شعر ’’ابنِ مریم کے ذکر کو چھوڑو-اس سے بہتر غلامِ احمد ہے‘‘ پر اعتراض کا جواب
حضرت مسیح موعودؑ کے اس شعر پر اعتراض کیاجاتا ہے کہ ’’ابنِ مریم کے ذکر کو چھوڑو-اس سے بہتر غلامِ احمد ہے‘‘۔(دافع البلاء۔ رخ جلد 18ص240)کہ حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے آپ کو عیسیٰ بن مریم پر فضیلت دی ہے۔اور آپؑ کی توہین کی ہے ۔
حضرت مسیح موعودؑ نے کبھی حضرت عیسیٰؑ کی تحقیر یا توہین نہیں کی
سب سے اول حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک حوالہ پیش ہے ۔ آپؑ فرماتے ہیں :۔
’’ ہم اس بات کے لئے بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا تعالیٰ کا سچا اور پاک اور راستباز نبی مانیں اور اُن کی نبوت پر ایمان لاویں۔ سو ہماری کسی کتاب میں کوئی ایسا لفظ بھی نہیں ہے جو اُن کی شان بزرگ کے برخلاف ہو۔ اور اگر کوئی ایسا خیال کرے تو وہ دھوکہ کھانے والا اور جھوٹا ہے۔ ‘‘
(ایام الصلح۔ رخ جلد14ص228)
اب جبکہ یہ واضح ہو چکا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کہیں بھی حضرت عیسیٰ ابن مریم کی توہین نہیں کی توظاہر ہے معترضہ اشعار میں بھی کوئی توہین کا پہلو نہیں ۔
معترضہ شعر کا سیاق
علاوہ ازیں جب ہم معترضہ شعر سے پہلے اشعار دیکھتے ہیں تو ان میں سراسر نبی کریم ﷺ کی تعریف اور آپﷺ کے اوصاف کا بیان ملتا ہے ۔ ملاحظہ ہو :۔
زندگی بخش جام احمد ہے کیا پیارا یہ نام احمد ہے
لاکھ ہوں انبیاء مگر بخدا سب سے بڑھ کر مقام احمدہے
باغ احمد سے ہم نے پھل کھایا میرا بستاں کلام احمد ہے
اِبن مریم کے ذکر کو چھوڑو اُس سے بہتر غلامِ احمد ہے
یہ باتیں شاعرانہ نہیں بلکہ واقعی ہیں اور اگر تجربہ کے رو سے خدا کی تائید مسیح ابن مریم سے بڑھؔ کر میرے ساتھ نہ ہو تو میں جھوٹا ہوں۔ خدا نے ایسا کیا نہ میرے لئے بلکہ اپنے نبی مظلوم کے لئے۔‘‘
(دافع البلاء۔ رخ جلد 18ص240-241)
ایک اور جگہ آپؑ فرماتے ہیں :۔
’’ سوال:۔ آپ کی طرف سے نبی یا رسول ہونے کے کلمات شائع ہوئے ہیں اور یہ بھی کہ مَیں عیسیٰؑ سے افضل ہوں اور اَور بھی تحقیر کے کلمات بعض اوقات ہوتے ہیں جن پر لوگ اعتراض کرتے ہیں۔
حضرت اقدس:۔ ہماری طرف سے کچھ نہیں ہوتا۔مَیں ان باتوں کا خواہشمند نہیں تھا کہ کوئی میری تعریف کرے اور میں گوشہ نشینی کو ہمیشہ پسند کرتا رہا،لیکن مَیں کیا کروں،جب خداتعالیٰ نے مجھے باہر نکالا۔یہ کلمات میری طرف سے نہیں ہوتے۔۔۔۔
اور یہ بالکل غلط ہے کہ مَیں انبیاء ورسل یا صلحاء اُمّت کی تحقیر کرتا ہوں۔جیسے میں ابرارواخیار کا درجہ سمجھ سکتا ہوں اور اُن کے مقام وقرب کا جتنا علم مجھے ہے کسی دوسرے کو نہیں ہوسکتا کیونکہ ہم سب ایک ہی گروہ سے ہیں اورالجنس مع الجنس کے موافق دوسرے اس درجہ کے سمجھنے سے عاری ہیں۔
حضرت عیسیٰؑ اور امام حسینؓ کے اصل مقام اور درجہ کا جتنا مجھ کا علم ہے دوسرے کو نہیں ہے کیونکہ جوہری ہی جوہر کی حقیقت کو سمجھتا ہے۔اس طرح پر دوسرے لوگ خواہ امام حسینؓ کو سجدہ کریں مگر وہ اُن کے رُتبہ اور مقام سے محض ناواقف ہیں اور عیسائی خواہ حضرت عیسیٰؑ کو خدا کا بیٹا یا خدا جو چاہیں بنا ویں مگر وہ اُن کے اصل اتناع اور حقیقی مقام سے بے خبر ہیں اور ہم ہر گز تحقیر نہیں کرتے۔ ‘‘
(ملفوظات جلد 3ص530)
’’ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو ‘‘کا جواب از حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ
’’ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو
اس سے بہتر غلام احمد ہے
مطلب یہ ہے کہ ایک مرد کامل امت محمدیہ کے طفیل سے حضرت عیسیٰ کا نام دنیا جہان میں روشن ہو گیا ورنہ اہل کتاب نے جو یہود و نصاریٰ ’’بدنام کنندہ نکونا مے چند‘‘ ہیں‘ بسبب اپنے کفر و شرک کے اور اپنی بداعمالیوں کے سبب حضرت عیسیٰ کا نام تو میٹنا ہی چاہا تھا بلکہ میٹ چکے تھے مگر ایک غلام احمد نے ان کے نام کو دنیا جہان میں روشن کر دیا- پس ایک فرد کامل امت محمدیہ میں سے ان کے نام کے ساتھ مبعوث ہوا اور اس سے امت محمدیہ کو کوئی فخر حاصل نہیں ہوا بلکہ حضرت عیسیٰ کو اس بعثت مسیح موعود سے فخر حاصل ہوا ہے- و الحمد للہ۔‘‘
(خطبات نور ۔ مؤرخہ 27اپریل 1906)
’’ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو ‘‘کا جواب از حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نور اللہ مرقدہ
’’تھوڑے ہی دن ہوئے ایک مسلمان اخبار میں مَیں نے پڑھا کہ مرزا صاحب نے حضرت مسیح ناصری کی کتنی بڑی ہتک کی ہے کہ وہ کہتے ہیں :-
ابنِ مریم کے ذکر کو چھوڑو
اس سے بہتر غلامِ احمدؐ ہے
حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ جب تک وہ لوگ جو اعلیٰ سے اعلیٰ مدارجِ روحانیہ کے حامل ہیں اور اللہ تعالیٰ کے قُرب کے بلند ترین مقامات کو طے کر چکے ہیں یہ نہ کہیں کہ ہم نے جو کچھ حاصل کیا ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں حاصل کیا ہے ا ور یہ کہ اس قدر ترقی کرنے کے باوجود ہم اب بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام اور آپ کے خاکِ پا ہیں اُس وقت تک مقامِ محمدؐی کی فضیلت کسی طرح ثابت نہیں ہو سکتی اور نہ ختمِ نبوت کی حقیقت روشن ہو سکتی ہے۔ کوئی عیسیٰ کا مُرید اگر اس پر بُرا مناتا ہے تو بیشک بُرا منائے ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک سچّا غلام بڑے سے بڑامقام حاصل کر سکتا ہے اور جتنا بھی وہ بڑھتا چلاجائے گا محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار سے ہی استفادہ کریگا اور ہمیشہ آپ کے غلاموں اور چاکروں میں ہی اس کا شمار ہو گا۔ ہمیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ اس دعویٰ کے نتیجہ میں ہم مارے جائیں یا قتل کئے جائیں یا اپنے وطنوں سے نکال دئیے جائیں ہم فخر سمجھیں گے کہ ہم نے ماریں کھا کر اور گالیاں سن کر اور وطنوں سے بے وطن ہو کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بلند کیا اور آپ کی عظمت کو دنیامیں روشن کیا۔‘‘
’’ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو ‘‘کا جواب از حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ
’’ایک شعر جس پہ اعتراض کرتے ہیں غیراحمدی مولوی کہ حضرت عیسیٰ کی ہتک ہوئی ہے۔ حضرت عیسیٰ کی ہتک تو بالکل برداشت ہی نہیں کرسکتے۔ وہ یہ کہتے ہیں۔ وہ شعر یہ ہے کہ:
ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو
اس سے بڑھ کر غلام احمد ہے
اب لفظ غلام احمد ان کو نظر نہیں آتا۔ ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو نظر آجاتا ہے۔ ابن مریم کا ذکر تم کیا لگائے پھرتے ہو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا غلام جو ابن مریم بن کے آیا ہے۔ وہ اس ابن مریم سے بہتر ہے جو پہلے ظاہر ہوا تھا۔ کیونکہ یہ غلام محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم ہے۔ وہ غلام موسیٰ تھا۔ یہ اتنی سی منطق بھی ان لوگوں کو سمجھ نہیں آتی۔‘‘
(درس القرآن ماہ رمضان 16 رمضان 15 جنوری 1998ء)
حضرت بانی جماعت احمدیہ کی دعوت مقابلہ تفسیر نویسی اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کی اصل واقعاتی حقیقت
قارئین کرام!آجکل سوشل میڈیا پر احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیزمنفی مہم میں الزام تراشیوں کا ا…