حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے شعر’’ کر بلائیست سیر ہر آنم * صد حسین است در گریبانم‘‘ پراعتراض کیا جاتا ہے کہ آپؑ نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی توہین کی ہے ۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے شعر’’ کر بلائیست سیر ہر آنم * صد حسین است در گریبانم‘‘ پراعتراض کیا جاتا ہے کہ آپؑ نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی توہین کی ہے ۔

اعتراض سیاق و سباق پڑھے اور سمجھے بغیر کیا گیا ہے

اس شعر پر حضرت امام حسین ؓ کی توہین کا الزام لگانا ایسی ہی بدیانتی ہے جیسے کوئی سورۃ النساء کی آیت نمبر44کا یہ پہلا حصہ ۔ لَا تَقرَبُوا الصَّلٰوۃ (تم نماز کے قریب نہ جاؤ)(النساء:44)تو پڑھ دے کہ نماز کے قریب نہ جاؤ اور اگلے حصہ وَاَنْتُمْ سُکَارٰی (جب تم پر مدہوشی کی کیفیت ہو) (النساء:44)کے ذکر کو چھوڑ دے۔پس اس شعر سے پہلے اور بعد کے اشعار پڑھنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ یہاں قطعًا حضرت امام حسین ؓ کی توہین نہیں کی جا رہی بلکہ عشق الٰہی کی کیفیات بیان کی جا رہی ہیں۔

مذکورہ شعر سے قبل کا مضمون عشقِ الٰہی کی کیفیات پر مشتمل ہے

یہ شعر جو یہاں اعتراض کے طور پر پیش کیا گیاہے اس سے پہلے اشعار کا مضمون عشقِ الٰہی کی کیفیات پر مشتمل ہے اور حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے بتایا ہے کہ آپ بھی ان کشتگانِ حبِّ خدا میں شامل ہیں اور اس زمانہ میں اس کار زارِ عشق کے قتیل ؑ ہیں۔ چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں:۔

بالخصوص آں سخن کہ از دلدار ۔۔۔خاصیت دارد اندریں اسرار

دلدار کی وہ باتیں جو اسرار کے طور پر عشق پیدا کرنے والی خاصیت اپنے اندر رکھتی ہیں

کشتہ او نہ یک نہ دو نہ ہزار ۔۔۔ایں قتیلان او بروں ز شمار

اس دلدار کے فدائی صرف ایک دو یا ہزار انسان ہی نہیں ہیں بلکہ اس کے کشتے بے شمار ہیں۔

ہر زمانے قتیل تازہ بخواست۔۔۔غازہ روئے او دم شہداست

ہر وقت وہ ایک نیا قتیل چاہتا ہے اس کے چہرہ کا غازہ شہیدوں کا خون ہوتا ہے

ایں سعادت چو بود قسمت ما ۔۔۔رفتہ رفتہ رسید نوبت ما

یہ سعادت چونکہ ہماری قسمت میں تھی رفتہ رفتہ ہماری نوبت بھی آپہنچی۔

ان سے اگلا شعر یہ ہے

کربلائے ست سیر ہر آنم ۔۔۔ صد حسینؓ است در گریبانم

میں ہر وقت گویاکربلا میں پھرتا ہوں اور سینکڑوں حسینؓ میرے دل میں پنہاں ہیں۔

 (نزول المسیح ۔ روحانی خزائن جلد 18صفحہ 476)

’’صد حسین است در گریبانم ‘‘کی تشریح

آخری شعر میں آپ ؑ نے میدانِ کربلا کے کرب وبلا اور اس میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ثبات قدم اور قربانیوں کی کیفیات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اس زمانہ میں ان کیفیات میں سے آپ گذر رہے ہیں۔ پس یہاں نہ اس میدانِ کربلا کا ذکر ہے نہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا۔ بلکہ یہ دونوں نام مستعار لے کر بطور استعارہ استعمال کئے ہیں ۔ اور شعر وادب میں استعارہ کو ظاہر پر محمول کرنا جائز نہیں ہے۔

اسی طرح شعر کا قرینہ بتاتا ہے کہ اس میں لفظ ’’ گریبان ‘‘ کا استعارہ دل کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ گریبان سے مراد قمیص وکرتہ کا گلا نہیں بلکہ عشقِ خدا سے معمور وہ دل ہے جس میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ جیسے کشتگانِ حبِّ خدا کی محبت سینکڑوں دفعہ نہیں، ہزار ، لاکھ بار بسی ہوئی ہے۔

شعر و ادب کا یہ خاصّہ اور حسن ہے کہ چاہے کسی زبان کے ہوں ان میں مجاز اور استعارے استعمال ہوتے ہیں ۔

علّامہ ملّا نوعی کا ایک ہم معنی شعر

حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے ان اشعار میں رہ عشق خدا میں اپنی مشکلات وتکالیف کے بیان کے لئے کربلا اور حسینؓ اور گریبان کے استعارے اسی طرح استعمال فرمائے ہیں جس طرح علاّمہ ملا ّ نوعیؒ نے اپنے اس شعر میں استعمال فرمائے کہ

کربلائے عشقم ولب تشنہ سرتا پائے من ۔۔۔صد حسینؓ  کشتہ در ہر گوشہ صحرائے من

                                                                                                       (دیوان علاّمہ نوعی)

کہ میں عشق کا کربلا ہوں اور سراپا تشنہ محبت ہوں اور میرے دل کے ہر گوشے میں سینکڑوں حسینؓ قتل ہوتے ہیں۔

اس شعر میں بھی کربلا اور حسینؓ کے استعاروں سے مراد میدانِ کربلاکے کرب وبلا اور حسینؓ سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی استقامت اور قربانیوں کی کیفیات ہی کا اظہارمقصود ہے نہ کہ حضرت حسینؓ پر فضیلت کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ اور دل کے لئے صحرا کا استعارہ استعمال کیا گیا ہے۔ ان استعاروں کو ظاہر پر محمول کر کے ان کو ناجائز قرار دینے والا یا ان کی وجہ سے صاحبِ شعر کو ہدفِ اعتراض بنانے والا کوئی جاہل ہی ہو سکتا ہے۔ کہ جس کو شعر وادب کا ادراک ہی نہیں یا پھر ایسا کور باطن ہو سکتا ہے جو دن کو بھی رات ہی سمجھتا ہے۔

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کی شان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔

’’ حسین رضی اللہ عنہ طاہر ومطہّر تھا اور بلاشبہ ان برگزیدوں میں سے ہے جن کو خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف کرتا ہے اور اپنی محبت سے معمور کرتا ہے ۔ اور بلاشبہ وہ سرداران بہشت میں سے ہے اور ایک ذرّہ کینہ رکھنا اس سے ، موجبِ سلبِ ایمان ہے اور اس امام کا تقویٰ اور محبت اور صبر اور استقامت اور زہد اور عبادت ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے اور ہم اس معصوم کی ہدایت کی اقتداء کرنے والے ہیں جو اس کو ملی تھی۔ تباہ ہوگیا وہ دل جو اس شخص کا دشمن ہے اور کامیاب ہو گیا وہ دل جو عملی رنگ میں اس کی محبت ظاہر کرتاہے اور اس کے ایمان اور اخلاق اور شجاعت اور تقویٰ اور استقامت اور محبتِ الٰہی کے تمام نقوش انعکاسی طور پر کامل پیروی کے ساتھ اپنے اندر لیتا ہے جیسا کہ ایک صاف آئینہ ایک خوبصورت انسان کا نقش ۔ یہ لوگ دنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ ہیں، کون جانتا ہے ان کی قدر مگر وہی جو انہی میں سے ہے ۔ دنیا کی آنکھ ان کو شناخت نہیں کر سکتی کیونکہ وہ دنیا سے بہت دور ہیں۔ یہی وجہ حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی تھی کیونکہ وہ شناخت نہیں کیا گیا ۔ دنیا نے کس پاک اور برگزیدہ سے اس کے زمانہ میں محبت کی تا حسین رضی اللہ عنہ سے بھی محبت کی جاتی۔ ‘‘

     (فتاویٰ احمدیہ ۔ حصہ دوم صفحہ 42)

پھر فرمایا :۔

’’ حضرت امام حسین اور امام حسن رضی اللہ عنہما خدا کے برگزیدہ اور صاحبِ کمال اور صاحبِ عفت اور عصمت اور ائمّۃ الہدٰی تھے اور وہ بلاشبہ دونوں معنوں کے رو سے آنحضرت ﷺ کے آل تھے۔ ‘‘

(تریاق القلوب ۔ روحانی خزائن جلد 15صفحہ 365,364 حاشیہ(

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

حضرت بانی جماعت احمدیہ کی دعوت مقابلہ تفسیر نویسی اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کی اصل واقعاتی حقیقت

قارئین کرام!آجکل سوشل میڈیا پر احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیزمنفی مہم میں الزام تراشیوں کا ا…