چاند اور سورج گرہن کے دو زبردست نشان
’’رسول کریم ؐ نے مسیح موعود کے زمانے کے بعض فلکی حالات بھی بیان فرمائے ہیں ۔مثلاً یہ کہ اس وقت سورج اور چاند کو رمضان کے مہینے میں خاص تاریخوں میں گرہن لگے گا اور اس علامت پر اس قدر زور دیا گیا ہے کہ رسول کریمؐ نے فرمایا کہ جب سے زمین وآسمان پیدا ہوئے ہیں یہ دونوں علامتیں کسی اور نبی کی تصدیق کے لئے ظاہر نہیں ہوئیں، حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
إِنَّ لِمَهْدِينَا آيَتَيْنِ لَمْ تَكُونَا مُنْذُ خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ تَنْكَسِفُ الْقَمَرُ لأَوَّلِ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ وَتَنْكَسِفُ الشَّمْسُ فِى النِّصْفِ مِنْهُ وَلَمْ تَكُونَا مُنْذُ خَلَقَ اللَّهُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ (دار قطنی کتاب العیدین باب صفۃ صلوٰۃ الخسوف)
یعنی آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ہمارے مہدی کے دو نشان ہیں۔یہ نشان آسمان وزمین کی پیدائش کے وقت سے لے کر اب تک کبھی ظاہر نہیں ہوئے ، ایک تو یہ کہ قمر (چاند) کو رمضان میں پہلی رات میں گرہن لگے گا اور دوسرا یہ کہ سورج کو اسی رمضان کی درمیانی تاریخ میں گرہن لگے گا اور یہ دونوں باتیں آسمان و زمین کی پیدائش کے وقت سے نہیں ہوئیں۔
یہ نشان اپنے اندر کئی خصوصیات رکھتا ہے
1۔ ایک تو یہ کہ اس میں بیان کیا گیا ہے کہ سوائے مہدی کے کسی مدعی کے لئے یہ نشان کبھی ظاہر نہیں ہوا
2۔ دوسرے یہ کہ اس نشان پر کتب اہل سنت وشیعہ متفق ہیں کیونکہ دونوں کی کتب حدیث میں اس کا ذکر ہے۔ پس اس میں شبہ تدلیس وغیرہ کا نہیں کیا جا سکتا۔
3۔ تیسری خصوصیت اس نشان میں یہ ہے کہ جو علامتیں اس میں بتائی گئیں ہیں پہلی کتب میں بھی انہی علامتوں کے ساتھ مسیح کی آمد ثانی کی خبر دی گئی ہے چنانچہ انجیل میں آتا ہے کہ مسیح علیہ السلام نے اپنی آمد کی نشانیوں میں سے ایک یہ علامت بھی بتائی ہے کہ اس وقت ’’سورج تاریک ہوجائے گا اور چاند اپنی روشنی نہ دے گا‘‘ (متی باب 24 آیت30) جس کا مطلب دوسرے الفاظ میں یہ ہے کہ سورج اور چاند کو اس کے زمانے میں گرہن لگے گا۔۔۔
قرآن کریم میں اس پیشگوئی کا ذکر
قرآن کریم میں قرب قیامت کی علامتوں میں سے ایک علامت سورج اور چاند گرہن کی بیان کی گئی ہے۔ سورۃ قیامت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
يَسْأَلُ أَيَّانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ ۔ فَإِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ ۔ وَخَسَفَ الْقَمَرُ ۔ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ (القیامۃ 7 تا 10)
ترجمہ: (منکر)پوچھتا ہے کہ قیامت کا دن کب ہے؟ ہم اس کی علامتیں بتاتے ہیں وہ تب ہوں گی جب آنکھیں متحیر رہ جائیں گی، یعنی ایسے حادثات ہوں گے کہ انسان کو حیرت میں ڈال دیں گے اور چاند کو گرہن لگے گا اور پھر سورج اور چاند جمع کر دئیے جائیں گے یعنی اسی ماہ میں چاند گرہن کے بعد سورج گرہن ہوگا۔
چونکہ مسیح کی آمد بھی قیامت کے قریب زمانے میں بتائی گئی ہے اس لئے قرآن کریم سے بھی مذکورہ بالا حدیث کے مضمون کی تائید ہوتی ہے۔
واقعہ سورج و چاند گرہن غرض جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے یہ پیشگوئی خاص اہمیت رکھتی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ 1311ہجری مطابق 1894ءمیں یہ پیشگوئی بعینہٖ انہیں الفاظ میں پوری ہو گئی ہے جن الفاظ میں کہ احادیث میں اسے بیان کیا گیا تھا، یعنی اس سن کے رمضان میں چاند گرہن کی تاریخوں میں سے پہلی یعنی تیرھویں تاریخ کو چاند کو گرہن لگا اور سورج گرہن کی تاریخوں میں سے درمیانی یعنی اٹھائیسویں تاریخ کو سورج کو گرہن لگا اور ایک ایسے آدمی کے زمانے میں لگا جو مہدویت کا دعویٰ کر رہا تھا۔
پس ہر ایک مسلمان کہلانے والے کے لئے دو راستوں میں سے ایک کا اختیار کرنا فرض ہوگیا یا تو وہ اس کلام نبویؐ پر ایمان لاوے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ یہ نشان کہ اس کے زمانے میں چاند اور سورج کو گرہن لگنے کی پہلی اور درمیانی تاریخوں میں گرہن لگے گا ،سوائے مہدی کے اور کسی کے لئے ظاہر نہیں کیا گیا اور جس کی تائید قرآن کریم اور پہلے انبیاء کی کتب سے بھی ہوتی ہے اور اس شخص کو قبول کرے جس کے دعوائے مہدویت کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ نشان ظاہر کیا ،یا پھر خدا اور اس کے رسول ؐ کو چھوڑ دے کہ انہوں نے ایک ایسی علامت مہدی کی بتائی جو درحقیقت کوئی علامت ہی نہیں تھی اور جس سے کسی مدعی کے دعویٰ کی صداقت ثابت کرنا خلاف عقل ہے۔
گرہن کی تاریخ کے متعلق اعتراض
بعض لوگ یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ پیشگوئی میں چاند کو پہلی تاریخ اور سورج کو درمیانی تاریخ میں گرہن لگنے کی خبر دی گئی ہے ، لیکن جس گرہن کا تم ذکر کرتے ہو وہ تیرھویں اور اٹھائیسویں تاریخ کو ہوا ہے، لیکن یہ اعتراض ایک ذرا سے تدبر سے نہایت غلط اور الفاظِ حدیث کے خلاف معلوم ہوتا ہے۔یہ لوگ اس امر کو نہیں دیکھتے کہ چاند اور سورج کو خاص تاریخوں میں گرہن لگا کرتا ہے اور اس قاعدے میں فرق نہیں پڑ سکتا۔ جب تک کائنات عالم کو تہ وبالا نہ کر دیا جائے ۔ پس اگر وہ معنی درست ہیں جو یہ لوگ کرتے ہیں تو یہ نشان قیامت کی علامت تو ہو سکتا ہے ، مگر قرب قیامت اور زمانہ مہدی کی علامت نہیں ہو سکتا۔
لفظ ’’قمر‘‘ پر غور کرنا چاہیے
علاوہ ازیں یہ لوگ پہلی اور درمیانی کے الفاظ کو تو دیکھتے ہیں ، لیکن قمر کے لفظ کو نہیں دیکھتے پہلی تاریخ کا چاند عربی زبان میں ہلال کہلاتا ہے ،قمر تو چوتھی تاریخ سے اس کا نام ہوتا ہے۔ لغت میں لکھا ہے۔
وَھُوَ قَمَرٌ بَعْدَ ثَلاَثِ لَیَالٍ اِلیٰ اٰخِرِ الشَّھْرِ وَاَمَّا قَبْلَ ذٰلِکَ فَھُوَ ہِلَالٌ (اقرب الموارد زیر لفظ قمر)
یعنی چاند تین راتوں کے بعد قمر بنتا ہے اور مہینے کے آخر تک قمر رہتا ہے مگر پہلی تین راتوں میں وہ ہلال ہوتا ہے۔
پس باوجود حدیث میں قمر کا لفظ استعمال ہونے کے اور باوجود اس قانون قدرت کے چاند کو تیرہ، چودہ، پندرہ کو گرہن لگتا ہے نہ کہ پہلی تاریخ کو ۔ پہلی تاریخ سے مہینے کی پہلی تاریخ مراد لینا اور چاند گرہن کی تاریخوں میں سے پہلی تاریخ مراد نہ لینا بالکل خلاف عقل وخلاف انصاف ہے اور اس کی غرض سوائے اس کے کچھ نہیں معلوم ہوتی کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کا کلام جھوٹا ہو اور آسمان سے آنے والے پر لوگ ایمان نہ لے آئیں‘‘
(ماخوذ از دعوۃ الامیر از حضر ت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ ۔انوار العلوم جلد 7 ص 418تا420)
سورج و چاند گرہن کے پیشگوئی پر ہونے والے اعتراضات کے جوابات
حدیث کے لفظ یہ ہیں کہ چاند گرہن پہلی رات میں ہوگا اور سُورج گرہن بیچ کے دن میں مگر ایسا نہیں ہوا یعنی ۔۔۔ ’’چاند گرہن شبِ ہلال کو ہونا چاہئے تھا جو قمری مہینہ کی پہلی رات ہے اور سُورج گرہن قمری مہینہ کے پندرھویں دن کو ہونا چاہئے تھا جو مہینہ کا بیچواں دن ہے۔‘‘
حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں :
’’ بڑا افسوس ہے کہ ہمارے مخالف سراسر تعصب سے یہ اعتراض کرتے ہیں۔ اوّل یہ کہ حدیث کے لفظ یہ ہیں کہ چاند گرہن پہلی رات میں ہوگا اور سُورج گرہن بیچ کے دن میں مگر ایسا نہیں ہوا یعنی اُن کے زعم کے موافق ’’چاند گرہن شبِ ہلال کو ہونا چاہئے تھا جو قمری مہینہ کی پہلی رات ہے اور سُورج گرہن قمری مہینہ کے پندرھویں دن کو ہونا چاہئے تھا جو مہینہ کا بیچواں دن ہے۔‘‘ مگر اس خیال میں سراسر ان لوگوں کی نا سمجھی ہے کیونکہ دنیا جب سے پیدا ہوئی ہے چاند گرہن کے لئے تین راتیں خدا تعالیٰ کے قانون قدرت میں مقرر ہیں یعنی تیرھویں چودھویں پندرھویں اور چاند گرہن کی پہلی رات جو خدا کے قانونِ قدرت کے مطابق ہے وہ قمری مہینے کی تیرھویں رات ہے اور سورج کے گرہن کے لئے تین دن خدا کے قانون قدرت میں مقرر ہیں۔ یعنی قمری مہینے کا ستائیسواں اٹھائیسواں اور انتیسواں دن۔ اور سورج کے تین دن گرہن میں سے قمری مہینہ کے رُو سے اٹھائیسواں دن بیچ کا دن ہے۔ سو ا نہیں تاریخوں میں عین حدیث کے منشاء کے موافق سورج اور چاند کا رمضان میں گرہن ہوا۔ یعنی چاند گرہن رمضان کی تیرھویں رات میں ہوا اور سورج گرہن اسی رمضان کے اٹھائیسویں دن ہوا۔ اور عرب کے محاورہ میں پہلی رات کا چاند قمر کبھی نہیں کہلاتا بلکہ تین دن تک اُس کا نامؔ ہلال ہوتا ہے اور بعض کے نزدیک سات دن تک ہلال کہلاتا ہے۔ ‘‘ (حقیقۃ الوحی۔ رخ جلد 22ص203)
دوسرا یہ اعتراض ہے کہ اگر ہم قبول کر لیں کہ چاند کی پہلی رات سے مُراد تیرھویں رات ہے اور سورج کے بیچ کے دن سے مُراد اٹھائیسواں دن ہے تو اس میں خارق عادت کونسا امر ہوا کیا رمضان کے مہینہ میں کبھی چاند گرہن اور سورج گرہن نہیں ہوا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :۔
’’ تو اِس کا جواب یہ ہے کہ اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ رمضان کے مہینہ میں کبھی یہ دونوں گرہن جمع نہیں ہوئے بلکہ یہ مطلب ہے کہ کسی مُدعی رسالت یا نبوت کے وقت میں کبھی یہ دونوں گرہن جمع نہیں ہوئے جیسا کہ حدیث کے ظاہر الفاظ اِسی پر دلالت کر رہے ہیں۔ اگر کسی کا یہ دعویٰ ہے کہ کسی مدعی نبوت یا رسالت کے وقت میں دونوں گرہن رمضان میں کبھی کسی زمانہ میں جمع ہوئے ہیں تو اس کا فرض ہے کہ اس کا ثبوت دے۔ خاص کر یہ امر کس کو معلوم نہیں کہ اسلامی سن یعنی تیرہ سو برس میں کئی لوگوں نے محض افترا کے طور پر مہدی موعود ہونے کا دعویٰ بھی کیا بلکہ لڑائیاں بھی کیں۔ مگر کون ثابت کر سکتا ہے کہ اُن کے وقت میں چاند گرہن اور سورج گرہن رمضان کے مہینہ میں دونوں جمع ہوئے تھے۔ اور جب تک یہ ثبوت پیش نہ کیا جائے تب تک بلا شبہ یہ واقعہ خارق عادت ہے کیونکہ خارق عادت اسی کو توکہتے ہیں کہ اس کی نظیر دنیا میں نہ پائی جائے اور صرف حدیث ہی نہیں بلکہ قرآن شریف نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ دیکھو آیت وَخَسَفَ الْقَمَرُ۔ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ۔(القیامۃ:9-10)‘‘ (حقیقۃ الوحی۔ رخ جلد 22ص203-204)
’’ بڑا افسوس ہے کہ ہمارے مخالف سراسر تعصب سے یہ اعتراض کرتے ہیں۔ اوّل یہ کہ حدیث کے لفظ یہ ہیں کہ چاند گرہن پہلی رات میں ہوگا اور سُورج گرہن بیچ کے دن میں مگر ایسا نہیں ہوا یعنی اُن کے زعم کے موافق ’’چاند گرہن شبِ ہلال کو ہونا چاہئے تھا جو قمری مہینہ کی پہلی رات ہے اور سُورج گرہن قمری مہینہ کے پندرھویں دن کو ہونا چاہئے تھا جو مہینہ کا بیچواں دن ہے۔‘‘ مگر اس خیال میں سراسر ان لوگوں کی نا سمجھی ہے کیونکہ دنیا جب سے پیدا ہوئی ہے چاند گرہن کے لئے تین راتیں خدا تعالیٰ کے قانون قدرت میں مقرر ہیں یعنی تیرھویں چودھویں پندرھویں اور چاند گرہن کی پہلی رات جو خدا کے قانونِ قدرت کے مطابق ہے وہ قمری مہینے کی تیرھویں رات ہے اور سورج کے گرہن کے لئے تین دن خدا کے قانون قدرت میں مقرر ہیں۔ یعنی قمری مہینے کا ستائیسواں اٹھائیسواں اور انتیسواں دن۔ اور سورج کے تین دن گرہن میں سے قمری مہینہ کے رُو سے اٹھائیسواں دن بیچ کا دن ہے۔ سو ا نہیں تاریخوں میں عین حدیث کے منشاء کے موافق سورج اور چاند کا رمضان میں گرہن ہوا۔ یعنی چاند گرہن رمضان کی تیرھویں رات میں ہوا اور سورج گرہن اسی رمضان کے اٹھائیسویں دن ہوا۔ اور عرب کے محاورہ میں پہلی رات کا چاند قمر کبھی نہیں کہلاتا بلکہ تین دن تک اُس کا نامؔ ہلال ہوتا ہے اور بعض کے نزدیک سات دن تک ہلال کہلاتا ہے۔ ‘‘ (حقیقۃ الوحی۔ رخ جلد 22ص203)
تیسرا یہ اعتراض پیش کیا جاتا ہے کہ یہ حدیث مرفوع متصل نہیں ہے صرف امام محمد باقر رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’اس کا جواب یہ ہے کہ ائمہ اہل بیت کا یہی طریق تھا کہ وہ بوجہ اپنی وجاہت ذاتی کے سلسلہ حدیث کو نام بنام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچانا ضروری نہیں سمجھتے تھے ان کی یہ عادت شائع متعارف ہے چنانچہ شیعہ مذہب میں صدہا اسی قسم کی حدیثیں موجود ہیں اور خودامام دارقطنی نے اس کو احادیث کے سلسلہ میں لکھا ہے ماسوا اس کے یہ حدیث ایک غیبی امر پر مشتمل ہے جو تیرہ سو برس کے بعد ظہور میں آگیا۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جس وقت مہدیؔ موعود ظاہر ہوگا اُس کے زمانہ میں رمضان کے مہینہ میں چاند گرہن تیرھویں رات کو ہوگا اور اسی مہینہ میں سورج گرہن اٹھائیسویں دن ہوگا اور ایسا واقعہ کسی مدعی کے زمانہ میں بجز مہدی معہود کے زمانہ کے پیش نہیں آئیگا اور ظاہر ہے کہ ایسی کھلی کھی غیب کی بات بتلانا بجز نبی کے اور کسی کا کام نہیں ہے اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہےلَا یُظْھِرُ عَلٰی غَیْبِہٖ اَحَدًا اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ ۔(الجن:27-28)یعنی خدا اپنے غیب پر بجز برگزیدہ رسولوں کے کسی کو مطلع نہیں فرماتا پس جبکہ یہ پیشگوئی اپنے معنوں کے رو سے کامل طور پر پوری ہو چکی تو اب یہ کچے بہانے ہیں کہ حدیث ضعیف ہے یا امام محمد باقر کا قول ہے۔ بات یہ ہے کہ یہ لوگ ہر گز نہیں چاہتے کہ کوئی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری ہو یا کوئی قرآن شریف کی پیشگوئی پوری ہو۔ دنیا ختم ہونے تک پہنچ گئی مگر بقول اُن کے اب تک آخری زمانہ کے متعلق کوئی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی۔ اور اس حدیث سے بڑھ کر اور کونسی حدیث صحیح ہوگی جس کے سر پر محدثین کی تنقید کا بھی احسان نہیں بلکہ اُس نے اپنی صحت کو آپ ظاہر کرکے دکھلا دیا کہ وہ صحت کے اعلیٰ درجہ پر ہے۔ خدا کے نشانوں کو قبول نہ کرنا یہ اور بات ہے ورنہ یہ عظیم الشان نشان ہے جو مجھ سے پہلے ہزاروں علماء اور محدثین اس کے وقوع کے اُمید وار تھے اور منبروں پر چڑھ چڑھ کر اور رو رو کر اس کو یاد دلایا کرتے تھے چنانچہ سب سے آخر مولوی محمد لکھوکے والے اسی زمانہ میں اسی گرہن کی نسبت اپنی کتاب احوال الآخرت میں ایک شعر لکھ گئے ہیں جس میں مہدی موعود کا وقت بتایا گیا ہے اور وہ یہ ہے:
تیرھویں چند ستیہویں سورج گرہن ہو سی اُس سالے اندر ماہ رمضانے لِکھیا ہک روایت والے
پھر دوسرے بزرگ جن کا شعر صدہا سال سے مشہور چلا آتا ہے۔ یہ لکھتے ہیں:
درسنِ ۱۳۱۱غاشی ہجری دو قِران خواہدبود از پئے مہدی و دجّال نشان خواہدبود
یعنی چودھویں۱۳۱۱ صدی میں جب چاند اور سُورج کا ایک ہی مہینہ میں گرہن ہوگا تب وہ مہدی معہود اوردجّال کے ظہور کا ایک نشان ہوگا۔ اِس شعر میں ٹھیک سن کسوف و خسوف درج ہوا ہے۔ ‘‘ (حقیقۃ الوحی۔ رخ جلد 22ص204-205)
حضرت بانی جماعت احمدیہ کی دعوت مقابلہ تفسیر نویسی اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کی اصل واقعاتی حقیقت
قارئین کرام!آجکل سوشل میڈیا پر احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیزمنفی مہم میں الزام تراشیوں کا ا…