مخالفین احمدیّت: مرزا صاحب کو بچپن میں سندھی یا دسوندھی کہا جاتا
معاندین احمدیت تمسخرانہ انداز میں یہ بات پیش کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بچپن میں سندھی یا دسوندھی کہا جاتا تھا۔
جواب از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ
معاندین یہ بات کتاب’’سیرت المہدی‘‘کی ایک روایت کے ضمن میں پیش کرتے ہیں۔ لیکن پوری بات بیان نہیں کرتے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ جو حضرت بانی جماعت احمدیہ کے صاحبزادے تھے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :۔
’’ ﴿ 51﴾ بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ تمہاری دادی ایمہ ضلع ہوشیار پور کی رہنے والی تھیں۔حضرت صاحب فرماتے تھے کہ ہم اپنی والد ہ کیساتھ بچپن میں کئی دفعہ ایمہ گئے ہیں۔والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ وہاں حضرت صاحب بچپن میں چڑیاں پکڑا کرتے تھے اور چاقو نہیں ملتا تھا تو سر کنڈے سے ذبح کر لیتے تھے ۔والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ ایک دفعہ ایمہ سے چند بوڑھی عورتیں آئیں تو انہوں نے باتوں باتوں میں کہا کہ سندھی ہمارے گاؤں میں چڑیاں پکڑا کرتا تھا۔والدہ صاحبہ نے فرمایاکہ میں نہ سمجھ سکی کہ سندھی سے کون مراد ہے۔آخر معلوم ہو ا کہ ان کی مراد حضرت صاحب سے ہے ۔والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ دستور ہے کہ کسی منت ماننے کے نتیجہ میں بعض لوگ خصوصاً عورتیں اپنے کسی بچے کا عرف سندھی رکھ دیتے ہیں چنانچہ اسی وجہ سے آپ کی والدہ اور بعض عورتیں آپ کو بھی بچپن میں کبھی اس لفظ سے پکارلیتی تھیں ۔خاکسارعرض کرتا ہے کہ سندھی غالباً دسوندھی یا د سبندھی سے بگڑاہو اہے جو ایسے بچے کو کہتے ہیں جس پر کسی منت کے نتیجہ میں دس دفعہ کو ئی چیز باندھی جاوے اور بعض دفعہ منت کوئی نہیں ہوتی بلکہ یونہی پیارسے عورتیں اپنے کسی بچے پر یہ رسم اداکرکے اسے سندھی پکارنے لگ جاتی ہیں ۔
(اس روایت میں جو یہ ذکر آتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ بچپن میں کبھی کبھی شکار کی ہوئی چڑیا کو سرکنڈے سے ذبح کر لیتے تھے اس کے متعلق یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس جگہ سرکنڈے سے پورا گول سرکنڈا مراد نہیں ہے بلکہ سرکنڈے کا کٹا ہوا ٹکڑا مراد ہے۔ جو بعض اوقات اتنا تیز ہوتا ہے کہ معمولی چاقو کی تیزی بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ چنانچہ خود خاکسار راقم الحروف کو کئی دفعہ بچپن میں سرکنڈے سے اپنے ہاتھوں کو زخمی کرنے کا اتفاق ہوا ہے اور پھر ایک چڑیا جیسے جانور کا چمڑا تو اس قدر نرم ہوتا ہے کہ ذرا سے اشارے سے کٹ جاتا ہے۔
دوسری بات جو اس روایت میں قابل نوٹ ہے وہ لفظ سندھی سے تعلق رکھتی ہے۔ یعنی یہ کہ اس لفظ سے کیا مراد ہے اور وہ عورتیں کون تھیں جنہوں نے حضرت والدہ صاحبہ کے سامنے حضرت مسیح موعود ؑ کے متعلق یہ لفظ استعمال کیا ۔سو روایت کرنے والی عورتوں کے متعلق میں نے حضرت والدہ صاحبہ سے دریافت کیا ہے ۔ وہ فرماتی ہیں کہ مجھے معلوم نہیں کہ وہ کون عورتیں تھیں۔ مجھے صرف اس قدر علم ہے کہ وہ باہر سے قادیان آئی تھیں۔ اور ایمہ ضلع ہوشیار پور سے اپنا آنا بیان کرتی تھیں۔ اس کے سوا مجھے ان کے متعلق کوئی علم نہیں ہے۔ لفظ سندھی کے متعلق خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے اس لفظ کے متعلق مزید تحقیق کی ہے یہ لفظ ہندی الاصل ہے جس کے معنی مناسب وقت یا صلح یا جوڑ کے ہیں۔ پس اگر یہ روایت درست ہے تو بچپن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق اس لفظ کے کبھی کبھی استعمال ہونے میں خدا کی طرف سے یہ اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ یہی وہ شخص ہے جو عین وقت پر آنے والا ہے یا یہ کہ یہی وہ شخص ہے جو خدا کی طرف سے صلح اور امن کا پیغام لے کر آئے گا۔ (دیکھو حدیث یضع الحرب) یا یہ کہ یہ شخص لوگوں کو خدا کے ساتھ ملانے والا ہو گا۔ یا یہ کہ یہ خود اپنی پیدائش میں جوڑا یعنی توام پیدا ہونے والا ہو گا (مسیح موعود کے متعلق یہ بھی پیشگوئی تھی کہ وہ جوڑا پیدا ہو گا) پس اگر یہ روایت درست ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ وہ انہیں اشارات کی غرض سے ہے۔ واللہ اعلم۔
باقی رہا کسی معاند کا یہ مذاق اڑانا کہ گویا حضرت مسیح موعود ؑ کا نام ہی سندھی تھا۔ سو اصولاً اس کا یہ جواب ہے کہ جب تک کسی نام میں کوئی بات خلاف مذہب یا خلاف اخلاق نہیں ہے اس پر کوئی شریف زادہ اعتراض نہیں کر سکتا۔ گزشتہ انبیاء کے جو نام ہیں ۔ وہ بھی آخر کسی نہ کسی زبان کے لفظ ہیں۔ اور کم از کم بعض ناموں کے متعلق ہم نہیں کہہ سکتے کہ ان کے کیا کیا معنی ہیں۔ پھر اگر بالفرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کوئی ہندی الاصل نام پا لیا۔ تو اس میں حرج کونسا ہو گیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ بالکل بے بنیاد اور سراسر افترا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام سندھی تھا۔ اور اگر کسی مخالف یا معاند کے پاس اس کی کوئی دلیل ہے تو وہ مرد میدان بن کر سامنے آئے اور اسے پیش کرے ورنہ اس خدائی وعید سے ڈرے۔ جو مفتریوں کے لئے لعنت کی صورت میں مقرر ہے۔ حقیقت یہ ہے جسے ساری دنیا جانتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام مرزا غلام احمد تھا۔
چنانچہ (1) یہی نام آپ کے والدین نے رکھا اور (2) اسی نام سے آپ کے والد صاحب آپ کو ہمیشہ پکارتے تھے اور (3)اسی نام سے سب دوست و دشمن آپ کو یاد کرتے تھے اور (4)میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیالکوٹ کی ملازمت (از1864ءتا1868) کےبعض سرکاری کاغذات دیکھے ہیں۔ جو اب تک محفوظ ہیں ان میں بھی یہی نام درج ہے اور (5) اسی نام کی بناء پر دادا صاحب نے اپنے ایک آباد کردہ گاؤں کا نام احمد آباد رکھا اور (6) دادا صاحب کی وفات کے بعد جو حضرت صاحب کے دعویٰ مسیحیت سے چودہ سال پہلے 1876ء میں ہوئی۔ جب کاغذات مال میں ہمارے تایا اور حضرت صاحب کے نام جائداد کا انتقال درج ہوا۔ تو اس میں بھی غلام احمد نام ہی درج ہوا اور (7) کتاب پنجاب چیفس میں بھی جو حکومت کی طرف سے شائع شدہ ہے یہی نام لکھا ہے اور (8)دوسرے بھی سارے سرکاری کاغذات اور دستاویزات میں یہی نام درج ہوتا رہا ہے ۔۔۔‘‘
(سیرت المہدی ۔ جلد اول ۔ صفحہ 40تا43)
حضرت مرزا صاحب کے سامنے نامحرم عورتیں چلتی پھرتی رہتی تھیں،وغیرہ وغیرہ۔
جواب:۔ اس اعتراض کی بنیاد حضرت مسیح موعود ؑ یا حضور ؑ کے خلفاء کی کسی تحریر پر نہیں بلکہ ز…