار چلانے آیا ہوں سو انہوں نے زبان کی تلوار ایسی چلائی کہ کسی نبی کے کلام میں ایسے سخت اور آزاردہ الفاظ نہیں جیسے انجیل میں ہیں اس زبان کی تلوار چلنے سے آخر مسیح کو کیا کچھ آزار اٹھانے پڑے ایساہی حضرت یحییٰ نے بھی یہودیوں کے فقیہوں اور بزرگوں کوسانپوں کے بچے کہہ کر ان کی شرارتوں اور کارسازیوں سے اپنا سر کٹوایا مگر سوال تو یہ ہے کہ کیا یہ مقدس لوگ پرلے درجہ کے غیر مہذب تھے کیا زمانہ حال کی موجودہ تہذیب کی ان کو بُو بھی نہیں پہنچی تھی؟‘‘
انبیاء کی سخت زبانی کی وجہ آنحضرت ﷺ کی زبانی
’’اِس سوال کا جواب ہمارے سیّدو مولیٰ مادر و پدرم براو فداباد حضرت ختم المرسلین سیّد الاولین والآخرین پہلے سے دے چکے ہیں اور وہ یہ ہے کہ جب یہ آیتیں اتریں کہ مشرکین رجس ہیں پلید ہیں شرّالبریّہ ہیں سفہاء ہیں اور ذرّیت شیطان ہیں اور ان کے معبود وقود النّار اور حصب جہنم ہیں تو ابوطالب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا کر کہا کہ اے میرے بھتیجے اب تیری دشنام دہی سے قوم سخت مشتعل ہوگئی ہے اور قریب ہے کہ تجھ کو ہلاک کریں اور ساتھ ہی مجھ کو بھی۔تو نے ان کے عقل مندوں کو سفیہ قرار دیا اور ان کے بزرگوں کو شرّالبریّہ کہا اور ان کے قابل تعظیم معبودوں کانام ہیزم جہنّم اور وقود النّار رکھااور عام طور پر ان سب کو رجس اور ذرّیت شیطان اور پلید ٹھہرایامیں تجھے خیر خواہی کی راہ سے کہتاہوں کہ اپنی زبان کو تھام اور دشنام دہی سے بازآجاورنہ میں قوم کے مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں کہاکہ اے چچایہ دشنام دہی نہیں ہے بلکہ اظہار واقعہ اور نفس الامر کا عین محل پر بیان ہے اور یہی تو کام ہے جس کے لئے میں بھیجا گیا ہوں اگر اس سے مجھے مرنا درپیش ہے تو میں بخوشی اپنے لئے اس موت کو قبول کرتا ہوں میری زندگی اسی راہ میں وقف ہے مَیں موت کے ڈر سے اظہار حق سے رک نہیں سکتا اور اے چچا اگر تجھے اپنی کمزوری اور اپنی تکلیف کا خیال ہے تو تُو مجھے پناہ میں رکھنے سے دست بردار ہوجا بخدا مجھے تیری کچھ بھی حاجت نہیں میں احکام الٰہی کے پہنچانے سے کبھی نہیں رکوں گا مجھے اپنے مولیٰ کے احکام جان سے زیادہ عزیز ہیں بخدا اگر میں اس راہ میں مارا جاؤں تو چاہتا ہوں کہ پھر بار بار زندہ ہو کر ہمیشہ اسی راہ میں مرتا رہوں۔یہ خوف کی جگہ نہیں بلکہ مجھے اس میں بے انتہاء لذت ہے کہ اس کی راہ میں دکھ اٹھاؤں۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ تقریر کر رہے تھے اور چہرہ پر سچائی اور نورانیّت سے بھری ہوئی رقت نمایاں ہورہی تھی اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ تقریر ختم کر چکے تو حق کی روشنی دیکھ کر بے اختیار ابو طالب کے آنسو جاری ہو گئے اور کہا کہ میں تیری اِس اعلیٰ حالت سے بے خبر تھا تُو اور ہی رنگ میں اور اَور ہی شان میں ہے جااپنے کام میں لگارہ جب تک میں زندہ ہوں جہاں تک میری طاقت ہے میں تیرا ساتھ دوں گا۔اب حاصل کلام یہ ہے کہ جو کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو طالب کے اعتراض کا خود اپنی زبان مبارک سے جواب دیا در حقیقت وہی جواب ہریک معترض کے ساکت کرنے کے لئے کافی و وافی ہے کیونکہ دشنام دہی اور چیز ہے اور بیان واقعہ کا گو وہ کیسا ہی تلخ اور سخت ہو دوسری شے ہے ہریک محقق اور حق گو کا یہ فرض ہوتا ہے کہ سچی بات کو پورے پورے طور پر مخالف گُم گشتہ کے کانوں تک پہنچا دیوے پھر اگر وہ سچ کو سن کر افروختہ ہو تو ہوا کرے ‘‘
لَا تَسُبُّوْا الَّذِیْنَ والی آیت میں امر معروف کے اظہار کی مناہی نہیں
’’ہمارے علماء جو اس جگہ لَا تَسُبُّوْا کی آیت پیش کرتے ہیں میں حیران ہوں کہ اس آیت کو ہمارے مقصد اور مدعا سے کیا تعلق ہے۔ اس آیت کریمہ میں تو صرف دُشنام دہی سے منع فرمایا گیا ہے نہ یہ کہ اظہار حق سے روکا گیا ہو اگر نادان مخالف حق کی مرار ت اور تلخی کو دیکھ کر دشنام دہی کی صورت میں اس کو سمجھ لیوے اور پھر مشتعل ہو کر گالیاں دینی شروع کرے توکیا اس سے امر معروف کا دروازہ بند کر دینا چاہیئے؟کیااس قسم کی گالیاں پہلے کفار نے کبھی نہیں دیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حق کی تائیدکے لئے صرف الفاظ سخت ہی استعمال نہیں فرمائے بلکہ بُت پرستوں کے ان بتوں کو جو اُن کی نظر میں خدائی کا منصب رکھتے تھے اپنے ہاتھ سے توڑا بھی ہے۔‘‘
اسلام نے مداہنہ(یعنی سچ کو چھپانےکے لئے نرمی اختیار کرنا) جائز نہیں رکھا
’’اسلام نے مداہنہ کو کب جائز رکھا اور ایسا حکم قرآن شریف کے کس مقام میں موجود ہے بلکہ اللہ جلّشَانُہ، مداہنہ کی ممانعت میں صاف فرماتا ہے کہ جو لوگ اپنے باپوں یا اپنی ماؤں کے ساتھ بھی ان کی کفر کی حالت میں مداہنہ کا برتاؤ کریں وہ بھی ان جیسے ہی بے ایمان ہیں اور کفار مکہ کی طرف سے حکایت کرکے فرماتاہےوَدُّوْ لَوْ تُدْھِنُ فَیُدْھِنُوْنَ یعنی اس بات کو کفار مکہ دوست رکھتے ہیں کہ اگر تُو حق پوشی کی راہ سے نرمی اختیار کرے تو وہ بھی تیرے دین میں ہاں میں ہاں ملا دیاکریں مگر ایسا ہاں میں ہاں ملانا خدائے تعالیٰ کو منظور نہیں۔غرض آیت قرآنی جو معترض نے پیش کی ہے وہ اگر کسی بات پر دلالت کرتی ہے تو صرف اسی بات پر کہ معترض کو کلام الٰہی کے سمجھنے کی مس تک نہیں۔نہیں خیال کرتا کہ اگر یہ آیت ہریک طور کی سخت زبانی سے متعلق سمجھی جائے تو پھر امر معروف اور نہی منکر کا دروازہ بند ہو جانا چاہیئے اور نیز اس صورت میں خدائے تعالیٰ کا کلام دومتناقض امروں کا جامع ماننا پڑے گا یعنی یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اوّل تو اُس نے ہریک طور کی سخت کلامی سے منع فرمایا اور ہریک محل میں کفار کا دل خوش رکھنے (کے) لئے تاکید کی اور پھر آپ ہی اپنے قول کے مخالف کارروائی شروع کرد ی اور ہریک قسم کی گالیاں منکروں کو سنائیں بلکہ گالیاں دینے کے لئے تاکیدکی۔ سوجاننا چاہیئے کہ جن مولویوں نے ایسا خیال کیا ہے کہ گویا عام طور پر ہریک سخت کلامی سے خدائے تعالیٰ منع فرماتاہے۔یہ اُن کی اپنی سمجھ کا ہی قصور ہے ورنہ وہ تلخ الفاظ جو اظہارحق کے لئے ضروری ہیں اور اپنے ساتھ اپنا ثبوت رکھتے ہیں وہ ہریک مخالف کو صاف صاف سنا دینا نہ صرف جائز بلکہ واجبات وقت سے ہے تامداہنہ کی بلا میں مبتلانہ ہو جائیں۔خدائے تعالیٰ کے برگزیدہ بندے ایسی سخت تبلیغ کے وقت میں کسی لاعن کی لعنت اور کسی لائم کی ملامت سے ہرگز نہیں ڈرے کیا معلوم نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں جس قدر مشرکین کا کینہ ترقی کر گیاتھا اس کا اصل باعث وہ سخت الفاظ ہی تھے جو اُن نادانوں نے دشنام دہی کی صورت پرسمجھ لئے تھے جن کی وجہ سے آخر لسان سے سنان تک نوبت پہنچی ورنہ اول حال تو وہ لوگ ایسے نہیں تھے بلکہ کمال اعتقادسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کہا کرتے تھے کہ عَشِقَ مُحَمَّدٌ عَلیٰ رَبِّہٖ ۔ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب پر عاشق ہو گئے ہیں جیسے آج کل کے ہندو لوگ بھی کسی گوشہ نشین فقیر کو ہرگز بُرا نہیں کہتے بلکہ نذریں نیازیں دیتے ہیں۔‘‘
بانی مبانی اس اعتراض کے بعض علماء بھی ہیں
’’اس جگہ مجھے نہایت افسوس اور غمگین دل کے ساتھ اس بات کے ظاہر کرنے کی بھی حاجت پڑی ہے کہ یہ اعتراض جو مجھ پر گیا ہے یہ صرف عوام الناس کی طرف سے ہی نہیں بلکہ میں نے سنا ہے کہ بانی مبانی اس اعتراض کے بعض علماء بھی ہیں۔سو میں ان کی شان میں یہ تو ظن نہیں کر سکتاکہ وہ قرآن شریف اور کتب سابقہ سے بے خبر ہیں اور نہ کسی طور سے جائے ظن ہے لیکن میں جانتاہوں کہ آج کل کی یورپ کی جھوٹی تہذیب نے جو ایمانی غیّوری سے بہت دُور پڑی ہوئی ہے ہمارے علماء کے دلوں کو بھی کسی قدر دبا لیا ہے۔اس سخت آندھی کے چلنے کی وجہ سے ان کی آنکھوں میں بھی کچھ غبارساپڑگیاہے اور ان کی فطرتی کمزوری اس نزلہ کو قبول کر گئی ہے۔اسی وجہ سے وہ ایسے خیالات پر زور دیتے ہیں جن کا کوئی اصل صحیح حدیث و قرآن میں نہیں پایا جاتا ہاں یورپ کی اخلاقی کتابوںمیں تو ضرور پایا جاتا ہے اور ان اخلاق میں یورپ نے یہاں تک ترقی کی ہے کہ ایک جوان عورت سے ایک نامحرم طالب کی بکلّی دل شکنی مناسب نہیں سمجھی گئی۔مگر کیا قرآن شریف یورپ کے ان اخلاق سے اتفاق رائے کرتا ہے؟ کیا وہ ایسے لوگوں کا نام دیّوث نہیں رکھتا؟ میں ایسے علماء کو محض للہ متنبہ کرتا ہوں کہ وہ ایسی نکتہ چینیاں کرنے اور ایسے خیالات کو دل میں جگہ دینے سے حق اور حق بینی سے بہت دور جاپڑے ہیں اگر وہ مجھ سے لڑنے کو تیار ہوں تو اپنی خشک منطق سے جو چاہیں کہیں لیکن اگر وہ خدائے تعالیٰ سے خوف کر کے کسی قدرسوچیں تو یہ ایسی بات نہیں ہے جو ان کی نظر سے پوشیدہ رہ سکے نیک بخت انسان کا فرض ہے کہ سچائی کے طریقوں کو ہاتھ سے نہ دیوے بلکہ اگر ایک ادنیٰ سے ادنیٰ انسان کی زبان پر کلمہ حق جاری ہو اور اپنے آپ سے غلطی ہو جائے تو اپنی غلطی کا اقرار کر کے شکر گذاری کے ساتھ اس حقیر آدمی کی بات کو مان لیوے اور اَنَا خَیْرٌ مِنْہُ کا دعویٰ نہ کرے ورنہ تکبر کی حالت میں کبھی رشد حاصل نہیں ہوگا بلکہ ایسے آدمی کا ایما ن بھی معرض خطر میں ہی نظر آتاہے۔‘‘
سخت الفاظ کے استعمال کرنے کی ایک حکمت یہ ہے کہ تا خلق اللہ اس ٹھوکرکے ساتھ بیدار ہو جائیں
’’اور سخت الفاظ کے استعمال کرنے میں ایک یہ بھی حکمت ہے کہ خفتہ دل اس سے بیدار ہوتے ہیں اور ایسے لوگوں کے لئے جو مداہنہ کو پسند کرتے ہیں ایک تحریک ہو جاتی ہے مثلاً ہندوؤں کی قوم ایک ایسی قوم ہے کہ اکثر اُن میں سے ایسی عادت رکھتے ہیں کہ اگر ان کو اپنی طرف سے چھیڑانہ جائے تو وہ مداہنہ کے طور پر تمام عمر دوست بن کر دینی امور میں ہاں سے ہاں ملاتے رہتے ہیں بلکہ بعض اوقات تو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف وتوصیف اور اس دین کے اولیاء کی مدح و ثنا کرنے لگتے ہیں لیکن دل اُن کے نہایت درجہ کے سیاہ اور سچائی سے دور ہوتے ہیں۔اُن کے رُوبرو سچائی کو اُس کی پوری مرارت اور تلخی کے ساتھ ظاہر کرنا اس نتیجہ خیر کا منتج ہوتاہے کہ اُسی وقت اُن کا مداہنہ دور ہوجاتاہے اور بالجہر یعنی واشگاف اور علانیہ اپنے کفر اور کینہ کو بیان کرنا شروع کردیتے ہیں گویا اُن کی دق کی بیماری محرقہ کی طرف انتقال کرجاتی ہے۔سو یہ تحریک جو طبیعتوں میں سخت جوش پیداکردیتی ہے اگرچہ ایک نادان کی نظر میں سخت اعتراض کے لائق ہے مگر ایک فہیم آدمی بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ یہی تحریک رُوبحق کرنے کے لئے پہلا زینہ ہے۔جب تک ایک مرض کے مواد مخفی ہیں تب تک اس مرض کا کچھ علاج نہیں ہو سکتالیکن مواد کے ظہور اور بروز کے وقت ہریک طور کی تدبیر ہو سکتی ہے۔انبیا نے جو سخت الفاظ استعمال کئے حقیقت میں ان کا مطلب تحریک ہی تھا تا خلق اللہ میں ایک جوش پیدا ہو جائے اور خواب غفلت سے اس ٹھوکر کے ساتھ بیدار ہوجائیں اور دین کی طرف خوض اور فکر کی نگاہیں دوڑانا شروع کردیں اور اس راہ میں حرکت کریں گو وہ مخالفانہ حرکت ہی سہی اور اپنے دلوں کا اہل حق کے دلوں کے ساتھ ایک تعلق پیداکرلیں گو وہ عدوانہ تعلق ہی کیوں نہ ہو اسی کی طرف اللہ جلّشَانُہ، اشارہ فرماتاہےفِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ فَزَادَھُمُ اللہُ مَرَضًایقیناسمجھنا چاہیئے کہ دین اسلام کو سچے دل سے ایک دن وہی لوگ قبول کریں گے جو بباعث سخت اور پُرزور جگانے والی تحریکوں کے کتب دینیہ کی ورق گردانی میں لگ گئے ہیں اور جوش کے ساتھ اس راہ کی طرف قدم اُٹھارہے ہیں گو وہ قدم مخالفانہ ہی سہی۔ہندوؤں کا وہ پہلا طریق ہمیں بہت مایوس کرنے والا تھاجو اپنے دلوں میں وہ لوگ اس طرز کو زیادہ پسند کے لائق سمجھتے تھے کہ مسلمانوں سے کوئی مذہبی بات چیت نہیں کرنی چاہیئے اور ہاں میں ہاں ملا کر گذارہ کر لینا چاہیئے لیکن اب وہ مقابلہ پرآکر اور میدان میں کھڑے ہو کرہمارے تیز ہتھیاروں کے نیچے آپڑے ہیں اور اس صید قریب کی طرح ہو گئے جس کا ایک ہی ضرب سے کام تمام ہو سکتاہے اُن کی آہوانہ سرکشی سے ڈرنا نہیں چاہیئے دشمن نہیں ہیں وہ تو ہمارے شکار ہیں عنقریب وہ زمانہ آنے والا ہے کہ تم نظر اُٹھا کر دیکھو گے کہ کوئی ہندو دکھائی دے مگر ان پڑھوں لکھوں میں سے ایک ہندو بھی تمہیں دکھائی نہیں دے گا سو تم اُن کے جوشوں سے گھبرا کر نومید مت ہو کیونکہ وہ اندر ہی اندر اسلام کے قبول کرنے کے لئے تیاری کررہے ہیں اور اسلام کی ڈیوڑھی کے قریب آپہنچے ہیں۔میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو لوگ مخالفانہ جوش سے بھرے ہوئے آج تمہیں نظر آتے ہیں تھوڑے ہی زمانے کے بعد تم انہیں نہیں دیکھو گے۔حال میں جو آریوں نے ہم لوگوں کی تحریک سے مناظرات کی طرف قدم اُٹھایا ہے تو اس قدم اُٹھانے میں گو کیسی ہی سختی کے ساتھ اُن کا برتاؤ ہے اور گو گالیوں اور گندی باتوں سے بھری ہوئی کتابیں وہ شائع کر رہے ہیں مگر وہ اپنے جوش سے درحقیقت اسلام کے لئے اپنی قوم کی طرف راہ کھول رہے ہیں اور ہماری تحریکات کا واقعی طور پر کوئی بدنتیجہ نہیں ہاں یہ تحریکات کوتہ نظروں کی نگاہ میں بد نما ہیں مگر کسی دن دیکھنا کہ یہ تحریکات کیوں کر بڑے بڑے سنگین دلو ں کو اس طرف کھینچ لاتی ہیں۔یہ رائے کوئی ظنی اور شکی رائے نہیں بلکہ ایک یقینی اور قطعی امر ہے لیکن افسوس اُن لوگو ں پر جو خیر اور شر میں فرق نہیں کر سکتے اور شتا ب کاری کی راہ سے اعتراض کرنے کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں خدائے تعالیٰ نے ہمیں مداہنہ سے تو صاف منع فرمایا ہے لیکن حق کے اظہار سے باندیشہ اس کی مرارت اور تلخی کے باز آجانا کہیں حکم نہیں فرمایا۔فتدبروا ایّھا العلماء المستعجلون الا تقرؤن القراٰن مالکم کیف تحکمون۔میرے ایک مخلص دوست مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی جو نو تعلیم یافتہ جوان اور تربیت جدیدہ کے رنگ سے رنگین اور نازک خیال آدمی ہےں جن کے دل پر میرے محب صادق اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب کی مربیانہ اور اُستادانہ صحبت کا نہایت عمدہ بلکہ خارق عادت اثر پڑا ہوا ہے وہ بھی جو اَب قادیاں میں میرے ملنے کے لئے آئے وعدہ فرما گئے ہیں کہ مَیں بھی تہذیب حقیقی کے بارے میں ایک رسالہ تالیف کر کے شائع کروں گا کیونکہ مولوی صاحب موصوف اس بات کو بخوبی سمجھتے ہیں کہ در اصل تہذیب حقیقی کی راہ وہی راہ ہے جس پر انبیاء علیہم السلام نے قدم مارا ہے جس میں سخت الفاظ کا داروئے تلخ کی طرح گاہ گاہ استعمال کرنا حرام کی طرح نہیں سمجھا گیا بلکہ ایسے درشت الفاظ کا اپنے محل پر بقدرِ ضرورت و مصلحت استعمال میں لانا ہریک مبلغ اور واعظ کا فرض وقت ہے جس کے ادا کرنے میں کسی واعظ کا سُستی اور کاہلی اختیار کرنا اس بات کی نشانی ہے کہ غیراللہ کا خوف جو شرک میں داخل ہے اس کے دل پر غالب اور ایمانی حالت اس کی ایسی کمزور اور ضعیف ہے جیسے ایک کیڑے کی جان کمزور اور ضعیف ہوتی ہے سو میں اُس دوست کے لئے دعا کرتا ہوں کہ خدائے تعالیٰ اس تالیف کے ارادہ میں روح القدس سے اُس کی مدد فرماوے۔میرے نزدیک بہتر ہے کہ وہ اپنے اس رسالہ کا نام تہذیب ہی رکھیں اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ میرے اس دوست کو یہ جوش ایک مولوی صاحب کے اعتراض سے پیدا ہوا ہے جو قادیاں کی طرف آتے وقت اتفاقاََ لاہور میں مل گئے تھے جنہوں نے اس عاجز کی نسبت اسی بار ہ میں اعترا ض کیا تھااے خداوند قادر مطلق اگرچہ قدیم سے تیری یہی عادت اور یہی سنت ہے کہ تو بچوں اور اُمیوں کو سمجھ عطا کرتا ہے اور اس دنیا کے حکیموں اور فلاسفروں کی آنکھوں اور دلوں پر سخت پردے تاریکی کے ڈال دیتاہے مگر میں تیری جناب میں عجز اور تضرع سے عر ض کرتا ہوں کہ ان لوگوں میں سے بھی ایک جماعت ہماری طرف کھینچ لا جیسے تُو نے بعض کو کھینچا بھی ہے اور ان کو بھی آنکھیں بخش اور کان عطا کر اور دل عنایت فرما تا وہ دیکھیں اور سُنیں اور سمجھیں اور تیری اس نعمت کا جو تُو نے اپنے وقت پر نازل کی ہے قدر پہچان کر اس کے حاصل کرنے کے لئے متوجہ ہو جائیں۔اگر تُو چاہے تو تُو ایسا کر سکتاہے کیونکہ کوئی بات تیرے آگے اَن ہونی نہیں۔آمین ثم آمین۔ ‘‘
(ازالہ اوہام حصہ اول۔ روحانی خزائن جلد 3صفحہ108تا120)
حضرت بانی جماعت احمدیہ کی دعوت مقابلہ تفسیر نویسی اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کی اصل واقعاتی حقیقت
قارئین کرام!آجکل سوشل میڈیا پر احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیزمنفی مہم میں الزام تراشیوں کا ا…