اعتراض: غیر احمدیو ں کے پیچھے نماز،ان کا جنازہ، اور ان کو رشتہ دینا

اعتراض:۔

احمدی دوسرے مسلمانوں کے پیچھے نہ نماز پڑھتے ہیں نہ ان کا جنازہ ادا کرتے ہیں نہ ان سے شادی بیاہ کا تعلق قائم کرتے ہیں۔

جواب:۔

جماعتِ احمدیہ اِس معاملہ میں ایک مظلوم جماعت ہے جس پر شروع ہی سے علماء حضرات نے فتاوٰی لگا رکھے ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔

’’جو ہمیں کافر نہیں کہتا ہے ہم اسے ہر گز کافر نہیں کہتے لیکن جو ہمیں کافر کہتاہے اسے کافر نہ سمجھیں تو اس میں حدیث اور متفق علیہ مسئلہ کی مخالفت لازم آتی ہے اور یہ ہم سے نہیں ہو سکتا………..پس جب تک یہ لوگ ایک اشتہار نہ دیں کہ ہم سلسلہ احمدیہ کے لوگوں کو مومن سمجھتے ہیں بلکہ ان کو کافر کہنے والوں کو کافر سمجھتے ہیں تو میں آج ہی اپنی تمام جماعت کو حکم دے دیتا ہوں کہ وہ ان کے ساتھ مل کر نماز پڑھ لیں۔ہم سچائی کے پابند ہیں آپ ہمیں شریعت اسلام سے باہر مجبور نہیں کر سکتے۔‘‘

(ملفوظات جلد پنجم ص 636-635)

تکفیر میں ابتدا حضرت مسیح موعودؑ کے مخالفین نے کی جس کی وجہ سے وہ خود اس کے مورد بنے اور حدیث نبوی ؐ کے فیصلہ کے تحت کافر ہوئے ۔

چنانچہ 1892ء میں مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی نے بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کے متعلق فتویٰ دیا کہ
”نہ اس کو ابتداءً سلام کریں ۔۔۔۔۔۔ اور نہ اس کے پیچھے اقتداء کریں”۔

(اشاعت السُنّہ جلد 13 نمبر 6صفحہ 85)

مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے فتویٰ دیا کہ
”قادیانی کے مرید رہنا اور مسلمانوں کا امام بننا دونوں باہم ضدّین ہیں یہ جمع نہیں ہو سکتیں”۔

 (شرعی فیصلہ صفحہ 31)

مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی نے فتویٰ دیا کہ
”اس کو اور اس کے اتباع کو امام بنانا حرام ہے”۔

(شرعی فیصلہ صفحہ 31)

مولوی ثناء اﷲ صاحب امرتسری نے فتویٰ دیا کہ
”اس کے خلف نماز جائز نہیں”۔

 (فتویٰ شریعت غراء صفحہ9)

مولوی عبدالسمیع صاحب بدایونی نے فتویٰ دیا کہ
”کسی مرزائی کے پیچھے نماز ہر گز جائز نہیں۔ مرزائیوں کے پیچھے نماز پڑھنا ایسا ہی ہے جیسا ہندوؤں اور یہود و نصارٰی کے پیچھے۔ مرزائیوں کو نماز پڑھنے یا دیگر مذہبی احکام ادا کرنے کے لئے اہلسُنّت و الجماعت اور اہلِ اِسلام اپنی مسجدوں میں ہر گز نہ آنے دیں”۔

(صاعقہ ربّانی پر فتنہ قادیانی مطبوعہ 1892ء صفحہ9)

مولوی عبدالرحمن صاحب بہاری نے فتویٰ دیا کہ
”اس کے اور اس کے متبعین کے پیچھے نماز محض باطل و مردُود ہے ۔۔۔۔۔۔ ان کی امامت ایسی ہے جیسی کسی یہودی کی امامت”۔

(فتویٰ شریعت غراء صفحہ4)

مفتی محمد عبداﷲ صاحب ٹونکی لاہور نے فتویٰ دیا کہ
”اس کے اور اس کے مریدوں کے پیچھے اِقتداء ہر گز درست نہیں”۔

(شرعی فیصلہ صفحہ 25)

مولوی عبدالجبار صاحب عمر پوری نے فتویٰ دیا کہ
”مرزا قادیانی اسلام سے خارج ہے ۔۔۔۔۔۔ ہر گز امامت کے لائق نہیں”۔

(شرعی فیصلہ صفحہ 20)

مولوی عزیز الرحمن صاحب مفتی دیوبند نے فتویٰ دیا کہ
”جس شخص کا عقیدہ قادیانی ہے اس کو امام الصلوٰۃ بنانا حرام ہے”۔

(شرعی فیصلہ صفحہ 31)

مشتاق احمد صاحب دہلوی نے فتویٰ دیا کہ
”مرزا اور اس کے ہم عقیدہ لوگوں کو اچھا جاننے والا جماعتِ اسلام سے جُدا ہے اور اس کو امام بنانا ناجائز ہے”۔

(شرعی فیصلہ صفحہ 24)

مولوی احمد رضا خاں صاحب بریلوی نے فتویٰ دیا کہ
”اس کے پیچھے نماز پڑھنے کا حکم بعینہٖ وہی ہے جو مرتدوں کا حکم ہے”۔

(حسام الحرمین صفحہ 95)

مولوی محمد کفایت اﷲ صاحب شاہجہان پوری نے فتویٰ دیا کہ
”ان کے کافر ہونے میں شک و شُبہ نہیں اور ان کی بیعت حرام ہے اور امامت ہر گز جائز نہیں”۔

(فتویٰ شریعت غرّاء صفحہ6)

جنازے کے متعلق اِن حضرات کے فتوے یہ ہیں

مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی نے فتویٰ دیا کہ
”ایسے دجّال کذّاب سے اِحتراز اختیار کریں ۔۔۔۔۔۔ نہ اس کی نماز جنازہ پڑھیں”۔

(اشاعت السُنّہ جلد 13 نمبر 6)

مولوی عبدالصمد صاحب غزنوی نے فتویٰ دیا کہ
”اس کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے”۔

(اشاعت السُنّہ جلد 13 نمبر 6 صفحہ 101)

قاضی عبید اﷲ بن صبغۃ اﷲ صاحب مدراسی نے فتویٰ دیا کہ
”جس نے اس کی تابعداری کی وہ بھی کافر مرتد ہے ۔۔۔۔۔۔ اور مرتد بغیر توبہ کے مَر گیا تو اس پر نماز جنازہ نہیں پڑھنا”۔

(فتویٰ در تکفیر منکر عروج جسمی و نزولِ حضرت عیسیٰ علیہ السلام)

مفتی محمد عبداﷲ صاحب ٹونکی لاہور نے فتویٰ دیا کہ
”جس نے دیدہ دانستہ مرزائی کے جنازہ کی نماز پڑھی ہے اس کو علانیہ توبہ کرنی چاہئے اور مناسب ہے کہ وہ اپنا تجدیدِ نکاح کرے”۔

(فتویٰ شریعت غرّاء صفحہ12)

پھر اس سے بھی بڑھ کر انہوں نے یہ فتویٰ دیا کہ ان لوگوں کو مسلمانوں کے قبرستانوں میں بھی دفن نہ ہونے دیا جائے۔ چنانچہ مولوی عبدالصمد صاحب غزنوی نے فتویٰ دیا کہ ان کو مسلمانوں کے قبرستانوں میں دفن نہ کیا جائے تاکہ:
”اہلِ قبور اس سے ایذاء نہ پائیں”۔

(اشاعت السُنّہ جلد 13 نمبر 6صفحہ101)

قاضی عبید اﷲ صاحب مدراسی نے فتویٰ دیا کہ ان کو
”مقابر اہلِ اسلام میں دفن نہیں کرنا بلکہ بغیر غسل و کفن کے کُتّے کی مانند گڑھے میں ڈال دینا”۔

(فتویٰ 1893ء منقول از فتویٰ در تکفیر منکر عروج جسمی و نزول عیسیٰ علیہ السلام)

اِسی طرح انہوں نے یہ بھی فتوے دیئے کہ کسی مسلمان کے لئے احمدیوں کو لڑکیاں دینا جائز نہیں چنانچہ شرعی فیصلہ میں لکھا گیا کہ

”جو شخص ثابت ہو کہ واقع ہی وہ قادیانی کا مرید ہے اس سے رشتہ مناکحت کا رکھنا ناجائز ہے”۔

(شرعی فیصلہ صفحہ 31)

بلکہ اس سے بڑھ کر یہ فتویٰ دیا گیا کہ
”جو لوگ اس پر عقیدہ رکھتے ہوں وہ بھی کافر ہیں اور اُن کے نکاح باقی نہیں رہے جو چاہے ان کی عورتوں سے نکاح کرے”۔

(فتویٰ مولوی عبداﷲ و مولوی عبدالعزیز صاحبان لدھیانہ از اشاعت السنّہ جلد نمبر 13 صفحہ 5)

گویا احمدیوں کی عورتوں سے جبراً نکاح کر لینا بھی علماء کے نزدیک عین اسلام تھا۔

اسی طرح یہ فتویٰ دیا کہ
”جس نے اس کی تابعداری کی وہ بھی کافر مرتد ہے اور شرعاً مُرتد کا نکاح فسخ ہو جاتا ہے اور اس کی عورت حرام ہوتی ہے اور اپنی عورت کے ساتھ جو وطی کرے گا سو وہ زنا ہے اور ایسی حالت میں جو اولاد ان کے پیدا ہوتے ہیں وہ ولدِ زنا ہوں گے”۔

(فتویٰ در تکفیر منکرِ عروج جسمی و نزول حضرت عیسیٰ علیہ السلام مطبوعہ 1311ھ)

تحریک احمدیت کے مخالف علماء نے صرف فتاویٰ ہی نہیں دیئے بلکہ ان پر سختی سے عمل کرانے کی ہمیشہ کوشش کی جیسا کہ پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کے مرید مولوی عبدالاحد صاحب خانپوری کی کتاب ”مخادعت مسیلمہ قادیانی” (مطبوعہ 1901ء) کی مندرجہ ذیل اشتعال انگیز تحریر سے ظاہر ہے کہ

”طائفہ مرزائیہ بہت ذلیل و خوار ہوئے۔ جمعہ اور جماعت سے نکالے گئے اور جس مسجد میں جمع ہو کر نمازیں پڑھتے تھے اُس میں بے عزتی کے ساتھ بدر کئے گئے اور جہاں نماز جمعہ پڑھتے تھے وہاں سے حُکماً رو کے گئے ۔۔۔۔۔۔ نیز بہت قسم کی ذِلّتیں اُٹھائیں۔ معاملہ اور برتاؤ مسلمانوں سے بند ہو گیا۔ عورتیں منکوحہ اور مخطوبہ بوجہ مرزائیت کے چھینی گئیں۔ مُردے اُن کے بے تجہیز و تکفین اور بے جنازہ گڑھوں میں دبائے گئے”۔ (صفحہ 2)

      کیا ان تمام فتاوی کی موجودگی میں احمدیوں پر یہ الزام لگانا کہ احمدی مسلما نوں کے پیچھے نماز اور نماز جنا زہ نہیں پڑھتے اور نہ ہی مسلما نوں کے ساتھ شادی بیاہ کرتے ہیں،کسی با شعور اور حق شناس کو زیب دیتا ہے؟

فتاوٰی تکفیر کے بارے میں جماعت احمدیہ کا موقف

1974ء میں جماعت احمدیہ  کے وفدنے  پاکستان کی  قومی اسمبلی کی سپیشل کمیٹی کے روبرو  اپنا تحریری مؤقف محضرنامہ  کی صورت میں پیش کیا۔ اس محضرنامہ میں جماعت ِ احمدیہ کا یہ موقف درج کیا گیا کہ

’’جماعتِ احمدیہ کے نزدیک ایسے فتاوٰی کی حیثیت اس سے بڑھ کر کچھ نہیں کہ بعض علماء کے نزدیک بعض عقائد اِس حد تک اسلام کے منافی ہیں کہ ان عقائد کا حامل عند اﷲ کافر قرار پاتا ہے اور قیامت کے روز اس کا حَشر نشر مسلمانوں کے درمیان نہیں ہو گا۔ اِس لحاظ سے ان فتاوٰی کو اِس دُنیا میں محض ایک انتباہ کی حیثیت حاصل ہے اور جہاں تک دُنیا کے معاملات کا تعلق ہے کسی شخص یا فرقے کو اُمّتِ مُسلمہ کے وسیع تر دائرہ سے خارج کرنے کا اہل یا مجاز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ معاملہ خدا اور بندے کے درمیان ہے اور اس کا فیصلہ قیامت کے روز جزا سزا کے دن ہی ہو سکتا ہے۔ دُنیا کے معاملات میں ان فتاوٰی کا اطلاق اُمّتِ مُسلمہ کی وحدت کے لئے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے اور کسی فرقے کے علماء کے فتویٰ کے پیش نظر کسی دوسرے فرقہ یا فرد کو اسلام سے خارج قرار نہیں دیا جاسکتا۔‘‘

 (محضر نامہ ص20تا21)

مسلمان فرقے اور ان کے متعلق ایک دوسرے کےآپس میں فتاوی تکفیر

غیروں کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کی بیسیوں اہم وجوہات میں سے ایک وجہ مُقتدر اور مشاہیر، چوٹی کے مانے ہوئے غیر احمدی علماء کے وہ فتاوٰی ہیں جن میں مسلمانوں کو ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنے سے بڑی شدّت کے ساتھ روکا گیا ہے۔ان کی موجودگی میں احمدیوں کو پھر کیوں مورد الزام کیا جاتا ہے۔

(1)       آپ ہی انصاف کیجئے کہ کیا ہم اُن دیوبندیوں کے پیچھے نماز پڑھیں جن کے متعلق احمدیوں کا نہیں بلکہ غیر احمدی اکابر علماء کا یہ فتویٰ ہے کہ:-٫

                ”وہابیہ دیوبندیہ اپنی عبارتوں میں تمام اَولیاء انبیاء حتّٰی کہ حضرت سَیّدالاوّلین و آخرین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی اور خاص ذاتِ باری تعالیٰ شانہ، کی اہانت وہتک کرنے کی وجہ سے قطعاً مُرتد و کافر ہیں اور ان کا اِرتداد کُفر میں سخت سخت سخت اشدّ درجہ تک پہنچ چکا ہے ایسا کہ جو ان مُرتدوں اور کافروں کے اِرتداد و کُفر میں ذرا بھی شک کرے وہ بھی انہیں جیسا مُرتد اور کافر ہے اور جو اس شک کرنے والے کے کُفر میں شک کرے وہ بھی مُرتد و کافر ہے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ ان سے بالکل ہی مُحترز، مُجتنب رہیں۔ ان کے پیچھے نماز پڑھنے کا تو ذکر ہی کیا اپنے پیچھے بھی ان کو نماز نہ پڑھنے دیں اور نہ اپنی مسجدوں میں گھسنے دیں۔ نہ ان کا ذبیحہ کھائیں اور نہ ان کی شادی غمی میں شریک ہوں۔ نہ اپنے ہاں ان کو آنے دیں۔ یہ بیمار ہوں تو عیادت کو نہ جائیں۔ مریں تو گاڑنے تو پنے میں شرکت نہ کریں۔ مسلمانوں کے قبرستان میں جگہ نہ دیں۔ غرض ان سے بالکل احتیاط و اجتناب کریں ۔۔۔۔۔۔
پس وہابیہ دیوبندیہ سخت سخت اشدّ مُرتد و کافر ہیں ایسے کہ جو ان کو کافر نہ کہے خود کافر ہو جائے گا۔ اس کی عورت اس کے عقد سے باہر ہو جائے گی اور جو اولاد ہو گی وہ حرامی ہو گی اور از رُوئے شریعت ترکہ نہ پائے گی”۔ (انّا ِﷲ و اِنّا الیہ راجعون۔ ناقل)
اِس اشتہار میں بہت سے علماء کے نام لکھے ہیں مثلاً سیّد جماعت علی شاہ حامد رضا خاں قادری نُوری رضوی بریلوی، محمد کرم دین بھیں، محمد جمیل احمد بدایونی، عمر النعیمی مفتی شرع اور ابو محمد دیدار علی مفتی اکبر آباد وغیرہ ۔۔۔۔۔۔
”یہ فتوے دینے والے صرف ہندوستان ہی کے علماء نہیں ہیں بلکہ جب وہابیہ دیوبندیہ کی عبارتیں ترجمہ کر کے بھیجی گئیں تو افغانستان و خیوا و بخارا و ایران و مصر و روم و شام اور مکّہ معظمہ و مدینہ منورہ وغیرہ تمام دیارِ عرب و کُوفہ و بغداد شریف غرض تمام جہاں کے علماء اہلِ سُنّت نے بالاتفاق یہی فتویٰ دیا ہے”۔

(خاکسار محمد ابراہیم بھاگلپوری باہتمام شیخ شوکت حسین مینیجر کے حسن برقی پریس اشتیاق منزل نمبر 63 ہیوٹ روڈ لکھنؤ میں چھپا۔ سنِ اشاعت درج نہیں قیامِ پاکستان سے قبل کا فتویٰ ہے۔)

فتویٰ مولوی عبدالکریم ناجی داغستانی حرم شریف مکّہ:-
ھُمُ الْکُفْرَۃُ الْفَجرۃُ قَتْلَھُمْ وَاجِبٌ عَلٰی مَنْ لَہ، حدٌ وَنَصْلٌ وافرٌ۔ بَلْ ھُوَ اَفْضَلُ مِنْ قَتْلِ اَلْفِ کَافِرِفَھُمُ الْمَلْعُوْنُوْنَ وَ فِیْ سِلْکِ الْغُبثَاءِ مُنْخَرِطُوْنَ فَلَعْنَۃُ اﷲِ عَلَیْھِمْ وَعَلٰی اَعْوَانِھِمْ وَرَحْمَۃُ اﷲِ وَبَرَکَاتُہ، عَلٰی مَنْ خَذَلَھُمْ فِیْ اَطْوَارِھِمْ”۔
توجمہ: وہ بدکار کافر ہیں۔ سلطان اِسلام پر کہ سزا دینے کا اختیار اور سنان و پیکان رکھتا ہے ان کا قتل واجب ہے بلکہ وہ ہزار کافروں کے قتل سے بہتر ہے کہ وہی ملعون ہیں اور خبیثوں کی لڑی میں بندھے ہوئے ہیں تو ان پر اور ان کے مددگاروں پر اﷲ تعالیٰ کی لعنت اور جو انہیں ان کی بَداطواروں پر مخذول کرے اس پر اﷲ کی رحمت و برکت اسے سمجھ لو۔

(فاضل کامل نیکو خصائل صاحبِ فیض یزدانی مولوی عبدالکریم ناجی داغستانی حرم شریف مکّہ حسام الرحمین علیٰ منحر الکفر و المین صفحہ ١٧٦ تا ١٧٩ مصنفہ مولانا احمد رضا خاں صاحب بریلوی مطبوعہ اہل سُنّت و الجماعت بریلی 1324ھ۔8-1906ء)

(2) پھر کیا ہم ان اہل حدیث کے پیچھے نماز پڑھیں جن کے متعلق بریلوی آئمہ ہمیں غیر مُبہم الفاظ میں خبردار کرتے ہیں کہ:-

”وہابیہ وغیرہ مقلّدینِ زمانہ باتفاق علمائے حرمین شریفین کافر مُرتد ہیں۔ ایسے کہ جو اُن کے اقوالِ ملعونہ پر اطلاع پاکر انہیں کافر نہ جانے یا شک ہی کرے خود کافر ہے ان کے پیچھے نماز ہوتی ہی نہیں۔ ان کے ہاتھ کا ذبیحہ حرام ۔ ان کی بیویاں نکاح سے نکل گئیں۔ اُن کا نکاح کسی مسلمان کافر مُرتد سے نہیں ہو سکتا۔ ان کے ساتھ میل جول، کھانا پینا، اُٹھنا بیٹھنا، سلام، کلام سب حرام، ان کے مفصّل احکام کتاب مستطاب حسام الحرمین شریف میں موجود ہیں۔ واﷲ تعالیٰ اعلم۔
مُہر مُہر مُہر
دارالافتاء مدرسہ اہل سُنت و الجماعت آل رسول احمد رضا خاں شفیع احمد خاں رضوی سُنی حنفی قادری
بریلی بریلی

(فتاوٰی ثنائیہ جلد نمبر 2 صفحہ 409 مرتبہ الحاج مولانا محمد داؤد رازؔ خطیب جامعہ اہلحدیث شائع کردہ مکتبہ اشاعتِ دینیات مومن پورہ بمبئی)

نیز ملاحظہ فرمائیے:
”تقلید کو حرام اور مقلّدین کو مُشرک کہنے والا شرعاً کافر بلکہ مُرتد ہؤا ۔۔۔۔۔۔ اور حکامِ اہلِ اسلام کو لازم ہے کہ اس کو قتل کریں اور عُذر داری اس کی بایں وجہ کہ ”مجھ کو اس کا عِلم نہیں تھا” شرعاً قابلِ پذیرائی نہیں بلکہ بعد توبہ کے بھی اس کو مارنا لازم ہے۔ یعنی اگرچہ توبہ کرنے سے مسلمان ہو جاتا ہے لیکن ایسے شخص کے واسطے شرعاً یہی سزا ہے کہ اس کو احکامِ اہلِ اِسلام قتل کر ڈالیں۔ یعنی جیسے حدّزَنا توبہ کرنے سے ساقط نہیں ہوتی اسی طرح یہ حدّ بھی تائب ہونے سے دُور نہیں ہوتی اور علماء اور مفتیانِ وقت پر لازم ہے کہ بمجرّد مسموع ہونے ایسے امر کے اس کے کُفراور ارتداد کے فتوے دینے میں تردّد نہ کریں ورنہ زمرہئ مرتدّین میں یہ بھی داخل ہوں گے”۔

(”انتظام المساجد باخراج اہل الفِتن و المفاسد”صفحہ 5 تا 7 مطبوعہ جعفری پریس لاہور مصنفہ مولوی محمد ابن مولوی عبدالقادر لودھیانوی)

(3)      پھر کیا ہم ان بریلویوں کے پیچھے نماز پڑھ کر کافر بن جائیں جن کے متعلق دیوبندی علماء ہمیں یہ شرعی حُکم سُناتے ہیں کہ:-

”جو شخص اﷲ جلّ شانہ، کے سوا علمِ غیب کسی دوسرے کو ثابت کرے اور اﷲ تعالیٰ کے برابر کسی دوسرے کا علم جانے وہ بیشک کافر ہے۔ اس کی امامت اور اس سے میل جول محبت و مودّت سب حرام ہیں”۔
(مُہر (فتاوٰی رشید یہ کامل مبوّب از مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی صفحہ 337بار دوم دسمبر 1967ء سعید کمپنی ادب منزل کراچی)
یا جن کے بارہ میں مشہور دیوبندی عالم جناب مولوی سیّد حسین احمد صاحب مدنی سابق صدر مدرّس دارالعلوم دیوبند ہمیں یہ خبر دے رہے ہیں کہ:-
”یہ سب تکفیریں اور لعنتیں بریلوی اور اس کے اتباع کی طرف لَوٹ کر قبر میں ان کے واسطے عذاب اور بوقت خاتمہ ان کے موجب خروج ایمان و ازالہ تصدیق و ایقان ہوں گی ۔۔۔۔۔۔کہ ملائکہ حضور علیہ السلام سے کہیں گے اِنَّکَ لَا تَدْرِیْ مَا اَحْدَ ثُوْا بَعْدَکَ۔ اور رسولِ مقبول علیہ السلام دجّال بریلوی اور ان کے اتباع کو سحقاً سحقاً فرما کر اپنے حوض مورودو شفاعتِ محمود سے کُتّوں سے بَد تر کر کے دھتکار دیں گے اور اُمّتِ مرحومہ کے اجرو ثواب و منازل و نعیم سے محروم کئے جائیں گے”۔
(رجوم المذنبین علیٰ رؤس الشیاطین المشہور بہ الشہاب الثاقب علی المسترق الکاذب
صفحہ 111 مؤلفہ مولوی سیّد حسین احمد صاحب مَدنی ناشر کتب خانہ اعزازیہ دیو بند ضلع سہارنپور)

(4)      پھر کیا ہم ان پرویزیوں اور چکڑالویوں کے پیچھے نماز پڑھیں جن کے متعلق متفقہ طور پر بریلوی اور دیوبندی اور مودودی علماء یہ فتویٰ صادر فرماتے ہیں کہ:-

”چکڑالویّت حضور سرورِ کائنات علیہ التّسلیمات کے منصب و مقام اور آپ کی تشریعی حیثیت کی مُنکر اور آپ کی احادیثِ مُبارکہ کی جانی دشمن ہے۔ رسول کریم کے ان کھلے ہوئے باغیوں نے رسول کے خلاف ایک مضبوط محاذ قائم کر دیا ہے۔ جانتے ہو! باغی کی سزا کیا ہے؟ صرف گولی”۔
(ہفتہ وار ”رضوان” لاہور (چکڑ الویّت نمبر) اہل سُنّت و الجماعت کا مذہبی ترجمان 21-28/فروری 1953ء صفحہ 3 پرنٹر سیّد محمود احمد رضوی کو آپریٹو کیپیٹل پرنٹنگ پریس لاہور دفتر رضوان اندرون دہلی دروازہ لاہور)
پھر ولی حسن صاحب ٹونکی اُن پر صادر ہونے والے شرعی احکامات اِن الفاظ میں بیان کرتے ہیں:-
”غلام احمد پرویزؔ شریعتِ محمدیہ کی رُو سے کافر ہے اور دائرہ اسلام سے خارج۔ نہ اس شخص کے عقدِ نکاح میں کوئی مسلمان عورت رہ سکتی ہے اور نہ کسی مسلمان عورت کا نکاح اس سے ہو سکتا ہے۔ نہ اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی نہ مسلمانوں کے قبرستان میں اس کا دفن کرنا جائز ہو گا اور یہ حُکم صرف پرویزؔ ہی کا نہیں بلکہ ہر کافر کا ہے اور ہر وہ شخص جو اس کے متبعین میں ان عقائدِ کفریہ کے ہمنوا ہو اس کا بھی یہی حکم ہے اور جب یہ مُرتد ٹھہرا تو پھر اس کے ساتھ کسی قسم کے بھی اسلامی تعلقات رکھنا شرعاً جائز نہیں ہیں”۔
(ولی حسن ٹونکی غفراﷲ مفتی و مدرّس مدرسہ عربیہ اسلامیہ نیوٹاؤن کراچی محمدیوسف بنوری شیخ الحدیث مدرسہ عربیہ اسلامیہ ٹاؤن کراچی)
پرویزیوں کے متعلق جماعتِ اسلامی کے آرگن تسنیمؔ، کا فتویٰ یہ ہے کہ:-
”اگر یہ مشورہ دینے والوں کا مطلب یہ ہے کہ شریعت صرف اتنی ہی ہے جتنی قرآن میں ہے باقی اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ شریعت نہیں ہے تو یہ صریح کُفر ہے اور بالکل اسی طرح کا کُفر ہے جس طرح کا کُفر قادیانیوں کا ہے بلکہ کچھ اس سے بھی سخت اور شدید ہے”۔
(مضمون مولانا امین احسن اصلاحی۔ روزنامہ تسنیمؔ لاہور 15/اگست 1952ء صفحہ12)

(5)     پھر کیا ہم ان شیعوں کے پیچھے نماز پڑھیں جن کے متعلق علماء عامۃ المسلمین اِن لرزہ خیز الفاظ میں تنبیہ کرتے ہیں:-

”بالجملہ ان رافضیوں تبرّائیوں کے باب میں حُکمِ یقینی قطعی اجماعی یہ ہے کہ وہ علی العموم کفّار مرتدّین ہیں ان کے ہاتھ کا ذبیحہ مُردار ہے۔ ان کے ساتھ مناکحت نہ صرف حرام بلکہ خالص زنا ہے۔ معاذ اﷲ مَرد ر افضی اور عورت مسلمان ہو تو یہ سخت قہر الٰہی ہے۔ اگر مَرد سُنّی اور عورت ان خبیثوں کی ہو جب بھی ہر گز نکاح نہ ہو گا محض زنا ہو گا۔ اولاد ولد الزنا ہو گی۔ باپ کا ترکہ نہ پائے گی اگرچہ اَولاد بھی سُنّی ہی ہو کہ شرعاً ولد الزنا کا باپ کوئی نہیں۔ عورت نہ ترکہ کی مستحق ہو گی نہ مہر کی کہ زانیہ کے لئے مَہر نہیں۔ رافضی اپنے کسی قریب حتّٰی کہ باپ بیٹے ماں بیٹی کا بھی ترکہ نہیں پاسکتا۔ سُنّی تو سُنّی کسی مسلمان بلکہ کسی کافر کے بھی یہاں تک کہ خود اپنے ہم مذہب رافضی کے ترکہ میں اس کا اصلاً کچھ حق نہیں۔ ان کے مرد عورت، عالم، جاہل، کسی سے میل جول، سلام کلام سخت کبیرہ اشدّ حرام جو اِن کے ان ملعون عقیدوں پر آگاہ ہو کر بھی انہیں مسلمان جانے یا ان کے کافر ہونے میں شک کرے باجماع تمام اَئمہ دین خود کافر بے دین ہے اور اس کے لئے بھی یہی سب احکام ہیں جو ان کے لئے مذکور ہوئے۔ مسلمان پر فرض ہے کہ اس فتویٰ کو بگوشِ ہوش سُنیں اور اس پر عمل کر کے سچّے پکّے سُنّی بنیں”۔
(فتویٰ مولانا شاہ مصطفی رضا خاں بحوالہ رسالہ ردّ الرفضہ صفحہ ٢٣ شائع کردہ نوری کتب خانہ بازار داتا صاحب لاہور پاکستان مطبوعہ گزار عَالم پریس بیرون بھاٹی گیٹ لاہورؔ 1320ھ)
”آج کل کے روافض تو عموماً ضروریاتِ دین کے مُنکر اور قطعاً مُرتد ہیں۔ ان کے مَرد یا عورت کا کسی سے نکاح ہو سکتا ہی نہیں۔ ایسے ہی وہابی، قادیانی، دیوبندی، نیچری، چکڑالوی، جُملہ مرتدین ہیں کہ ان کے مَرد یا عورت کا تمام جہان میں جس سے نکاح ہو گا مسلم ہو یا کافر اصلی یا مُرتد انسان ہو یا حیوان محض باطل اور زنا خالص ہو گا اور اولاد ولد الزنا”۔
(الملفوظ حصّہ دوم صفحہ 97 مرتبہ مفتی اعظم ہند مطبوعہ برقی پریس دہلی)

(6)       پھر کیا جماعتِ اسلامی کے پیچھے نماز پڑھنے سے ہم اپنا اسلام بچا سکیں گے کہ جن کے متعلق کیا بریلوی اور کیا دیوبندی علماء یہ قطعی فتویٰ صادر فرماتے ہیں کہ:-

”مودودی صاحب کی تصنیفات کے اِقتباسات کے دیکھنے سے معلوم ہؤا کہ ان کے خیالات اِسلام کے مقتدیان اور انبیائے کرام کی شان میں گستاخیاں کرنے سے مملوہیں۔ ان کے ضالّ اور مُضِلّ ہونے میں کوئی شک نہیں۔ میری جمیع مسلمانان سے اِستدعا ہے کہ ان کے عقائد اور خیالات سے مجتنب رہیں اور ان کو اسلام کا خادم نہ سمجھیں اور مغالطہ میں نہ رہیں۔
حضورِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اصلی دجّال سے پہلے تیس دجّال اَور پیدا ہوں گے جو اس دجّال اصلی کا راستہ صاف کریں گے۔ میری سمجھ میں ان تیس دجّالوں میں ایک مودُودی ہیں”۔ فقط والسلام
محمد صادق عفی عنہ صدر مہتمم مدرسہ مظہر العلوم محلہ کھڈہ کراچی 28/ذوالحجہ 1371ھ۔ 19/ستمبر 1952ء
(حق پرست علماء کی مودُودیت سے ناراضگی کے اسباب صفحہ ٩٧ مرتبہ مولوی احمد علی انجمن خدّام الدّین لاہوربار اوّل)
پھر ان کے پیچھے نماز کی حُرمت کا واضح اِعلان کرتے ہوئے جمعیت العلماء اسلام کے صدر حضرت مولانا مفتی محمود فرماتے ہیں:-
”مَیں آج یہاں پریس کلب حیدر آباد میں فتویٰ دیتا ہوں کہ مودُودی گمراہ کافر اور خارج از اسلام ہے۔ اس کے اور اس کی جماعت سے تعلق رکھنے والے کسی مولوی کے پیچھے نماز پڑھنا ناجائز اور حرام ہے اس کی جماعت سے تعلق رکھنا صریح کُفر اور ضلالت ہے۔ وہ امریکہ اور سرمایہ داروں کا ایجنٹ ہے۔ اَب وہ مَوت کے آخری کنارے پر پہنچ چکا ہے اور اب اسے کوئی طاقت نہیں بچا سکتی۔ اس کا جنازہ نکل کر رہے گا”۔
(ہفت روزہ زندگی 10/نومبر 1969ء منجانب جمعیۃ گارڈ لائل پور)

(7)         کیا ہم احراری علماء کے پیچھے نماز پڑھیں جن کے متعلق واقفِ اسرار جناب مولوی ظفر علی خاں صاحب یہ اعلانِ عام فرما رہے ہیں کہ درحقیقت یہ لوگ اِسلام سے بیزار ہی نہیں بلکہ یقینا اسلام کے غدّار ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے:

اﷲ کے قانون کی پہچان سے بے زار
اِسلام اور ایمان اور احسان سے بے زار
ناموسِ پیمبر کے نگہبان سے بے زار
کافر سے موالات ، مسلمان سے بے زار
اِس پر ہے یہ دعویٰ کہ ہیں اِسلام کے احرار
احرار کہاں کے یہ ہیں اِسلام کے غدّار
پنجاب کے احرار اِسلام کے غدّار
بیگانہ یہ بَدبخت ہیں تہذیبِ عرب سے
ڈرتے نہیں اﷲ تعالیٰ کے غضب سے
مِل جائے حکومت کی وزارت کسی ڈھب سے
سرکارِ مدینہ سے نہیں ان کو سروکار
پنجاب کے احرار اِسلام کے غدّار
(زمیندار 21/اکتوبر 1945ء صفحہ 6)
پھر مولانا مودُودی صاحب مولوی ظفر علی خان صاحب کی ایک گُونا تائید کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”اِس کارروائی سے دو باتیں میرے سامنے بالکل عیاں ہو گئیں ایک یہ کہ احرار کے سامنے اصل سوال تحفظِ ختمِ نبوت کا نہیں ہے بلکہ نام اور سہرے کا ہے اور یہ لوگ مسلمانوں کے جان و مال کو اپنی اغراض کے لئے جوئے کے داؤں پر لگا دینا چاہتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ رات کو بالاتفاق ایک قرارداد طَے کرنے کے بعد چند آدمیوں نے الگ بیٹھ کر ساز باز کیا ہے اور ایک دوسرا ریزولیوشن بطور خود لکھ لائے ہیں ۔۔۔۔۔۔
مَیں نے محسوس کیا کہ جو کام اس نیت اور ان طریقوں سے کیا جائے اس میں کبھی خیر نہیں ہو سکتی اور اپنی اغراض کے لئے خدا اور رسُول کے نام سے کھیلنے والے جو مسلمانوں کے سروں کو شطرنج کے مُہروں کی طرح استعمال کریں اﷲ کی تائید سے کبھی سرفراز نہیں ہو سکتے”۔
(روزنامہ تسنیمؔ لاہور 2/جولائی 1955ء صفحہ 3کالم 5،4)
یہ محض نمونہ کے طور پر بڑے اِختصار کے ساتھ بہت سے طویل فتاوٰی میں سے چند اقتباسات پیش ہیں۔

یہ فتاویٰ آپ نے ملاحظہ فرما لئے۔ اﷲ تعالیٰ اُمّتِ مُسلمہ پر رحم فرمائے یقینا آپ دِل تھام کر اور سَر پکڑ کر بیٹھ گئے ہوں گے لیکن ہمیں اِس وقت صرف اِتنا پوچھنے کی اجازت دیجئے کہ کیا اِن دل دہلا دینے والے فتاوٰی کی موجودگی میں احمدیوں پر کوئی دُور کی بھی گنجائش اِس اِعتراض کی باقی رہ جاتی ہے کہ وہ مذکورہ بالافرقوں کے اَئمّہ کے پیچھے نماز کیوں نہیں پڑھتے؟
ِﷲ کچھ اِنصاف سے کام لیجئے۔ کچھ تو خوفِ خدا کریں۔ آقائے دو جہاں عدلِ مجسّم حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کی غلامی ہی کی شرم رکھ لیجئے اور بتائیے کہ مذکورہ بالا اکثر فرقوں کے علماء جماعتِ احمدیہ سے جو یہ سراسر ظلم اور نا اِنصافی کی ہولی کھیل رہے ہیں یہ کہاں تک ایک مسلمان کو زیبا ہے، ایک غلامِ رحمتٌ للّعالمین کے شایانِ شان ہے؟ ان کے پیچھے نماز پڑھو تو کافر نہ پڑھو تو کافر۔ کوئی جائے تو آخر کہاں جائے؟ مسلمان رہنے کا کیا صرف یہی ایک راستہ باقی رہ گیا ہے کہ اکثریت کی طرح نماز کو بکلّی ترک ہی کر دیا جائے۔ آج کل کے علماء کا فیصلہ تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ اگر مسلمانی باقی رکھنی ہے تو نماز چھوڑ دو ورنہ جس کے پیچھے نماز پڑھو گے پکّے کافر اور جہنمی قرار دیئے جاؤ گے۔ ایک بچنے کی راہ یہ رہ گئی تھی کہ کسی کے پیچھے بھی نماز نہ پڑھی جائے۔ تو احمدیوں پر یہ راہ بھی بند کر دی گئی اور یہ فتویٰ بھی دے دیا گیا کہ جو کسی دوسرے فرقہ کے پیچھے نماز پڑھے وہ بھی کافر اور غیر مُسلم اقلیّت پڑھے تب کافر نہ پڑھے تب کافر۔ آخر کوئی جائے تو کہاں جائے؟ یا بقول آتش ؔ ع
کوئی مَر نہ جائے تو کیا کرے؟
حکماء نے اس نَوع کے اِنصاف پر طَنز کرتے ہوئے ایک قِصّہ لکھا ہے کہ ایک بھیڑ کا بچّہ کسی ندی پر پانی پی رہا تھا کہ ایک بھیڑیا اُوپر کی سمت سے آیا اور ڈپٹ کر پوچھا کہ تمہیں پتہ نہیں کہ مَیں بھی پانی پی رہاتھا پھر تم نے اسے گدلا کرنے کی جرأت کیسے کی؟ بچے نے عرض کیا حضور مَیں تو نچلے حصّے سے پانی پی رہا تھا آپ کا پانی کیسے گدلا ہو سکتا ہے جو اُوپر کی طرف سے پی رہے تھے؟ بھیڑیے نے غضبناک ہو کر کہا اچھا تو آگے سے بکواس کرتے ہو؟ مجھے جھوٹا کہتے ہو، لعنتی! بس بس تمہاری سزا یہی ہے کہ تمہیں پھاڑ کھایا جائے۔
کچھ ان علماء کو خدا کا خوف دلائیے۔ بھیڑیے اور بھیڑ کے بچّے کا یہ قصّہ آپ پڑھتے ہیں تو کبھی اس فرضی بھیڑ کے بچّے پر ترس کھانے لگتے ہیں اور کبھی بھیڑیے پر غصّہ آتا ہے لیکن آج آپ کی آنکھوں کے سامنے بھیڑ کے بچوں سے نہیں اَبنائے آدم سے یہ سلوک کیا جارہا ہے۔ کسی فرضی قصّہ میں نہیں روز مرّہ کی جیتی جاگتی دُنیا میں ایک دردناک حقیقت کے طور پر یہ ظلم دُہرایا جارہا ہے اور اِحتجاج کا ایک حَرف بھی آپ کی زبان تک نہیں آتا۔
ِﷲ اتنا تو کیجئے کہ اِن علماء سے کہئے کہ اگر یہی ظلم کی راہ اِختیار کرنی ہے اور اسی جنگل کے قانون کو اپنانا ہے اور ظاہری طاقت کے گھمنڈ نے خدا تعالیٰ کے قانونِ عَدل کو ہر قیمت پر کُچلنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو کم از کم اِتنا پاس تو کریں کہ اِسلام کے مقدّس نام کو اس میں ملوث کرنے سے باز رہیں۔ اتنا کرم تو فرمائیں کہ ناموسِ رسُولِ عربی صلی اﷲ علیہ وسلم فداہ ابی و امّی کو اِس قضیہ میں آلُودہ نہ کریں۔ طاقت اور کثرت کے گھمنڈ کو ان کمزور اور بودے دلائل کے سہاروں کی کیا ضرورت ہے؟ ع
جب میکدہ چھُٹا ہے تو پھر کیا جگہ کی قید؟
جب اسلامی اَقدار عَدل و اِنصاف کا خون کر کے بھی مقصد اپنے عزائم کو پورا کرنا ہے تو چھوڑیئے ان ”دلائل” اور اِن تنکوں کے سہاروں کو۔ دندناتے ہوئے میدانِ کربلا میں کُودیئے اور کرگُزریئے جو کر گُزرنا ہے اور پھراپنی آنکھوں سے یہ بھی دیکھ لیجئے کہ اِسلام کا خدا اور اِسلام کا رسول ؐ کِس کے ساتھ ہیں؟ اور مصائب اور شدائد کا میدان کِس کو حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کا سچّا، مخلص اور جاں نثار عاشق اور فدائی غلام ثابت کرتاہے؟؟
اِنشاء اﷲ آپ دیکھ لیں گے اور وقت ثابت کر دے گا کہ ہر احمدی اپنے اِس دعویٰ میں سچّا ہے کہ ؎
در کُوئے تو اگر سرِ عُشّاق راز نند
اوّل کسے کہ لافِ تعشق زَنَدمَنَم
ہاں اَے میرے پیارے رسول ؐ! اگر تیرے کُوچہ میں عُشّاق کا سَر قلم کرنے کا ہی دستور جاری ہو تو وہ پہلا شخص جو نعرۂ عِشق بلند کرے گا وہ مَیں ہوں گا! مَیں ہوں گا!!” (مبارک محمود رام گلی نمبر3 برانڈرتھ روڈ لاہور)