اعتراض: مرزا صاحب نے آنحضورﷺ کے مزار مبارک کی توہین کی ہے (نعوذباللہ)
اعتراض: معترضین حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی ایک تحریر پیش کر کے یہ الزام لگاتے ہیں کہ نعوذباللہ اس میں آپؑ نے آنحضورﷺ کے مزار مبارک کی توہین کی ہے ۔
روضہ نہیں بلکہ غار ثور کا ذکر ہو رہا ہے
اعتراض:۔ معترضین حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی مندرجہ ذیل تحریر پیش کر کے یہ الزام لگاتے ہیں کہ نعوذباللہ اس میں آپؑ نے آنحضورﷺ کے مزار مبارک کی توہین کی ہے ۔
”ہم بار بار لکھ چکے ہیں کہ حضرت مسیح کو اتنی بڑی خصو صیت آسمان پر زندہ چڑھنے اور اتنی مدت تک زندہ رہنے اور پھر دوبارہ اترنے کی جو دی گئی ہے اس کے ہر ایک پہلو سے ہمارے نبی ﷺ کی تو ہین ہوتی ہے اور خدا تعا لیٰ کا ایک بڑا تعلق جس کا کچھ حدو حساب نہیں حضرت مسیح سے ہی ثا بت ہو تا ہے ۔مثلا آنحضر ت کی سو (100)برس تک بھی عمر نہ پہنچی مگر حضر ت مسیح اب قر یبا دو ہزار برس سے زندہ مو جو د ہیں۔اور خدا تعا لیٰ نے آنحضرت ﷺ کے چھپانے کے لیے ایک ایسی ذلیل جگہ تجو یز کی جو نہایت متعفن اور تنگ اور تا ریک اور حشر ات الارض کی نجاست کی جگہ تھی مگر حضر ت مسیح کو آسمان پرجو بہشت کی جگہ اور فرشتوں کی ہمسا ئیگی کا مکان ہے بلا لیا ۔اب بتاؤ محبت کس سے زیادہ کی؟عزت کس کی زیا دہ کی؟قرب کا مکا ن کس کو دیا اور پھر دوبارہ آنے کا شر ف کس کو بخشا۔“
(تحفہ گو لڑویہ ۔ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 205)
جواب
در اصل معترض حضرت مسیح مو عود علیہ السلام کی تکذیب میں اس قدر اندھا ہو گیا ہے کہ اس عبارت کا غلط مفہو م پیش کر کے وہ حضر ت مسیح مو عود علیہ السلام پر تو ہین رسا لت کا الزام لگانے کی بجا ئے خود تو ہین روضہ مبا رک ﷺکا مرتکب ہو رہاہے۔کیو نکہ حضر ت مسیح مو عود علیہ السلام نے مذکو رہ بالا عبارت میں ہجرت کے وقت آنحضرت کے غار ثور میں چھپنے کا ذکر فرمایا ہے نہ کہ روضہ رسول کا۔اس عبارت سے خوب واضح ہےکہ حضر ت مسیح موعو د علیہ السلام نے اپنے آقا و مو لیٰ حضر ت محمدﷺ کے لیے جس غیرت کا اظہا ر فرما یا ہے اس کی مثا ل نہیں ملتی۔
حضرت مسیح مو عود علیہ السلام کے دل میں روضہ مبارک کا تقدس اور فضیلت ایسی عظیم تھی کہ اسکی مثا ل ممکن نہیں۔
آپؑ فرماتے ہیں :
”اِنَّ قَبْرَ نَبِیِّنا ﷺروضۃٌ عظیمۃٌ مِن رَوضَا تِ الجَنَّةِوَتَبَوَّأَ کُلَّ ذَرْوَةِ الفَضْلِ وَالْعَظْمَةِاَحَا طَ کُلَّ مَرَاتِبِ السَّعادةِوَالعِزَّةِ“
(سرّالخلافہ ۔روحانی خزائن جلد8صفحہ 344)
ترجمہ:ہمارے نبیﷺ کی قبر یقینا جنت کے با غا ت میں سے ایک عظیم باغ ہے وہ ہر فضل اور عظمت کی چو ٹی کا مقام ہے اور اس نے سعادت اور عزت کے ہر مر تبہ کا احاطہ کیا ہو ا ہے۔
آنحضرت ﷺکے وطن کی یاد اور آپکے روضہ مبارک کا ذکر حضرت مسیح مو عود ؑکے دل کو غم سے بھر دیتے۔چنانچہ آپ کی نظم و نثر ایسی مثا لوں سے لبریز ہے۔صرف ایک واقعہ ملا حظہ فر ما ئیں۔
آپؑ کی بیٹی حضر ت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
”با لکل گھریلو ما حو ل کی بات ہے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح مو عود علیہ السلام کی طبیعت کچھ ناساز تھی اور آپ گھر میں چارپائی پر لیٹے ہو ئے تھے اور حضر ت امّا ں جان نوّر اللّٰہ مر قدھا اور ہمارے نا نا جان یعنی حضر ت میرناصرنواب خا ن صا حب مر حو م بھی پاس بیٹھے تھے کہ حج کا ذکر شرو ع ہو گیا ۔حضر ت نا نا جان نے کو ئی ایسی بات کہی کہ اب تو حج کے لئے سفر اور رستے و غیرہ کی سہو لت پیدا ہو رہی ہے حج کو چلنا چا ہیئے اس وقت زیارت حر مین شریفین کے تصور میں حضر ت مسیح مو عود علیہ السلام کی آ نکھیں آنسوؤں سے بھری ہو ئی تھیں اور آپؑ اپنے ہاتھ کی انگلی سے اپنے آنسو پو نچھتے جا تے تھے ۔حضر ت نانا جان کی بات سن کر فر مایا:
”یہ تو ٹھیک ہے اور ہما ری بھی دلی خو اہش ہے مگر میں سو چا کر تا ہو ں کہ کیا میں آنحضورکے مزار کو دیکھ بھی سکوں گا؟ “۔
(سیر ت طیبہ از حضر ت مر زا بشیر احمدؓصاحب مطبو عہ نظا رت اشا عت ربوہ 1960ء)
یہ ایک خا لصةًگھر یلوما حو ل کی بظا ہر ایک چھوٹی سی بات ہے لیکن اگر غور کیا جا ئے تو اس میں اُس اتھاہ سمندر کی طغیا نی لہریں کھیلتی ہوئی نظر آ تی ہیں جو عشق رسو ل سے حضر ت مسیح مو عود ؑکے قلبِ صا فی میں موجزن تھا۔حج کی کس سچے مسلمان کو خو اہش نہیں؟ مگر ذرہ اس شخص کی بے پا یا ں محبت کا اندازہ لگا ئیں جس کی روح حج کے تصو ر میں پر وانہ وار رسو ل پاک ﷺ کے مزار پر پہنچ جاتی ہے اور وہا ں اس کی آنکھیں اس نظارہ کی تاب نہ لا کر بند ہو نا شروع ہو جاتی ہیں۔اور ان سے آنسو اچھل پڑ تے ہیں۔ ایسے عاشق صا دق کی طرف ایسی گستا خی کی بات منسو ب کرنا معترض کا فسق اور افتراء ہے اور رسولﷺ کی شان میں حددرجہ کی گستاخی ہے۔
حضرت بانی جماعت احمدیہ کی دعوت مقابلہ تفسیر نویسی اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کی اصل واقعاتی حقیقت
قارئین کرام!آجکل سوشل میڈیا پر احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیزمنفی مہم میں الزام تراشیوں کا ا…