اعتراض: مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ انھیں دردزہ ہوئی

دردزہ کی حقیقت

معترضہ عبارت :۔

حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں :

’’ پھر بعد اس کے یہ الہام ہوا تھا فَاَجَائَھَا الْمَخَاضُ اِلیٰ جِذْعِ النَّخْلَةِ قَالَتْ یَالَیْتَنِی مِتُّ قَبْلَ ھَذا وَ کُنْتُ نَسْیاً مَنْسِیّاً۔ یعنی پھر مریم کو جو مراد اِس عاجز سے ہے دردِزِہ تنہ کھجور کی طرف لے آئی ‘‘

(کشتی نوح۔رخ جلد 19ص51)

جواب :۔

حضرت مسیح موعودؑ کے اپنے الفاظ میں تشریح

اس  جملہ کے فورًا بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’یعنی عوام الناس اور جاہلوں اور بے سمجھ علماء سے واسطہ پڑا جن کے پاس ایمان کا پھل نہ تھا جنہوں نے تکفیر و توہین کی اور گالیاں دیں اور ایک طوفان برپا کیا‘‘

(کشتی نوح۔رخ جلد 19ص51)

اسکے علاوہ ایک دوسرے موقع پر حضرت مسیح موعودؑ  دردِ زہ (المخاض) کی مزید تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

”میری دعوت کی مشکلات میں سے ایک رسالت اور وحیٴ الٰہی اور مسیح موعود ہونے کا دعویٰ تھا اسی کی نسبت میری گھبراہٹ ظاہر کرنے کے لئے یہ الہام ہوا تھا۔ فَاَجَائَہُ الْمَخَاضُ اِلیٰ جِذْعِ النَّخْلَةِ قَالَ یَالَیْتَنِی مِتُّ قَبْلَ ھَذا اَوْ کُنْتُ نَسْیاً مَنْسِیّاً۔ مخاض سے مراد وہ امور ہیں جن سے خوفناک نتائج پیدا ہوتے ہیں اور جذع النخلة سے مراد وہ لوگ ہیں جو مسلمانوں کی اولاد مگر صرف نام کے مسلمان ہیں۔ بامحاورہ ترجمہ یہ ہے کہ دردانگیز دعوت جس کا نتیجہ قوم کا جانی دشمن ہوجانا تھا اس مامور کو قوم کے لوگوں کی طرف لائی جو کھجور کی خشک شاخ یا جڑ کی مانند ہیں۔ تب اُس نے خوف کھا کر کہا کہ کاش میں اس سے پہلے مرجاتا اور بھولا بسرا ہوجاتا۔ “

(براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ۔رخ جلد 21،ص68-69حاشیہ)

یاد رہے کہ لفظ ’دردِ زہ‘ کا استعمال مطلق تکلیف اور مصیبت کے معنوں میں جائز ہے۔ اسی لئے حضرت مسیح موعودؑ کے الہام میں ان معنوں میں اس لفظ کا ورود ہرگز قابل اعتراض نہیں ہے۔

چنانچہ انجیل میں آتا ہے:

”کیونکہ ہم کو معلوم ہے کہ ساری مخلوقات مل کر اب تک کراہتی اور درد زہ میں پڑی تڑپتی ہے۔“

(رومیوں: 8/22)

پھر تورات میں لکھا ہے کہ خدا کہتا ہے:

”مَیں بہت مدت سے چُپ رہا۔ مَیں خاموش ہورہا اور اپنے کو روکتا رہا۔ مگر اب اس عورت کی طرح جس کو درد زہ ہو چلاوٴں گا اور ہانپوں گا اور زور زور سے ٹھنڈی سانس بھی لونگا۔“

(یسعیاہ: 42/24)

خلا صہ جواب

اب موجودہ تورات و انجیل اگرچہ خدا کا کلام نہیں مگر اتنا تو ضرور ماننا پڑتا ہے کہ یہ محاورہ بالکل درست اور مستعمل ہے۔ اسے حضرت مسیح موعودؑنے خود ایجاد نہیں کیا بلکہ پہلے سے کتابوں میں موجود و مذکور ہے۔ پھر کیا جائے اعتراض ہے؟

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

حضرت مرزا صاحب کے سامنے نامحرم عورتیں چلتی پھرتی رہتی تھیں،وغیرہ وغیرہ۔

جواب:۔ اس اعتراض کی بنیاد حضرت مسیح موعود ؑ یا حضور ؑ کے خلفاء کی کسی تحریر پر نہیں بلکہ ز…