تحریر”اُعْطِیْتُ صِفَةَ الْاِفْنَاءِ وَالْاِحْیَاءِ” پر اعتراض
حضرت مسیح موعودؑ کی کتاب خطبہ الہا میہ کی ایک تحریر” اُعْطِیْتُ صِفَةَ الْاِفْنَاءِ وَالْاِحْیَاءِ” یعنی” مجھ کوفانی کرنے اور زندہ کرنے کی صفت دی گئی ہے “پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ آپؑ نے گویا خدائی صفات میں اپنے آپ کو شریک ٹھہر ایا ہے۔
الہامی عبارت پر اعتراض نہیں ہو سکتا
معترضین نے خطبہ الہامیہ کی جو تحریر پیش کرکے اعتراض کیا ہے وہ مکمل تحریر پیش ہے۔
”اُعْطِیْتُ صِفَةَ الْاِفْنَاءِ وَالْاِحْیَاءِ مِنَ الرَّبِّ الْفَعَّالِ۔“
حضورؑ کے اس خطبہ میں اس عبارت کاترجمہ کچھ یوں لکھا ہے:
”مجھ کو فانی کرنے اور زندہ کرنے کی صفت دی گئی ہے اور یہ صفت خداتعالیٰ کی طرف سے مجھ کو ملی ہے۔“ (خطبہ الہامیہ روحانی خزائن جلد16صفحہ55)
1۔ سب سے اول یہ بات سمجھنی چاہیے کہ یہ وہ کلمات ہیں جو الہامًا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عطا کئے گئے ۔ چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں:۔” خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ غیب سے مجھے ایک قوت دی گئی اور وہ فصیح تقریر عربی میں فی البدیہ میرے مُنہ سے نکل رہی تھی کہ میری طاقت سے بالکل باہر تھی اور میں نہیں خیال کر سکتا کہ ایسی تقریر جس کی ضخامت کئی جزو تک تھی ایسی فصاحت اور بلاغت کے ساتھ بغیر اس کے کہ اول کسی کاغذ میں قلمبند کی جائے کوئی شخص دنیا میں بغیر خاص الہام الٰہی کے بیان کر سکے جس وقت یہ عربی تقریر جس کا نام خطبہ الھامیہ رکھا گیا لوگوں میں سنائی گئی اس وقت حاضرین کی تعداد شاید دوسو۲۰۰ کے قریب ہو گی سبحان اللہ اُس وقت ایک غیبی چشمہ کھل رہا تھا مجھے معلوم نہیں کہ میں بول رہا تھا یا میری زبان سے کوئی فرشتہ کلام کر رہا تھا کیونکہ میں جانتا تھا کہ اس کلام میں میرا دخل نہ تھا خود بخود بنے بنائے فقرے میرے مُنہ سے نکلتے جاتے تھے ۔” (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22صفحہ 376)
پس اس الہام پر اعتراض کسی طور درست نہیں ہو سکتا۔
حضرت مسیح موعود ؑ نے خود افناء و احیاء کی تعریف فرما دی ہے
2۔ معترضہ تحریر کے آخر پر یہ لکھا ہونا کہ یہ صفت خدا تعالیٰ کی طرف سےآپؑ کو ملی ہے ، کلیتاً خدائی کے دعوے کو رد کر تا ہے
3۔ جس شرک کا معترض نے الزام لگایا ہے اسے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسی معترضہ عبارت کے فورًا بعد ان الفاظ میں رد فرما رہے ہیں :۔
“فَاَمَّا الْجَلَالُ الَّذِیْ اُعْطِیَتْ فَھُوَ اَثَرٌ لِبُرُوْزِی الْعِیْسَوِیِّ مِنَ اللّٰہِ ذِی الْجَلَالِ ۔ لِاُبِیْدَ بِہٖ شَرَّ الشِّرْکِ الْمَوَّاج ِ الْمَوْجُوْد ِ فِیْ عَقَائِدِ اَھْل ِ الضَّلَالِ۔۔۔ وَاَمَّا الْجَمَالُ الَّذِیْ اُعْطِیْتُ فَھُوَ اَثَرٌ لِّبُرُوْزِی الْا َ حْمَدِیِّ مِنَ اللّٰہِ ذِی اللُّطْفِ وَالنَّوَالِ ۔ لِاُعِیْدَ بِہٖ صَلَا حَ التَّوْحِیْدِ الْمَفْقُوْدِ مِنَ الْاَ لْسُنِ وَالْقُلُوْبِ وَالْاَقْوَالِ وَالْاَفْعَالِ۔ وَ اُقِیْمَ بِہٖ اَمْرَ التَّدَیُّنِ ۔”
ترجمہ: لیکن وہ جلال جو مجھکو دیا گیا ہے وہ میرے اس بروز کا اثر ہے جو عیسوی بروز ہے اور جو خدا کی طرف سے ہے ۔ تاکہ میں اُس شرک کی بدی کو نابود کروں جو گمراہوں کے عقیدوں میں موج مار رہی ہے اور موجود ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن وہ جمال جو مجھ کو ملا ہے وہ میرے اس بروز کا اثر ہے جس کا نام بخشش کرنے والے خدا کی طرف سے بروز احمدی ہے ۔ تاکہ میں اس کے ذریعہ سے توحید کی نیکی کو جو زبانوں اور دلوں اور باتوں اور کاموں سے جاتی رہی ہے واپس لاؤں۔ (خطبہ الہامیہ ۔ روحانی خزائن جلد 16صفحہ 56تا57)
اسکے بعد “افنا “اور “احیاء” کی مزید تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”اِیْذَائِیْ سِنَانٌ مُذَرَّبٌ۔ وَدُعَائِیْ دَوَاءٌ مُجَرَّبٌ۔ اُرِیْ قَوْمًا جَلَالًا وَ قَوْمًا اٰخَرِیْنَ جَمَالًا۔ وَبِیَدِیْ جَرْبَةٌ اُبِیْدُبِھَا عَادَاتِ الظُّلْمِ وَالذُّنُوْبِ وَفِی الْاُخْرٰی شَرْبَةٌ اُعِیْدُبِھَا حَیَاةَ الْقُلُوْبِ۔ فَاسٌ لِلْاَفْنَاءِ۔ وَاَنْفَاسٌ لِلْاَحْیَاءِ۔ (خطبہ الہامیہ ۔روحانی خزائن جلد 16صفحہ61,62)
ترجمہ: ”مجھے تکلیف دینا ایک تیز نیزہ ہے اور میری دعا ایک مجرب دوا ہے۔ میں ایک قوم کو اپنا جلال دکھاتا ہوں اور دوسری قوم کو جمال دکھاتا ہوں اور میرے ایک ہاتھ میں ایک ہتھیار ہے جس کے ساتھ میں ظلم اور گناہ کی عادتوں کو ہلاک کرتا ہوں اور دوسرے ہاتھ میں ایک شربت ہے جس سے میں دلوں کو دوبارہ زندہ کرتا ہوں۔ گویا ایک کلہاڑی فنا کرنے کے لیے اور دم زندہ کرنے کے لیے۔“
حضرت بانی جماعت احمدیہ کی دعوت مقابلہ تفسیر نویسی اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کی اصل واقعاتی حقیقت
قارئین کرام!آجکل سوشل میڈیا پر احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیزمنفی مہم میں الزام تراشیوں کا ا…