توہین قرآن کے الزام کا بنیادی جواب

جھوٹا الزام

مخالفین احمدیت حضرت مرزا صاحب کی بعض تحریرات کو پیش کر کے یہ اعتراض کرتے ہیں کہ گویا آپؑ نے قرآن کی توہین کی ہے ۔ یہ سراسر الزام ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں۔ حضرت مرزا صاحب قرآن کریم سے والہانہ عشق و محبت رکھتے تھے اور اس کی توہین کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔چنانچہ آپ فرماتے ہیں:۔

            ؂            دل میں یہی ہے ہر دم تیر ا صحیفہ  چوموں

                             قرآن کے گرد گھوموں کعبہ میرا یہی ہے

 (قادیان کے آریہ اورہم ۔روحانی خزائن جلد 20۔ صفحہ457)

شانِ و عظمت قرآن کریم از تحریرات حضرت مسیح موعود علیہ السلام

ذیل کی سطور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض اقتباسات پیش ہیں جن سے قارئین کو معلوم ہو گا کہ حضور ؑکس قدر قرآن کریم کی عظمت اپنے دل میں رکھتے تھے اور اس سے محبت رکھتے تھے۔

آپؑ فرماتے ہیں:۔

            ’’سب سے سیدھی راہ اوربڑا ذریعہ جو انوار یقین اور تواتر سے بھر اہوا اور ہماری روحانی بھلائی اور ترقی علمی کے لئے کامل رہنما ہے قرآن کریم ہے جو تمام دنیا کے دینی نزاعوں کے فیصل کرنے کا متکفل ہوکر آیا ہے جس کی آیت آیت اورلفظ لفظ ہزارہا طور کا تواتر اپنے ساتھ رکھتی ہے اور جس میں بہت سا آبِ حیات ہماری زندگی کے لئے بھراہوا ہے اور بہت سے نادر اور بیش قیمت جواہر اپنے اندر مخفی رکھتا ہے جو ہر روز ظاہر ہوتے جاتے ہیں۔ یہی ایک عمدہ محک ہے جس کے ذریعہ سے ہم راستی اور ناراستی میں فرق کرسکتے ہیں۔یہی ایک روشن چراغ ہے جو عین سچائی کی راہیں دکھاتا ہے۔ بلا شبہ جن لوگوں کو راہ راست سے مناسبت اور ایک قسم کا رشتہ ہے اُن کا دل قرآن شریف کی طرف کھنچا چلا جاتا ہے اور خدائے کریم نے اُن کے دل ہی اس طرح کے بنا رکھے ہیں کہ وہ عاشق کی طرح اپنے اس محبوب کی طرف جھکتے ہیں اور بغیر اس کے کسی جگہ قرار نہیں پکڑ تے اور اس سے ایک صاف اور صریح بات سن کر پھر کسی دوسرے کی نہیں سنتے اس کی ہریک صداقت کو خوشی سے اور دوڑ کر قبول کرلیتے ہیں اور آخر وہی ہے جوموجب اشراق اور روشن ضمیری کا ہوجاتا ہے اور عجیب در عجیب انکشافات کا ذریعہ ٹھہرتا ہے اور ہر یک کو حسب استعداد معراج ترقی پر پہنچاتا ہے۔ راستبازوں کو قرآن کریم کے انوار کے نیچے چلنے کی ہمیشہ حاجت رہی ہے اور جب کبھی کسیؔ حالتِ جدیدہ زمانہ نے اسلام کوکسی دوسرے مذہب کے ساتھ ٹکرا دیا ہے تو وہ تیز اور کار گر ہتھیار جو فی الفور کام آیا ہے قرآن کریم ہی ہے۔ ایسا ہی جب کہیں فلسفی خیالات مخالفانہ طور پر شائع ہوتے رہے تو اس خبیث پودہ کی بیخ کنی آخر قرآن کریم ہی نے کی اور ایسا اس کو حقیر اور ذلیل کر کے دکھلا دیا کہ ناظرین کے آگے آئینہ رکھ دیا کہ سچا فلسفہ یہ ہے نہ وہ۔‘‘

                                                                          (ازالہ اوہام۔ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 382،381)

            ایک اور موقع پر آپؑ فرماتے ہیں:۔

                        ’’ قرآن شریف وہ کتاب ہے جس نے اپنی عظمتوں اپنی حکمتوں اپنی صداقتوں اپنی بلاغتوں اپنے لطائف و نکات اپنے انوارِ روحانی کا آپ دعویٰ کیا ہے اور اپنا بے نظیر ہوناؔ آپ ظاہر فرما دیا ہے۔ یہ بات ہرگز نہیں کہ صرف مسلمانوں نے فقط اپنے خیال میں اس کی خوبیوں کو قرار دے دیا ہے بلکہ وہ تو خود اپنی خوبیوں اور اپنے کمالات کو بیان فرماتا ہے اوراپنا بے مثل و مانند ہونا تمام مخلوقات کے مقابلہ پر پیش کررہا ہے اور بلند آواز سے ھَلْ مِنْ مُعَارِضٍ کا نقارہ بجارہا ہے اور دقائق حقائقؔ اس کے صرف دو تین نہیں جس میں کوئی نادان شک بھی کرے بلکہ اس کے دقائق تو بحرِ ذخّار کی طرح جوش ماررہے ہیں اور آسمان کے ستاروں کی طرح جہاں نظر ڈالو چمکتے نظر آتے ہیں۔ کوئی صداقت
نہیں جو اُس سے باہر ہو کوئی حکمت نہیں جو اس کے محیط بیان سے رہ گئی ہو۔ کوئی نور نہیں جو اس کی متابعت سے نہ ملتا ہو اورؔ یہ باتیں بلاثبوت نہیں۔ کوئی ایسا امر نہیں جو صرف زبان سے کہا جاتا ہے بلکہ یہ وہ متحقق اور بدیہی الثبوت صداقت ہے کہ جو تیرہ سو برس سے برابر اپنی روشنی دکھلاتی چلی آئی ہے اور ہم نے بھی اس صداقت کو اپنی اس کتاب میں نہایت تفصیل سے لکھا ہے اور دقائق اور معارف قرآنی کو اس قدر بیان کیا ہے کہ جو ایک طالب صادق کیؔ تسلی اور تشفی کے لئے بحرِ عظیم کی طرح جوش ماررہے ہیں     ۔‘‘

                                                            (براہین احمدیہ حصہ چہارم۔ روحانی خزائن جلد1صفحہ 662تا665)

قرآن کریم خدا تعالیٰ کے قول و فعل میں مطابقت دکھاتاہے ۔ اس بارے میں حضرت مسیح موعود ؑفرماتے ہیں:۔

’’ پاک اور کامل تعلیم قرآن شریف کی ہے جو انسانی درخت کی ہر ایک شاخ کی پرورش کرتی ہے اور قرآن شریف صرف ایک پہلو پر زور نہیں ڈالتا بلکہ کبھی تو عفو اور درگزر کی تعلیم دیتا ہے مگر اس شرط سے کہ عفو کرنا قرینِ مصلحت ہو اور کبھی مناسب محل اور وقت کے مجرم کو سزا دینے کے لئے فرماتا ہے۔ پس درحقیقت قرآن شریف خدا تعالیٰ کے اس قانون قدرت کی تصویر ہے جو ہمیشہ ہماری نظرکے سامنے ہے۔ یہ بات نہایت معقول ہے کہ خدا کا قول اور فعل دونوں مطابق ہونے چاہئیں۔ یعنی جس رنگ اور طرز پر دنیا میں خدا تعالیٰ کا فعل نظر آتا ہے ضرور ہے کہ خدا تعالیٰ کی سچی کتاب اپنے فعل کے مطابق تعلیم کرے۔ نہ یہ کہ فعل سے کچھ اور ظاہر ہو اور قول سے کچھ اور ظاہر ہو۔ خدا تعالیٰ کے فعل میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہمیشہ نرمی اور درگزر نہیں بلکہ وہ مجرموں کو طرح طرح کے عذابوں سے سزایاب بھی کرتا ہے ایسے عذابوں کا پہلی کتابوں میں بھی ذکر ہے۔ ہمارا خدا صرف حلیم خدا نہیں بلکہ وہ حکیم بھی ہے اور اس کا قہر بھی عظیم ہے۔ سچی کتاب وہ کتاب ہے جو اس کے قانون قدرت کے مطابق ہے اور سچا قولِ الٰہی وہ ہے جو اس کے فعل کے مخالف نہیں۔ ہم نے کبھی مشاہدہ نہیں کیا کہ خدا نے اپنی مخلوق کے ساتھ ہمیشہ حلم اورؔ درگزر کا معاملہ کیا ہو اور کوئی عذاب نہ آیا ہو۔‘‘

                                                                 (چشمہ ٔ مسیحی۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ 346تا347)

قرآن کریم کی تعلیم کو اپنانے کے متعلق فرمایا:۔

            ’’ سو تم ہوشیار رہو اور خدا کی تعلیم اور قرآن کی ہدایت کے برخلاف ایک قدم بھی نہ اٹھاؤ۔ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات ٧٠٠ سَو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دردازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولیں اور باقی سب اس کے ظل تھے سو تم قرآن کو تد ّبر سے پڑھو اور اُس سے بہت ہی پیار کرو ایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو کیونکہ جیسا کہ خدا نے
مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ اَلْخَیْرُ کُلُّہ، فِی الْقُرْاٰنِ کہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں یہی بات سچ ہے افسوس اُن لوگوں پر جو کسی اور چیز کو اس پر مقدم رکھتے ہیں تمہاری تمام فلاح اور نجات کا سرچشمہ قرآن میں ہے کوئی بھی تمہاری ایسی دینی ضرورت نہیں جو قرآن میں نہیں پائی جاتی تمہارے ایمان کا ُمصدق یا مکذب قیامت کے دن قرآن ہے اور بجز قرآن کے آسمان کے نیچے اور کوئی کتاب نہیں جو بلاواسطہ قرآن تمہیں ہدایت دے سکے۔ خدا نے تم پر بہت احسان کیا ہے جو قرآن جیسی کتاب تمہیں عنایت کی۔ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ کتاب جو تم پر پڑھی گئی اگر عیسائیوں پر پڑھی جاتی تو وہ ہلاک نہ ہوتے اور یہ نعمت اور ہدایت جو تمہیں دی گئی اگر بجائے توریت کے یہودیوں کو دی جاتی تو بعض فرقے ان کے قیامت سے منکر نہ ہوتے پس اس نعمت کی قدر کرو جو تمہیں دی گئی۔ یہ نہایت پیاری نعمت ہے، یہ بڑی دولت ہے، اگر قرآن نہ آتا تو تمام دنیا ایک گندے مضغہ کی طرح تھی قرآن وہ کتاب ہے جس کے مقابل پر تمام ہدایتیں ہیچ ہیں۔‘‘

                                                                           (کشتی نوح۔ روحانی خزائن جلد 19صفحہ26تا27)

            قرآن مجید کے مضامین کےآپس میں گہرا ربط ہونے کے بارے میں فرماتے ہیں:۔

                        ’’ قرآن کریم اور معمولی کتابوں کی طرح نہیں جو اپنی صداقتوں کے ثبوت یا انکشاف کے لئے دوسرے کا محتاج ہو ۔ وہ ایک ایسی متناسب عمارت کی طرح ہے جس کی ایک اینٹ ہلانے سے تمام عمارت کی شکل بگڑ جاتی ہے ۔ اس کی کوئی صداقت ایسی نہیں ہے جو کم سے کم دس یا بیس شاہد اس کے خود اُسی میں موجود نہ ہوں ۔ سو اگر ہم قرآن کریم کی ایک آیت کے ایک معنے کریں تو ہمیں دیکھنا چاہیئے کہ ان معنوں کی تصدیق کیلئے دوسرے شواہد قرآن کریم سے ملتے ہیں یا نہیں ۔ اگر دوسرے شواہد دستیاب نہ ہوں بلکہ ان معنوں کے دوسری آیتوں سے صریح معارض پائے جاویں تو ہمیں سمجھنا چاہیئے کہ وہ معنی بالکل باطل ہیں۔ کیونکہ ممکن نہیں کہ قرآن کریم میں اختلاف ہو۔ اور سچّے معنوں کی یہی نشانی ہے کہ قرآن کریم میں سے ایک لشکر شواہد بینہ کا اس کا مصدق ہو۔‘‘

                                                                                    (برکات الدعا۔ روحانی خزائن جلد 6صفحہ17تا18)

            آپؑ فرماتے ہیں:۔

                        ’’ وہ یقینی اور کامل اور آسان ذریعہ کہ جس سے بغیر تکلیف اور مشقت اور مزاحمت شکوک اور شبہات اور خطا اور سہو کے اصول صحیحہ معہ ان کی دلائل عقلیہ کے معلوم ہوجائیں اور یقین کامل سے معلوم ہوں وہ قرآن شریف ہے اور بجز اس کے دنیا میں کوئی ایسی کتاب نہیں اور نہ کوئی ایسا دوسرا ذریعہ ہے کہ جس سے یہ مقصد اعظم ہمارا پورا ہوسکے۔‘‘

                                                                        (براہین احمدیہ حصہ دوم ۔ روحانی خزائن جلد1صفحہ 77)

            ایک نظم میں قرآن کریم سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے فرماتےہیں:۔

جمال و حسن قرآں نور جان  ہر مسلمان  ہے
قمر ہے  چاند  اوروں  کا  ہمارا  چاند قرآں ہے

نظیر اسکی نہیں جمتی نظر میں غور کر دیکھا
بھلا کیونکر نہ ہو یکتا کلام پاک رحماں ہے

بہار  جاوداں  پیدا  ہے  اسکی  ہر  عبارت  میں
نہ وہ خوبی چمن میں ہے نہ اس سا کوئی بستاں ہے

کلام  پاک  یزداں  کا  کوئی  ثانی نہیں ہرگز
اگر لولوئے عماں ہے وگر لعلِ بدخشاں ہے

دیگر

نور فرقاں ہے جو سب نوروں سے اَ جلیٰ نکلا
پاک  وہ  جس  سے  یہ  انوار   کا   دریا  نکلا

حق کی توحید کا مرجھا ہی چلا تھا پودہ
ناگہاں غیب سے یہ چشمۂ اصفیٰ نکلا

یا الٰہی تیرا فرقاں ہے کہ اک عالم ہے
جو ضروری تھا وہ سب اس میں مہیا نکلا

سبؔ   جہاں   چھان چکے   ساری دکانیں دیکھیں
مئے  عرفان   کا   یہی   ایک   ہی  شیشہ  نکلا

کس سے اس نور کی ممکن ہو جہاں میں تشبیہ
وہ  تو  ہر  بات  میں  ہر  وصف  میں  یکتا نکلا

  (محمود کی آمین۔ روحانی خزائن جلد12صفحہ318تا319)

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

حضرت بانی جماعت احمدیہ کی دعوت مقابلہ تفسیر نویسی اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کی اصل واقعاتی حقیقت

قارئین کرام!آجکل سوشل میڈیا پر احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیزمنفی مہم میں الزام تراشیوں کا ا…