اعتراض: مرزا صاحب نے حضرت علی ؓ کی توہین کی ہے
حضرت مسیح موعود ؑ کی مندرجہ ذیل عبارت کے ذریعہ آپؑ پر حضرت علی ؓ کی توہین کے کا الزام لگایا جاتا ہے:۔ ’’پرانی خلافت کا جھگڑا چھوڑو ۔اب نئی خلافت لو ۔ایک زندہ علی تم میں موجود ہے ،اس کو چھوڑتے ہو اور مردہ علی کی تلاش کرتے ہو۔‘‘ (ملفوظات جلد اول ص400)
ہرگز حضرت علیؓ کی توہین نہیں کی گئی
جہاں تک اس معترضہ عبارت کا تعلق ہے تو حضرت مسیح موعود ہر گز حضرت علی کی توہین کا ارتکاب نہیں کر سکتے تھے اس فقرہ کو اگر اس کے سیاق میں دیکھا جائے تو ہر گز کسی توہین کا موجب نہیں۔بلکہ اس میں حدیث نبوی ”مَنۡ لَمۡ یَعۡرِفۡ اِمَامَ زَمَانِہ فَقَدۡ مَاتَ مِیۡتَةً جَاھِلِیَّةً “(ترجمہ :جس نے اپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانا وہ جہالت کی موت مرا)کی روشنی میں امام الزمان کی پہچان پر زور دیا گیا ہے ۔کیونکہ حضور کے یہ ملفوظات جو بصورت ڈائری ”الحکم “میں شائع ہوئے ہیں ،حضرت علی کے متعلق ایک غلو رکھنے والے شخص سے گفتگو کے سلسلہ میں ہیں جو حضرت علی کی خلافت بلا فصل کا حامی تھا ۔
حضرت مسیح موعود اسے یہ ہدایت کر رہے ہیں کہ :۔
”جب تک یہ اپنا طریق چھوڑ کر اور مجھ میں ہو کر نہیں سوچتے یہ حق پر ہر گز نہیں پہنچ سکتے ․․․․․․․․اسی لیے تومیں کہتا ہوں کہ میرے پا س آوٴ ۔میری سنو تاکہ تمہیں حق نظر آوے ۔میں تو سارا ہی چولا اتارنا چاہتا ہوں ۔سچی توبہ کر کے مومن بن جاوٴ۔
پھر جس اما م کے تم منتظر ہو میں کہتا ہوں کہ وہ میں ہوں ۔اس کا ثبوت مجھ سے لو۔اس لیے میں نے ا س خلیفہ بلا فصل کے سوال کو عزت کی نظر سے نہیں دیکھا ․․․․․․․․دیکھو سنی ان حدیثوں کو لغو ٹھہراتے ہیں ہم کہتے ہیں یہ سب جھگڑ ے فضول ہیں اب مردہ باتوں کو چھوڑو اور ایک زندہ امام کو شناخت کرو کہ تمہیں زندگی ملے ۔اگر تمہیں خدا کی تلاش ہے تو اس کو ڈھونڈو جو خدا کی طرف سے مامور ہو کر آیا ہے․․․․․․․․․میں تو باربار یہی کہتا ہوں کہ ہمارا طریق تو یہ ہے کہ نئے سر سے مسلمان بنو ۔پھر اللہ تعالی اس حقیقت کو خود کھول دے گا ۔میں سچ کہتا ہوں کہ اگر وہ امام جن کیساتھ یہ اس قدر غلو کرتے ہیں زندہ ہوں تو ان سے سخت بیزاری ظاہر کریں ۔جب ہم ایسے لوگوں سے اعراض کرتے ہیں تو کہتے ہیں ہم نے ایسا اعتراض کیا جس کا جواب نہ آیا۔اورپھر بعض اوقات اشتہار دیتے پھرتے ہیں مگر ہم ایسی باتوں کی کیا پرواہ کر سکتے ہیں ۔ہم نے تو وہ کرنا ہے جو ہمارا کام ہے ۔اس لیے یاد رکھو کہ پرانی خلافت کا جھگڑ اچھوڑ دو اب نئی خلافت لو ایک زندہ علی تم میں موجود ہے ۔اس کو چھوڑتے ہو اور مردہ علی کو تلاش کرتے ہو ۔“
(الحکم 14 نومبر 1900ء صفحہ2)
اقتباس کاآخری فقرہ جس پر اعتراض کیا جاتا ہے اپنے معانی میں واضح ہے کہ اب نئی خلافت کا دور ہے ۔جو آپ کے ذریعہ قائم ہوئی اور آپ زندہ موجود ہیں اس لیے آپ کوچھوڑ کر وفات یافتہ حضرت علیؓ کی طرف رجوع کرنا اور ان کی خلافت بلا فصل پر زور دینا اور مسیح موعود کو امام مہدی تسلیم نہ کرنا ایک ایسا امر ہے جو منشاء ایزدی کے خلاف ہے ۔
اس عبارت میں حضرت علی کی کوئی توہین اور تحقیر مقصود نہیں بلکہ حقیقت الامر کا بیان کرنا مقصود ہے کہ زندہ خلیفہ کی موجودگی میں وفات یافتہ کا معاملہ لے بیٹھنا اور اس کی خلافت پر زور دینا اور زندہ امام کی خلافت کو رد کرنا پسندیدہ بات نہیں ۔اس عبارت میں جو مردہ کا لفظ استعمال ہوا ہے وہ تحقیر کے لیے نہیں بلکہ اس واقعہ کے اظہار کے لیے ہے کہ حضرت علی جسمانی لحاظ سے مر چکے ہیں ۔لہذا اب انکی خلافت کا معاملہ زندہ امام کی موجودگی میں ختم کردینا چاہیے اور امام الزمان کو حکم عدل مان کر اپنی اصلاح کرنی چاہیے ۔
حضرت مسیح موعود حضرت علی کے لیے مردہ کا لفظ وفات یافتہ کے معنوں میں استعمال کر رہے تھے نہ تحقیر کے معنوں میں اور وفات کے معنوں میں یہ لفظ انبیاء کے حق میں قرآن کریم میں بھی استعمال ہوا ہے۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :۔
وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ (الأنبياء 35)
کہ ہم نے کسی بشر کو تجھ سے پہلے ہمیشہ کی زندگی نہیں دی پس کیا اے نبی اگر تو مر جائے تو یہ لوگ ہمیشہ زندہ رہنے والے ہیں !۔
” إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ ” (سورة الزمر:31 )
ترجمہ:۔کہ بے شک تو بھی مر جانے والا اور یہ لوگ بھی مر جانے والے ہیں ۔
سر الخلافة میں آپ نے حضرت علی کو عباد المقربین میں سے قرار دیا ہے ۔اور حمامۃ البشری میں عباد اللہ الصالحین کو مرفوع الی اللہ قرار دیتے ہوئے روحانی لحاظ سے آسمان میں زندہ قرار دیا ہے ۔
اس سے ظاہرہے کہ اقتباس زیر بحث میں حضرت علی کے لیے مردہ کا لفظ تحقیراً استعمال نہیں ہوا بلکہ اس حقیقت کے اظہار کے لیے استعمال ہوا ہے کہ جسمانی لحاظ سے آپ زندہ نہیں ۔
حضرت مسیح موعود ؑ کے نزدیک حضرت علی ؓ کی شان
یہ امر محال ہے کہ حضرت مسیح موعود حضرت علی کی کوئی تحقیر کریں ۔کیونکہ انکے نزدیک حضرت علی کی شان بہت بلند ہے ۔چنانچہ آپ اپنی کتاب سر الخلافہ میں تحریر فرماتے ہیں :۔
” کاَنَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنہ تَقِیًّا نَقِیًّا وَ مِنَ الَّذِینَ ھُمۡ أَحَبُّ النَّاسِ إِلَی الرَّحمَانِ، وَمِنۡ نُخُبِ الۡجِیَلِ وَسَادَاتِ الزَّمَانِ۔ أَسَدَ اللّٰہ ِالۡغَالِبِ وَفَتَی اللّٰہِ الحَنّانِ، نَدِیّ َالۡکَفِّ طَیِّبَ الجِنَانِ۔ وَکَانَ شُجَاعًا وَحِیدًا لَا یُزایَل مَرۡکَزُہ فِی اۡلمیدَانِ ولَو قَابَلَہُ فَوجٌ مِنۡ أَہلِ الۡعُدوَانِ۔․․․․․․․․ وَمَنۡ أَنۡکَرَ کَمَالَہُ فَقَدۡ سَلَکَ مَسۡلَکَ الوَقَاحَةِ۔ ․․․․․․․․ وَکَانَ مِنۡ عِبَادِ اللّٰہِ المُقَرَّبِینَ۔ وَمَعَ ذٰلِکَ کانَ مِنَ السَّابِقِینَ فی اِرۡتضَاعِ کَأۡسِ اۡلفُرۡقَانِ، وأُعۡطی لَہُ فَہۡمٌ عَجِیبٌ لِإِدۡرَاکِ دَقَائِقِ القُرۡآن۔“
(سر الخلافہ روحانی خزائن جلد8 صفحہ 358)
ترجمہ:۔
حضرت علی تقی اور نقی تھے ان لوگوں میں سے جو رحمان خدا کو سب سے زیادہ محبوب ہیں اور منتخب خاندان میں سے تھے ۔اپنے زمانہ کے سرداروں میں سے خدا کے غالب شیر تھے ۔اور خدائے حنان کے جوان تھے ۔سخی ،خوش دل اور یگانہ بہادر تھے جو میدان سے نہیں ہٹتے تھے ۔خواہ ان کے مقابلہ میں دشمنوں کی ایک فوج ہو ․․․․․․․․․․اور جس نے آپ کے کمالات کا انکار کیا تو وہ برے طریق پر چلا․․․․․․․آپ خدا کے مقرب بندوں میں سے تھے اور اس کے ساتھ ان سابقین میں سے تھے جنہوں نے فرقان کا پیالہ چوس کر پیا اور آپ کو قرآنی دقائق کا
عجیب فہم عطاکیا گیا تھا ۔
اسی سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام مذکورہ کتاب کے صفحہ 359 پر تحریر فرماتے ہیں کہ :۔
”وَلِیَ مُناَسَبَةٌ لَطِیفَةٌ بِعَلِیٍّ وَالحُسۡنَیۡنِ وَلَا یَعۡلَمُ سِرَّھَا اِلَّا رَبُّ الۡمَشۡرَقَیۡنِ وَالۡمَغۡرَبَیۡنِ وَاِنِّی اُحَبُّ عَلِیاً وَاَبۡنَاءَ ہُ وَاُعَادِی مَنۡ عَادَاہ “
ترجمہ :۔”یعنی مجھے حضرت علی اور حسنین سے ایک لطیف مناسبت ہے اور اس راز کو صرف دو مشرقوں اور دو مغربوں کا رب ہی جانتا ہے ۔اور میں علی اور اس کے دونوں بیٹوں سے محبت رکھتا ہوں ۔اور جو آپ سے دشمنی رکھے اس کا دشمن ہوں ۔“
حضرت بانی جماعت احمدیہ کی دعوت مقابلہ تفسیر نویسی اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کی اصل واقعاتی حقیقت
قارئین کرام!آجکل سوشل میڈیا پر احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیزمنفی مہم میں الزام تراشیوں کا ا…