اعتراض: مرزا صاحب نے قرآن کریم کی توہین کی ہے

معترضین اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب ازالہ اوہام میں قرآن کریم کے متعلق توہین آمیز کلمات کہے ہیں کہ ’’اگر ہریک سخت اور آزار دہ تقریر کو محض بوجہ اس کے مرارت اور تلخی اور ایذارسانی کے دشنام کے مفہوم میں داخل کر سکتے ہیں تو پھر اقرار کرنا پڑے گا کہ سارا قرآن شریف گالیوں سے پُر ہے‘‘

معترضہ حوالے سیاق و سباق کے ساتھ

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس جگہ معترضین کی اس بات کا جواب دے رہے ہیں کہ آپؑ نے اپنی تالیفات میں مخالفین کی نسبت سخت الفاظ استعمال کئے ہیں۔ جب ان معترضہ حوالہ جات کو سیاق و سباق کے ساتھ پڑھا جائے تو اعتراض ختم ہو جاتا ہے ۔ ملاحظہ ہو :۔

(نوٹ:۔ خط کشیدہ فقرات پر معترضین اعتراض کرتے ہیں)

حوالہ #1

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :۔

“میں سچ سچ کہتا ہوں کہ جہاں تک مجھے معلوم ہے میں نے ایک لفظ بھی ایسا استعمال نہیں کیا جس کو دشنام دہی کہا جائے بڑے دھوکہ کی با ت یہ ہے کہ اکثر لوگ دشنام دہی اور بیان واقعہ کو ایک ہی صورت میں سمجھ لیتے ہیں اور ان دونوں مختلف مفہوموں میں فرق کرنا نہیں جانتے بلکہ ایسی ہریک بات کو جو دراصل ایک واقعی امر کا اظہار ہو اور اپنے محل پر چسپاں ہو محض اس کی کسی قدر مرارت کی وجہ سے جو حق گوئی کے لازم حال ہوا کرتی ہے دشنام ہی تصور کر لیتے ہیں حالانکہ دشنام اور سب اور شتم فقط اس مفہوم کا نام ہے جو خلاف واقعہ اور دروغ کے طور پر محض آزار رسانی کی غرض سے استعمال کیا جائے اور اگر ہریک سخت اور آزار دہ تقریر کو محض بوجہ اس کے مرارت اور تلخی اور ایذارسانی کے دشنام کے مفہوم میں داخل کر سکتے ہیں تو پھر اقرار کرنا پڑے گا کہ سارا قرآن ؔ شریف گالیوں سے پُر ہے کیونکہ جو کچھ بتوں کی ذلت اور ُ بت پرستوں کی حقارت اور ان کے بارہ میں لعنت ملامت کے سخت الفاظ قرآن شریف میں استعمال کئے گئے ہیں یہ ہرگز ایسے نہیں ہیں جن کے سننے سے بت پرستوں کے دل خوش ہوئے ہوں بلکہ بلاشبہ ان الفاظ نے ان کے غصہ کی حالت کی بہت تحریک کی ہو گی۔ ”

(ازالہ اوہام۔ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 109)

حوالہ #  2

فرمایا:

“قرآن کریم جس آوازبلند سے سخت زبانی کے طریق کواستعمال کر رہا ہے ایک غایت درجہ کا غبی اور سخت درجہ کا نادان بھی اُس سے بے خبر نہیں رہ سکتا۔ مثلًا زمانہ حال کے مہذبین کے نزدیک کسی پر لعنت بھیجنا ایک سخت گالی ہے۔ لیکن قرآن شریف کفارؔ کو سُنا سُنا کر ان پر لعنت بھیجتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے اُولٰٓٮكَ عَلَيْهِمْ لَعْنَةُ اللّٰهِ وَالْمَلٰٓٮِٕكَةِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِيْنَۙ ۔ خٰلِدِيْنَ فِيْهَاۚ (البقرۃ:162-163)(ترجمہ :یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی لعنت ہے اور فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی ۔اس(لعنت)میں وہ ایک لمبے عرصہ تک رہنے والے ہوں گے )۔۔اُولٰٓٮِٕكَ يَلْعَنُهُمُ اللّٰهُ وَ يَلْعَنُهُمُ اللّٰعِنُوْنَۙ‏ (البقرۃ:160) (ترجمہ :۔یہی ہیں وہ جن پر اللہ لعنت کرتا ہے اور اُن پر سب لعنت کرنے والے بھی لعنت کرتے ہیں)ایسا ہی ظاہر ہے کہ کسی انسان کو حیوان کہنا بھی ایک قسم کی گالی ہے۔ لیکن قرآن شریف نہ صرف حیوان بلکہ کفار اور منکرین کو دنیا کے تمام حیوانات سے بد تر قرار دیتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰهِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْ (الانفال:56) (ترجمہ :یقیناً اللہ کے نزدیک بد ترین جاندار وہ ہیں جنہوں نے کفر کیا)ایسا ہی ظاہرہے کہ کسی خاص آدمی کانام لے کر یا ا شارہ کے طورپر اس کو نشانہ بنا کر گالی دینا زمانہ حال کی تہذیب کے برخلاف ہے لیکن خدائے تعالیٰ نے قرآن شریف میں بعض کا نام ابو لہب اوربعض کانام کلب اور خنزیر کہا اور ابو جہل تو خود مشہور ہےایسا ہی ولید (بن) مغیرہ کی نسبت نہایت درجہ کے سخت الفاظ جو بصورت ظاہر گندی گالیاں معلوم ہوتی ہیںاستعمال کئے

تلخ الفاظ کے استعمال کی حکمت

تلخ الفاظ کے استعمال کی حکمت

معترضہ حوالوں میں قرآن کریم کے ان الفاظ کے استعمال کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرماتےآپؑ ہیں :۔

“حضرت ختم المرسلین سیّد الاولین والآخرین پہلے سے دے چکے ہیں اور وہ یہ ہے کہ جب یہ آیتیں اتریں کہ مشرکین رجس ہیں پلید ہیں شرّالبریّہ ہیں سفہاء ہیں اور ذرّیت شیطان ہیں اور ان کے معبود وقود النّار اور حصب جہنم ہیں تو ابوطالب نے آنحضرؔ ت صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا کر کہا کہ اے میرے بھتیجے اب تیری دشنام دہی سے قوم سخت مشتعل ہوگئی ہے اور قریب ہے کہ تجھ کو ہلاک کریں اور ساتھ ہی مجھ کو بھی۔تو نے ان کے عقل مندوں کو سفیہ قرار دیا اور ان کے بزرگوں کو شرّالبریّہ کہا اور ان کے قابل تعظیم معبودوں کانام ہیزم جہنّم اور وقود النّار رکھااور عام طور پر ان سب کو رجس اور ذرّیت شیطان اور پلید ٹھہرایامیں تجھے خیر خواہی کی راہ سے کہتاہوں کہ اپنی زبان کو تھام اور دشنام دہی سے بازآجاورنہ میں قوم کے مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں کہاکہ اے چچایہ دشنام دہی نہیں ہے بلکہ اظہار واقعہ اور نفس الامر کا عین محل پر بیان ہے اور یہی تو کام ہے جس کے لئے میں بھیجا گیا ہوں اگر اس سے مجھے مرنا درپیش ہے تو میں بخوشی اپنے لئے اس موت کو قبول کرتا ہوں میری زندگی اسی راہ میں وقف ہے مَیں موت کے ڈر سے اظہار حق سے رک نہیں سکتا ۔۔۔۔۔۔۔اب حاصل کلام یہ ہے کہ جو کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو طالب کے اعتراض کا خود اپنی زبان مبارک سے جواب دیا در حقیقت وہی جواب ہریک معترض کے ساکت کرنے کے لئے کافی و وافی ہے کیونکہ دشنام دہی اور چیز ہے اور بیان واقعہ کا گو وہ کیسا ہی تلخ اور سخت ہو دوسری شے ہے”

(ازالہ اوہام۔ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 110تا112)

“جاننا چاہیئے کہ جن مولویوں نے ایسا خیال کیا ہے کہ گویا عام طور پر ہریک سخت کلامی سے خدائے تعالیٰ منع فرماتاہے۔یہ اُن کی اپنی سمجھ کا ہی قصور ہے ورنہ وہ تلخ الفاظ جو اظہارحق کے لئے ضروری ہیں اور اپنے ساتھ اپنا ثبوت رکھتے ہیں وہ ہریک مخالف کو صاف صاف سنا دینا نہ صرف جائز بلکہ واجبات وقت سے ہے تامداہنہ کی بلا میں مبتلانہ ہو جائیں۔خدائے تعالیٰ کے برگزیدہ بندے ایسی سخت تبلیغ کے وقت میں کسی لاعن کی لعنت اور کسی لائم کی ملامت سے ہرگز نہیں ڈرے۔”

(ازالہ اوہام۔ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 114)

ان اقتباسات سے واضح ہے کہ معترضہ فقرات سے توہین قرآن  کے لئے نہیں بلکہ معترض کے غلط اعتقاد کو واضح کرنے کے لئے اور اس کی غلطی اس پر واضح کرنے کے لئے استعمال کئے گئے ہیں۔

ہیں جیساکہ فرماتا ہے فَلَا تُطِعِ الْمُكَذِّبِيْنَ وَدُّوْا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُوْنَ وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِيْنٍۙ‏ هَمَّازٍ مَّشَّآءٍۢ بِنَمِيْمٍۙ مَّنَّاعٍ لِّلْخَيْرِ مُعْتَدٍ اَثِيْمٍۙ عُتُلٍّ ۢ بَعْدَ ذٰلِكَ زَنِيْمٍۙ‏۔۔۔۔۔ سَنَسِمُهٗ عَلَى الْخُـرْطُوْمِ ۔۱؂ دیکھوؔ سورہ القلم الجزو نمبر ۲۹ یعنی تُو ان مکذّبوں کے کہنے پر مت چل جو بدل اس بات کے آرزو مند ہیں کہ ہمارے معبودوں کو بُرامت کہو اور ہمارے مذہب کی ہجو مت کرو تو پھر ہم بھی تمہارے مذہب کی نسبت ہاں میں ہاں ملاتے رہیں گے اور ان کی چرب زبانی کا خیال مت کر ویہ شخص جو مداہنہ کا خواستگار ہے جھوٹی قسمیں کھانے والااورضعیف الرائے اور ذلیل آدمی ہے دوسروں کے عیب ڈھونڈنے والا اورسخن چینی سے لوگوں میں تفرقہ ڈالنے والا اورنیکی کی  راہوں سے روکنے والا زنا کار اور بایں ہمہ نہایت درجہ کا بدخلق اور ان سب عیبوں کے بعد ولدالزنا بھی ہے۔ عنقریب ہم اس کے اس ناک پر جو سُؤر کی طرح بہت لمبا ہوگیا ہے داغ لگادیں گے یعنی ناک سے مراد رسوم اور ننگ وناموس کی پابندی ہے جو حق کے قبول کرنے سے روکتی ہے(اے خدائے قادر مطلق ہماری قوم کے بعض لمبی ناک والوں کی ناک پر بھی اُسترہ رکھ) اب کیوں حضرت مولوی صاحب کیا آپ کے نزدیک ان جامع لفظوں سے کوئی گالی باہر رہ گئی ہے۔ اور اس جگہ ایک نہایت عمدہؔ لطیفہ یہ ہے کہولید (بن) مغیر ہ نے نرمی اختیار کر کے چاہا کہ ہم سے نرمی کابرتاؤ کیاجائے۔ اس کے جواب میں اس کے تمام پردے کھولے گئے۔یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مومنین سے مداہنہ کی امید مت رکھو۔ منہ”

(ازالہ اوہام۔ روحانی خزائن جلد 3صفحہ115تا117حاشیہ)

 

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

حضرت بانی جماعت احمدیہ کی دعوت مقابلہ تفسیر نویسی اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کی اصل واقعاتی حقیقت

قارئین کرام!آجکل سوشل میڈیا پر احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیزمنفی مہم میں الزام تراشیوں کا ا…