الہام ’’اَنْتَ مِنِّی بِمَنْزِلَةِ تَوْحِیْدِیْ وَتَفْرِیْدِیْ‘‘ پر اعتراض
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کےمندرجہ ذیل الہام پرمخالفین کہتے ہیں کہ آپ نے دعوی الوہیت کیا ہے:۔’’ اَنْتَ مِنِّی بِمَنْزِلَةِ تَوْحِیْدِیْ وَتَفْرِیْدِیْ ‘‘یعنی تو بمنزلہ میری توحید و تفرید کے ہے ۔
اس الہام کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ کو واحد جاننا
’’توحید‘‘ اور’’ تفرید ‘‘مصدر ہیں جن کا ترجمہ ہوگا ’’واحد جاننا ‘‘اور’’ یکتا جاننا ‘‘پس الہام کا مطلب یہ ہے کہ تو خدا کو واحد اور یکتا جاننے کے مقام پر ہے ۔یعنی اپنے زمانہ میں سب سے بڑا موحّد ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیان فرمودہ معانی
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خوداس کے معنی یہ بیان کئے ہیں۔
”تو مجھ سے ایسا ہی قرب رکھتا ہے اور ایسا ہی میں تجھے چاہتا ہوں جیسا کہ اپنی توحید اور تفرید کو “ (اربعین نمبر 3 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر 17 صفحہ413)
’’مِنْ‘‘داخل کئے بغیر معانی سمجھ نہیں آسکتے
یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ عربی زبان میں جب یہ کہنا ہو کہ تو میرا ہے اور میں تیرا ہوں تو عربی میں دو الفاظ کے درمیان ’’مِنْ‘‘داخل کرنا پڑتا ہے پس دراصل یہاں اسی طرح کا ایک پیارکا اظہار ہے کہ تو مجھے اسی طرح عزیز ہے جس طرح مجھے توحید عزیز ہے اورجس طرح اپنی یکتائی عزیز ہے۔
اسی مضمون کی دعا آنحضرت ﷺ نے جنگ بدر میں کی تھی
تاریخ اسلام پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے آنحضرت ﷺ نے جنگ بدر میں یہ دعا کی تھی کہ اے خدا تو نے اگر آج اس مٹھی بھر (میرے صحابہ کی جماعت) کو ہلاک ہونے دیا تو پھر کبھی تیری عبادت نہیں کی جائے گی ۔ آپ ؐ نے در حقیقت اسی مضمون کو بیان فرمایا ہے کہ خدا کے بعض بندے توحید کے علمبردار ہو جاتے ہیں اگر وہ اٹھ جائیں تو توحید اٹھ جاتی ہے پس اللہ کے تمام بھیجے ہوئے انبیاء اسی طرح اللہ کی توحید اور تفرید کے مظہر ہوتے ہیں ۔ جیسا کہ زیر الہام میں بیان فرمایا گیا ہے ۔ اور چونکہ اللہ کو اپنی توحید اور تفرید بہت پیاری ہوتی ہے اس لئے اپنے ان بندوں کے لئے غیرت دکھاتا ہے اور ان کی حفاظت فرماتا ہے ۔
حضرت با یزید بسطامی ؒ نے بھی اسی مضمون کو بیان فرمایاہے
حضرت بایزید بسطامی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ۔
”تاج کرامت میرے سر پر رکھ کر توحید کادروازہ مجھ پر کھول دیا ۔جب مجھ کو میری صفا ت کے اس کی صفات میں مل جانے کی اطلاع ہوئی تو اپنی خودی سے مشرف فرما کر اپنی بارگاہ سے میرا نام رکھا ۔دوئی اٹھ گئی اور یکتائی ظاہر ہوگئی پھر فرمایا کہ جو تیری رضا وہی میری رضا ہے ۔․․․․․․․حالت یہاں تک پہنچی کہ ظاہر وباطن سرائے بشریت کو خالی پایا ۔سینہ ظلمانی میں ایک سوراخ کھول دیا ۔مجھ کو تجرید اور توحید کی زبان دی ۔تو اب ضرور میری زبان لطف صمدی سے اور میرا دل نور ربانی سے اور آنکھ صنعت یزدانی سے ہے ۔اسی کی مدد سے کہتا ہوں اور اسی کی قوت سے پھرتا ہوں ۔جب اس کے ساتھ زندہ ہوں تو ہرگز نہ مرونگا ۔جب اس مقام پر پہنچ گیا ۔تو میرا شارہ ازلی ہے اور عبادت ابدی میری زبان ،زبان توحیدہے اور روح ،روح تجرید۔ اپنے آپ سے نہیں کہتا کہ بات کرنے والا ہوں اور نہ آپ کہتا ہوں کہ ذکر کرنے والا ہوں زبان کو وہ حرکت دیتا ہے ۔میں درمیان میں ترجمان ہوں حقیقت میں وہ ہے نہ میں ۔ “ (تذکر ة الاولیاء اردوشائع کردہ شیخ برکت علی اینڈ سننر مطبوعہ مطبع علمی لاہور صفحہ نمبر 130)
اعتراض بابت نزول قرآنی آیات
مرزا صاحب پر وہی قرآنی آیات نازل ہوئیں جو آنحضرتﷺ پر نازل ہوئی تھیں۔جیسے و رفعنا لک ذکرک،،…