اعتراض: قاضی محمد علی صاحب اور توہین کی سزا
واقعہ قاضی محمد علی از تاریخ احمدیت
ذیل میں اس واقعہ کی تفصیل تاریخ احمدیت جلد ششم سے پیش کی جارہی ہے۔جس سے پتہ چلتا ہے کہ قاضی محمد علی صاحب نے قتل نہیں کیا بلکہ یہ پتہ نہ چل سکا کہ کس کے ہاتھ سے وہ قتل ہوا۔تاہم آپ پر اقدام قتل کا مقدمہ ہوا اور پھر بعد میں سزائے موت سنائی دی گئی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے کسی بھی مقام پر آپ کے اس فعل کو ہرگزدرست قرار نہیں دیا البتہ آپ کی دینی غیرت اور سچائی کو جس پر آپ آخر دم تک قائم رہے،سراہا ہے۔
فتنہ اخبار مباہلہ اور حادثہ بٹالہ
’’جیسا کہ پہلے ذکر کیا جاچکا ہے اخبار مباہلہ کے ذریعہ سے حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کے خلاف جو نہایت ہی اشتعال انگیز اور حد درجہ دلآزار پراپیگنڈا شروع کیا جارہا تھا جو مارچ اپریل ۱۹۳۰ء میں تشویشناک صورت اختیار کر گیا۔
چنانچہ مباہلہ والوں نے ۲۸ مارچ ۱۹۳۰ء کو عین اس وقت جبکہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ خطبہ جمعہ ارشاد فرمارہے تھے مسجد اقصیٰ کی محراب کے پاس فساد برپا کرنے کا ارادہ کیا۔ اس موقعہ پر بعض جوشیلے مقتدی مسجد کی کھڑکیوں سے پھاند کر وہاں پہنچ گئے تا ان کو کیفر کردار تک پہنچائیں مگر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے بعض دوستوں کو قسمیں دے کر بھیجا کہ تمہیں بالکل ہاتھ نہیں اٹھانا ہوگا اور صرف اپنے دوستوں کو پکڑ کر لانا ہوگا۔ یہ واقعہ ہزاروں آدمیوں کی موجودگی میں ہوا لیکن پولیس نے جو کارروائی کی وہ یہ تھی کہ )حضرت میر قاسم علی صاحب اور مولوی عبدالرحمان صاحب فاضل وغیرہ( احمدی معززین کی ہزار ہزار روپیہ کی ضمانتیں طلب کیں۔ اس واقعہ کے چند روز بعد انہوں نے جاہل عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے یہ چال چلی کہ ۳ اپریل ۱۹۳۰ء کی رات کو اپنے اخبار مباہلہ کے تمام فائل ` متعلقہ کاغذات ` نیز گھر اور دفتر کا تمام سامان محفوظ کرکے مکان کی ایک کوٹھڑی کو جہاں اسباب وغیرہ کچھ نہ تھا آگ لگا دی جس سے چند لکڑیاں جھلس گئیں۔ مگر جماعت احمدیہ کے مخالف اخبارات وغیرہ میں یہ جھوٹی خبریں شائع کیں کہ ہمارا مکان نذر آتش کر دیا گیا ہے اور سارا سامان جلا دیا گیا ہے۔ قادیان میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی ہدایت کے تحت احمدی بے مثال صبر وتحمل کا نمونہ بنے ہوئے تھے۔ اس لئے ان لوگوں نے یہ دیکھ کر کہ مرکز احمدیت میں بیٹھ کر ان کے لئے مزید شرارت پھیلانے کا موقعہ نہیں ہے۔ بٹالہ میں اپنی شرارتوں کا اڈہ بنالیا۔ اور مشہور کردیا کہ احمدیوں نے انہیں قادیان سے نکال دیا ہے بٹالہ میں ان کی تحریک پر انجمن شباب المسلمین کے عہدیداروں اور والنٹیئروں نے ۹۔ اپریل ۱۹۳۰ء کو ایک جلوس مرتب کیا جو محض اشتعال دلانے کے لئے اس محلہ سے گزرا جہاں پریذیڈنٹ انجمن احمدیہ بٹالہ (شیخ عبدالرشید صاحب مالک کارخانہ عبدالرشید اینڈ سنز)کا مکان تھا۔ جلوس نے مکان کے سامنے فحش گالیاں دیں اور حضرت مسیح موعود اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی اور دوسرے افراد خاندان مسیح موعود کے متعلق ناروا کلمات استعمال کئے اور جب انہیں منع کیا گیا تو جلوس کے بعض افراد دروازے توڑ کر جبراً ان کے رہائشی مکان میں گھس گئے اور اندر جاکر انہیں اور ان کے لڑکے کو زرد کوب کیا اور سامان توڑ دیا۔
بٹالہ میں ان کی قماش کے لوگوں نے ان کی بڑی آؤبھگت کی ان کے جلوس نکالے ان کے لئے چندہ جمع کیا مگر چند دن کے بعد ہی یہ لوگ اپنا نیا میدان تلاش کرنے کے لئے امرت سرآگئے اور احمدیوں کے خلاف ہنگامہ آرائی شروع کردی۔
۲۳ اپریل ۱۹۳۰ء کی رات کو ایک ایسا حادثہ پیش آیا جس نے حالات کو بد سے بدتر بنادیا ۔کہا جاتا ہے کہ نوشہرہ کے ایک احمدی نوجوان قاضی محمد علی صاحب گورداسپور سے بٹالہ کی طرف ایک لاری میں آرہے تھے بدقسمتی سے اسی میں مباہلہ والے مستری اور ان کے مدد گار ایک کافی تعداد میں موجود تھے۔ راستہ میں قاضی صاحب کی مباہلہ والوں سے گفتگو ہوتی رہی جس میں زیادہ تر زور انہوں نے اس بات پر دیا کہ مخالفت کی وجہ سے شرافت وانسانیت کو خیرباد نہیں کہنا چاہئے اورجھوٹے الزامات لگا کر احمدیوں کی دل آزاری نہیں کرنی چاہئے مگر مباہلہ والوں نے اخبار مباہلہ کا ایک پرچہ نکال کر نہایت گندے اور اشتعال انگیز فقرات سنانے شروع کردیئے اور تصادم شروع ہوگیا۔ فریق مخالف نے قاضی صاحب پر حملہ کرنے کے لئے چاقو نکال لیا یہ دیکھ کر قاضی محمد علی صاحب کو بھی چاقو نکالنا پڑا۔ یہ دیکھ کر لاری میں بیٹھنے والے لوگ قاضی صاحب پر پل پڑے اور بے تحاشا مارنا شروع کردیا۔ ایسی حالت میں انہوں نے اپنے بچائو کی پوری کوشش کی لیکن انہیں بہت سے آدمیوں نے اس قدر مارا کہ بیہوش کردیا اور انہیں معلوم نہ ہوا کہ کیا ہوا اور جب ہوش آیا تو دیکھا کہ ایک شخص (جو بعد کو مرگیا) زخمی پڑا ہے اور وہ خود دوسروں کے پنجے میں گرفتار ہیں اس کے بعد پولیس نے آکر انہیں گرفتار کرلیا۔ اور ان پر قتل عمد کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا۔ جماعت احمدیہ کی طرف سے ان کی قانونی امداد میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا گیا۔ مگر ابتدائی عدالت نے ان کو پھانسی کا فیصلہ دیا۔ اس پر ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی گئی مگر سزا بحال رہی۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی طرف سے روزوں کی تحریک اور اس کا نتیجہ
جماعت احمدیہ علیٰ وجہ البصیرت اپنے خلیفہ و امام کا جو مقام و منصب سمجھتی ہے اور اسے جس طرح اپنے ایمان کا جزو قرار دیتی ہے اس لحاظ سے یہ سوال خارج از بحث تھا کہ فتنہ پردوزوں کے خلاف کسی دنیوی عدالت میں چارہ جوئی کی جائے البتہ سلسلہ کے دوسرے ارکان کے تحفظ کے لئے عدالتوں کی طرف رجوع ہوسکتا تھا۔ چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے اسی نقطہ نگاہ سے ۱۹۳۰ء کی مجلس مشاورت میں جماعت کے نمائندوں سے مشورہ طلب فرمایا۔ چنانچہ عدالتوں کے طریق کار سے پوری طرح واقفیت رکھنے والے معززین اور تجربہ کار اصحاب کی آرا سننے کے بعد اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کی شان اور وقار کے احترام کا لحاظ رکھتے ہوئے نمائندوں کی کثرت نے رائے دی کہ ہمیں سرکاری عدالتوں کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت نہیں اور نہ ان پر کوئی بھروسہ ہے۔ چنانچہ حضور نے بھی فیصلہ فرمایا کہ ہم انسانی عدالتوں کی بجائے خدائے قدوس کی بارگاہ میں اپنا استغاثہ پیش کریں۔ اور ارشاد فرمایا کہ رسول کریمﷺ کی عادت تھی کہ ہفتہ میں دو روز پیر اور جمعرات کے دن روزے رکھا کرتے تھے۔ ہماری جماعت کے وہ احباب جن کے دل میں اس فتنہ نے درد پیدا کیا ہے اور جو اس کا انسداد چاہتے ہیں۔ اگر روزے رکھ سکیں تو ۲۸ اپریل ۱۹۳۰ء سے تین دن تک جتنے پیر کے دن آئیں ان میں روزے رکھیں اور دعائوں میں خاص طور پر مشغول رہیں کہ خدا تعالی یہ فتنہ دور کردے۔ اور ہم پر اپنا خاص فضل اور نصرت نازل کرے اور جو دوست یہ مجاہدہ مکمل کرنا چاہیں وہ چالیس روز تک جتنے پیر کے دن آئیں ان میں روزے رکھیں اور دعاکریں۔
چنانچہ جماعت کے دوستوں نے حضور کی تحریک پر روزے رکھے اور تضرع سے دعائیں کیں آخر خدائی عدالت نے اپنے بندوں کے حق میں ڈگری دے دی یعنی ایسا سامان پیدا کردیا کہ فتنہ پردازوں کے دلوں میں حکومت کی مخالفت کا جوش پیدا ہوگیا جس کی وجہ سے وہ سب پکڑے گئے باقی وہ رہ گئے جو بالکل کم حیثیت اور ذلیل لوگ تھے۔ اصل وہی تھے جن کی شہ پر انہیں شرارت کی جرات ہوتی تھی اور وہ گرفتار ہوگئے ان کے علاوہ وہ اخبار جو جماعت کے خلاف گند اچھالتے تھے۔ یا تو بند ہوگئے۔ یا پریس آرڈی نینس کے خوف کی وجہ سے اپنا رویہ بدلنے پر مجبور ہوئے۔ ‘‘
(تاریخ احمدیت جلد 6صفحہ 206تا210)
قاضی محمد علی صاحب نوشہروی کا وصال
’’قاضی محمد علی صاحب بٹالہ کے واقعہ قتل میں ماخوذ تھے۔ آپ کی اپیل ۹ اور ۱۲/ جنوری ۱۹۳۱ء کو ہائیکورٹ لاہور میں جسٹس ایڈیسن اور جسٹس کولڈ سٹریم کے بینچ میں پیش ہوئی۔ اپیلانٹ کی طرف سے شیخ دین محمد صاحب ایم اے۔ ایل ایل بی ایڈووکیٹ ہائیکورٹ ممبر پنجاب کونسل اور شیخ بشیر احمد صاحب بی ے۔ ایل ایل بی ایڈووکیٹ ہائیکورٹ گوجرانوالہ )حال ٹمپل روڈ لاہور( نے پیروی کی- بنچ نے سشن جج کا فیصلہ موت بحال رکھا اور اپیل نامنظور کر دی۔
ہائیکورٹ کے فیصلہ کے بعد حکومت پنجاب اور حکومت ہند سے رحم کی اپیل کی گئی مگر گورنر صاحب پنجاب اور وائسرائے ھند دونوں نے یہ اپیل رد کر دی۔ جس پر پریوی کونسل کی طرف رجوع کیا گیا۔
پریوی کونسل میں اپیل دائر تھی کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے قاضی محمد علی صاحب کو اپنے قلم سے ۹/ اپریل ۱۹۳۱ء کو مندرجہ ذیل نصیحت آمیز خط تحریر فرمایا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
مکرم قاضی صاحب! السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
ہائی کورٹ کے فیصلہ کے بعد گورنمنٹ پنجاب اور حکومت ہند کے پاس رحم کی اپیل کی گئی اور گورنر صاحب اور وائسرائے دونوں نے اس اپیل کو رد کر دیا اور اس کی بڑی وجہ جہاں تک میں سمجھا ہوں اس وقت کے سیاسی حالات ہیں وہ ڈرتے ہیں کہ اگر اس مقدمہ میں دخل دیں تو ان لوگوں کے بارے میں بھی دخل دینا پڑتا ہے۔ جو سیاسی شورش میں پھانسی کی سزا پا چکے ہیں۔
اب صرف ایک ہی راہ باقی تھی اور وہ پریوی کونسل میں اپیل تھی۔ سو اپیل اب دائر ہے اور اس ماہ میں اس کی پیشی ہے اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کا کیا نتیجہ نکلے گا اس لئے میں پیشتر اس کے اس اپیل کا فیصلہ ہو آپ کو بعض امور کے متعلق لکھنا چاہتا ہوں۔
)۱( جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں۔ میرا یہ یقین ہے کہ قانون کو ہاتھ میں لینا ہمارے طریق کے خلاف ہے اس لئے جس حد تک بھی آپ سے غلطی ہوئی ہے اس کے متعلق آپ کو توبہ اور استغفار سے کام لینا چاہئے اللہ تعالیٰ نے جب ایک قانون بنایا ہے تو یقیناً اس نے ہمارے لئے ایسے راہ بھی بنائے ہیں کہ بغیر قانون شکنی کے ہم اپنی مشکلات کا حل سوچ سکیں۔
)۲( خواہ آپ سے غلطی ہی ہوئی لیکن چونکہ آپ نے جو کچھ کیا ہے جہاں تک مجھے علم ہے محض دین کے لئے اور اللہ تعالیٰ کے لئے کیا ہے۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر آپ استغفار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ پر توکل سے کام لیں۔ تو وہ نہ صرف یہ کہ آپ سے عفو کا معاملہ کرے گا بلکہ آپ کو اپنے اخلاص کا بھی اعلیٰ بدلہ دے گا۔
)۳( غیب کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے ہم امید رکھتے ہیں کہ وہ آپ سے رحم کا معاملہ کرے گا۔ اور آپ کے بچائو کی کوئی صورت پیدا کر دے گا لیکن اس کی مشیت پر کسی کو حکومت نہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کو برات کی خوابیں آئی ہیں لیکن خدا تعالیٰ کی برات اور رنگ میں ہوتی ہے۔ اس کی طرف سے یہ بھی ایک برات ہے کہ غلطی کی سزا اس دنیا میں دے کر انسان کو پاک کرکے اپنے فضل کا وارث کر دے۔ پس چونکہ خوابیں تغیر طلب ہوتی ہے ان کے ظاہری معنوں پر اس قدر زور نہیں دینا چاہئے۔ اور اس امر کو مدنظر رکھنا چاہئے کہ اگر ان کی تعبیر کوئی اور ہے تو پھر بھی بندہ اللہ تعالیٰ کی قضائو قدر پر راضی رہے۔
کوئی انسان دنیا میں نہیں جو موت سے بچا ہوا ہو اور ایسا بھی کوئی نہیں جو کہہ سکے کہ وہ ضرور لمبی عمر پائے گا بڑے بڑے مضبوط آدمی جوان مر جاتے ہیں اور کمزور آدمی بڑھاپے کو پہنچتے ہیں۔ پس کون کہہ سکتا ہے کہ وہ ایک خاص قسم کی موت سے بچ بھی جائے تو کل ہی دوسری قسم کی موت اسے پکڑ نہ لے گی۔ پس کیوں نہ بندہ اللہ تعالیٰ کی مشیت پر راضی ہو تاکہ اس دنیا میں اسے جو تکلیف پہنچی ہو اگلے جہان میں تو اس کا بدلہ تو مل جائے۔ پس میں چاہتا ہوں کہ اس وقت کہ ابھی اپیل پیش ہونے والی ہے آپ کو توجہ دلائوں کہ اگر خدانخواستہ یہ آخری کوشش بھی ناکام رہے تو آپ کو صبر اور رضاء بقضاء کا ایسا اعلیٰ نمونہ دکھانا چاہئے کہ جو ایک مومن کی شایان شان ہو۔
ابھی پچھلے دنوں بھگت وغیرہ کو پھانسی کی سزا ہوئی ہے۔ لیکن ان لوگوں نے رحم کی اپیل کرنے سے بھی انکار کر دیا کیونکہ انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے ملک کے لئے یہ کام کیا ہے ہم کسی رحم کے طالب نہیں اور پھر بغیر گھبراہٹ کے اظہار کے یہ لوگ پھانسی پر چڑھ گئے۔ یہ وہ لوگ تھے جو نہ خدا تعالیٰ پر ایمان رکھتے تھے۔ اور نہ مابعد الموت انہیں کسی زندگی یا کسی نیک بدلہ کا یقین تھا۔ صرف قومی خدمت ان کے مدنظر تھی اور بس۔ ان لوگوں کا یہ حال ہے تو اس شخص کا کیا حال ہونا چاہئے جو خدا تعالیٰ پر یقین رکھتا ہو اور ایک نئی اور اعلیٰ زندگی کا امیدوار ہو۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جماعت اسلامی تعلیم کے مطابق مجبور ہے کہ آپ کے فعل کو غلطی پر محمول کرے۔ لیکن ساتھ ہی جماعت اس امر کو بھی محسوس کر رہی ہے کہ آپ نے غیرت اور دینی جوش کا ایسا نمونہ دکھایا ہے کہ اگر اس فعل کے بدلہ میں آپ کو سزائے پھانسی مل جائے تو یقیناً جماعت اس امر کو محسوس کرے گی کہ آپ نے اپنی غلطی کا بدلہ اپنی جان سے دے دیا اور آپ کا اخلاص باقی رہ گیا۔ جسے وہ ہمیشہ یاد رکھنے کی کوشش کرے گی۔ لیکن اگر آپ سے کسی قسم کا خوف ظاہر ہو یا گھبراہٹ ظاہر ہو تو یقیناً جماعت کے لئے یہ ایک صدمہ کی بات ہو گی۔ اور آپ کے پہلے فعل کو وہ کسی دینی غیرت کا نتیجہ نہیں بلکہ عارضی جوش کا نتیجہ خیال کرے گی۔ پس آج اس وقت کا معاملہ نہ صرف یہ کہ آپ کے اپنے وقار پر اثر انداز ہو گا بلکہ جماعت کے وقار پر بھی۔ جس کے لئے کابل کے شہدا نے ایک اعلیٰ معیار قائم کر دیا ہے۔ پس جہاں ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس پیالے کو آپ سے ٹلا دے اور آپ بھی دعا کریں کہ ایسا ہی ہو وہاں ہر ایک احمدی یہ امید کرتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کی مشیت ہماری خواہشات کے خلاف ہو تو آپ کا رویہ اس قدر بہادرانہ اس قدر دلیرانہ اس قدر مومنانہ ہو گا کہ آئندہ نسلیں آپ کے نام کو یاد رکھیں۔ اور آپ کی غلطی کو بھلاتے ہوئے آپ کے اخلاص کی یاد کو تازہ رکھیں اور ان کے دل اس یقین سے پر ہو جائیں کہ ایک احمدی ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی مشیت پر خوش ہے اور اسے دنیا کی کوئی تکلیف مرعوب نہیں کر سکی۔
خاکسار (دستخط مرزا محمود احمد(
قادیان ۳۱/ ۴/ ۹ خلیفتہ المسیح
آخر پریوی کونسل نے بھی فیصلہ بحال رکھا اور قاضی محمد علی صاحب کو خدا کی طرف سے آخری بلاوا آپہنچا۔ خدا کی مشیت ازلی پوری ہوئی اور آپ ۱۶/ مئی ۱۹۳۱ء کو گورداسپور جیل میں بوقت ۶ بجے صبح تختہ دار پر لٹکا دیئے گئے فانا للہ و انا الیہ راجعون۔
قاضی صاحب کی نعش گورداسپور سے قادیان پہنچائی گئی اور حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کے باغ میں پانچ ہزار کے مجمع سمیت نماز جنازہ ادا کی پھر دوستوں نے آپ کا چہرہ دیکھا اور فوٹو لیا گیا اور آپ بہشتی مقبرہ کی مقدس خاک میں دفن کر دیئے گئے۔
قاضی صاحب بڑے حق پرست` متقی اور خداترس انسان تھے۔وکیلوں اور قانون دانوں نے آپ کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے بیان کو قانونی رنگ میں ڈھال لیں۔ تو وہ الفاظ کے معمولی ہیر پھیر سے سزا سے بچ سکتے ہیں۔ مگر انہوں نے معمولی سا اختلاف بھی گوارا نہ کیا۔ پھانسی قبول کر لی۔ مگر سچائی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز آپ کی حق پرستی کو سراہتے ہوئے فرماتے ہیں۔
عدالت کے فیصلہ کے ہم پابند نہیں اس نے اپنا کام کیا اور اپنی رائے کے مطابق انہیں پھانسی دے دی اس پر اس کا کام ختم ہو گیا۔ مگر ہم اس کے فیصلہ کو صحیح ماننے کے پابند نہیں ہیں۔ اس نے اپنے نقطہ نگاہ پر بنیاد رکھی وہ ان کی سچائی سے اس طرح واقف نہ تھی جس طرح ہم واقف ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے ان کی صداقت کو دیکھا ہے متواتر ایسے واقعات ہوئے کہ انہیں جھوٹ بولنے کے لئے ورغلایا گیا۔ مگر انہوں نے ایک لمحہ کے لئے صداقت کو نہ چھوڑا اور میں ذاتی طور پر واقف ہوں کہ وہ شخص جھوٹا نہ تھا اور پانچ نہیں اگر پانچ ہزار گواہ بھی اس کے خلاف شہادت دیں تو ہم انہیں ہی جھوٹا سمجھیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عدالت نے اگرچہ دیانتداری سے فیصلہ کیا مگر غلط کیا۔ واقعہ یہی ہے کہ قاضی صاحب نے قتل نہیں کیا۔ ایک آدمی ضرور مرا۔ مگر معلوم نہیں کس کے ہاتھ سے ۔۔۔۔۔۔ پس ہم جب قاضی صاحب کی تعریف کرتے ہیں تو اس وجہ سے نہیں کہ انہوں نے ایک آدمی کو مار دیا بلکہ اس وجہ سے کہ انہوں نے سچائی کو اختیار کیا۔ آخر دم تک اس پر قائم رہے اور بالاخر جان دے دی۔ مگر صداقت کو نہ چھوڑا اور یہ وہ روح ہے جو ہم چاہتے ہیں ہر احمدی کے اندر پیدا ہو۔ اسی وجہ سے میں ان کے جنازہ میں شامل ہوا۔‘‘
(تاریخ احمدیت جلد ششم چوتھا باب فصل سوم۔ص311تا315(
ذیل میں اس واقعہ کی تفصیل تاریخ احمدیت جلد ششم سے پیش کی جارہی ہے۔جس سے پتہ چلتا ہے کہ قاضی محمد علی صاحب نے قتل نہیں کیا بلکہ یہ پتہ نہ چل سکا کہ کس کے ہاتھ سے وہ قتل ہوا۔تاہم آپ پر اقدام قتل کا مقدمہ ہوا اور پھر بعد میں سزائے موت سنائی دی گئی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے کسی بھی مقام پر آپ کے اس فعل کو ہرگزدرست قرار نہیں دیا البتہ آپ کی دینی غیرت اور سچائی کو جس پر آپ آخر دم تک قائم رہے،سراہا ہے۔
فتنہ اخبار مباہلہ اور حادثہ بٹالہ
’’جیسا کہ پہلے ذکر کیا جاچکا ہے اخبار مباہلہ کے ذریعہ سے حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کے خلاف جو نہایت ہی اشتعال انگیز اور حد درجہ دلآزار پراپیگنڈا شروع کیا جارہا تھا جو مارچ اپریل ۱۹۳۰ء میں تشویشناک صورت اختیار کر گیا۔
چنانچہ مباہلہ والوں نے ۲۸ مارچ ۱۹۳۰ء کو عین اس وقت جبکہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ خطبہ جمعہ ارشاد فرمارہے تھے مسجد اقصیٰ کی محراب کے پاس فساد برپا کرنے کا ارادہ کیا۔ اس موقعہ پر بعض جوشیلے مقتدی مسجد کی کھڑکیوں سے پھاند کر وہاں پہنچ گئے تا ان کو کیفر کردار تک پہنچائیں مگر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے بعض دوستوں کو قسمیں دے کر بھیجا کہ تمہیں بالکل ہاتھ نہیں اٹھانا ہوگا اور صرف اپنے دوستوں کو پکڑ کر لانا ہوگا۔ یہ واقعہ ہزاروں آدمیوں کی موجودگی میں ہوا لیکن پولیس نے جو کارروائی کی وہ یہ تھی کہ )حضرت میر قاسم علی صاحب اور مولوی عبدالرحمان صاحب فاضل وغیرہ( احمدی معززین کی ہزار ہزار روپیہ کی ضمانتیں طلب کیں۔ اس واقعہ کے چند روز بعد انہوں نے جاہل عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے یہ چال چلی کہ ۳ اپریل ۱۹۳۰ء کی رات کو اپنے اخبار مباہلہ کے تمام فائل ` متعلقہ کاغذات ` نیز گھر اور دفتر کا تمام سامان محفوظ کرکے مکان کی ایک کوٹھڑی کو جہاں اسباب وغیرہ کچھ نہ تھا آگ لگا دی جس سے چند لکڑیاں جھلس گئیں۔ مگر جماعت احمدیہ کے مخالف اخبارات وغیرہ میں یہ جھوٹی خبریں شائع کیں کہ ہمارا مکان نذر آتش کر دیا گیا ہے اور سارا سامان جلا دیا گیا ہے۔ قادیان میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی ہدایت کے تحت احمدی بے مثال صبر وتحمل کا نمونہ بنے ہوئے تھے۔ اس لئے ان لوگوں نے یہ دیکھ کر کہ مرکز احمدیت میں بیٹھ کر ان کے لئے مزید شرارت پھیلانے کا موقعہ نہیں ہے۔ بٹالہ میں اپنی شرارتوں کا اڈہ بنالیا۔ اور مشہور کردیا کہ احمدیوں نے انہیں قادیان سے نکال دیا ہے بٹالہ میں ان کی تحریک پر انجمن شباب المسلمین کے عہدیداروں اور والنٹیئروں نے ۹۔ اپریل ۱۹۳۰ء کو ایک جلوس مرتب کیا جو محض اشتعال دلانے کے لئے اس محلہ سے گزرا جہاں پریذیڈنٹ انجمن احمدیہ بٹالہ (شیخ عبدالرشید صاحب مالک کارخانہ عبدالرشید اینڈ سنز)کا مکان تھا۔ جلوس نے مکان کے سامنے فحش گالیاں دیں اور حضرت مسیح موعود اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی اور دوسرے افراد خاندان مسیح موعود کے متعلق ناروا کلمات استعمال کئے اور جب انہیں منع کیا گیا تو جلوس کے بعض افراد دروازے توڑ کر جبراً ان کے رہائشی مکان میں گھس گئے اور اندر جاکر انہیں اور ان کے لڑکے کو زرد کوب کیا اور سامان توڑ دیا۔
بٹالہ میں ان کی قماش کے لوگوں نے ان کی بڑی آؤبھگت کی ان کے جلوس نکالے ان کے لئے چندہ جمع کیا مگر چند دن کے بعد ہی یہ لوگ اپنا نیا میدان تلاش کرنے کے لئے امرت سرآگئے اور احمدیوں کے خلاف ہنگامہ آرائی شروع کردی۔
۲۳ اپریل ۱۹۳۰ء کی رات کو ایک ایسا حادثہ پیش آیا جس نے حالات کو بد سے بدتر بنادیا ۔کہا جاتا ہے کہ نوشہرہ کے ایک احمدی نوجوان قاضی محمد علی صاحب گورداسپور سے بٹالہ کی طرف ایک لاری میں آرہے تھے بدقسمتی سے اسی میں مباہلہ والے مستری اور ان کے مدد گار ایک کافی تعداد میں موجود تھے۔ راستہ میں قاضی صاحب کی مباہلہ والوں سے گفتگو ہوتی رہی جس میں زیادہ تر زور انہوں نے اس بات پر دیا کہ مخالفت کی وجہ سے شرافت وانسانیت کو خیرباد نہیں کہنا چاہئے اورجھوٹے الزامات لگا کر احمدیوں کی دل آزاری نہیں کرنی چاہئے مگر مباہلہ والوں نے اخبار مباہلہ کا ایک پرچہ نکال کر نہایت گندے اور اشتعال انگیز فقرات سنانے شروع کردیئے اور تصادم شروع ہوگیا۔ فریق مخالف نے قاضی صاحب پر حملہ کرنے کے لئے چاقو نکال لیا یہ دیکھ کر قاضی محمد علی صاحب کو بھی چاقو نکالنا پڑا۔ یہ دیکھ کر لاری میں بیٹھنے والے لوگ قاضی صاحب پر پل پڑے اور بے تحاشا مارنا شروع کردیا۔ ایسی حالت میں انہوں نے اپنے بچائو کی پوری کوشش کی لیکن انہیں بہت سے آدمیوں نے اس قدر مارا کہ بیہوش کردیا اور انہیں معلوم نہ ہوا کہ کیا ہوا اور جب ہوش آیا تو دیکھا کہ ایک شخص (جو بعد کو مرگیا) زخمی پڑا ہے اور وہ خود دوسروں کے پنجے میں گرفتار ہیں اس کے بعد پولیس نے آکر انہیں گرفتار کرلیا۔ اور ان پر قتل عمد کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا۔ جماعت احمدیہ کی طرف سے ان کی قانونی امداد میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا گیا۔ مگر ابتدائی عدالت نے ان کو پھانسی کا فیصلہ دیا۔ اس پر ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی گئی مگر سزا بحال رہی۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی طرف سے روزوں کی تحریک اور اس کا نتیجہ
جماعت احمدیہ علیٰ وجہ البصیرت اپنے خلیفہ و امام کا جو مقام و منصب سمجھتی ہے اور اسے جس طرح اپنے ایمان کا جزو قرار دیتی ہے اس لحاظ سے یہ سوال خارج از بحث تھا کہ فتنہ پردوزوں کے خلاف کسی دنیوی عدالت میں چارہ جوئی کی جائے البتہ سلسلہ کے دوسرے ارکان کے تحفظ کے لئے عدالتوں کی طرف رجوع ہوسکتا تھا۔ چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے اسی نقطہ نگاہ سے ۱۹۳۰ء کی مجلس مشاورت میں جماعت کے نمائندوں سے مشورہ طلب فرمایا۔ چنانچہ عدالتوں کے طریق کار سے پوری طرح واقفیت رکھنے والے معززین اور تجربہ کار اصحاب کی آرا سننے کے بعد اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کی شان اور وقار کے احترام کا لحاظ رکھتے ہوئے نمائندوں کی کثرت نے رائے دی کہ ہمیں سرکاری عدالتوں کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت نہیں اور نہ ان پر کوئی بھروسہ ہے۔ چنانچہ حضور نے بھی فیصلہ فرمایا کہ ہم انسانی عدالتوں کی بجائے خدائے قدوس کی بارگاہ میں اپنا استغاثہ پیش کریں۔ اور ارشاد فرمایا کہ رسول کریمﷺ کی عادت تھی کہ ہفتہ میں دو روز پیر اور جمعرات کے دن روزے رکھا کرتے تھے۔ ہماری جماعت کے وہ احباب جن کے دل میں اس فتنہ نے درد پیدا کیا ہے اور جو اس کا انسداد چاہتے ہیں۔ اگر روزے رکھ سکیں تو ۲۸ اپریل ۱۹۳۰ء سے تین دن تک جتنے پیر کے دن آئیں ان میں روزے رکھیں اور دعائوں میں خاص طور پر مشغول رہیں کہ خدا تعالی یہ فتنہ دور کردے۔ اور ہم پر اپنا خاص فضل اور نصرت نازل کرے اور جو دوست یہ مجاہدہ مکمل کرنا چاہیں وہ چالیس روز تک جتنے پیر کے دن آئیں ان میں روزے رکھیں اور دعاکریں۔
چنانچہ جماعت کے دوستوں نے حضور کی تحریک پر روزے رکھے اور تضرع سے دعائیں کیں آخر خدائی عدالت نے اپنے بندوں کے حق میں ڈگری دے دی یعنی ایسا سامان پیدا کردیا کہ فتنہ پردازوں کے دلوں میں حکومت کی مخالفت کا جوش پیدا ہوگیا جس کی وجہ سے وہ سب پکڑے گئے باقی وہ رہ گئے جو بالکل کم حیثیت اور ذلیل لوگ تھے۔ اصل وہی تھے جن کی شہ پر انہیں شرارت کی جرات ہوتی تھی اور وہ گرفتار ہوگئے ان کے علاوہ وہ اخبار جو جماعت کے خلاف گند اچھالتے تھے۔ یا تو بند ہوگئے۔ یا پریس آرڈی نینس کے خوف کی وجہ سے اپنا رویہ بدلنے پر مجبور ہوئے۔ ‘‘
(تاریخ احمدیت جلد 6صفحہ 206تا210)
قاضی محمد علی صاحب نوشہروی کا وصال
’’قاضی محمد علی صاحب بٹالہ کے واقعہ قتل میں ماخوذ تھے۔ آپ کی اپیل ۹ اور ۱۲/ جنوری ۱۹۳۱ء کو ہائیکورٹ لاہور میں جسٹس ایڈیسن اور جسٹس کولڈ سٹریم کے بینچ میں پیش ہوئی۔ اپیلانٹ کی طرف سے شیخ دین محمد صاحب ایم اے۔ ایل ایل بی ایڈووکیٹ ہائیکورٹ ممبر پنجاب کونسل اور شیخ بشیر احمد صاحب بی ے۔ ایل ایل بی ایڈووکیٹ ہائیکورٹ گوجرانوالہ )حال ٹمپل روڈ لاہور( نے پیروی کی- بنچ نے سشن جج کا فیصلہ موت بحال رکھا اور اپیل نامنظور کر دی۔
ہائیکورٹ کے فیصلہ کے بعد حکومت پنجاب اور حکومت ہند سے رحم کی اپیل کی گئی مگر گورنر صاحب پنجاب اور وائسرائے ھند دونوں نے یہ اپیل رد کر دی۔ جس پر پریوی کونسل کی طرف رجوع کیا گیا۔
پریوی کونسل میں اپیل دائر تھی کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے قاضی محمد علی صاحب کو اپنے قلم سے ۹/ اپریل ۱۹۳۱ء کو مندرجہ ذیل نصیحت آمیز خط تحریر فرمایا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
مکرم قاضی صاحب! السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
ہائی کورٹ کے فیصلہ کے بعد گورنمنٹ پنجاب اور حکومت ہند کے پاس رحم کی اپیل کی گئی اور گورنر صاحب اور وائسرائے دونوں نے اس اپیل کو رد کر دیا اور اس کی بڑی وجہ جہاں تک میں سمجھا ہوں اس وقت کے سیاسی حالات ہیں وہ ڈرتے ہیں کہ اگر اس مقدمہ میں دخل دیں تو ان لوگوں کے بارے میں بھی دخل دینا پڑتا ہے۔ جو سیاسی شورش میں پھانسی کی سزا پا چکے ہیں۔
اب صرف ایک ہی راہ باقی تھی اور وہ پریوی کونسل میں اپیل تھی۔ سو اپیل اب دائر ہے اور اس ماہ میں اس کی پیشی ہے اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کا کیا نتیجہ نکلے گا اس لئے میں پیشتر اس کے اس اپیل کا فیصلہ ہو آپ کو بعض امور کے متعلق لکھنا چاہتا ہوں۔
)۱( جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں۔ میرا یہ یقین ہے کہ قانون کو ہاتھ میں لینا ہمارے طریق کے خلاف ہے اس لئے جس حد تک بھی آپ سے غلطی ہوئی ہے اس کے متعلق آپ کو توبہ اور استغفار سے کام لینا چاہئے اللہ تعالیٰ نے جب ایک قانون بنایا ہے تو یقیناً اس نے ہمارے لئے ایسے راہ بھی بنائے ہیں کہ بغیر قانون شکنی کے ہم اپنی مشکلات کا حل سوچ سکیں۔
)۲( خواہ آپ سے غلطی ہی ہوئی لیکن چونکہ آپ نے جو کچھ کیا ہے جہاں تک مجھے علم ہے محض دین کے لئے اور اللہ تعالیٰ کے لئے کیا ہے۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر آپ استغفار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ پر توکل سے کام لیں۔ تو وہ نہ صرف یہ کہ آپ سے عفو کا معاملہ کرے گا بلکہ آپ کو اپنے اخلاص کا بھی اعلیٰ بدلہ دے گا۔
)۳( غیب کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے ہم امید رکھتے ہیں کہ وہ آپ سے رحم کا معاملہ کرے گا۔ اور آپ کے بچائو کی کوئی صورت پیدا کر دے گا لیکن اس کی مشیت پر کسی کو حکومت نہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کو برات کی خوابیں آئی ہیں لیکن خدا تعالیٰ کی برات اور رنگ میں ہوتی ہے۔ اس کی طرف سے یہ بھی ایک برات ہے کہ غلطی کی سزا اس دنیا میں دے کر انسان کو پاک کرکے اپنے فضل کا وارث کر دے۔ پس چونکہ خوابیں تغیر طلب ہوتی ہے ان کے ظاہری معنوں پر اس قدر زور نہیں دینا چاہئے۔ اور اس امر کو مدنظر رکھنا چاہئے کہ اگر ان کی تعبیر کوئی اور ہے تو پھر بھی بندہ اللہ تعالیٰ کی قضائو قدر پر راضی رہے۔
کوئی انسان دنیا میں نہیں جو موت سے بچا ہوا ہو اور ایسا بھی کوئی نہیں جو کہہ سکے کہ وہ ضرور لمبی عمر پائے گا بڑے بڑے مضبوط آدمی جوان مر جاتے ہیں اور کمزور آدمی بڑھاپے کو پہنچتے ہیں۔ پس کون کہہ سکتا ہے کہ وہ ایک خاص قسم کی موت سے بچ بھی جائے تو کل ہی دوسری قسم کی موت اسے پکڑ نہ لے گی۔ پس کیوں نہ بندہ اللہ تعالیٰ کی مشیت پر راضی ہو تاکہ اس دنیا میں اسے جو تکلیف پہنچی ہو اگلے جہان میں تو اس کا بدلہ تو مل جائے۔ پس میں چاہتا ہوں کہ اس وقت کہ ابھی اپیل پیش ہونے والی ہے آپ کو توجہ دلائوں کہ اگر خدانخواستہ یہ آخری کوشش بھی ناکام رہے تو آپ کو صبر اور رضاء بقضاء کا ایسا اعلیٰ نمونہ دکھانا چاہئے کہ جو ایک مومن کی شایان شان ہو۔
ابھی پچھلے دنوں بھگت وغیرہ کو پھانسی کی سزا ہوئی ہے۔ لیکن ان لوگوں نے رحم کی اپیل کرنے سے بھی انکار کر دیا کیونکہ انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے ملک کے لئے یہ کام کیا ہے ہم کسی رحم کے طالب نہیں اور پھر بغیر گھبراہٹ کے اظہار کے یہ لوگ پھانسی پر چڑھ گئے۔ یہ وہ لوگ تھے جو نہ خدا تعالیٰ پر ایمان رکھتے تھے۔ اور نہ مابعد الموت انہیں کسی زندگی یا کسی نیک بدلہ کا یقین تھا۔ صرف قومی خدمت ان کے مدنظر تھی اور بس۔ ان لوگوں کا یہ حال ہے تو اس شخص کا کیا حال ہونا چاہئے جو خدا تعالیٰ پر یقین رکھتا ہو اور ایک نئی اور اعلیٰ زندگی کا امیدوار ہو۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جماعت اسلامی تعلیم کے مطابق مجبور ہے کہ آپ کے فعل کو غلطی پر محمول کرے۔ لیکن ساتھ ہی جماعت اس امر کو بھی محسوس کر رہی ہے کہ آپ نے غیرت اور دینی جوش کا ایسا نمونہ دکھایا ہے کہ اگر اس فعل کے بدلہ میں آپ کو سزائے پھانسی مل جائے تو یقیناً جماعت اس امر کو محسوس کرے گی کہ آپ نے اپنی غلطی کا بدلہ اپنی جان سے دے دیا اور آپ کا اخلاص باقی رہ گیا۔ جسے وہ ہمیشہ یاد رکھنے کی کوشش کرے گی۔ لیکن اگر آپ سے کسی قسم کا خوف ظاہر ہو یا گھبراہٹ ظاہر ہو تو یقیناً جماعت کے لئے یہ ایک صدمہ کی بات ہو گی۔ اور آپ کے پہلے فعل کو وہ کسی دینی غیرت کا نتیجہ نہیں بلکہ عارضی جوش کا نتیجہ خیال کرے گی۔ پس آج اس وقت کا معاملہ نہ صرف یہ کہ آپ کے اپنے وقار پر اثر انداز ہو گا بلکہ جماعت کے وقار پر بھی۔ جس کے لئے کابل کے شہدا نے ایک اعلیٰ معیار قائم کر دیا ہے۔ پس جہاں ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس پیالے کو آپ سے ٹلا دے اور آپ بھی دعا کریں کہ ایسا ہی ہو وہاں ہر ایک احمدی یہ امید کرتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کی مشیت ہماری خواہشات کے خلاف ہو تو آپ کا رویہ اس قدر بہادرانہ اس قدر دلیرانہ اس قدر مومنانہ ہو گا کہ آئندہ نسلیں آپ کے نام کو یاد رکھیں۔ اور آپ کی غلطی کو بھلاتے ہوئے آپ کے اخلاص کی یاد کو تازہ رکھیں اور ان کے دل اس یقین سے پر ہو جائیں کہ ایک احمدی ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی مشیت پر خوش ہے اور اسے دنیا کی کوئی تکلیف مرعوب نہیں کر سکی۔
خاکسار (دستخط مرزا محمود احمد(
قادیان ۳۱/ ۴/ ۹ خلیفتہ المسیح
آخر پریوی کونسل نے بھی فیصلہ بحال رکھا اور قاضی محمد علی صاحب کو خدا کی طرف سے آخری بلاوا آپہنچا۔ خدا کی مشیت ازلی پوری ہوئی اور آپ ۱۶/ مئی ۱۹۳۱ء کو گورداسپور جیل میں بوقت ۶ بجے صبح تختہ دار پر لٹکا دیئے گئے فانا للہ و انا الیہ راجعون۔
قاضی صاحب کی نعش گورداسپور سے قادیان پہنچائی گئی اور حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کے باغ میں پانچ ہزار کے مجمع سمیت نماز جنازہ ادا کی پھر دوستوں نے آپ کا چہرہ دیکھا اور فوٹو لیا گیا اور آپ بہشتی مقبرہ کی مقدس خاک میں دفن کر دیئے گئے۔
قاضی صاحب بڑے حق پرست` متقی اور خداترس انسان تھے۔وکیلوں اور قانون دانوں نے آپ کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے بیان کو قانونی رنگ میں ڈھال لیں۔ تو وہ الفاظ کے معمولی ہیر پھیر سے سزا سے بچ سکتے ہیں۔ مگر انہوں نے معمولی سا اختلاف بھی گوارا نہ کیا۔ پھانسی قبول کر لی۔ مگر سچائی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز آپ کی حق پرستی کو سراہتے ہوئے فرماتے ہیں۔
عدالت کے فیصلہ کے ہم پابند نہیں اس نے اپنا کام کیا اور اپنی رائے کے مطابق انہیں پھانسی دے دی اس پر اس کا کام ختم ہو گیا۔ مگر ہم اس کے فیصلہ کو صحیح ماننے کے پابند نہیں ہیں۔ اس نے اپنے نقطہ نگاہ پر بنیاد رکھی وہ ان کی سچائی سے اس طرح واقف نہ تھی جس طرح ہم واقف ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے ان کی صداقت کو دیکھا ہے متواتر ایسے واقعات ہوئے کہ انہیں جھوٹ بولنے کے لئے ورغلایا گیا۔ مگر انہوں نے ایک لمحہ کے لئے صداقت کو نہ چھوڑا اور میں ذاتی طور پر واقف ہوں کہ وہ شخص جھوٹا نہ تھا اور پانچ نہیں اگر پانچ ہزار گواہ بھی اس کے خلاف شہادت دیں تو ہم انہیں ہی جھوٹا سمجھیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عدالت نے اگرچہ دیانتداری سے فیصلہ کیا مگر غلط کیا۔ واقعہ یہی ہے کہ قاضی صاحب نے قتل نہیں کیا۔ ایک آدمی ضرور مرا۔ مگر معلوم نہیں کس کے ہاتھ سے ۔۔۔۔۔۔ پس ہم جب قاضی صاحب کی تعریف کرتے ہیں تو اس وجہ سے نہیں کہ انہوں نے ایک آدمی کو مار دیا بلکہ اس وجہ سے کہ انہوں نے سچائی کو اختیار کیا۔ آخر دم تک اس پر قائم رہے اور بالاخر جان دے دی۔ مگر صداقت کو نہ چھوڑا اور یہ وہ روح ہے جو ہم چاہتے ہیں ہر احمدی کے اندر پیدا ہو۔ اسی وجہ سے میں ان کے جنازہ میں شامل ہوا۔‘‘
(تاریخ احمدیت جلد ششم چوتھا باب فصل سوم۔ص311تا315(
جماعت احمدیہ پر لگائے جانے والے تحریف قرآن کے الزام پر ایک طائرانہ نظر
پاکستان میں جماعت احمدیہ کے خلاف فتنہ انگیزی کو ہوا دینے کے لیے کئی طرح کے اعتراضات کو بنی…