حضرت کرشنؑ سے متعلّق ایک حدیث پر اعتراض
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک تحریر جس میں آپؑ کرشن ؑ کے بارے میں ایک حدیث بیان فرما رہے ہیں ، کے متعلق اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ آنحضرتﷺ پر افترا ہے۔اوریہ کہ اس کا وجود روایات ضعیفہ میں بھی ثابت نہیں۔
حدیث کا حوالہ
جس حدیث کا معترضہ عبارت میں ذکر فرمایا ہے اس کا ذکر تاریخ ہمدان دیلمی باب الکاف میں آیا ہے ۔ملاحظہ ہو :
’’کَانَ فِی الْھِنْدِ نَبِیًّا اَسْوَدَ اللَّوْنِ اِسْمُہُ کَاھِناً‘‘
یعنی ہند میں ایک سیاہ رنگ کا نبی ہوا تھا جس کا نام کاہن تھا۔
(تاریخ ہمدان دیلمی باب الکاف )
حدیث کے متعلق اصول
خدا تعالیٰ قران کریم میں فرماتا ہے:
’’وَ اِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيْرٌ‘‘
(فاطر:25)
ترجمہ:اور کوئی امّت نہیں مگر ضرور اس میں کوئی ڈرانے والا گزرا ہے۔
پھر خدا تعالیٰ نے فرمایا:
’’وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا‘‘
(النّحل:37)
ترجمہ:اور یقینا ہم نے ہر امّت میں ایک رسول بھیجا۔
پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے:
’’وَّ لِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ‘‘
(الرّعد:8)
ترجمہ:اور ہر قوم کیلئے ایک رہنما ہوتا ہے۔
مندرجہ بالا آیات سے یہ بات تو واضح ہو جاتی ہےکہ تمام دنیا میں اللہ تعالیٰ نے انبیاء بھیجے پس ضرور ہے کہ ہند میں بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی نبی مبعوث ہوا ہو۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :۔
“ہماری جماعت کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ اگر کوئی حدیث معارض اور مخالف قرآن اور سُنّت نہ ہو تو خواہ کیسے ہی ادنیٰ درجہ کی حدیث ہو اُس پر وہ عمل کریں اور انسان کی بنائی ہوئی فقہ پر اُس کو ترجیح دیں۔”
(ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی۔ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 212)
معترضہ عبارت کا سیاق و سباق
حضرت مسیح موعود ؑ کی مندرجہ ذیل عبارت پر اعتراض ہوتا ہے :۔
’’ایک مرتبہ آنحضرتؐ سے دوسرے انبیاء کی نسبت سوال کیا گیا تو آپؐ نے یہی فرمایا کہ ہر ایک ملک میں خدا تعالیٰ کے نبی گزرے ہیں اور فرمایا کہ کَانَ فِی الْھِنْدِ نَبِیًّا اَسْوَدَ اللَّوْنِ اِسْمُہُ کَاھِنًایعنی ہند میں ایک نبی گزرا ہے جو سیاہ رنگ کا تھا اور نام اس کا کاہن تھا یعنی کنھیا جس کو کرشن کہتے ہیں۔۔۔‘‘
(چشمہ معرفت۔روحانی خزائن جلد23صفحہ382)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام “معترضہ عبارت”کے بعد فرماتے ہیں:
“اور خدا نے قرآن شریف میں یہ بھی فرمایا ہے مِنْھُمْ مَّنْ قَصَصْنَا عَلَیْکَ وَمِنْھُمْ مَّنْ لَّمْ نَقْصُصْ عَلَیْکَ (المومن:79)یعنی جس قدر دنیا میں نبی گذرے ہیں بعض کا ان میں سے ہم نے قرآن شریف میں ذکر کیا ہے اور بعض کا ذکر نہیں کیا ۔ اس قول سے مطلب یہ ہے کہ تا مسلمان حسن ظن سے کام لیں اور دنیا کے ہر ایک حصہ کے نبی کو جو گذر چکے ہیں عزت اور تعظیم سے دیکھیں اور بار بار قرآن شریف میں بھی ذکر کیا گیا ہے اس سے مقصود مسلمانوں کو یہ سبق دینا ہے کہ وہ دنیا کے کسی حصہ کے ایسے نبی کی کسر شان نہ کریں جو ایک کثیر قوم نے اُس کو قبول کر لیا تھا ۔ “
(چشمہ معرفت۔ روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 382)
صد افسوس کہ وہ مضمون جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتاب میں بیان فرما رہے ہیں اس پر تو غور نہیں کیا گیا اور ایک ضمنی بات پر بلاوجہ اور جھوٹا اعتراض کر دیا گیا ہے ۔ حضورؑ معترضہ عبارت سے قبل یہ فرمار ہےہیں کہ مسلمان تمام دوسرے مذاہب کے بزرگوں اور انبیاء کی تعظیم و احترم کرتے ہیں اور ان کے لئے یہ واجب ہے کیونکہ قرآن کریم یہ تعلیم دیتا ہے ۔ اسی ضمن میں آپؑ نے رامچندرؑ اور کرشن ؑ کا ذکر فرمایا ہے کہ وہ بھی اللہ کے بھیجے ہوئےتھے ۔
حقیقت یہ ہے کہ جو حدیث قرآن کریم سے ثابت ہو رہی ہو اور خدا تعالیٰ اپنے برگزیدہ کو اس کی سچائی کی خبر دے دےتو اگر اس کا حوالہ بظاہر طبع شدہ حوالوں میں نہ بھی ملے تو اسے قبول کیا جاتا ہے۔
حضرت بانی جماعت احمدیہ کی دعوت مقابلہ تفسیر نویسی اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کی اصل واقعاتی حقیقت
قارئین کرام!آجکل سوشل میڈیا پر احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیزمنفی مہم میں الزام تراشیوں کا ا…