حضرت مرزا طاہر احمد ؒ کا مباہلہ کا چیلنج اور الیاس ستار
معاندین احمدیت کی طرف سے اعتراض اٹھایا جاتا ہے کہ الیا س ستار سے مباہلہ کے نتیجہ میں چند ہفتے بعد ہی حضرت مرزا طاہر احمدصاحب ؒپر (نعوذباللہ) فالج کا حملہ ہو گیا جس کے نتیجے میں آپؒ 19اپریل2003میں فوت ہو گئے۔جھوٹے کا سچے کی زندگی میں وفات پا جانا ہی اس کے کذب پر دلیل ہے۔
مختصر جواب
حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ نے مباہلہ کے حقیقی مفہوم کو مد نظر رکھتے ہوئے آیات قرانی کی روشنی میں 1988ء کو معاندین احمدیت کو ایک مباہلہ کا چیلنج دیا۔ اس چیلنج کے بعد خدا تعالیٰ کی طرف سےعظیم الشان نشانات کا ظہور ہوا ۔ جماعت احمدیہ نے ترقیات کی منازل طے کرتے ہوئے اپنے سفر کو آگے بڑھایا اور مخالفین احمدیت پر اللہ کا غضب نازل ہوا۔
اس مباہلہ کے دس سال بعد یعنی جون 1999ء کو الیاس ستار نے کراچی کے دو مربیان سے گفتگو کے دوران بظاہر مباہلہ کے چیلنج کو قبول کر لیا۔
اس کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے باوجود اس کے کہ وہ پابند نہیں تھے کہ الیاس ستار کا جواب دیتے ، اس مباہلہ کو قبول فرماتے ہوئے الیاس ستار کو شرائط پوری کرنے کا ارشاد فرمایا ۔
الیاس ستار نے مباہلہ کی شرائط پوری نہیں کیں جس کی وجہ سے مباہلہ ہوا ہی نہیں تھا۔ جب مباہلہ ہوا ہی نہیں تو اس کا نتیجہ کیسے ظاہر ہوتا؟اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کیسے اس مزعومہ مباہلہ کے نتیجے میں بیمار اور پھر چار سال بعد وفات پا سکتے ہیں!معترض کا یہ بیان بھی سراسر جھوٹ پر مبنی ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ پر فالج کا حملہ ہوا۔ وہ ایک مختصر بیماری تھی جس کے بعد آپؒ کو اللہ تعالیٰ نے شفایابی عطا فرمائی ۔ اورآپ بھرپور طریقے سے خدمات دینیہ بجا لاتے رہے۔
اسی طرح معترض کا یہ بیان کہ جھوٹے کا سچے کی زندگی میں وفات پا جانا اس کے کذب پر دلیل ہے ، بھی خود تراشیدہ اور سراسر من گھڑت ہے ۔ کیونکہ مسیلمہ کذاب رسول کریم ﷺ کی زندگی میں فوت نہیں ہوا۔ خود سوچیں معترض کے اس بیان سے کیا نتائج نکلتے ہیں۔ درحقیقت مباہلہ کا حقیقی مفہوم سمجھ آ جائے تو یہ بیان اس کے سامنے کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔
اس مباہلہ کے حوالے سے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے کیافرمایا
’’ہمارے علماء کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ میں ساری دنیا کی جماعتوں کا سربراہ ہوں اور میرا کام یہ نہیں ہے کہ ہر للو پنجو کو جو اٹھ کر مباہلہ کا چیلنج کرے اس کا مباہلہ قبول ہی کروں یا اسے جوابی چیلنج دوں لیکن پتا نہیں کیوں لوگ سمجھتے نہیں ہیں ؟ اس لئے واقعہ یہ ہوا کہ کراچی کے دو مربی صاحبان نے بظاہر ایک مخالف کے جال میں پھنس کر مباحثہ میں اسکو بلوالیا اور وہ پہلے سے ارادہ لے کر آیا تھا کہ مباحثہ کے دوران اچانک مباہلہ کا چیلنج پیش کر دوں گا۔ چنانچہ اس نے مناظرہ کے دوران ایک مباہلے کا چیلنج پیش کر دیا ۔ باوجود اس کے کہ مجھ پر لازم نہیں تھا کیونکہ میں نے تو اس کو کوئی چیلنج نہیں دیا تھا ۔ مجھ پر ہرگز لازم نہیں تھا کہ اس کے چیلنج کو من و عن قبول کرتا ۔ اگر کرنا بھی تھا تو اس سے شرطیں لگائی جاتیں کہ اپنے پیچھے قوم کے راہنما بتاؤ ۔ کون تمہاری تائید میں ہیں ؟ کون تسلیم کرتا ہے کہ ہاں اگر تم ہار گئے تو پھر ہم احمدیت کی فتح قبول کر لیں گے مگر ان سب باتوں کے قطع نظر ہمارے دو بھولے بھالے مربیان نے اس کا مباہلے کا چیلنج نہ صرف قبول کر لیا بلکہ میرا چیلنج اس کو دے دیا ۔ اب اس کا اُس سے کیا تعلق تھا ان کو کوئی حق نہیں تھا یہ کام کرتے مگر میں سمجھتا ہوں کہ وہ احمدی فوج کے لڑنے والے ہی تھی اس لئے انہوں نے جو تسلیم کر لیا میں بھی تسلیم کرتا ہوں اور اس پہلو سے میں اس مباہلے کے چیلنج کو قبول کر چکا ہوں ۔ اب میں وہ مباہلہ جس پر دستخط ہوئے ہیں اس کےبعض ضروری الفاظ آپ کے سامنے سناتا ہوں تاکہ آپ اچھی طرح ذہن نشین کر لیں کہ مباہلہ کرنے والا دراصل اسی مباہلہ کے دوران ہی جھوٹا ثابت ہو چکا ہے ۔ الفاظ جو پیش کئے گئے وہ یہ ہیں ۔ میں نے بڑے واشگاف الفاظ میں احمدیت کے دعاوی دشمن کے سامنے رکھے تھے جن کے متعلق یہ کہا تھا کہ ایک ایک کے متعلق یہ اعلان کرو کہ یہ جھوٹا دعویٰ ہے ، یہ جھوٹا دعویٰ ہے ، یہ جھوٹا دعویٰ ہے ۔ اس نے کوئی ایسا دعویٰ نہیں کیا اور جو الفاظ ہیں وہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں ۔
جماعت احمدیہ کے معاندین یہ کہتے ہیں کہ ’’جماعت احمدیہ عقائد رکھتی ہے کہ بانی ٔ جماعت احمدیہ مرزا غلام احمد قادیانی خدا تھے ۔‘‘لَعْنتُ اللہ ِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ۔(حضور انور نے حاضرین کو فرمایا کہ آپ سب بھی کہیں لَعْنتُ اللّٰہ ِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ ۔جس پر حاضرین نے لَعْنتُ اللّٰہ ِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ کہا)حضور انور نے فرمایا کہ آج ایک کروڑ داخل ہونے والوں کےعلاوہ جب سے جماعت بنی ہے کروڑہا احمدیوں میں سے ایک بھی ایسا نہیں جو حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؑ کو خدا کہتا ہو یا خدا تسلیم کرتا ہو۔
دوسرا دعویٰ : ’’وہ خدا کا بیٹا تھے ۔‘‘ لَعْنتُ اللّٰہ ِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ اور پھر یہ دعویٰ ایک دوسرے کو بھی جھٹلا رہے ہیں ۔ خدا تھے تو خدا کا بیٹا کیسے ہو گئے ؟ یہ مولویوں کا پاگل پن ہے یعنی پاگل پنوں میں سے ایک پاگل پن ہے ۔
ایک اور دعویٰ :’’خدا کا باپ بھی تھے ‘‘۔اس پہ تو لعنت سے زیادہ انا للہ پڑھنے کو دل چاہتا ہے ۔
پھر یہ خوفناک دعویٰ کہ ’’تمام انبیاء سے بشمول حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ افضل و برتر تھے ۔‘‘کوئی احمدی ساری دنیا میں اس دعوے کا وہم و گمان بھی نہیں کر سکتا۔
پھر کہتے ہیں کہ ان کی وحی کے مقابلہ میں حدیث مصطفیٰ ﷺ کی کوئی حیثیت نہیں ۔نعوذ باللّٰہ من ذالک، لَعْنتُ اللّٰہ ِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ ۔
’’ان کی عبادت کی جگہ عزت و احترام میں خانہ کعبہ کے برابر ہے ۔ ‘‘یعنی ہر احمدی مسجد خانہ کعبہ کے برابر ہے ۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون یا لَعْنتُ اللّٰہ ِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ ۔
’’قادیان کی سر زمین مکہ مکرمہ کے ہم مرتبہ ہے ۔‘‘
’’قادیان سال میں ایک دفعہ جانا تمام گناہوں کی بخشش کا موجب بنتا ہے ۔‘‘ہمارا تو دعویٰ یہ ہے کہ دنیا میں کسی مقدس مقام پر جانا بخشش کا موجب نہیں بنا کرتا ۔ تقویٰ ہے جو بخشش کا موجب بنتا ہے اگر تقویٰ لے کرجاؤ گے تو پھر یقینا ً اللہ تعالیٰ بخش دے گا اگر تقویٰ کے بغیر جاؤ گے تو پھر اس کی مرضی ہے چاہے تو بخش دے چاہے تو سزا دے ۔
میں نے ان کو یہ چیلنج دیا کہ بتاؤ یہ کہاں سے سچ ثابت کیا ہے تم نے اور حج بیت اللہ کی بجائے قادیان کے جلسہ میں شمولیت ہی حج ہے ۔ لَعْنتُ اللہ ِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ ۔
ان الزامات کے علاوہ حسب ذیل نہایت مکروہ الزامات بھی جماعت احمدیہ پر لگائے جاتے ہیں ۔
’’احمدیوں کا کلمہ الگ ہے اور مسلمانوں والا کلمہ نہیں ۔‘‘ لَعْنتُ اللّٰہ ِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ۔
’’جب احمدی مسلمانوں والا کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھتے ہیں تو دھوکہ دینے کی خاطر پڑھتے ہیں اور محمد ؐ سے مراد مرزا غلام احمد قادیانی لیتے ہیں ۔ لَعْنتُ اللّٰہ ِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ ۔‘‘
’’احمدیوں کا خدا وہ خدا نہیں جو محمد رسول اللہ ﷺ اور قرآن کریم کا خدا ہے ۔‘‘ لَعْنتُ اللّٰہ ِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ ، ایک ہی خدا ہے سب کا وہی خدا ہے ۔
’’قادیانی جن ملائکہ پر ایمان لاتے ہیں وہ وہ ملائک نہیں جن کا قرآن اور سنت میں ذکر ہے ۔‘‘ لَعْنتُ اللّٰہ ِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ ۔
’’قادیانیوں کے رسول بھی مختلف ، ان کی عبادت بھی اسلام سے مختلف ، ان کا حج بھی مختلف غرضیکہ تمام بنیادی اسلامی عقائد میں قادیانیوں کے عقائد قرآن و سنت سے جدا اور الگ ہیں ۔‘‘
ان سارے الزامات کا ذکر کر کے میں نے یہ اعلان کیا تھا کہ یہ سارے الزامات سراسر جھوٹے ہیں ، کھلم کھلا افتراء ہیں ان میں ایک بھی سچا نہیں اور لَعْنتُ اللّٰہ ِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ ۔ آخر پر میں خدا کی لعنت ان جھوٹوں پر ڈالتا ہوں۔
میں نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ اگر یہ باتیں جھوٹ ہیں جیسا کہ جھوٹ ہیں تو پھر اے خدا ! جماعت احمدیہ پر رحمتیں نازل فرما۔ لعنتیں ان پر پڑیں اور رحمتیں جماعت پر اور اس کی سچائی کو ساری دنیا پر روشن کر دے ۔
پس آج ساری دنیا سے آنے والے گواہ ہیں کہ خدا کی قسم جماعت احمدیہ کی سچائی سب دنیا پر روشن ہو چکی ہے ۔ تاکہ دنیا دیکھ لے کہ تو ان کے ساتھ ہے اور ان کی حمایت اور پشت پناہی میں کھڑا ہے اور اگر دشمن کے الزامات سچے ہیں تو ہم پر ہر سال اپنا غضب نازل فرمااور ذلت اور نکبت کی مار دے کر اپنے عذاب اور قہری تجلیوں کا نشانہ بنا اور اس طور سے اپنے عذاب کی چکی میں پیس تاکہ دنیا خوب اچھی طرح دیکھ لے کہ ان آفات میں بندوں کی شرارت اور دشمنی اور بغض کا دخل نہیں بلکہ محض خدا کی غیرت اور قدرت کا ہاتھ ہے۔ یہ سب عجائب کام ہیں جو تو دکھلاتا ہے ۔
اس ضمنی ذکر کے بعد جو مجھ پر ٹھونسا تو گیا مگر میں نے قبول کر لیا تھا ۔ میں اب آپ کے سامنے یہ بات کھول رہا ہوں کہ صرف یہ ایک سال اس مباہلہ کرنے والے کوجھوٹا ثابت کر دے گا کیونکہ اس سال جماعت کو مٹنا چاہئے تھا بجائے مٹنے کے یہ اور بھی زندہ ہو گئی ، زندہ سے زندہ تر ہوتی چلی جا رہی ہے ۔ پس ان سب کی تعلیات الٹی ان پر پڑتی ہیں ۔ ہمیں اس کی کوئی بھی پراہ نہیں آئندہ کے لئے میری نصیحت یہ ہے کہ اس معاملے کو خدا پر چھوڑ دیں ۔ آپ دیکھیں گے کہ دن بدن جماعت ترقی پر ترقی کرتی چلی جائے گی اور ہر سال خواہ کوئی مباہلہ قبول کرے یا نہ کرے اس کے اوپر ہماری طرف سے یہ لعنت کا انبار بڑھتا ہی چلا جائے گا ۔ اللہ کرے گا تو ایسا ہی ہو گا اور ہم میں سے جو زندہ رہیں گے وہ سب اس کو دیکھیں گے۔ ‘‘
(خطابات طاہر جلد دوم صفحہ470تا473)
الیاس ستار کے مباہلہ کا پس منظر
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کے مباہلہ 1988ء کے تقریباً دس سال بعد مو رخہ3 جو ن 1999 کو کراچی میں چند غیراز جماعت احباب کیساتھ ایک سوا ل و جوا ب کی محفل منعقد ہوئی۔ اس محفل میں جماعت احمدیہ کی طرف سے مربی سلسلہ عثمان شاہد صاحب اور عبدالرحمٰن صاحب موجود تھے۔ اس محفل میں الیاس ستار بمعہ اپنے چند ساتھیوں کے بھی موجود تھا۔ یہ سوال و جواب کی محفل کچھ تلخی کا شکار ہوئی اوربات مباہلہ تک جا پہنچی۔ مربی سلسلہ محمد عثمان شاہد صاحب نے الیاس ستار کو بتایا کہ مباہلہ کا کھلا کھلا چیلنج تو جماعت احمدیہ کے چوتھے خلیفہ پہلے ہی تمام اکابرین کو دے چکے ہیں۔ اس پر الیاس ستا رنے محفل میں اس مبا ہلہ کے چیلنج کو قبول کرنے کااعلان کردیا۔ جماعت احمدیہ کے مربیان نے پہلے تو اس خیال سے کہ امام جماعت احمدیہ کی طرف سے دیئے گئے مباہلہ کےچیلنج کے مخاطب تو ایسےقومی لیڈر اور اکابرین ہیں، کہ جن کے پیچھے ایک بڑی جماعت ہو اور لوگ ان کی سرداری کو قبول کرتے ہوں، ان کے اس اعلان پرزیا دہ توجہ نہ دی، کیونکہ الیاس ستار ان شرائط کو پورا نہیں کر تے۔ مگر جب الیاس ستار نےسستی شہرت کے حصول کے غرض سے اس پر بہت زور دیا تو دونوں مربیان نے بھی اس مبا ہلہ کا فریق بننا قبو ل کر لیا۔ ثبوت کیلئے دیکھیں ۔ (Annexure “B”)
شرائط مباہلہ
الیاس ستار کے ساتھ ہونے والے مباہلہ کی شرائط حسب ذیل ہیں :
(الف) اس مباہلہ کی پہلی شرط کے مطابق الیاس ستار نے 10جون1988ء کو ارشاد فرمودہ حضرت مرزا طاہر احمد صاحب کا مباہلہ کا چیلنج بمعہ دستخط شدہ معاہدہ من و عن پاکستانی اخبارات میں شائع کروانا تھا۔
(ب) لندن کے اخبارات میں اس مباہلہ کی من و عن اشاعت جماعت احمدیہ کے مربیان کی ذمہ داری تھی ۔
(ج) دونوں جگہ اشاعت کے اخراجات جماعت احمدیہ کے مربیان نے برداشت کرنے تھے ۔ (د) الیاس ستار صاحب کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ حکومت سے اجازت لے کر دیں احمدیوں پر اس اشاعت کے باعث کسی قسم کی کوئی قدغن یا پابندی نہیں لگائی جائے گی اور کسی قسم کا مقدمہ نہیں بنایا جائے گا۔
الیاس ستار کی جانب سے مباہلہ کی شرائط پوری نہیں کی گئیں لہٰذا مباہلہ واقع نہیں ہوا
مباہلہ ہوا ہی نہیں کیونکہ پہلی شرط پر ہی الیاس ستار نے عمل نہ کیا۔
اس مباہلہ کی پہلی شرط کے مطابق الیاس ستار نے 10جون 1988ء کو ارشاد فرمودہ حضرت مرزا طاہر احمد صاحب کا مباہلہ کا چیلنج بمعہ دستخط شدہ معاہدہ من و عن پاکستانی اخبارات میں شائع کروانا تھا۔ ثبوت کے لئے دیکھیں (Annexure “A” page 1 of 2)
لیکن الیاس ستار نے مباہلہ کی پہلی شرط پر ہی عمل نہیں کیا۔ جماعت احمدیہ کے مربیان نے یہ اعلان لندن کے اخبار میں شائع کروایا اور اس کا خرچ برداشت کیا اور اپنی ذمہ داری پوری کی ۔ علاوہ ازیں الیاس ستار صاحب نے حکومت سے اجازت بھی لے کر نہ دی ۔
الیاس ستار نے مباہلہ کی شرائط ہی پوری نہیں کیں تو یہ مباہلہ کیسے ہو سکتا ہے ۔ پھر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی ایک عارضی بیماری جس سے آپ کو معجزانہ شفایابی ہوئی الیاس ستار سے مباہلہ کا نتیجہ کیسے ہو سکتی ہے ۔ جب وہ مباہلہ ہوا ہی نہیں تو اس کا نتیجہ کیسے ظاہر ہو سکتا ہے ۔ معترض جس بیماری کو مباہلہ کا نتیجہ کہہ رہے ہیں وہ تو بہت عارضی تھا چند روز بعد ہی حضور صحت یاب ہو گئے اور اسی طرح مصروفیات کو ادا فرماتے رہے ۔ بیماری سے تو انبیاء بھی مستثنیٰ نہیں ۔ ہاں 1988ء کے مباہلہ کا نتیجہ جماعت احمدیہ کے حق میں آج تک ظاہر ہو رہا ہے اور جماعت دن رات ترقی کی منازل طے کرتی چلی جا رہی ہے ۔ پھر فوری نتیجہ اسلم قریشی کی بازیابی اور ضیاء الحق کی عبرتناک موت اس مباہلہ کی سچائی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔
قرآن کریم کی آیت مباہلہ کا پس منظر
اب ہم قرآن کریم میں موجودمباہلہ کی آیت کی تشریح پیش کرتے ہیں :
سب سے پہلے مباہلہ کی نوعیت کو سمجھنا ضروری ہے ۔آیت مباہلہ (آل عمران :62)کاذکر کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :۔
’’اس آیت کا پس منظر یہ ہے یعنی مفسرین جسے شانِ نزول کہتے ہیں کہ حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ کے پاس نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد آیا اور کئی روز تک آپ سے الوہیت مسیح اور آپ کے دعاوی اور خدا کی وحدانیت کےمتعلق مباحثہ کرتارہا ۔حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ نے قرآن کی تعلیم کی روشنی میں ان کو نہایت مؤثر جواب دیئے اور منطقی نقطہ نگاہ سے بھی انکے منہ بند کردیئے اور اس مباحثہ کے دوران بھی بیان کیا جاتا ہے اسی سورۃ کی وہ اولین آیا ت نازل ہوئیں جن میں مزید دلائل خدا تعالیٰ کی طرف سے حضرت اقدس محمد مصطفی ٰ ﷺ کو سمجھائے جاتے رہے ۔چنانچہ جب مباحثہ دوسروں کی طرف سے کج بحثی اختیار کرگیا اور ایک دلیل جو خوب اچھی طرح واضح طور پر پیش کر دی گئی تھی ۔اسے سننے ،اسے سمجھنے کے باوجود پھر وہ اپنے لچر اعتراضوں کی تکرار کرتے رہے تو اس وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ آیت نازل ہوئی جس کی میں نے ابھی آپ کے سامنے تلاوت کی ہے ۔اس میں خدا تعالیٰ نے حضور اکرم ﷺ کو مخاطب کرکے فرمایا فَمَنْ حَاجَّکَ فِیہِ مِنْ بعَدِ مَا جَاءَکَ مِنَ الْعِلْمِ پس ان امور میں فِیہِ سے مراد قرآن کریم کی صداقت یا خدا تعالیٰ کی وحدانیت ہے یا دونوں بیک وقت مراد لی جاسکتی ہیں تو جوان امور میں یا اس معاملے میں اب بھی تجھ سے جھگڑا کرے کیونک حَاجَّکَ جیسا کہ میں نے درس میں بھی کہا بات واضح کی تھی جھگڑے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور بعض دفعہ اچھے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے لیکن کم ۔تو یہاں چونکہ ضد کرنے والا مباحث مراد ہے اس لیے قرآن کریم کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص اگر حجتوں سے ،دلیل بازیوں سے جس کو دلیل نہیں بلکہ دلیل بازیاں کہا جاتا ہے اورکج بحثیوں سے باز نہ آئے تو اس کو خصوصیت سے اس وقت کے بعد مَا جَاءَکَ مِنَ الْعِلْمِ جبکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے تجھے کھلا کھلا علم عطا کر دیا گیا ۔یہاں علم سے مراد ایسے دلائل ہیں جو روشن ہوں جو واضح اور قطعی ہوں جنہوں نے معاملہ کھول دیا ہو یعنی ایک دفعہ معاملے کو اس طرح کھول دیا کہ وہ ظن سے بات علم کی حد میں اتر آئے ۔چنانچہ ان کی ظنی باتوں کے مقابلے پر خدا تعالیٰ نے تجھے علم عطا فرما دیا اس کے بعد ان کے لئے حجت کی گنجائش کوئی باقی نہ رہی ۔پھر کیا طریق باقی رہ جاتا ہے جس سے معاملہ طے ہو ۔فرمایا فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَاءَنَا وَ اَبْنَا ءَکُمْ تو اس سے کہہ دے کہ آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تمہارے بیٹوں کو بلاتے ہیں یعنی ہم مل کر اپنی اپنی اولاد کو آواز دیتے ہیں کہ آجاؤ۔اَبْنَاءَ کا لفظ اگرچہ بیٹوں کے لئے بولا جاتا ہے لیکن جب عمومی طور پر استعمال کیا جائے تو اس سے مراد سب اولاد ہے ۔تو فرمایا اَبْنَاءَنَا وَ اَبْنَا ءَکُمْ وَ نِسَاءَ نَا وَ نِسَاءَکُمْ اور تم اپنی عورتوں کو بلاؤ اور ہم اپنی عورتوں کو بلاتے ہیں وَ اَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَکُمْ اور ہم اپنے سے تعلق رکھنے والے تمام نفوس کو آواز دیتے ہیں اور تم بھی اپنے سے تعلق رکھنے والے تمام نفوس کو آواز دو ثُمَّ نَبْتَھِلْ پھر ہم مباہلہ کرتے ہیں فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ اور خدا کی لعنت اس شخص پر ڈالتے ہیں جو بالارادہ واضح طور پر جھوٹ سے کام لے رہا ہے ۔‘‘
(خطبات طاہر جلد 7۔ صفحہ 389،388۔ خطبہ جمعہ فرمودہ 3جون 1988ء)
خلافت احمدیہ دائمی خلافت ہے
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یوم خلافت 27 مئی 2005ءکو خطبہ ج…