حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کا اپنی پہلی بیوی اور ایک بیٹے سے قطع تعلّق کرنا
حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ آپؑ نے ادھیڑ عمر میں اپنی پہلی بیوی کو طلاق دیکر دوسری شادی کرلی اور اپنی پہلی اولاد کو جائیداد سے بھی بے دخل کردیا جوکہ نبی کریمﷺ کے فیصلہ خَیْرُ کُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖ وَ اَنَا خَیْرُ کُمْ لِاَھْلِیْ یعنی تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لئے بہترین ہے کے خلاف ہے۔کیا ایک نبی کے یہ شایان شان ہے؟
طلاق دینے کی وجہ دین سےبے رغبتی تھی
حضرت مسیح موعودؑ نے جیسا کہ انبیا ء کا دستور ہوا کرتا ہے کہ اپنے اہل و عیال کو دین کی طرف راغب کرنے کی سعی کرتے ہیں ہر ممکن کوشش کی۔لیکن ان کا دین کی طرف میلان نہ تھا۔یہی وجہ تھی کہ حضرت صاحب نے اپنی پہلی بیوی سے خاص تعلقات ترک کر دئے البتہ حسن معاشرت ان سے ہر دم رہا۔بعد ازیں ان کی دین کے معاملہ میں مخالفت پر بھی آپ نے انہیں تنبیہہ کی لیکن ان کے منع نہ ہونے پر آپؑ نے دینی غیرت کی خاطر انہیں طلاق دیدی۔
آپؑ کی دوسری بیوی حضرت نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ کا بیان ذیل میں مزید تفصیل کے لئے درج کیا جاتا ہے۔حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ بیان فرماتے ہیں :۔
’’بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اوائل سے ہی مرزا فضل احمد کی والدہ سے جن کو لوگ عام طور پر ” پھجے دی ماں کہاکرتے تھے بے تعلقی سی تھی جس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت صاحب کے رشتہ داروں کو دین سے سخت بے رغبتی تھی اور ان کا ان کی طرف میلان تھا اور وہ اسی رنگ میں رنگین تھیں اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان سے مباشرت ترک کردی تھی ہاں آپ اخراجات وغیرہ باقاعدہ دیا کرتے تھے ۔والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ میری شادی کے بعد حضرت صاحب نے انہیں کہلا بھیجا کہ آج تک تو جس طرح ہوتا رہا ہوتا رہا اب میں نے دوسری شادی کر لی ہے اس لئے اب اگر دونوں بیویوں میں برابری نہیں رکھو ں گا تو میں گنہگار ہوں گا اس لئے اب دو باتیں ہیں یا تو تُم مجھ سے طلاق لے لو اور یا مجھے اپنے حقوق چھوڑ دو میں تم کو خرچ دیئے جاوں گا ۔انہوں نے کہلا بھیجا کہ اب میں بڑھاپے میں کیا طلاق لوں گی بس مجھے خرچ ملتا رہے میں اپنے باقی حقوق چھوڑتی ہوں۔والدہ صاحبہ فرماتی ہیں چنانچہ پھر ایسا ہی ہوتا رہا حتّٰی کہ محمد ی بیگم کا سوال اُٹھا اور آپ کے رشتہ داروں نے مخالفت کر کے محمد ی بیگم کا نکاح دوسری جگہ کر ا دیا اور فضل احمد کی والدہ نے ان سے قطع تعلق نہ کیا بلکہ ان کے ساتھ رہی تب حضرت صاحب نے ان کو طلاق دے دی ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کا یہ طلاق دینا آپ کے اس اشتہار کے مطابق تھا جو آپ نے 2مئی 1981ءکو شائع کیا اور جس کی سرخی تھی ” اشتہار نصرت دین و قطع تعلق از اقارب مخالف دین “ اس میں آپ نے بیان فرمایا تھا کہ اگر مرزا سلطا ن احمد اور ان کی والدہ اس امر میں مخالفانہ کوشش سے الگ نہ ہوگئے تو پھر آپ کی طرف سے مرزا سلطان احمد عاق اور محروم الارث ہوں گے اور ان کی والدہ کو آپ کی طرف سے طلاق ہوگی ۔والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ فضل احمد نے اس وقت اپنے آپ کو عاق ہونے سے بچا لیا ۔نیز والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ اس واقعہ کے بعد ایک دفعہ فضل احمد کی والدہ بیمار ہوئیں تو چونکہ حضرت صاحب کی طرف سے مجھے اجازت تھی میں انہیں دیکھنے کے لئے گئی ۔ واپس آکر میں نے حضرت صاحب سے ذکر کیا کہ پھّجے کی ماں بیمار ہے اور یہ تکلیف ہے ۔ آپ خاموش رہے ۔ میں نے دوسری دفعہ کہاتو فرمایا میں تمہیں دو گولیاں دیتا ہوں یہ دے آؤ مگر اپنی طرف سے دینا میرا نام نہ لینا ۔والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ اور بھی بعض اوقات حضرت صاحب نے اشارةً کنایۃً مجھ پر ظاہر کیا کہ میں ایسے طریق پر کہ حضرت صاحب کا نام درمیان میں نہ آئے اپنی طرف سے کبھی کچھ مدد کر دیا کروں سو میں کر دیا کرتی تھی۔‘‘ (سیرت المہدی جلد اول صفحہ30-31روایت نمبر41)
نبی کریم ﷺ کا اسوہ
ہمارے سامنے نبی کریمﷺ کا نمونہ موجود ہے جو اس ضمن میں ہماری راہنمائی فرماتا ہے۔قرآن مجید میں آتا ہے:۔
یٰاَیُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَ زِيْنَتَهَا فَتَعَالَيْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَ اُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا۔ (الاحزاب :29)
کہ جب آپ ؐ نے اپنی ازواج سے فرمایا کہ اگر تم دنیا چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں دنیاوی متاع دے کر رخصت کر دیتا ہوں۔
آپﷺ کی ازواج کا مال طلب کرنا کوئی معصیت نہ تھا جبکہ دوسروں کو اموال میں سے حصہ مل رہا تھا ۔مگر خدا تعالی اور رسول اللہﷺ ان کا کردار بلند دیکھنا چاہتے تھے ۔اور ان کے دلوں کو دنیا کی محبت سے خالی کرنا چاہتے تھے ۔اس لئے خدا تعالی نے بھی آنحضرتﷺ کو ان کے اس مطالبہ پر قائم رہنے کی صورت میں طلاق دینے کی اجازت دے دی۔ لیکن انہوں نے اپنا مطالبہ ترک کر دیا اور نہایت شاندار کردار کا مظاہرہ کیا ۔اس لئے حضور کو طلاق نہ دینا پڑی۔
لیکن حضرت مسیح موعودؑ کے انذار اور بار بار سمجھانے کے باوجود جب ان کی زوجہ نے دین کے معاملہ میں آپ کی مخالفت نہ چھوڑی تو آپ نے دین کی سربلندی کی خاطر انہیں طلاق دیدی۔
اشتہار نصرت دین و قطع تعلق از اقارب
چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ اس اشتہار میں تحریر فرماتے ہیں:۔
”اس کام( محمدی بیگم کے دوسری جگہ نکاح)کے مدار المہام وہ ہوگئے جن پر اس عاجز کی اطاعت فرض تھی اور ہر چند سلطان احمد کوسمجھایا اوربہت تاکیدی خط لکھےکہ تو اور تیری والدہ اس کام سے الگ ہو جائیں ورنہ میں تم سے جدا ہو جاؤں گااور تمہارا کوئی حق نہ رہے گا۔مگر انہوں نے میرے خط کا جواب تک نہ دیااور بکلی مجھ سے بیزاری ظاہر کی۔اگر ان کی طرف سے تیز تلوار کا بھی مجھے زخم پہنچتا تو بخدا میں اس پر صبر کرتا ۔لیکن انہوں نے دینی مخالفت کر کےاور دینی مقابلہ سے آزار دے کر مجھے بہت ستایا اور اس حد تک میرے دل کو توڑ دیا کہ میں بیان نہیں کر سکتا۔اور عمدًا چاہا کہ میں سخت ذلیل کیا جاؤں۔۔۔۔۔۔اس لئے میں نہیں چاہتا کہ اب ان کا کسی قسم کا تعلق مجھ سے باقی رہے۔اور ڈرتا ہوں کہ ایسے دینی دشمنوں سے پیوند رکھنے سے معصیت نہ ہو”۔ (مجموعہ اشتہارات جلد اول ص206-208)
جہاں تک دوسری شادی کے بعد پہلی بیوی کے حقوق چھوڑنے کا تعلق ہے تو یہ آپؑ کی پہلی بیوی کی اپنی رائے تھی جیسا کہ حضرت سودہؓ نے بھی آنحضرت ﷺسے اپنا حق چھوڑ دیا تھا اور اپنی باری حضرت عائشہ کو دے دی تھی۔ (صحیح بخاری،کتاب النکاح،باب من زوجھا لعزتھا و کیف یقسم ذالک)
حضرت بانی جماعت احمدیہ کی دعوت مقابلہ تفسیر نویسی اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کی اصل واقعاتی حقیقت
قارئین کرام!آجکل سوشل میڈیا پر احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیزمنفی مہم میں الزام تراشیوں کا ا…