اعتراض: مرزا صاحب کا کہنا کہ قرآن و حدیث میں طاعون کی پیشگوئی ہے، خلاف واقعہ ہے
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے لکھا ہے کہ قرآن و حدیث میں طاعون کی پیشگوئی ہے۔ اس پر اعتراض ہوتا ہے کہ ایسی کوئی پیشگوئی قرآن و حدیث میں نہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کا حوالہ بیان فرمایا ہے
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود قرآن کریم کا حوالہ بیان فرمایا ہے جہاں طاعون کا ذکر ہے ۔آپؑ فرماتے ہیں:۔
”خدا تعالیٰ کی کتابوں میں تصریح سے بیان کیا گیا ہے کہ مسیح موعود کے زمانہ میں ضرور طاعون پڑیگی اور اس مری کا انجیل میں بھی ذکر ہے اور قرآن مجید میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاِنْ مِّنْ قَرْیَةٍ اِلَّا نَحْنُ مُھْلِکُوْھَاقَبْلَ یَوْمِ الْقِیَامَةِ اَوْ مُعَذِّبُوْھَا(بنی اسرائیل59)یعنی کوئی بستی ایسی نہیں ہوگی جس کو ہم کچھ مدت پہلے قیامت سے یعنی آخری زمانہ میں جو مسیح موعود کا زمانہ ہے ہلاک نہ کردیں یا عذاب میں مبتلاء نہ کریں۔“
(نزول المسیح ۔روحانی خزائن جلد 18صفحہ396)
پھر آپؑ ایک دوسری آیت کا حوالہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
”یہی طاعون ہے او ریہی وہ دابۃ الارض ہے جس کی نسبت قرآن شریف میں وعدہ تھا کہ آخری زمانہ میں ہم اس کو نکالیں گے او وہ لوگوں کو اس لئے کاٹے گا کہ وہ ہمارے نشانوں پر ایمان نہیں لاتے تھے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَاِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیْھِمْ اَخْرَجْنَا لَھُمْ دَابَّةً مِّنَ الْاَرْضِ تُکَلِّمُھُمْ اَنَّ النَّاسَ کَانُوْا بِاٰیَاتِنَا لَایُوْقِنُوْنَ( النمل:83)اور جب مسیح موعود کے بھیجنے سے حجت ان پر پوری ہوجائیگی تو ہم زمین میں سے ایک جانور نکال کھڑا کریں گے وہ لوگوں کو کاٹے گا اور زخمی کریگا اس لئے کہ وہ لوگ خدا کے نشانوں پر ایمان نہیں لاتے تھے۔‘‘
(نزول المسیح۔روحانی خزائن جلد 18صفحہ415تا416)
تُکَلِّمُھُمْ کے معنی ’’کاٹنے ‘‘کے ہیں
تُکَلِّمُھُمْ کے معنے کاٹنے کے ہی ہیں۔ جیسا کہ لغت کی کتاب منجد میں ہے۔
کلّمَہ تَکْلِیْمًا : جَرَحَہ یعنی اس نے اس کو زخم لگایا ۔
کَلمَ…کلمًا کے معنی زخم لگانے کے بھی ہیں۔
تفسیر کی مشہور کتاب بحار الانوار سے ان معنوں کی تائید
قرآن مجید کی آیت اَخْرَجْنَا لَھُمْ دَابَّةً مِّنَ الْاَرْضِ تُکَلِّمُھُمْ(النمل :83)کا جویہ ترجمہ کیا گیا ہے کہ اس زمانہ میں ایک کیڑا نکلے گا جو ان کو کاٹے گا ۔ اس کی تائید بحار الانوار کے مندرجہ ذیل حوالہ سے بھی ہوتی ہے۔ ثُمَّ قَالَ(ابوعبد اللّٰہ امام حسین ) وَقَرَءَ تُکَلِّمُھُمْ مِنَ الْکَلَمِ وَ ھُوَالْجُرْحُ وَالْمُرَادُ بِہٖ الْوَسْمُ یعنی امام باقر ؒ فرماتے ہیں کہ قرآن مجید کی مندرجہ بالا دَابَّةُ الْاَرْض والی آیت کے متعلق حضرت امام حسین ؓنے فرمایا کہ اس آیت میں تُکَلِّمُھُمْ سے مراد یہ ہے کہ وہ کیڑا ان کو کاٹے گا اور زخم پہنچائے گا۔
(بحار الانوار جلد 13 ص 232 و نیز دیکھو اقتراب الساعة ص197)
حدیث میں طاعون پھیلنے کی پیشگوئی
حدیث صحیح مسلم میں ہے : فَیَرْغَبُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیْسٰی وَ اَصْحَابُہٗ فَیُرْسِلُ اللہُ عَلَیْھِمُ النَّغَفَ فِیْ رِقَابِھِمْ فَیُصْبِحُوْنَ فَرْسَیْ کَمَوْتٍ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ
(مسلم جلد 2 کتاب الفتن ص 277 مصری باب ذکر صفت الدجال وما معہ مسلم شرح نووی جلد 2 ص 401تا402منہ)
ترجمہ :۔ پس خدا کا نبی مسیح موعود علیہ السلام اور اس کے صحابی متوجہ ہونگے اور خدا تعالیٰ ان کے مخالفوں کی گردنوں میں ایک پھوڑا (طاعون)ظاہر کرے گا۔ پس وہ صبح کو ایک آدمی کی موت کی طرح ہوجائیں گے۔(نغف کے معنے پھوڑا اور طاعون ہے ۔ ملاحظہ ہو عربی ڈکشنری مصنفہ LANEجلد 8 ص 2818و ضمیمہ ص3036)
بحار الانوار میں ہے: قُدَّامُ الْقَائِمِ مَوْتَانِ مَوْتٌ اَحْمَرُ وَ مَوْتٌ اَبْیَضُ الْمَوْتُ الْاَحْمَرُ السَّیْفُ وَالْمَوْتُ الْاَبْیَضُ الطَّاعُوْنُ (حوالہ)
کہ امام مہدی علیہ السلام کی علامات میں ہے کہ اس کے سامنے دو قسم کی موتیں ہونگی۔ پہلی سرخ موت اور دوسری سفید موت۔ پس سرخ موت تو تلوار (لڑائی) ہے اور سفیدموت طاعون ہے۔
حضرت بانی جماعت احمدیہ کی دعوت مقابلہ تفسیر نویسی اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کی اصل واقعاتی حقیقت
قارئین کرام!آجکل سوشل میڈیا پر احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیزمنفی مہم میں الزام تراشیوں کا ا…