کیا امّت کا حیات مسیح پر اجتماع ہے؟
حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی روایت
الطبقات الکبریٰ لابن سعد کی تیسری جلد میں حضرت علیؓ کی وفات کے حالات میں حضرت امام حسن ؓسے روایت کی گئی ہے کہ آپؓ نے فرمایا:
”اے لوگو! آج وہ شخص فوت ہوا ہے کہ اسکی بعض باتوں کو نہ پہلے پہنچے ہیں اور نہ بعد کو آنیوالے پہنچیں گے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے جنگ کے لئے بھیجتے تھے تو جبرائیل اسکے داہنے طرف ہو جاتے تھے اور میکائیل بائیں طرف۔پس وہ بلا فتح حاصل کئے واپس نہیں ہوتا تھا اور اس نے سات سودرھم اپنا ترکہ چھوڑا ہے جس سے اس کا ارادہ یہ تھا کہ ایک غلام خرید ے اور وہ اس رات کو فوت ہوا ہے جس رات کو عیسیٰ بن مریم کی روح آسمان کی طرف اٹھائی گئی تھی یعنی رمضان کی ستائیسویں تاریخ کو۔‘‘ [اصل حوالہ]
حضرت ابن عباس کا عقیدہ وفات مسیح
حضرت ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ آیت اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ۔۔۔ کا ترجمہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ مُمِیْتُکَ ۔یعنی مُتَوَفِّیْکَ کا مطلب ہے میں تجھے موت دینے والا ہوں۔ (بخاری کتاب التفسیر سورۃ المائدہ باب مَاجَعَلَ اللہُ مِنْ بَحِیْرَۃ۔۔۔)
مشہور و معروف بزرگ مالکی مسلک کے پیشوا حضرت امام مالک ؒ (90ھ تا179ھ)کے متعلق لکھا ہے: ’’وَالْاَکْثرُ اَنَّ عِیْسٰی لَمْ یَمُتْ وَقَالَ مَالِکٌ مَاتَ‘‘ (مجمع بحار الانوارجلد اول صفحہ 286 از علامہ شیخ محمد طاہر زیر مادہ حکم مطبع لمنشی نول کشور)
یعنی اکثر لوگ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نہیں مرے لیکن حضرت امام مالکؒ کا قول ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پا چکے ہیں۔
علامہ سید محمد رشید رضامفتی مصر کا مؤقف
علامہ سید محمد رشید رضامفتی مصر (1865ء تا 1935 ء ) مدیر رسالہ المنار مصری ، انہوں نے اپنے استاد مفتی مصر محمد عبدہ سے علم حاصل کیا اور ”الارشاد والالدعوۃ‘‘ کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے ۔ حکومت مصر نے ان کی قابلیت کی وجہ سے ان کو مفتی مصر مقرر کر دیا۔یہ اپنی تفسیر ”تفسیر القرآن الحکیم‘‘ میں زیر آیت اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وفاتِ مسیح کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
ترجمہ: اس آیت سے ظاہر ہے کہ اے عیسیٰ میں تجھے طبعی موت دینے والا ہوں اور طبعی موت کے بعد اپنی جناب میں ایک عزت و رفعت والی جگہ میں رکھنے ولا ہوں۔ جیسا کہ حضرت ادریس علیہ السلام کے بارے میں فرمایا کہ ہم نے اسے عزت والے مقام پر جگہ دی۔ (تفسیر القرآن الحکیم الشہیربتفسیر المنار از علامہ محمد رشید رضا زیر آیت انی متوفیک المجلد الثالث صفحہ316)
علامہ محمود شلتوت صاحب مفتی مصر کا مؤقف
علامہ محمود شلتوت صاحب مفتی مصر نے نہایت وضاحت و صراحت اور شد و مد سے وفات عیسیٰ ٰ کا فتویٰ دیا ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں:۔
ترجمہ: اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے کہ اللہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو وفات دی، عزت دی اور کافروں کے الزامات سے پاک کیا۔ علامہ الوسی نے اپنی تفسیر میں اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ کے کئی معنی کیے ہیں ان میں سے سب سے مضبوط معنی یہ ہیں کہ میں تیری عمر پوری کرکے تجھے طبعی طورسے وفات دوں گا۔ اور میں تجھ پر ایسے لوگوں کو مسلط نہیں کروں گا جو تجھے قتل کر دیں۔ پھر رفع کے معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ رفع جو توفی کے بعد ہو سکتا ہے وہ رفع مرتبہ ہی ہے نہ کہ رفع جسمانی۔ پھر رفع سماوی کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ میں آسمان کا کوئی لفظ موجود نہیں۔ پھر جسمانی رفع کے قائلین کی طرف سے آسمان کا لفظ کہاں سے لیا جاتا ہے۔ یقینا یہ قرآن کے ایک واضح مفہوم کے ساتھ زیادتی ہے ۔ محض ایسے قصے اور ظنی روایات قبول کرتے ہوئے جن پر کوئی دلیل تو کیا دلیل کا کوئی ادنیٰ سا شائبہ بھی نہیں۔
سر سید احمد خان صاحب کا مؤقف
مسلمانانِ برصغیر کے عظیم راہنماسرسید احمد خان صاحب (1817ء تا1898ء)بانی ٔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ تحریر فرماتے ہیں:
”قرآن مجید میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے متعلق چار جگہ ذکر آیا ہے۔۔۔ مگر چونکہ علماء اسلام نے بہ تقلید بعض فرق نصاریٰ کے قبل اس کے کہ مطلب قرآن مجید پر غور کریں یہ تسلیم کر لیا تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ آسمان پر چلے گئے ہیں اس لیے انہوں نے ان آیتوں کے بعض الفاظ کو اپنی غیر محقق تسلیم کے مطابق کرنے کی بے جا کوشش کی ہے۔‘‘ (تفسیر القرآن مع تحریر فی اصول التفسیر از سر سید احمد خان صاحب تفسیر سورۃ آل عمران حصہ دوم صفحہ41،43)
الشیخ الاکبر علامہ محی الدین ابن عربیؒ کا مؤقف
الشیخ الاکبر علامہ محی الدین ابن عربیؒ (560۔638ھ)فرماتے ہیں:
”حضرت مسیح ؑ کا رفع دراصل ان کے روح کے عالم سفلی سے جدا ہو کر عالم علوی میں قرار پکڑنے کا نام ہے‘‘۔ (تفسیر القرآن از علامہ ابن عربیؒ جلد اوّل صفحہ296 بیروت)
مولانا ابو الکلام آزاد کا مؤقف
مولانا ابوالکلام آزاد (1305 تا 1377ھ)بیان کرتے ہیں:
”وفات مسیح ؑ کا ذکر خود قرآن میں ہے‘‘۔ (ملفوظات آزاد مرتبہ مولانا محمداجمل صفحہ130)
مولانا عبید اللہ سندھی ؒ کا مؤقف
مولانا عبید اللہ سندھی ؒ نے اپنی تفسیر الہام الرحمان فی تفسیر القرآن میں لکھا ہے کہ “یہ جو حیاتِ عیسیٰ لوگوں میں مشہور ہے یہ یہودی کہانی ہے ۔نیز صابی من گھڑت کہانی ہے۔” (الہام الرحمان، ص ۲۴۰)
جواب از حضرت مسیح موعود علیہ السلام
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ پس واضح ہو کہ یہ بالکل افتراء ہے کہ تیرہ سو برس سے بالاجماع یہی مانا گیاہے کہ مسیح جسم کے ساتھ زندہ آسمان پر اٹھایاگیاہے۔ ظاہر ہے کہ اگر سلف اور خلف کا کسی ایک بات پر اجماع ہوتا تو تفسیروں کے لکھنے والے متفرق قولوں کو نہ لکھتے لیکن کونسی ایسی تفسیر ہے جو اس بارہ میں اقوال متفرقہ سے خالی ہے۔کبھی کہتے ہیں کہ مسیح نیند کی حالت میں اُٹھایا گیا اورکبھی کہتے ہیں کہ وہ مر گیا اور اس کی روح اٹھائی گئی اور کبھی قرآن شریف کی غلطی نکالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آیت اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ میں دراصل مُتَوَفِّیْکَ بعد میں ہونا چاہیئے اور رَافِعُکَ اِلَیَّ اس سے پہلے۔اب ظاہر ہے کہ اگر اُن کا اجماع ایک خاص شق پر ہوتا تو اپنی تفسیروں میں مختلف اقوال کیوں جمع کرتے۔اورجب ایک خاص بات پر یقین ہی نہیں تو پھر اجماع کہاں۔اوریہ اعتراض کہ تیرہ سو برس کے بعد یہ بات تمہیں کو معلوم ہوئی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ درحقیقت یہ قول نیا تونہیں پہلے راوی اس کے تو ابن عباس ہی تھے لیکن اب خدائے تعالیٰ نے اس عاجز پراس قول کی حقیقت ظاہرکر دی اور دوسرے اقوال کا بطلان ثابت کردیا تا قولی طور پر اپنے ایک عاجز بندہ کی اس طرح پر ایک کرامت دکھاوے اور تا عقلمند لوگ سمجھ جاویں کہ یہ رہبری خاص خدائے تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ کیونکہ اگر یہ معمولی فہم اور عقل کاکام ہوتا تو دوسرے لوگ بھی اس صداقت کو مع اِس کے اُن سب دلائل کے جو اِن رسالوںمیں درج ہوچکے ہیں بیان کرسکتے۔‘‘ (ازالہ اوہام حصہ دوم۔ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 345)
یہود، نصاریٰ اور مسلمانوں کا نظریہ بابت وفات مسیح
یہود کا نظریہ یہود کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ نعوذ باللہ جھوٹے تھے اس لیے انہوں نے اسے صلیب …