الہام” اَنْتَ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْکَ“ پر اعتراض
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک الہام” اَنْتَ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْکَ“ تُو مجھ سے اور میں تجھ سے ہوں،پر اعتراض ہوتا ہے کہ گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدائی کا دعویٰ کیا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بیان فرمودہ مطلب
اگر خدانخواستہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام ”اَنْتَ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْکَ“ سے کوئی ایسا دعویٰ مستنبط ہوتا تو چاہیے تھا کہ آپ یہ دعویٰ کرتے لیکن آپ فرماتے ہیں:
”اس الہام اَنْتَ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْکَ کا پہلا حصہ تو بالکل صاف ہے کہ تو جو ظاہر ہوا یہ میرے فضل اور کرم کا نتیجہ ہے اور جس انسان کو خداتعالیٰ مامور کرکے دنیا میں بھیجتا ہے اس کو اپنی مرضی اور حکم سے مامور کرکے بھیجتا ہے جیسے حکام کا بھی یہ دستور اور قاعدہ ہے۔ اب اس الہام میں جو خداتعالیٰ فرماتا ہے اَنَا مِنْکَ اس کا یہ مطلب اور منشاء ہے کہ میری توحید اور میرا جلال اور میری عزت کا ظہور تیرے ذریعہ سے ہوگا۔ … ایک وقت ہوتا ہے کہ خدا اُس وقت گُم ہوا سمجھا جاتا ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب اس کی ہستی اور توحید اور صفات پر ایمان نہیں رہتا اور عملی رنگ میں دنیا دہریہ ہو جاتی ہے۔ اُس وقت جس شخص کو خدا اپنی تجلیات کا مظہر قرار دیتا ہے وہ اس کی ہستی اور توحید اور جلال کے اظہار کا باعث ٹھہرتا ہے اور اَنَا مِنْکَ کا مصداق ہوتا ہے“۔ (اخبار الحکم جلد 6 نمبر 40)
پھر دوسرے موقعہ پر فرمایا:
”ایسا انسان جس کو اَنَا مِنْکَ کی آواز آتی ہے اُس وقت دنیا میں آتا ہے جب خداپرستی کا نام و نشان مٹ گیا ہوتا ہے۔ اس وقت بھی چونکہ دنیا میں فِسق و فجور بہت بڑھ گیا ہے اور خداشناسی اور خدارسی کی راہیں نظر نہیں آتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے اور محض اپنے فضل و کرم سے اُس نے مجھ کو مبعوث کیا ہے تا میں ان لوگوں کو جو اللہ تعالیٰ سے غافل اور بے خبر ہیں اس کی اطلاع دوں۔ اور نہ صرف اطلاع دوں بلکہ جو صدق اور صبر اور وفاداری کے ساتھ اس طرف آئیں انہیں خداتعالیٰ کو دکھلادوں۔ اس بناء پر اللہ تعالیٰ نے مجھے مخاطب کیا اور فرمایا اَنْتَ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْکَ“۔ (اخبار الحکم جلد 7 نمبر 36)
پھر حضرت مسیح موعود نے جماعت احمدیہ کے لیے بطور مذہب حسب ذیل تلقین فرما ئی کہ:
”وہ یقین کریں کہ ان کا ایک قادِر اور قیوم اور خالق الکل خدا ہے جو اپنی صفات میں ازلی ابدی اور غیرمتغیر ہے۔ نہ وہ کسی کا بیٹا نہ کوئی اُس کا بیٹا۔“ (کشتی نوح صفحہ 12روحانی خزا ئن جلد19ص12)
لہٰذا جب حضرت مسیح موعود نے خود اس الہام کی تفسیر فرما دی توپھر اس پر کوئی اعتراض واردکرنا کُورفہمی کا نتیجہ ہی ہوسکتا ہے۔
قرآن و حدیث سے مثالیں کہ عربی میں اس فقرہ کا استعمال پیار محبت کے اظہار کے لئے ہوتا ہے
قرآن و حدیث سے مثالیں
پھر الہام ”اَنْتَ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْکَ“ کے بارہ میں یاد رہے کہ عربی زبان میں ہرگز اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ جہاں یہ لفظ آجائے باپ بیٹے کا ہی تعلق ہوبلکہ یہ عربی زبان کا محاورہ ہے جو محبت وپیار کے اظہار کے یے استعمال ہوتا ہے ۔ مثلاً قرآن مجید میں آتا ہے کہ جب حضرت طالوت ایک لشکرِ جرار لے کر گئے اور راستہ میں ایک نہر آئی تو انہوں نے فرمایا:
(1) ”فَمَنْ شَرِبَ مِنْہُ فَلَیْسَ مِنِّیْ وَمَنْ لَّمْ یَطْعَمْہ فَاِنَّہ مِنِّیْ۔“ (البقرہ: 250)
ترجمہ: ”جو اس نہر سے سیر ہو کر پیے گا وہ مجھ سے نہیں اور جو نہ پیے گا وہ مجھ سے ہے۔“
اب اگر معترض کے اعتراض کو مدنظر رکھا جائے تو کیا آپ کا یہ مطلب تھا کہ جس نے پانی پی لیا وہ میرا بیٹا نہیں رہے گا اور جو نہ پیے گا وہ میرا بیٹا بن جائے گا۔ (معاذاللہ) ہرگز نہیں بلکہ آپ کا مطلب صرف یہ تھا کہ جو لوگ نہر کے ابتلاء میں کامیاب اتریں گے وہ میرے دوست اور تعلق رکھنے والے ہیں دوسرے نہیں۔
(2) پھرآیت : فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّہ مِنِّیْ ۔ (ابراہیم: 37)
یعنی جو میری پیروی کرے گا وہ مجھ سے ہوگا، میں بھی یہی معنے لیے گئے ہیں نہ کہ بیٹا ہونے کے۔
(3) حدیث شریف میں بھی ہے کہ آنحضرت نے حضرت علیؓ کو فرمایا :
”اَنْتَ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْکَ“ ترجمہ:” تو مجھ سے او ر میں تجھ سے ہوں “۔ ( بخاری کتاب الصلح باب کیف یکتب ہٰذا)
کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اے علی! تو میرا بیٹا اور میں تیرا بیٹا ہوں؟ ہرگز نہیں۔
(4) پھر آپ نے اشعری قبیلے والوں کے متعلق فرمایا :
”ھُمْ مِنِّیْ وَانامِنْھُمْ “ (بخاری کتا ب المغا زی باب قدوم الاشعریین و أھل الیمن)
یعنی وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے۔
(5) ایک اور حدیث میں ہے:
”اَنَا مِنَ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ وَالْمُوٴْمِنُوْنَ مِنِّیْ فَمَنْ اٰذٰی مُوٴْمِنًا فَقَدْ اٰذَانِیْ وَمَنْ اٰذَانِیْ فَقَدْ اٰذَی اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ“ (فردوس الاخبار د یلمی صفحہ 11 باب الالف راوی حضرت عبداللہ بن جرار)
ترجمہ: آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ”میں خدائے عزوجل سے ہوں اور مومن مجھ سے ہیں۔ پس جو شخص کسی مومن کو ایذا دیتا ہے وہ مجھ کو ایذا دیتا ہے اور جو مجھ کو ایذا دیتا ہے اُس نے گویا خدا کو ایذا پہنچائی۔“
(6) فرمایا ”اَبُوْبَکْرٍ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْہُ“ (جامع الصغیر امام سیوطی جزء 1 باب الالف)
یعنی ابوبکرؓ مجھ سے اور میں ابوبکرؓ سے ہوں۔
(7) ایک حدیث ”اِنَّ الْعَبَّاسَ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْہُ“ (مسند احمد بن حنبل جزء 1مسند عبد اللہ بن عباس باب العین حدیث 2729مکتبہ دارالمعرفة بیروت لبنان)
(8) ایک اور حدیث ہے”بَنُوْنَا جِیَةٍ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْھُمْ“ (کنوزالحقائق باب الباء برحاشیہ جامع الصغیر جلد 1 صفحہ 88)
کہ بنو ناجیہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے۔
(9)حضرت سلمان فارسیؓ کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
سَلْمَانُ مِنَّا اَھْل الْبَیْتِ (مستدرک حاکم جلد نمبر 3 کتاب معرفة الصحابة باب ذکر سلمان الفارسی رضی اللہ عنہ )
لیکن یہ تو محض انسانی تعلقات کی باتیں ہیں ۔ اب سنیئے حضرت محمد ﷺ نے خدا اور بندے کے تعلق میں بعینہٖ یہی مضمون بیان فرمایا ہے ۔
(1) حدیث ” یَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ السَّخِیُّ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْہُ“
(فردوس الاخبار دیلمی صفحہ 291 سطر4 باب الیاء راوی انس بن مالک)
(2) حدیث ” اَلْعَبْدُ مِنَ اللّٰہِ وَھُوَ مِنْہُ“۔ (جامع الصغیرللسیوطی جزء ثالث باب العین حدیث5667 مکتبہ نذار مصطفی الباز مکہ مکرمہ سعودی عرب )
یعنی آنحضرت نے فرمایا کہ:
”غلام یا بندہ خدا سے ہیں اور خدا بندے سے“۔
اس الہام کا بامحاورہ ترجمہ کرنے سے مطلب سمجھ میں آجاتا ہے
درحقیقت اردو زبان میں اَنْتَ مِنِّی وَ اَنَا مِنْکَ کا ترجمہ ایک دقت پیدا کر تاہے ۔’’ تو مجھ سے اور میں تجھ سے‘‘ اس کا لفظی ترجمہ ہے جو پوری طرح عربی مضمون کو واضح نہیں کرتا ۔ اگر اس کا با محاورہ ترجمہ کیا جائے تو اعتراض خود ختم ہوجاتا ہے ۔ اس کا با محاورہ ترجمہ یہ ہے ۔
’’تو میرا ہے میں تیرا ہوں ‘‘
عربی زبان میں اگر یہ کہنا ہو کہ تو میرا ہے تو ’’اَنْتَ‘‘ کو متکلم کی ضمیر ’’ی‘‘ کی طرف مضاف کیا ہی نہیں کیا جا سکتا ۔ سوائے اس کے کہ درمیان میں ’’مِنْ ‘‘داخل کیا جائے ۔ اسی طرح’’ اَنَا‘‘ کی ضمیر متکلم کو ضمیر’’ ک ‘‘کی طرف مضاف کرنا ممکن نہیں سوائے اس کے کہ درمیان میں’’ مِنْ‘‘ داخل کیا جائے ۔ اس لحاظ سے تو میرا ہے کے لئے جس طرح ’’اَنْتِیْ ‘‘ کہنا بالکل لغو اور غلط ہے ۔ اسی طرح’’ اناک‘‘ کہنا بھی بالکل لغو اور غلط ہے ۔ پس جب یہ کہنا ہو کہ تو میرا ہے میں تیرا ہوں ۔ تو عربی محاورہ میں سوائے اَنْتَ مِنِّیْ وَ اَنَا مِنْکَ کہنے کے اور کوئی چارہ ہی نہیں۔
اعتراض بابت نزول قرآنی آیات
مرزا صاحب پر وہی قرآنی آیات نازل ہوئیں جو آنحضرتﷺ پر نازل ہوئی تھیں۔جیسے و رفعنا لک ذکرک،،…