حضرت مسیح موعود ؑ پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ آپؑ نے پہلےہندؤں اور عیسائیوں کے بزرگوں کو گالیا ں دیں ۔اس لئے انہوں نے آنحضرت ﷺ کی شان میں گستاخانہ الفاظ کہے۔
جواب از حضرت مسیح موعود ؑ
حضرت مسیح موعود ؑ اس بات کا جواب دیتے ہوئے کہ سخت الفاظ کیوں استعمال فرمائے ، فرماتے ہیں:
’’یہ سچ ہے کہ ہم نے براھین میں ویدوں کا کچھ ذکر کیا مگر اس وقت ذکر کیا کہ جب دیانند ہمارے نبیﷺکو اپنی ستیارتھ پرکاش میں صدہا گالیاں دے چکا اور اسلام کی سخت توہین کرچکا اور ہندو بچے ہریک گلی کوچہ میں اسلام کے منہ پر تھوکنے لگے پس کیا اس وقت واجب نہ تھا کہ ہم بھی کچھ ویدوں کی حقیقت کھولیں‘‘
تفصیلی اقتباس ملاحظہ ہو۔آپؑ فرماتے ہیں :۔
’’یہ بات ہریک کو معلوم ہے کہ ہم برسوں تک آریوں کے مقابل پر بالکل خاموش رہے قریباً چوداں برس کا عرصہ ہوگیا کہ جب ہم نے پنڈت دیانند اور اندرمن اور کنہیا لال کی سخت بدزبانی کو دیکھ کر اور انکی گندی کتابوں کو پڑھ کر کچھ ذکر ہندوؤں کے وید کا براہین احمدیہ میں کیا تھا مگر ہم نے اس کتاب میں بجز واقعی امرکے جو ویدوں کی تعلیم سے معلوم ہوتاتھا ایک ذرا زیادتی نہ کی لیکن دیانند نے اپنی ستیارتھ پرکاش میں اور اندرمن نے اپنی کتابوں میں اور کنہیا لال نے اپنی تالیفات میں جس قدر بدزبانی اور اسلام کی توہین کی ہے اس کا اندازہ ان لوگوں کو خوب معلوم ہے جنہوں نے یہ کتابیں پڑھی ہوں گی خاص کر دیانند نے ستیارتھ پرکاش میں وہ گالیاں دیں اور سخت زبانی کی جن کا مرتکب صرف ایسا آدمی ہوسکتا ہے جس کو نہ خداتعالیٰ کا خوف ہو نہ عقل ہو نہ شرم ہو نہ فکر ہو نہ سوچ ہو غرض ہم نے اس سفلہ مخالفوں کے افتراؤں کے بعد صرف چند ورق براہین میں آریوں کے خیالات کے بارہ میں لکھے اور بعدازاں ہم باوجودیکہ لیکھرام وغیرہ نے اپنی ناپاک طبیعت سے بہت سا گند ظاہر کیا اور بہت سی توہین مذہب کی بالکل خاموش رہے ہاں سرمہ چشم آریہ اور شحنہء حق جن کی تالیف پر نوبرس گذر گئے آریوں کی ہی تحریک اور سوالات کے جواب میں لکھے گئے چنانچہ سرمہ چشم آریہ کا اصل موجب منشی مرلیدھر آریہ تھے جنہوں نے بمقام ہوشیارپور کمال اصرار سے مباحثہ کی درخواست کی اور سرمہ چشم آریہ درحقیقت اس سوال جواب کا مجموعہ ہے جو مابین اس عاجز اور منشی مرلیدھر کے مارچ ۱۸۸۶ء میں ہوا۔ پھر ان کتابوں کی تالیف کے بعد آج تک ہم خاموش رہے اور چوداں۱۴ برس سے آج تک یا اگر ہوشیارپور کے مباحثہ سے حساب کرو تو نو۹ برس سے آج تک ہم بالکل چپ رہے اور اس عرصہ میں طرح طرح کے گندے رسالے آریوں کی طرف سے نکلے اور گالیوں سے بھری ہوئی کتابیں اور اخباریں انہوں نے شائع کیں مگر ہم نے بجز اعراض اور خاموشی کے اور کچھ بھی کارروائی نہیں کی پھر جب آریوں کا غلو حد سے زیادہ بڑھ گیا اور انکی بے ادبیاں انتہا تک پہنچ گئیں تو اب یہ رسالہ آریہ دھرم لکھا گیا ہمارے بعض اندھے مولوی جو ہریک بات میں ہم پر یہ الزام لگاتے ہیں اور آریوں اور عیسائیوں کو بالکل معذور سمجھ کر ہریک سخت زبانی ہماری طرف منسوب کرتے ہیں انکو کیا کہیں اور انکی نسبت کیا لکھیں وہ تو بخل اور حسد کی زہر سے مرگئے اور ہمارے بغض سے اللہ اور رسولﷺکے بھی دشمن ہوگئے۔ اے سیہ دل لوگو! تمہیں صریح جھوٹ بولنا اور دن کو رات کہنا کس نے سکھایا گو یہ سچ ہے کہ ہم نے براھین میں ویدوں کا کچھ ذکر کیا مگر اس وقت ذکر کیا کہ جب دیانند ہمارے نبیﷺکو اپنی ستیارتھ پرکاش میں صدہا گالیاں دے چکا اور اسلام کی سخت توہین کرچکا اور ہندو بچے ہریک گلی کوچہ میں اسلام کے منہ پر تھوکنے لگے پس کیا اس وقت واجب نہ تھا کہ ہم بھی کچھ ویدوں کی حقیقت کھولیں اور آیتہ کریمہ وَالَّذِیْنَ اِذَا اَصَابَہُمُ الْبَغْیُ ھُمْ یَنْتَصِرُوْنَ (الشوریٰ :40) (ترجمہ :۔اور وہ جن پر جب زىادتى ہوتى ہے تو وہ بدلہ لىتے ہىں ۔ناقل)پر عمل کر کے اپنے مولیٰ کو راضی کریں اور پھر اس وقت سے آج تک ہم خاموش رہے لیکن آریوں کی طرف سے اس قدر گندی کتابیں اور گندی اخباریں توہین اسلام کے بارے میں اس وقت تک شائع ہوئیں کہ اگر ان کو جمع کریں تو ایک انبار لگتا ہے یہ کیسا خبث باطن ہے کہ مسلمان کہلا کر پھر ظلم کے طور پر ان لوگوں کو ہی حق بجانب سمجھتے ہیں جو سالہا سال سے ناحق شرارت اور افتراء کے طور پر اسلام کی توہین کر رہے ہیں۔ اے مولویت کے نام کو داغ لگانے والا!!! ذرا سوچو کہ قرآن میں کیا حکم ہے کیا یہ رواہ ہے کہ ہم اسلام کی توہین کو چپکے سنے جائیں۔ کیا یہ ایمان ہے کہ رسول اللہﷺ کو گالیاں نکالی جائیں اور ہم خاموش رہیں ہم نے برسوں تک خاموش رہ کر یہی دیکھا ہم دکھ دئیے گئے اور صبر کرتے رہے مگر پھر بھی ہمارے بد گمان دشمن باز نہ آئے اگر تمہیں شک ہے اگر تمہارا یہ خیال ہے کہ ہم نے ہی عیسائیوں اور آریوں کو توہین مذہب کے لئے برانگیختہ کیا ہے ورنہ یہ بیچارے نہایت سلیم الزاج اور اسلام کی نسبت خاموش تھے بے ادبی اور توہین نہیں کرتے تھے اور نہ گالیاں نکالتے تھے تو آؤ ایک جلسہ کرو پھر اگر یہ ثابت ہو کہ زیادتی ہماری طرف سے ہے اور ابتداء سے ہم ہی محرک ہوئے اور ہم نے ہی ان لوگوں کے بزرگوں کو ابتداًء گالیاں دیں تو ہم ہر ایک سزا کے سزاوار ہیں لیکن اگر اسلام کے دشمنوں کا ہی ظلم ثابت ہو تو ایسے خبیث طبع مولویوں کو کسی قدر سزا دینا ضروری ہے جو ہماری عداوت کیلئے اسلام کو درندوں کے آگے پھینکتے ہیں ہریک امر کی حقیقت تحقیقات کے بعد کھلتی ہے اگر سچے ہیں تو ایک جلسہ کریں پھر اگر ہم کاذب نکلیں تو بیشک ہندوؤں اور عیسائیوں کی تائید میں ہماری کتابیں جلا دیں اور ہرگز ایسا جلسہ نہیں کریں گے۔ کیونکہ ان لعنتی لوگوں کے اب دل مجذوم ہوگئے ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ محض افتراء کے طور پر بخل کے تقاضا سے ان کے منہ سے یہ باتیں نکل رہی ہیں لیکن باوا نانک صاحب کے بارے میں جو ہم نے رسالہ ست بچن لکھا ہے اس میں ہم نے باوا صاحب کی نسبت کوئی توہین کا لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ ہمارا یہ رسالہ ان کی تعریف اور توصیف سے بھرا ہوا ہے اور ہم ایسے نیک منش اور قابل تعریف انسان کی مذمت کرنا سراسر خبث اور ناپاکی کا طریق جانتے ہیں اور ہماری رائے ان کی نسبت یہی ہے کہ وہ سچے دل سے خدا تعالیٰ کی راہ میں فدا تھے اور ان لوگوں میں سے تھے جن پر خدا تعالیٰ کی برکات نازل ہوتی ہیں۔ ‘‘
(آریہ دھرم روحانی خزائن جلد 10ص107-108)
پا دریوں کی ہتک کے اعتراض کا جواب دیتے ہو ئے فرما یا:۔
’’مجھے اس جگہ بعض نادان مسلمانوں کی نکتہ چینی کا بھی اندیشہ ہے۔ شاید وہ یہ اعتراض کریں کہ کیا ضرور تھا کہ یہ ناپاک کلمات اس کتاب میں لکھے جاتے جن میں اس قدر شرارت سے آنحضرتﷺکی بے ادبی ہے؟سو اس کا جواب میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ اس نوٹس کی وجہ سے جو مثل مقدمہ میں شامل ہے ہمارے پر فرض ہوگیا تھا کہ ہم اپنی گورنمنٹ عالیہ پر اصل حقیقت ظاہر کریں کہ سختی ہماری طرف سے ہے یا پادریوں کی طرف سے۔ اور اگر ہم اس دھوکہ دہی کا تدارک نہ کرتے تو حکام کو کیونکر معلوم ہوتا کہ پادری صاحبوں کا یہ سراسر جھوٹ ہے کہ ہماری طرف سے زیادتی اور سختی ہے۔ اور پادری صاحبوں نے نہ محض میرے لئے بلکہ تمام مسلمانوں کے لئے یہ ایک بند اور روک بنائی تھی تا آئندہ کوئی شخص ان کا مقابلہ نہ کرے۔ اور اس بات سے ڈر جایا کریں کہ ان کے الفاظ سخت متصور ہو کر قانون کے نیچے لائے جائیں گے۔ گویا اس طور سے پادری صاحبوں کی مراد پوری ہوگی کہ وہ جس طور سے چاہیں گالیاں دیں۔ مگر دوسرا شخص نرمی کے ساتھ بھی ان کے مقابل پر سر نہ اٹھاوے۔ پس نہایت ضروری تھا کہ اپنی گورنمنٹ عالیہ کو حقیقت حال سے اطلاع دی جائے۔ ہم یقیناً جانتے ہیں کہ ہماری یہ گورنمنٹ مذہبی امور میں ہرگز پادریوں کی رعایت نہیں کرے گی اور اس بات پر اطلاع پاکر کہ مباحثات میں ہمیشہ زیادتی پادریوں کی طرف سے ہوتی رہی ہے۔ ایسے نوٹس کو جو دھوکہ کھانے کی وجہ سے لکھا گیا ہے محض فضول اور منسوخ کی طرح سمجھے گی۔‘‘
(کتاب البر یہ روحانی خزائن جلد13ص155تا156)
پھر پادری فتح مسیح کے نا م ایک خط میں فرماتے ہیں :۔
’’ گالیاں دینا اور توہین کرنا اور افتراء کرنا وہ سب اس زمانہ کے پادری صاحبوں کے حصہ میں آ گیا ہے۔ کون سی گالی ہے جو آپ لوگوں نے ہمارے سیّدو مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دی۔ کونسی توہین ہے جو اس جناب کی آپ لوگوں نے نہیں کی۔ نہ ایک نہ دو بلکہ ہزاروں کتابیں آپ لوگوں کے ہاتھ سے ایسی نکلی ہیں جو گالیوں سے بھری ہوئی ہیں۔ اگر وہی الفاظ آپ صاحبوں کے باپ یا ماں یا یسوع کی نسبت استعمال کئے جائیں تو کیا آپ برداشت کر سکتے ہیں؟ ہمارے دلوں کو آپ لوگوں نے ایسا دکھایا جس کی نظیر دنیا میں نہیں پائی جاتی۔ یہ مردہ پرستی کی شامت ہے کہ آپ لوگوں کے دلوں سے راستبازی کا نور بالکل جاتا رہا۔ ہر ایک سوال شرارت کے ساتھ ملا کر بیان کیا جاتا ہے ہر ایک اعتراض میں افتراء کی ملونی سے رنگ دیا جاتا ہے۔ ہر ایک بات ٹھٹھے اور ہنسی سے مخلوط ہوتی ہے کیا یہ نیک انسانوں کا کام ہے۔ پھر جس حالت میں آپ اُس عالی جناب کی عزت نہیں کرتے جس کو زمین و آسمان کے خالق نے عزت دے رکھی ہے اور جس کے آستانہ پر پچانوے کروڑ آدمی سر جھکاتے ہیں ۔ ‘‘
(مکتوبا ت احمد۔ جلد 1ص230تا231نیا ایڈیشن )
حضرت بانی جماعت احمدیہ کی دعوت مقابلہ تفسیر نویسی اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کی اصل واقعاتی حقیقت
قارئین کرام!آجکل سوشل میڈیا پر احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیزمنفی مہم میں الزام تراشیوں کا ا…