قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیْ ھَلْ کُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا (بنی اسرائیل:94)
ترجمہ: تو کہہ دے کہ میرا رب(ان باتوں سے )پاک ہے (اور)میں تو ایک بشر رسول کے سوا کچھ نہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’یعنی کفار کہتے ہیں کہ تُو آسمان پر چڑھ کر ہمیں دکھلا تب ہم ایما ن لے آویں گے۔ اِن کو کہہ دے کہ میرا خدا اس سے پا ک تر ہے کہ اس دارالابتلاء میں ایسے کھلے کھلے نشان دکھاوے اور میں بجز اس کے اور کوئی نہیں ہوں کہ ایک آدمی۔ اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ کفار نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آسمان پر چڑھنے کا نشان مانگا تھااور انہیں صاف جواب ملا کہ یہ عادت اللہ نہیں کہ کسی جسم خاکی کوآسمان پر لے جاوے۔ اب اگر جسم خاکی کے ساتھ ابن مریم کا آسمان پرجانا صحیح مان لیاجائے تو یہ جواب مذکورہ بالا سخت اعتراض کے لائق ٹھہرجائے گا اور کلام الٰہی میں تناقض او ر اختلاف لازم آئے گا لہٰذا قطعی اور یقینی یہی امر ہے کہ حضرت مسیح بجسدہ العنصری آسمان پر نہیں گئے۔ بلکہ موت کے بعد آسمان پر گئے ہیں۔ بھلا ہم ان لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ کیا موت کے بعد حضرت یحییٰ اور حضرت آدم اور حضرت ادریس اور حضرت ابراہیم اور حضرت یوسف وغیرہ آسمان پر اٹھائے گئے تھے یا نہیں۔ اگر نہیں اٹھائے گئے تو پھر کیوںکر معراج کی رات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اِن سب کو آسمانوں میں دیکھا اور اگر اٹھائے گئے تھے تو پھر ناحق مسیح ابن مریم کی رفع کے کیوں اَور طور پرمعنے کئے جاتے ہیں ۔ تعجب کہ توفّی کا لفظ جو صریح وفات پر دلالت کرتا ہے جابجا اُنکے حق میں موجود ہے اور اٹھائے جانے کا نمونہ بھی بدیہی طور پر کھلا ہے کیونکہ وہ انہیں فوت شدہ لوگوں میں جاملے جو اُن سے پہلے اٹھائے گئے تھے۔ اور اگر کہو کہ وہ لوگ اٹھائے نہیں گئے تو میں کہتا ہوں کہ وہ پھر آسمان میں کیوں کر پہنچ گئے آخر اٹھائے گئے تبھی توآسمان میں پہنچے۔ کیا تم قرآ ن شریف میں یہ آیت نہیں پڑھتے وَرَفَعْنَاہُ مَکَانًا عَلِیًّا(مریم :58) ۔ کیا یہ وہی رفع نہیں ہے جو مسیح کے بارہ میں آیا ہے ؟ کیا اس کے اٹھائے جانے کے معنے نہیں ہیں فَاَنّٰی تُصْرَفُوْنَ۔‘‘ (ازالہ اوہام۔ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 437تا438)
استدلال از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے صاف فرما یا ہے کہ ایک بشر کا زندہ آسمان پر جانا خدا کی سنت اور وعد ہ کے خلاف ہے اور خدا اس بات سے پاک ہے کہ خود اپنے فیصلوں کو توڑے۔ غور کا مقام ہے کہ کفار ِعرب نبی کریم ﷺ جیسے عظیم الشان انسان سے آسمان پر جانے کا معجزہ طلب کرتے ہیں اور اس قسم کا معجزہ دیکھنے پر ایمان لانے کا وعدہ کرتے ہیں ۔ لیکن نبی کریم ﷺ صاف جواب دیتے ہیں کہ مَیں تو صرف ایک بشر ہوں اور کوئی بشر آسمان پر زندہ نہیں جا سکتا۔اس آیت کے ہوتے ہوئے اگر ایک عیسائی اس بات کے کہنے کی جرأت کرے تو کرے کہ مسیح ؑ آسمان پر چلا گیا۔ مگر ایک مسلمان کہلانے والاانسان جو مسیحؑ کو ایک انسان اور نبی کریم ﷺ سے درجہ میں بہت چھوٹا انسان یقین کرتا ہے وہ ایک لمحہ کے لئے بھی اس بات کو قبول نہیں کر سکتا کہ حضرت مسیح ناصری ؑ اپنے جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر جا بیٹھے ہیں۔