اعتراض: مرزا صاحب نے حضرت ابو ہریرہؓ کی توہین کی ہے

بنیادی جواب

حضور  علیہ السلام کی مندرجہ ذیل تحریرات پر اعتراض کیا جاتا ہے۔

”جیسا کہ ابو ھریرہ غبی تھا اور درایت اچھی نہیں رکھتا تھا ۔”

(اعجاز احمدی ۔ روحانی خزائن جلد 19ص127)

”جو شخص قرآن شریف پر ایمان لاتا ہے اس کو چاہیے کہ ابو ھریرہؓ کے قو ل کو ایک ردی متاع کی طرح پھینک دے۔”

(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ،مندرجہ روحانی خزائن جلد 21ص410)

’’بعض کم تدبر کرنے والے صحابی جن کی درایت اچھی نہیں تھی(جیسے ابو ھریرہؓ)‘‘

(حقیقۃ الوحی ۔ روحانی خزائن جلد 22 ص136 )

بنیادی جواب:

اعجاز احمدی ،براہین احمدیہ حصہ پنجم اور حقیقۃ الوحی کی تحریرات جہاں پر حضرت مسیح موعود ؑ نے ان کتب میں حضرت ابو ھریرہ ؓ کی درایت کے بارہ میں لکھا ہے کہ آپ کی درایت کمزور تھی ۔اس پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت ابو ھریرہؓ کی توہین کی ہے۔

 ان تینوں مذکورہ بالا تحریرات کے سیاق وسباق سے معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام’’وَاِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتَابِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ‘‘کے حوالہ سے یہ بیان کر رہے ہیں کہ بعض لوگ اس سے یہ معنے نکالنا چاہتے ہیں ا س وقت تک حضرت عیسیؑ فوت نہیں ہوں گے جب تک کل اہل کتاب ان پر ایمان نہ لے آویں جبکہ ایسے معنے کرنا قرآن کریم کی ایک پیشگوئی کو باطل کرنے والے ٹھہرتے ہیں ۔

 معترضہ عبارت کا سیاق و سباق

ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ۔ روحانی خزائن جلد 21ص409تا410کا حوالہ سیاق و سباق سمیت ہم پیش کر دیتے ہیں۔ جس سےبات واضح ہو جاتی ہے ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :۔

’’بعض لوگ محض نادانی سے یا نہایت درجہ کے تعصّب اور دھوکا دینے کی غرض سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی پر اس آیت کو بطور دلیل لاتے ہیں کہ وَاِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتَابِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ اور اس سے یہ معنے نکالنا چاہتے ہیں کہ اس وقت تک حضرت عیسیٰ فوت نہیں ہوں گے جب تک کل اہل کتاب اُن پر ایمان نہ لے آویں ۔ لیکن ایسے معنے وہی کرے گا جس کو فہم قرآن سے پورا حصہ نہیں ہے ۔ یاجودیانت کے طریق سے دور ہے ۔ کیونکہ ایسے معنے کرنے سے قرآن شریف کی ایک پیشگوئی باطل ہوتی ہے اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے فَاَغْرَیْنَا بَیْنَھُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآءَاِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ اورپھر دوسری جگہ فرماتا ہے ۔ وَاَلْقَیْنَا بَیْنَھُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآءَاِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔ان آیتوں کے یہ معنے ہیں کہ ہم نے قیامت تک یہود اور نصاریٰ میں دشمنی اور عداوت ڈال دی ہے پس اگر آیت ممدوحہ بالا کے یہ معنے ہیں کہ قیامت سے پہلے تمام یہودی حضرت عیسیٰ علیہ السلام پرایمان لے آئیں گے تو اس سے لازم آتا ہے کہ کسی وقت یہودونصاریٰ کا بغض باہمی دور بھی ہوجائے گا اور یہودی مذہب کا تخم زمین پر نہیں رہے گاحالانکہ قرآن شریف کی اِن آیات سے اور کئی اور آیات سے ثابت ہوتاہے کہ یہودی مذہب قیامت تک رہے گا ۔ ہاں ذلت اور مَسکنت ان کے شامل حال ہوگی اور وہ دوسری طاقتوں کی پناہ میں زندگی بسر کریں گے ۔ پس آیت ممدوحہ بالا کاصحیح ترجمہ یہ ہے کہ ہر ایک شخص جو اہل کتاب میں سے ہے وہ اپنی موت سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر یا حضرت عیسیٰ پر ایمان لے آویں گے۔ غرض موتہٖ کی ضمیر اہل کتاب کی طرف پھرتی ہے نہ حضرت عیسیٰ کی طرف اسی وجہ سے اس آیت کی دوسری قراء ت میں مَوْتِھِمْ واقع ہے۔اگر حضرت عیسیٰ کی طرف یہ ضمیر پھرتی تو دوسری قراء ت میں موتھم کیوں ہوتا ؟ دیکھو تفسیر ثنائی کہ اس میں بڑے زور سے ہمارے اس بیان کی تصدیق موجود ہے اور اس میں یہ بھی لکھا ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے نزدیک یہی معنے ہیں مگر صاحب تفسیر لکھتا ہے کہ ” ابوہریرہ فہم قرآن میں ناقص ہے اور اس کی درایت پر محدثین کو اعتراض ہے ۔ ابوہریرہ میں نقل کرنے کامادہ تھا اور درایت اور فہم سے بہت ہی کم حصہ رکھتا تھا۔اور میں کہتا ہوں کہ اگر ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ نے ایسے معنے کئے ہیں تو یہ اس کی غلطی ہے جیسا کہ اور کئی مقام میں محدثین نے ثابت کیا ہے کہ جو امور فہم اور درایت کے متعلق ہیں اکثر ابوہریرہؓ اُن کے سمجھنے میں ٹھوکر کھاتاہے اور غلطی کرتا ہے ۔ یہ مسلّم امر ہے کہ ایک صحابی کی رائے شرعی حجت نہیں ہوسکتی ۔ شرعی حجت صرف اجماع صحابہ ؓ ہے ۔ سو ہم بیان کرچکے ہیں کہ اس بات پر اجماع صحابہ ہوچکا ہے کہ تمام انبیاء فوت ہوچکے ہیں ۔

اور یاد رکھنا چاہیئے کہ جبکہ آیت قبل موتہٖ کی دوسری قراء ت قبل موتھم موجود ہے، جو بموجب اصول محدثین کے حکم صحیح حدیث کا رکھتی ہے یعنی ایسی حدیث جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے تو اس صورت میں محض ابوہریرہ کا اپنا قول رد کرنے کے لائق ہے کیونکہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودہ کے مقابل پر ہیچ اور لغو ہے اور اُس پر اصرار کرنا کفر تک پہنچا سکتا ہے ۔ اور پھر صرف اسی قدر نہیں بلکہ ابوہریرہ کے قول سے قرآن شریف کا باطل ہونا لازم آتا ہے کیونکہ قرآن شریف تو جابجا فرماتا ہے کہ یہود و نصاریٰ قیامت تک رہیں گے ان کا بکلی استیصال نہیں ہوگا۔اور ابوہریرہ کہتا ہے کہ یہود کا استیصال بکلی ہوجائے گا اور یہ سراسر مخالف قرآن شریف ہے ۔ جو شخص قرآن شریف پر ایمان لاتا ہے اس کو چاہیئے کہ ابوہریرہ کے قول کو ایک ردّی متاع کی طرح پھینک دے بلکہ چونکہ قراء ت ثانی حسب اصول محدثین حدیث صحیح کا حکم رکھتی ہے اور اس جگہ آیت قبل موتہ ٖکی دوسری قراء ت قبل موتھم موجود ہے جس کو حدیث صحیح سمجھنا چاہیئے ۔ اس صورت میں ابوہریرہ کا قول قرآن اور حدیث دونوں کے مخالف ہے۔ ”

(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم جلد21 صفحہ 409تا410)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت ابو ھریرہؓ کی درایت کو جو کمزور قرار دیا ہے وہ از خود نہیں بلکہ مشہور علماء کے حوالہ جات کے مطابق یہ بیان فرمایا ہے۔ان حوالہ جات سے پتہ چلتا ہے کہ بے شک حضرت ابو ھریرہؓ نے احادیث کے اکٹھا کرنے میں بڑے اجتہاد سے کام لیا لیکن آپؓ کی درایت کمزور تھی۔

چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ تفسیر مظہری کے حوالے سے متعلق لکھتے ہیں :۔

کہ مصنف تفسیر مظہری نے لکھا ہے کہ گو حضرت ابو ھریرہ ؓ ایک جلیل القدر صحابی ہیں لیکن انہوں نے ”ان من اہل الکتاب ”والی آیت میں اپنی طرف سے تاویل کرنے میں غلطی کھائی ہے ۔

 (حمامۃ البشری ص47طبع اول )

پس حضرت مسیح موعودؑ نے جس تفسیر کا حوالہ دیا ہے وہ ”تفسیر مظہری”مؤلفہ جناب مولوی ثناء اللہ صاحب پانی پتی ہے۔اس تفسیر میں بعینہ آیت محولہ ” اِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتَابِ ”کے نیچے لکھا ہے :۔

ترجمہ از عربی :۔

یعنی آیت اِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتَابِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ میں قَبْلَ مَوْتِہٖکی ضمیر کو عیسٰی علیہ السلام کی طرف پھیرنا ممنوع ہے ۔(حضرت ابو ھریرہ نے اس سے حضرت عیسی ؑ مراد لیے ہیں تو )یہ حضرت ابو ھریرؓ ہ کا اپنا زعم ہے۔جس کی تصدیق کسی حدیث سے نہیں ہوتی ۔اور ان کا یہ خیال درست ہو کیونکر سکتا ہے جبکہ کلمہ ’’ اِنْ مِّنْ ‘‘میں تمام وہ لوگ بھی شامل ہیں جو آنحضرت ؐ کے زمانہ میں موجود تھے اور اس بات کی کوئی وجہ نہیں کہ اس سے مراد صرف وہ یہودی لیے جائیں جو حضرت عیسی ؑ کے نزول کے وقت موجود ہوں گے ۔

(تفسیر مظہری ،تفسیر سورۃ النساء زیر آیت وَاِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتَابِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ۔النساء 160)

 

حضرت ابو ھریرہ ؓکی درایت کے متعلق محدثین کی رائے

حضرت ابو ھریرہ ؓکی درایت کے متعلق محدثین کی رائے

باقی عبارت محولہ میں حضرت اقدس ؑ نے حضرت ابوھریرہؓ کے اجتہاد کو جو ضعیف قرار دیا ہے تو یہ درست ہے۔ملاحظہ ہو :۔

(١)۔کہ اصول حدیث کی مستند کتاب اصول شاشی از علامہ نظام الدین اسحاق بن ابراہیم الشاشی میں ہے:۔
ترجمہ :۔

یعنی کہ راویوں میں سے دوسری قسم کے راوی وہ ہیں جو حافظہ اور دیانت داری کے لحاظ سے تو مشہور ہیں۔اجتہاد اور فتوی کے لحاظ سے قابل اعتبار نہیں جیسے ابو ھریرہ اور انس بن مالک ۔

(اصول شاشی طبع اول ص 40مع شرح از محمد فیض الحسن مطبوعہ کانپور ص 75)

(2)۔ترجمہ:۔
یعنی کہ دو شخص حضرت عائشہ کے پا س آئے اور کہا کہ حضرت ابو ھریرہ ؓکہتے ہیں کہ آنحضرت ؐ نے فرمایا کہ عورت،گھوڑے اور گھر میں بد شگونی ہوتی ہے اس پر حضرت عائشہؓ سخت ناراض ہوئیں اور فرمایا کہ یہ آنحضرت ؐ نے قطعاً نہیں فرمایا بلکہ آپ نے تو یہ فرمایا تھا کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ ان کو بد شگون سمجھتے تھے۔

(اصول شاشی ما ثبت بالسنۃ ص29)

 (3)۔”فقہاء میں بعض ا س با ت کے قائل ہیں کہ آگ پر پکی ہوئی چیز کے کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ۔حضرت ابو ھریرہ ؓ نے حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کے سامنے جب اس مسئلہ کو جب آنحضرت ؐ کی طرف منسوب کیا تو حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ نے کہا اگر یہ صحیح ہو تواس پانی کے پینے سے بھی وضو ٹوٹ جائے گا ۔جو آگ پر گرم کیا گیا ہو۔

حضر ت عبد اللہ بن عباس حضرت ابو ھریرہ ؓ کو ضعیف الروایت نہیں سمجھتے تھے لیکن چونکہ ان کے نزدیک یہ روایت درایت کے خلاف تھی اس لیے انہوں نے تسلیم نہیں کی ۔اور یہ خیال کیا کہ سمجھنے میں غلطی ہو گئی ۔”

(اہل حدیث 22 نومبر 1929ء )

مذکورہ بالاحوالہ جات سے واضح ہوتا ہے کہ دیگرمحدثین بھی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی رائے سے متفق ہیں۔جہاں تک صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین یا حضرت ابو ھریرہؓ کی نیکی وتقوی اور مقام کا تعلق ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ نیک اور پارسا تھے ،خداتعالی کے برگزیدہ بندے تھے۔

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

حضرت بانی جماعت احمدیہ کی دعوت مقابلہ تفسیر نویسی اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کی اصل واقعاتی حقیقت

قارئین کرام!آجکل سوشل میڈیا پر احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیزمنفی مہم میں الزام تراشیوں کا ا…