اعتراض: مرزا صاحب نے صحابہ کی توہین کی ہے

حضرت مسیح موعودؑ کی درج ذیل عبارت پر یہ اعتراض کیا جا تا ہے کہ نعو ذباللہ آپ نے صحابہ کی ہتک کی ہے:۔’’بعض نادان صحابی جن کو درایت سے کچھ حصہ نہ تھا‘‘

جواب

معترض نے عبارت کا وہ حصہ پیش کیا ہے جس سے ایک قاری کو دھوکا دیا جاسکے اور عوام الناس کو مغالطہ میں ڈالا جاسکے ۔

ہم اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے قارئین کے لیے اس عبارت کو اس کے سیاق وسباق کے ساتھ پیش کرتے ہیں ۔

چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:۔

’’اسلام میں سب سے پہلا اجماع یہی تھا کہ تمام نبی فوت ہو گئے ہیں کیونکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو بعض صحابہ کا یہ بھی خیال تھا کہ آپ فوت نہیں ہوئے اور پھر دنیا میں واپس آئیں گے اور منافقوں کی ناک اور کان کاٹیں گے۔ تو اُس وقت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سب کو مسجد نبوی میں جمع کیا اور یہ آیت پڑھی وَمَا مُحَمَّدٌ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِہِ الرُّسُل (آل عمران:145)  یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ایک نبی ہیں اور تمام انبیاء گذشتہ پہلے ان سے فوت ہو چکے ہیں۔ تب صحابہ جو سب کے سب موجود تھے رضی اللہ عنہم سمجھ گئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بے شک فوت ہو گئے اور انہوں نے یقین کر لیا کہ کوئی نبی بھی زندہ نہیں۔ اور کسی نے اعتراض نہ کیا کہ حضرت عیسیٰ اس آیت کے مفہوم سے باہر ہیں اور وہ اب تک زندہ ہیں۔ اور کیا ممکن تھا کہ عاشقانِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات پر راضی ہو سکتے کہ ان کا نبی تو چھوٹی سی عمر میں فوت ہو گیا اور عیسیٰ چھ سو۶۰۰ برسوں سے زندہ چلا آتا ہے اور قیامت تک زندہ رہے گا بلکہ وہ تو اس خیال سے زندہ ہی مر جاتے پس اسی وجہ سے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ان سب کے سامنے یہ آیت پڑھ کر ان کو تسلّی دی وَمَا مُحَمَّدٌ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِہِ الرُّسُل (آل عمران:145) اور اس آیت نے ایسااثر صحابہ کے دل پر کیا کہ وہ مدینہ کے بازاروں میں یہ آیت پڑھتے پھرتے تھے گویا اُسی دن وہ نازل ہوئی تھی۔ اور اسلام میں یہ اجماع تمام اجماعوں سے پہلا تھا کہ تمام نبی فوت ہو چکے ہیں۔ مگر اے مولوی صاحب !! آپ کو صحابہ کے اس اجماع سے کیا غرض۔ آپ کا مذہب تو تعصّب ہے نہ کہ اسلام۔ مذہب اسلام ایسے باطل عقیدوں سے دن بدن تباہ ہوتا جا تا ہے مگر آپ لوگ خوش ہیں         ؎

                          رونقِ دیں عقائدت بُردہ           دشمناں شاد و یار آزردہ

معلوم ہوتا ہے کہ اس اجماع سے پہلے جو تمام انبیاء علیہم السلام کی وفات پر ہوا بعض نادان صحابی جن کو درایت سے کچھ حصہ نہ تھا وہ ابھی اس عقیدہ سے بے خبر تھے کہ کل انبیاء فوت ہو چکے ہیں اور اسی وجہ سے صدیق رضی اللہ عنہ کو اس آیت کے سُنانے کی ضرورت پڑی اور اس آیت کے سُننے کے بعد سب نے یقین کر لیا کہ تمام گذشتہ لوگ داخلِ قبور ہو چکے ہیں اِسی وجہ سے حسّان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے یہ چند شعر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مرثیہ میں بنائے جس میں اُس نے اسی طرف اشارہ کیا ہے اور وہ یہ ہیں   ؎

کنت السّواد لناظری        فعمی علیک الناظر

من شاء بعدک فلیمت      فعلیک کنت احاذر

(ترجمہ) تو میری آنکھوں کی پتلی تھا پس مَیں تو تیرے مرنے سے اندھا ہو گیا۔ اب بعد تیرے جو شخص چاہے مرے (عیسیٰ ہو یا موسیٰ ہو) مجھے تو تیرے ہی مرنے کا خوف تھا۔ جزاہ اللّٰہ خیرالجزاء محبت اِسی کا نام ہے۔  ‘‘

 (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ،روحانی خزائن جلد 21ص284،285)

اس اقتباس کے پڑھنے سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس جگہ وفات عیسی ؑ کو بیان فرمارہے ہیں او ر دلیل اس امر کی یہ دی کہ آنحضرت ﷺ کی وفات کے وقت صحابہؓ کا اس بات پر اجماع قرار پاگیا تھا کہ تمام گزشتہ انبیاء وفات پاچکے ہیں۔دراصل آنحضرتﷺ کی وفات کے بارہ میں صحابہؓ گمان بھی نہ کرسکتے تھے اور اس کی وجہ صحابہؓ کی آنحضرت ﷺ سے بے نظیر محبت تھی جس نے ان کے دلوں میں گھر کر لیا تھا۔چنانچہ اسی طرح ہوا جو کہ مذکورہ بالا اقتباس سے ظاہر ہے۔ اسی طرح بعض صحابہ ؓ جن کو یہ بات سمجھنا مشکل تھا کہ آنحضرتﷺ وفات پا گئے ہیں ،ان کے لیے حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے قرآن کریم کی سورہ آل عمران کی آیت 145 پڑھی اور تمام انبیاء کی وفات کے بارہ میں استدلال فرمایاجسے سن کر صحابہ ؓ کواس امر پر یقین پید اہو گیا کہ آنحضرت ﷺ بھی او رتمام انبیاء سابقین بھی فوت ہو چکے ہیں ۔

قارئین کرام ! حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو یہ آیت پڑھنے کی ضرورت اسی لیے پیش آئی تھی کہ آپ ؓ دوسرے کم علم صحابہؓ کو بھی یہ بات سمجھا سکیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ تمام لوگ علم وعرفان میں یکساں نہیں ہوتے ۔اسی طرح صحابہ ؓ بھی علم ومعرفت میں ایک دوسرے کی نسبت مختلف درجات میں منقسم تھے۔

آپ خود ہی عقل سے کام لیتے ہوئے بتائیے کہ کیا صحابہؓ بااعتبار عقل وفہم وذکاوت یکساں تھے؟کیا وجہ تھی کہ فتح مکہ کے موقع پر جب آنحضرتﷺ نے سورۃ النصر تلاوت فرمائی تو حضرت ابو بکر صدیقؓ روپڑے ۔اور صحابہ ؓ نے خیال کیا کہ آپؓ اللہ کی نصرت اور فتح کے آنے پر اور لوگوں کے اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہونے پر روتے ہیں ۔آپ بھی جانتے ہوں گے کہ اصل وجہ کیاتھی جو صحابہ کو آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد خیال گزری ۔اور وہ وجہ یہی تھی کہ اس سورہ میں آنحضرتﷺ کی وفات کی خبر تھی جس کو آپؓ نے تو جان لیا لیکن دوسرے موجودصحابہ ؓنہ جان پائے۔

اس بات کو سمجھیے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے صحابہؓ کی شان اعلی میں کوئی نازیبا بات نہیں فرمائی۔بلکہ ایک حقیقت امر سے روشناس کرایا ہے۔اور یہ بھی خیال کیجیے کہ لفظ ’’نادان‘‘اپنے اندر کوئی سختی کے اور ہتک شان کے معنے نہیں رکھتا بلکہ اس کے معنے ناواقف ،انجان اور لاعلم ہونے کے ہیں اور روزمرہ کے محاورہ میں بھی یہ الفاظ ،فقرات استعمال ہوتے ہیں ۔اسی طرح یہ بھی ملحوظ خاطر رہے کہ آپؑ نے ’’بعض ‘‘کا لفظ استعمال فرمایاہے۔ آپ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ تمام صحابہ ایک ہی وقت میں ایمان نہیں لے آئے تھے اور نہ ہی ایک دوسرے جتناوقت آنحضرت ﷺ کی پاک صحبت میں گزارا۔

پس یہ حقیقت حال ہے جوکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائی ۔اسی طرح یہ امر بھی مدنظر رہے کہ صحابہ کرامؓ کی اس قدر شان وعظمت بیان کرنے والے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کبھی بھی ان کے عالی مقام ومرتبہ کے بارہ میں کوئی کلمہ ہتک اپنی زبان پر نہ لاسکتے تھے ۔

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

حضرت بانی جماعت احمدیہ کی دعوت مقابلہ تفسیر نویسی اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کی اصل واقعاتی حقیقت

قارئین کرام!آجکل سوشل میڈیا پر احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیزمنفی مہم میں الزام تراشیوں کا ا…