اعتراض: مسیح نے تو دمشق کے منارہ شرقی کے پاس اترنا تھا۔۔۔
حدیث میں مذکور ہے کہ مسیح ابن مریم دمشق کے منارہ شرقی کے پاس اترے گا ۔ اعتراض اٹھایا جاتا ہے کہ اس وضاحت کے بعد اسکی تاویل کی کیا ضرورت ہے۔
مسیح ابن مریم کا دمشق کے مشرق میں نزول کا مفہوم از حضرت مسیح موعود علیہ السلام
الحدیث:۔
’’عَنِ النَّوَاسِ بْنِ سَمْعَان قَالَ ذَ کَرَ رَسُوْلُ اللّٰہ ﷺ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔كَذَلِكَ إِذْ بَعَثَ اللَّهُ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ فَيَنْزِلُ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ شَرْقِىَّ دِمَشْقَ بَيْنَ مَهْرُودَتَيْنِ وَاضِعًا كَفَّيْهِ عَلَى أَجْنِحَةِ مَلَكَيْنِ‘‘
(صحیح مسلم کتاب الفتن و اشراط الساعۃ باب ذکر الدجال و صفتہ وما معہ)
ترجمہ :۔حضرت نواس بن سمعان ؓ سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے دجال کا ذکر فرمایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(پھر فرماتے ہیں )اسی طرح جب اللہ تعالیٰ مسیح ابن مریم کو مبعوث کرے گا تو آپؑ دمشق کے مشرق میں دو زرد چادریں پہنے ، دو فرشتوں کے پروں پر ہاتھ رکھے ہوئے ،سفید منارہ پر نازل ہونگے ۔
جواب :۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس اعتراض کا جوا ب دیتےہوئے فرماتے ہیں:۔
’’اگر یہ کہا جائے کہ احادیث صاف اور صریح لفظوں میں بتلارہی ہیں کہ مسیح ابن مریم آسمان سے اُترے گا اور دمشق کے منارہ شرقی کے پاس اُس کا اُترنا ہو گا اور دوفرشتوں کے کندھوں پر اُس کے ہاتھ ہوں گے تو اس مصرّ ح اور واضح بیان سے کیوں کر انکار کیا جائے؟اس کا جواب یہ ہے کہ آسمان سے اُترنا اس بات پر دلالت نہیں کرتاکہ سچ مچ خاکی وجود آسمان سے اُترے بلکہ صحیح حدیثوں میں تو آسمان کا لفظ بھی نہیں ہے اور یوں تو نزول کا لفظ عام ہے جو شخص ایک جگہ سے چل کر دوسری جگہ ٹھہرتا ہے اس کو بھی یہی کہتے ہیں کہ اُس جگہ اُترا ہے جیسے کہا جاتا ہے کہ فلاں جگہ لشکر اُترا ہے یا ڈیرا اُترا ہے کیا اس سے یہ سمجھا جاتاہے کہ وہ لشکر یا وہ ڈیرا آسمان سے اُتراہے ماسوائے اس کے خدائے تعالیٰ نے تو قرآن شریف میں صاف فرما دیاہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی آسمان سے ہی اُترے ہیں بلکہ ایک جگہ فرمایا ہے کہ لوہا بھی ہم نے آسمان سے اُتاراہے۔پس صاف ظاہر ہے کہ یہ آسمان سے اُترنا اُس صورت اور رنگ کا نہیں ہے جس صورت پر لوگ خیال کر رہے ہیں اورباوجود عام طور پر استعارات کے پائے جانے کے جن سے حدیثیں پُر ہیں۔اور مکاشفات اوررویاءِ صالحہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اُن سے بھری پڑی ہیں۔پھر دمشق کے لفظ سے دمشق ہی مراد رکھنا دعویٰ بلا دلیل و التزام مالایلزم ہے ۔اور یہ بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ خدائے تعالیٰ کی پیشگوئیوں میں بعض امور کا اخفا اور بعض کا اظہارہو تاہے اور ایسا ہونا شاذونادر ہے کہ من کل الوجوہ اظہارہی ہو کیونکہ پیشگوئیوں میں حضرت باری تعالیٰ کے ارادہ میں ایک قسم کی خلق اللہ کی آزمائش بھی منظور ہوتی ہے اور اکثر پیشگوئیاں اس آیت کا مصداق ہوتی ہیں کہ يُضِلُّ بِهٖ ڪَثِيْرًا وَّيَهْدِىْ بِهٖ كَثِيْرًا ۔اسی وجہ سے ہمیشہ ظاہر پرست لوگ امتحان میں پڑ کر پیشگوئی کے ظہور کے وقت دھوکا کھاجاتے ہیں اور زیادہ تر انکار کرنے والے اور حقیقت مقصودہ سے بے نصیب رہنے والے وہی لوگ ہوتے ہیں کہ جو چاہتے ہیں کہ حرف حر ف پیشگوئی کا ظاہری طور پر جیساکہ سمجھا گیاہو پورا ہو جائے حالانکہ ایساہرگز نہیں ہوتا مثلًا مسیح کی نسبت بعض بائیبل کی پیشگوئیوں میں یہ درج تھا کہ وہ بادشاہ ہو گا لیکن چونکہ مسیح غریبوں اور مسکینوں کی صورت پر ظاہر ہوا اس لئے یہودیو ں نے اس کو قبول نہ کیا اور اِس ردّ اور انکار کی وجہ صرف الفاظ پرستی تھی کہ انہوں نے بادشاہت کے لفظ کو فقط ظاہر پر محمول کر لیا۔ایسا ہی حضرت موسیٰ کی توریت میں ہمارے سیّد و مولیٰ محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت یہ پیشگوئی درج تھی کہ وہ بھی بنی اسرائیل میں سے اور اُن کے بھائیوں میں سے پیدا ہو گا اس لئے یہودی لوگ اس پیشگوئی کا منشا یہی سمجھتے رہے کہ وہ بنی اسرائیل میں سے پیدا ہو گا حالانکہ بنی اسرائیل کے بھائیوں سے بنی اسماعیل مراد ہیں خدائے تعالیٰ قادر تھا کہ بجائے بنی اسرائیل کے بھائیو ں کے بنی اسماعیل ہی لکھ دیتا کروڑ ہا آدمی ہلاکت سے بچ جاتے مگراُس نے ایسانہیں کیا کیونکہ اس کو ایک عقدہ درمیان میں رکھ کرصادقوں اور کاذبوں کا امتحان منظور تھااِسی بناپر اور اِسی مدعاکی غرض سے تمثیل کے پیرایہ میں یا استعارہ کےطور پر بہت باتیں ہوتی ہیں جن پر نظر ڈالنے والے دوگروہ ہو جاتے ہیں ایک وہ گروہ جو فقط ظاہر پرست اور ظاہر بین ہوتاہے اور استعارات سے بکلی منکر ہو کر اُن پیشگوئیوں کے ظہور کو ظاہری صورت میں دیکھنا چاہتا ہے۔یہ وہ گروہ ہے کہ جو وقت پر حقیقتِ حقّہ کے ماننے سے اکثر بے نصیب اور محروم رہ جاتا ہے بلکہ سخت درجہ کی عداوت اور بُغض اور کینہ تک نوبت پہنچتی ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام۔ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 132تا136)
پھر دمشق سے کیا مراد ہے ، اسکی تشریح بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
’’ استعارات جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مکاشفات اور خوابوں میں پائے جاتے ہیں وہ حدیثوں کے پڑھنے والوں پر مخفی اور پوشیدہ نہیں ہیں کبھی کشفی طورپر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ہاتھوں میں دو سونے کے کڑے پہنے ہوئے دکھائی دئے اور اُن سے دوکذّاب مراد لئے گئے جنہوں نے جھوٹے طور پر پیغمبری کا دعویٰ کیا تھا اور کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی رؤیا اور کشف میں گائیاں ذبح ہوتی نظر آئیں اور ان سے مراد وہ صحابہ تھے جو جنگِ اُحد میں شہید ہوئے اور ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک کشف میں دیکھا کہ ایک بہشتی خوشہ انگور ابوجہل کے لئے آپکو دیا گیا ہے تو آخر اُس سے مراد عکرمہ نکلا اور ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کشفی طورپر نظر آیا کہ گویا آپ نے ایک ایسی زمین کی طرف ہجرت کی ہے کہ وہ آپ کے خیال میں یمن تھا۔ مگر درحقیقت اس زمین سے مراد مدینہ منورہ تھا۔ ایسا ہی بہت سی نظیریں دوسرے انبیاء کے مکاشفات میں پائی جاتی ہیں کہ بظاہر صورت اُن پر کچھ ظاہر کیا گیا اور دراصل اس سے مراد کچھ اَور تھا سو انبیا کے کلمات میں استعارہ اور مجاز کا دخل ہونا کوئی شاذ ونادر امر نہیں ہے اور نہ کوئی ایسی بات ہے کہ جو تصنّع اور بناوٹ سے گھڑنی پڑتی ہے بلکہ یہ عادت انبیاء کی شائع متعارف ہے کہ وہ روح القدس سے پُر ہو کر مثالوں اور استعاروں میں بولا کرتے ہیں اور وحی الٰہی کو یہی طرز پسند آئی ہوئی ہے کہ اِس جسمانی عالم میں جو کچھ آسمان سے اُتارا جاتا ہے اکثر اس میں استعارات ومجازات پُر ہوتے ہیں عام طور پر جو ہرایک فرد بشر کو کوئی نہ کوئی سچی خواب آجاتی ہے جو نبوت کا چھیالیسواں46 حصہ بیان کی گئی ہے اُس کے اجزاپر بھی اگر نظر ڈال کر دیکھو تو شاذو نادر کوئی ایسی خواب ہو گی جو استعارات اور مجازات سے بکلی خالی ہو۔
اب یہ بھی جاننا چاہیئے کہ دمشق کا لفظ جو مسلم کی حدیث میں وارد ہے یعنی صحیح مسلم میں یہ جو لکھا ہے کہ حضرت مسیح دمشق کے منارہ سفید شرقی کے پاس اُتریں گے یہ لفظ ابتدا سے محقق لوگوں کو حیران کرتا چلا آیا ہے کیونکہ بظاہر کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ مسیح کو دمشق سے کیا مناسبت ہے اور دمشق کو مسیح سے کیا خصوصیت۔ ہاں اگر یہ لکھا ہوتا کہ مسیح مکّہ معظمہ میں اُترے گا یا مدینہ منورہ میں نازل ہوگا تو ان ناموں کا ظاہرپر حمل کرنا موزوں بھی ہوتا۔ کیونکہ مکّہ معظمہ خانہ خدا کی جگہ اور مدینہ منورہ رسول اللہ کا پا یہ تخت ہے مگر دمشق میں توکوئی ایسی خوبی کی بات نہیں جس کی وجہ سے تمام امکنہ متبرکہ چھوڑکر نزول کے لئے صرف دمشق کو مخصوص کیاجائے۔ اِس جگہ بلاشبہ استعارہ کے طور پر کوئی مرادی معنے مخفی ہیں جو ظاہر نہیں کئے گئے اور یہ عاجز ابھی اس بات کی تفتیش کی طرف متوجہ نہیں ہواتھا کہ وہ معنے کیا ہیں کہ اسی اثناء میں میرے ایک دوست اور محب واثق مولوی حکیم نور الدین صاحب اس جگہ قادیان میں تشریف لائے اور انہوں نے اس بات کے لئے درخواست کی کہ جو مسلم کی حدیث میں لفظ دمشق و نیز اور ایسے چند مجمل الفاظ ہیں اُن کے انکشاف کے لئے جناب الٰہی میں توجہ کی جائے لیکن چونکہ ان دنوں میں میری طبیعت علیل اور دماغ ناقابل جدوجہد تھا اس لئے میں اُن تمام مقاصد کی طرف توجہ کرنے سےمجبور رہا صرف تھوڑی سی توجہ کرنے سے ایک لفظ کی تشریح یعنی دمشق کے لفظ کی حقیقت میرے پرکھولی گئی اور نیز ایک صاف اور صریح کشف میں مجھ پر ظاہر کیاگیا کہ ایک شخص حارث نام یعنی حرّ اث آنے والا جو ابوداؤد کی کتاب میں لکھاہے یہ خبر صحیح ہے اور یہ پیشگوئی اور مسیح کے آنے کی پیشگوئی درحقیقت یہ دونوں اپنے مصداق کی رُو سے ایک ہی ہیں۔ یعنی ان دونوں کا مصداق ایک ہی شخص ہے جو یہ عاجز ہے۔ سو اوّل میں دمشق کے لفظ کی تعبیر جو الہام کے ذریعہ سے مجھ پر کھولی گئی بیان کرتا ہوں پھر بعد اس کے ابو داؤد والی پیشگوئی جس طور سے مجھے سمجھا ئی گئی ہے بیان کروں گا۔ پس واضح ہو کہ دمشق کے لفظ کی تعبیر میں میرے پر منجانب اللہ یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اس جگہ ایسے قصبہ کا نام دمشق رکھا گیا ہے جس میں ایسے لوگ رہتے ہیں جو یزیدی الطبع اور یزید پلید کی عادات اور خیالات کے پیرَو ہیں جن کے دلوں میں اللہ اور رسول کی کچھ محبت نہیں اور احکام الٰہی کی کچھ عظمت نہیں جنہوں نے اپنی نفسانی خواہشوں کو اپنا معبود بنا رکھا ہے اور اپنے نفس امّارہ کے حکموں کے ایسے مطیع ہیں کہ مقدسوں اور پاکوں کا خون بھی اُن کی نظر میں سہل اور آسان امر ہے اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور خدائے تعالیٰ کا موجود ہونا اُن کی نگاہ میں ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جو انہیں سمجھ نہیں آتا اور چونکہ طبیب کو بیماروں ہی کی طرف آنا چاہیئے اس لئے ضرور تھا کہ مسیح ایسے لوگوں میں ہی نازل ہو۔ غرض مجھپر یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ دمشق کے لفظ سے دراصل وہ مقام مراد ہے جس میں یہ دمشق والی مشہور خاصیت پائی جاتی ہے اور خدائے تعالیٰ نے مسیح کے اُترنے کی جگہ جو دمشق کو بیان کیا تو یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مسیح سے مراد وہ اصلی مسیح نہیں ہے جس پر انجیل نازل ہوئی تھی بلکہ مسلمانوں میں سے کوئی ایسا شخص مراد ہے جو اپنی روحانی حالت کی رو سے مسیح سے اور نیز امام حسین سے بھی مشابہت رکھتا ہے کیونکہ دمشق پایۂ تخت یزید ہوچکاہے اور یزیدیوں کا منصوبہ گاہ جس سے ہزارہا طرح کے ظالمانہ احکام نافذ ہوئے وہ دمشق ہی ہے اوریزیدیوں کو اُ ن یہودیوں سے بہت مشابہت ہے جو حضرت مسیح کے وقت میں تھے ایسا ہی حضرت امام حسین کو بھی اپنی مظلومانہ زندگی کی رو سے حضرت مسیح سے غایت درجہ کی مماثلت ہے پس مسیح کا دمشق میں اُترنا صاف دلالت کرتا ہے کہ کوئی مثیل مسیح جو حسین سے بھی بوجہ مشابہت ان دونوں بزرگوں کے مماثلت رکھتا ہے یزیدیوں کی تنبیہ اور ملزم کرنے کے لئے جو مثیل یہود ہیں اُترے گا اور ظاہر ہے کہ یزیدی الطبع لوگ یہودیوں سے مشابہت رکھتے ہیں۔ یہ نہیں کہ دراصل یہودی ہیں اس لئے دمشق کا لفظ صاف طور پر بیان کر رہا ہے کہ مسیح جو اُترنے والا ہے وہ بھی دراصل مسیح نہیں ہے بلکہ جیسا کہ یزیدی لوگ مثیل یہود ہیں ایساہی مسیح جو اُترنے والا ہے وہ بھی مثیل مسیح ہے اور حسینی الفطرت ہے یہ نکتہ ایک نہایت لطیف نکتہ ہے جس پر غور کرنے سے صاف طور پر کھل جاتا ہے کہ دمشق کا لفظ محض استعارہ کے طورپر استعمال کیاگیاہے۔ چونکہ امام حسین کامظلومانہ واقعہ خدائے تعالیٰ کی نظر میں بہت عظمت اور وقعت رکھتا ہے اور یہ واقعہ حضرت مسیح کے واقعہ سے ایسا ہمرنگ ہے کہ عیسائیوں کو بھی اس میں کلام نہیں ہوگی اس لئے خدائے تعالیٰ نے چاہا کہ آنے والے زمانہ کو بھی اس کی عظمت سے اور مسیحی مشابہت سے متنبہ کرے اس وجہ سے دمشق کا لفظ بطور استعارہ لیا گیا تا پڑھنے والوں کی آنکھوں کے سامنے وہ زمانہ آجائے جس میں لخت جگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت مسیح کی طرح کمال درجہ کے ظلم اور جور وجفا کی راہ سے دمشقی اشقیا کے محاصرہ میں آکر قتل کئے گئے۔ سو خدائے تعالیٰ نے اس دمشق کو جس سے ایسے پُر ظلم احکام نکلتے تھے اور جس میں ایسے سنگدل اور سیاہ درون لوگ پیدا ہوگئے تھے اس غرض سے نشانہ بنا کر لکھا کہ اب مثیل دمشق عدل اور ایمان پھیلانے کا ہیڈکوارٹر ہوگا۔ کیونکہ اکثر نبی ظالموں کی بستی میں ہی آتے رہے ہیں اور خدا تعالیٰ لعنت کی جگہوں کو برکت کے مکانات بناتا رہا ہے اس استعارہ کو خدائے تعالیٰ نے اس لئے اختیار کیا کہ تا پڑھنے والے دو فائدے اس سے حاصل کریں ایک یہ کہ امام مظلوم حسین رضی اللہ عنہ کا دردناک واقعۂ شہادت جس کی دمشق کے لفظ میں بطورپیشگوئی اشارہ کی طرز پر حدیث نبوی میں خبر دی گئی ہے اس کی عظمت اور وقعت دلوں پر کھل جائے۔ دوسرے یہ کہ تا یقینی طور پر معلوم کرجاویں کہ جیسے دمشق میں رہنے والے دراصل یہودی نہیں تھے مگر یہودیوں کے کا م انہوں نے کئے ایسا ہی جو مسیح اُترنے والا ہے دراصل مسیح نہیں ہے مگر مسیح کی روحانی حالت کا مثیل ہے اور اس جگہ بغیر اس شخص کے کہ جس کے د ل میں واقعہ حسین کی وہ عظمت نہ ہو جو ہونی چاہیئے ہریک شخص اس دمشقی خصوصیت کو جو ہم نے بیان کی ہے بکمال انشراح ضرور قبول کرلے گا اور نہ صرف قبول بلکہ اس مضمون پر نظر امعان کرنے سے گویا حق الیقین تک پہنچ جائے گا اور حضرت مسیح کو جو امام حسین رضی اللہ عنہ سے تشبیہ دی گئی ہے یہ بھی استعارہ در استعارہ ہے جس کو ہم آگے چل کر بیان کریں گے اب پہلے ہم یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ خدائے تعالیٰ نے مجھ پر یہ ظاہر فرمادیاہے کہ یہ قصبہ قادیان بوجہ اس کے کہ اکثر یزیدی الطبع لوگ اس میں سکونت رکھتے ہیں دمشق سے ایک مناسبت اور مشابہت رکھتا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ تشبیہات میں پور ی پوری تطبیق کی ضرور ت نہیں ہوتی بلکہ بسا اوقات ایک ادنیٰ مماثلت کی وجہ سے بلکہ صرف ایک جزو میں مشارکت کے باعث سے ایک چیز کانام دوسری چیز پر اطلاق کر دیتے ہیں مثلًا ایک بہادر انسان کو کہہ دیتے ہیں کہ یہ شیر ہے اور شیر نام رکھتے ہیں یہ ضروری نہیں سمجھاجاتا کہ شیر کی طرح اس کے پنجے ہوں اور ایسی ہی بدن پر پشم ہو اور ایک دُم بھی ہو بلکہ صرف صفت شجاعت کے لحاظ سے ایسا اطلاق ہوجاتا ہے اور عام طور پر جمیع انواع استعارات میں یہی قاعدہ ہے سو خدائے تعالیٰ نے اسی عام قاعدہ کے موافق اس قصبہ قادیان کو دمشق سے مشابہت دی اور اس بارہ میں قادیان کی نسبت مجھے یہ بھی الہام ہوا کہ اخرج منہ الیزیدیون یعنی اس میں یزیدی لوگ پیداکئے گئے ہیں۔ اب اگرچہ میرا یہ دعویٰ تو نہیں اور نہ ایسی کامل تصریح سے خدائے تعالیٰ نے میرے پر کھول دیا ہے کہ دمشق میں کوئی مثیل مسیح پیدا نہیں ہو گا بلکہ میرے نزدیک ممکن ہے کہ کسی آئندہ زمانہ میں خاص کر دمشق میں بھی کوئی مثیل مسیح پیدا ہوجائے مگر خدائے تعالیٰ خوب جانتا ہے اور وہ اس بات کا شاہد حا ل ہے کہ اس نے قادیان کو دمشق سے مشابہت دی ہے اور ان لوگوں کی نسبت یہ فرمایا ہے کہ یہ یزیدی الطبع ہیں یعنی اکثر وہ لوگ جو اس جگہ رہتے ہیں وہ اپنی فطرت میں یزیدی لوگوں کی فطرت سے مشابہ ہیں۔ اور یہ بھی مدّت سے الہام ہو چکا ہے کہ اِنَّا اَنْزَلْنَا ہُ قَرِیْبًا مِنَ الْقَادِیَان وَبِاْلحَقِّ اَنْزَلْنَاہُ وَبِالْحَقِّ نَزَلَ وَ کَانَ وَعْدُ اللّٰہِ مفْعُوْلًا یعنی ہم نے اُس کو قادیان کے قریب اتارا ہے اور سچائی کے ساتھ اُتارا اور سچائی کے ساتھ اُترا اور ایک دن وعدہ اللہ کاپور ا ہونا تھا۔ اس الہام پر نظرغور کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ قادیان میں خدائے تعالیٰ کی طرف سے اس عاجز کا ظاہر ہونا الہامی نوشتوں میں بطور پیشگوئی کے پہلے سے لکھاگیا تھا۔ اب چونکہ قادیان کو اپنی ایک خاصیت کی رُو سے دمشق سے مشابہت دی گئی تو اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ قادیان کا نام پہلے نوشتوں میں استعارہ کے طورپر دمشق رکھ کرپیشگوئی بیان کی گئی ہو گی کیونکہ کسی کتاب حدیث یاقرآن شریف میں قادیان کا نام لکھاہوانہیں پایاجاتا اور یہ الہام جو بَراہین احمدیہ میں بھی چھپ چکا ہے بصراحت وبآواز بلندظاہرکر رہا ہے کہ قادیان کانام قرآن شریف میں یا احادیث نبویہ میں بمدپیشگوئی ضرور موجود ہے اور چونکہ موجود نہیں تو بجز اس کے اَور کس طرف خیال جاسکتا ہے کہ خدائے تعالیٰ نے قادیان کا نام قرآن شریف یا احادیث نبویہ میں کسی اور پیرایہ میں ضرور لکھا ہوگا اور اب جو ایک نئے الہام سے یہ بات بپایۂ ثبوت پہنچ گئی کہ قادیان کو خدائے تعالیٰ کے نزدیک دمشق سے مشابہت ہے تو اُس پہلے الہام کے معنے بھی اس سے کھل گئے گویا یہ فقرہ جو اللہ جلّشانُہ‘ نے الہام کے طور پر اس عاجز کے دل پر القاکیاہے کہ اِنَّا اَنْزَلْنَا ہُ قَرِیْبًا مِنَ الْقَادِیَان اس کی تفسیریہ ہے کہ اِنَّا اَنْزَلْنَا ہُ قَرِیْبًا مِنْ دِمَشْقَ بِطَرْفٍ شَرْقِی عِنْدَ الْمَنَارَۃِ الْبَیْضَاء۔ کیونکہ اس عاجز کی سکونتی جگہ قادیان کے شرقی کنارہ پر ہے منارہ کے پاس۔ پس یہ فقرہ الہام الٰہی کا کہ کَانَ وَعْدُ اللّٰہِ مفْعُوْلًا اس تاویل سے پوری پوری تطبیق کھاکر یہ پیشگوئی واقعی طورپر پوری ہوجاتی ہے ۔‘‘
(ازالہ اوہام ۔روحانی خزائن جلد 3صفحہ 134تا139حاشیہ)
ایک دوسرے موقع پر وضاحت کرتے ہوئے فرمایا :۔
“اور دمشق کے شرقی منارہ سے ضروری نہیں کہ وہ حصہ شرقی منارہ دمشق کا جزہو چنانچہ اس بات کو تو تمام علماء مانتے آئے ہیں اور یاد رہے کہ قادیان ٹھیک ٹھیک دمشق سے شرقی طرف واقع ہے اور دمشق کے ذکر کی وجہ ہم بیان کر چکے ہیں۔ ایک اور نکتہ یاد رکھنے کے لائق ہے۔ یعنی یہ کہ جو مسلم کی حدیث میں یہ لفظ ہیں کہ مسیح موعود دمشق کے منارہ شرقی کے قریب نازل ہوگا اس لفظ کی تشریح ایک دوسری مسلم کی حدیث سے یہ ثابت ہوتی ہے کہ اس شرقی طرف سے مراد کوئی حصہ دمشق کا نہیں ہے۔ حدیث یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دجّال کا پتہ دینے کے لئے مشرق کی طرف اشارہ کیا تھا لفظ حدیث کے یہ ہیں کہ اَوْمَأَ الی المشرق۔ پس اس سے قطعی طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہدمشق کسی صورت سے مسیح کے ظہور کی جگہ نہیں کیونکہ وہ مکہ اور مدینہ سے مشرق کی طرف نہیں ہے بلکہ شمال کی طرف ہے اور مسیح کے ظہور کی جگہ وہی مشرق ہے جو دجّال کے ظہور کی جگہ حسب منشاءِ حدیث اَوْمَأَالی المشرق ہے یعنی حدیث سے ثابت ہے کہ دجّال کا ظہور مشرق سے ہوگا اور نواب مولوی صدیق حسن خاں صاحب حجج الکرامہ میں منظور کر چکے ہیں کہ فتنہ دجّالیہ کے لئے جو مشرق مقرر کیا گیا ہے وہ ہندوستان ہے۔
اس لئے ماننا پڑا کہ انوارِ مسیحیہ کے ظہور کا مشرق بھی ہندوستان ہی ہے کیونکہ جہاں بیمار ہو وہیں طبیب آنا چاہئے اور بموجب حدیث لو کان الایمان عند الثریّا لنالہ رجال او رجل من ھٰوٴلاء (ای من فارس) دیکھو بخاری صفحہ727*۔ رجل فارسی کا جائے ظہور بھی یہی مشرق ہے۔اور ہم ثابت کر چکے ہیں کہ وہی رجل فارسی مہدی ہے اس لئے ماننا پڑا کہ مسیح موعود اور مہدی اور دجّال تینوں مشرق میں ہی ظاہر ہوں گے اور وہ ملک ہند ہے۔‘‘
(*بخاری کتاب التفسیر سورة الجمعة)
(تحفہ گولڑویہ روحانی خزائن جلد17ص166تا167)
حضرت بانی جماعت احمدیہ کی دعوت مقابلہ تفسیر نویسی اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کی اصل واقعاتی حقیقت
قارئین کرام!آجکل سوشل میڈیا پر احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیزمنفی مہم میں الزام تراشیوں کا ا…