اعتراض: مرزا صاحب نے دعویٰ کیا کہ آپؑ پر نازل ہونے والی وحی ٹھیک قرآن کے برابر ہے
حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ آپؑ نے یہ دعویٰ کیا کہ آپؑ پر نازل ہونے والی وحی ٹھیک قرآن کے برابر ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام قرآن کریم کو یکتااور منفرد سمجھتے ہیں
معترضین اس الزام کے ثبوت کے طور حضر ت مسیح موعود علیہ السلام کی مندرجہ ذیل تحریر پیش کرتےہیں:۔
آنچہ من بشنوم ز وحی خدا
بخدا پاک دانمش ز خطا
ہمچو قرآن منزہ اش دانم
از خطاہا ہمیں است ایمانم
(نزول المسیح۔ روحانی خزائن جلد18صفحہ 477)
ترجمہ :۔ ’’یعنی خدا کی جو وحی میں سنتا ہوں خدا کی قسم میں اسے ہر غلطی سے پاک سمجھتا ہوں۔ قرآن کی طرح اسے تمام غلطیوں سے پاک یقین کرتا ہوں، یہی میرا ایمان ہے۔‘‘(ناقل)
’’ میں ان الہامات پر اسی طرح ایمان لاتاہوں جیسا کہ قرآن شریف پر اور خدا کی دوسری کتابوں پر اور جس طرح میں قرآن شریف کو یقینی اور قطعی طور پر خدا کا کلام جانتاہوں اسی طرح اس کلام کو بھی جو میرے پر نازل ہوتاہے۔ خدا کا کلام یقین کرتاہوں۔ ‘‘
(روحانی خزائن ج22 ص220حقیقۃ الوحی۔)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
”ہماری طرف سے یہ دعویٰ ہے جس کو ہم بمقابل ہر یک فریق کے ثابت کرنے کو تیار ہیں کہ وحی قرآن اپنی تمام تعلیم اور اپنے معارف اور برکات اور
علوم میں ہر یک وحی سے اقویٰ و اعلیٰ ہے۔“
(سرمہ چشم آریہ روحانی خزائن جلد2حاشیہ صفحہ248)
پس نزول المسیح میں مندرجہ اشعار میں کوئی اعتراض پیدا نہیں ہوتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صرف یہ فرما رہے ہیں کہ وہ وحی و الہام جو آپؑ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتا ہے اس پر آپؑ کو کامل یقین ہے جس طرح آپؑ کو اس بات پر کامل یقین ہے کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔اور یہی بات حقیقۃ الوحی میں فرما رہے ہیں۔ حضور ؑ کا یہ منشا ہرگز نہیں کہ آپؑ کی وحی قرآن کریم سے درجہ میں برابر اور ہم پلہ ہے ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ ہی خدمت قرآن، اشاعت قرآن اور احیائے تعلیمات قرآن کے لیے آنے والےمصلح ہونے کا ہے۔اس ضمن میں آپؑ کی چند تحریرات نمونۃً پیش ہیں:۔
”فی الحقیقت قرآن شریف اپنے معارف اور حکمتوں اور پر برکت تأثیروں اور بلاغتوں میں اس حد تک پہنچا ہوا ہے جس تک پہنچنے سے انسانی طاقتیں عاجز
ہیں اور جس کا مقابلہ کوئی بشر نہیں کر سکتا اور نہ کوئی دوسری کتاب کر سکتی ہے۔“
(سرمہ چشم آریہ روحانی خزائن جلد2صفحہ248)
نیز فرماتے ہیں:
”جاننا چاہئے کہ کھلا کھلا اعجاز قرآن شریف کا جو ہر ایک قوم اور ہر ایک اہل زبان پر روشن ہو سکتا ہے جس کو پیش کر کے ہم ہر ایک ملک کے آدمی کو خواہ ہندی ہو یا پارسی یا یورپین یا امریکن یا کسی اور ملک کا ہو ملزم و ساکت و لا جواب کر سکتے ہیں۔ وہ غیر محدود معارف و حقائق و علوم حکمیہ قرآنیہ ہیں جو ہر زمانہ میں اس زمانہ کی حاجت کے موافق کھلتے جاتے ہیں۔ اور ہر ایک زمانہ کے خیالات کا مقابلہ کرنے کے لیے مسلح سپاہیوں کی طرح کھڑے ہیں اگر قرآن شریف اپنے حقائق و دقائق کے لحاظ سے ایک محدود چیز ہوتی تو ہرگز وہ معجزہ تامہ نہیں ٹھہر سکتا تھا۔۔۔ کھلا کھلا اعجاز اس کا تو یہی ہے کہ وہ غیر محدود معارف و دقائق اپنے اندر رکھتا ہے۔۔۔۔
یقینا یاد رکھو کہ قرآن شریف میں غیر محدود معارف و حقائق کا اعجاز ایسا کامل اعجاز ہے جس نے ہر ایک زمانہ میں تلوار سے زیادہ کیا ہے اور ہر یک زمانہ اپنی نئی حالت کے ساتھ جو کچھ شبہات پیش کرتا ہے یا جس قسم کے اعلی معارف کا دعویٰ کرتا ہے اس کی پوری مدافعت اور پورا الزام اور پورا پورا مقابلہ قرآن شریف میں موجود ہے۔“
(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد3 صفحہ255-257)
ان تحریرات کو پڑھ کر ہر سعید فطرت انسان پر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کسی بھی رنگ میں اگر کوئی اعجاز عطا ہوا ہوا ہے تو وہ یقینا قرآن کریم کی برکت سے ہی ملا ہے نہ کہ اس سے الگ اور آزادانہ طور پر اور اس کے مقابلہ پر۔ حضور علیہ السلام کے نزدیک دراصل یہ اعجاز قرآن کریم کا اعجاز ہے جو دنیا پر قرآن کریم کی حقانیت ثابت کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ قرآن سے محبت کرنے والوں کو عطافرماتا ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
”قرآن کریم کی زبردست طاقتوں میں سے ایک یہ طاقت ہے کہ اس کی پیروی کرنے والے کو معجزات اور خوارق دئیے جاتے ہیں اور وہ اس کثرت سے ہوتے ہیں کہ دنیا ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔“
(چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد23 صفحہ409)
پس یہ معترض کا صریح جھوٹ اور افتراء ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے پر نازل ہونے والی وحی کو قرآن کے مقابل پر اعجاز سمجھتے تھے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ ہر اس فضیلت اور انعام کو جو آپ علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے عطافرمایا، قرآن کریم کے فیض کا نتیجہ اور اس کی برکت یقین کرتے تھے۔
چنانچہ جس کتاب سے معترض نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشعار کو ان کے اصل معنی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پیش کیا ہے اسی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
”ہمارارتو یہ دعویٰ ہے کہ معجزہ کے طور پر خدا تعالیٰ کی تائید سے انشاء پردازی کی ہمیں طاقت ملی تا معارف و حقائق قرآنی کو اس پیرایہ میں بھی ظاہر
کریں اور وہ بلاغت جو ایک بے ہودہ اور لغو طور پر اسلام میں رائج ہو گئی تھی اس کو کلام الہٰی کا خادم بنایا جائے۔“
(نزول المسیح روحانی خزائن جلد18صفحہ437)
ایک اور جگہ فرمایا ہے:
”میں قرآن شریف کے معجزہ کے ظل پر عربی بلاغت و فصاحت کا نشان دیا گیا ہوں۔ کوئی نہیں کہ جو اس کا مقابلہ کر سکے۔“
(ضرورة الامام روحانی خزائن جلد13صفحہ496)
قرآن کریم کی مدح و توصیف نثر میں تو لوگ بیان کیا ہی کرتے تھے مگر نظم میں پہلی بار حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اشعار رقم فرمائے۔آپکے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں
قرآں کے گرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے
(قادیان کے آریہ اور ہم روحانی خزائن جلد20 صفحہ457)
مزید فرماتے ہیں:
جمال و حسن قرآں نور جان ہر مسلماں ہے
قمر ہے چاند اَوروں کا ہمارا چاند قرآں ہے
نظیر اس کی نہیں جمتی نظر میں فکر کر دیکھا
بھلا کیونکر نہ ہو یکتا کلام پاک رحماں ہے
بہار جاوداں پیدا ہے اس کی ہر عبارت میں
نہ وہ خوبی چمن میں ہے نہ اس سا کوئی بستاں ہے
کلام پاک یزداں کا کوئی ثانی نہیں ہرگز
اگر لولوئے عماں ہے و گر لعل بدخشاں ہے
(براہین احمدیہ حصہ سوم روحانی خزائن جلد1 صفحہ198-200)
مزید فرماتے ہیں:
نور فرقاں ہے جو سب نوروں سے اجلی نکلا
پاک وہ جس سے یہ انوار کا دریا نکلا
حق کی توحید کا مرجھا ہی چلا تھا پودا
ناگہاں غیب سے یہ چشمہ اصفیٰ نکلا
یا الہٰی تیرا فرقاں ہے کہ اک عالم ہے
جو ضروری تھا وہ سب اس میں مہیا نکلا
سب جہاں چھان چکے ساری دکانیں دیکھیں
مئے عرفاں کا یہی ایک ہی شیشہ نکلا
کس سے اس نور کی ممکن ہو جہاں میں تشبیہ
وہ تو ہر بات میں ہر وصف میں یکتا نکلا
(براہین احمدیہ حصہ سوم روحانی خزائن جلد1صفحہ305)
پس جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ ایمان ہے کہ قرآن کریم کو کسی چیز سے تشبیہ بھی نہیں دی جاسکتی ہے۔ پھر یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ آپ
علیہ السلام اپنے پر نازل ہونے والی وحی کو قرآن کریم کے برابر ٹھہراتے ہوں؟
حضرت بانی جماعت احمدیہ کی دعوت مقابلہ تفسیر نویسی اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کی اصل واقعاتی حقیقت
قارئین کرام!آجکل سوشل میڈیا پر احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیزمنفی مہم میں الزام تراشیوں کا ا…